حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:احمد بن محمد۔کنیت:ابو جعفر۔القاب:الامام،الحافظ،المجتہد۔آپ کا پورانام ونسب اسطرح ہے:الامام الحافظ ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن عبدالملک بن سلمہ بن سلیم بن جناب الازدی المصری الطحاو ی الحنفی۔آپ کا نسبی تعلق یمن کے مشہور قبیلہ ازد کی شاخ حجر سے تھا اسلامی فتوحات کے بعد آپ کا خاندان مصر منتقل ہوکر سکونت گزیں ہوگیا اور یہیں "طحا"نامی ایک گاؤں میں آپ کی ولادت ہوئی ۔جس کی نسبت سے آپ" طحاوی "کہلاتے ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت علامہ ابن خلکان کے مطابق 239ھ میں ہوئی۔
تحصیل علم: امام طحاوی نے جس وقت آنکھ کھولی پوری فضا علوم و فنون کی عطر بیزیوں سے معطر تھی آپ نے اپنے ماموں ابو ابراہیم مزنی تلمیذ امام شافعی سے علوم اسلامی کی تحصیل کی اور مسلکاً شافعی رہے۔مصر کے بعد امام طحاوی شام چلے گئے جہاں قاضی القضاۃ ابو حازم سے فقہ کی تحصیل کی مصر کے علاوہ آپ کے کثیر اساتذہ خراسان، یمن، کوفہ، بصرہ، حجاز شام کے تھے شام سے واپسی کے بعد آپ کے ذوق و جستجوئے علم کا یہ حال تھا کہ مصر کے اندر جب بھی کوئی فقیہ یا محدث وارد ہوتا تو اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اکتساب علم کرتے۔ اسی لیے آپ کے شیوخ و اساتذہ کی فہرست کافی طویل ہے چند کے اسماء یہ ہیں۔ہارون بن سعید عیلی، عبدالغنی بن رفاعہ، یونس بن عبدالاعلیٰ، عیسیٰ بن مشرور، محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، بحر بن نصر، ابوبکر بن قتیبہ سلیمان بن شعیب ابراہیم مزنی، احمد بن ابی عمران (علیہم الرحمہ)
تبدیلیِ مسلک: شافعی مسلک ترک کرنے کی وجہ علامہ عبدالعزیز پر ہاروی علیہ الرحمہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ‘‘ان الطحاوی کان شافعی المذہب فقرأفی کتابہ ان الحاملۃ اذا ماتت ولدا فی بطنھا ولد حتی لم فی بطنھا خلافا لابی حنیفۃ وکان الطحاوی ولدا مشقوقا فقال لا ارضی بمذھب رجل یرضی بھلا کی فترک مذہب الشافعی وصارمن عظماء الجتھدین علی مذھب ابی حنفیۃ’’۔ امام طحاوی ابتداءً شافعی المذھب تھے ایک دن انہوں نے شافعی کی کتاب میں پڑھا کہ جب حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہوتو بچہ نکالنے کے لیے اس کے پیٹ کو چیرا نہیں جائے گا۔ برخلاف مذہب امام اعظم ابو حنیفہ۔ اور امام طحاوی کو مذہب حنفی پر پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا۔ امام طحاوی نے اس کو پڑھ کر کہا میں اس شخص کے مذہب سے راضی نہیں جو میری ہلاکت پر راضی ہوپھر انہوں نے شافعیت کو چھوڑ دیا اور حنفی مسلک کو اختیار کیا اور اس مسلک کے عظیم مجتہدبن گئے۔ (نبراس، ص۱۱۰)
امام طحاوی کی ذات حدیث و فقہ کی جامع تھی آپ کے تبحر علمی کا شہرہ بلاد اسلامیہ کے دور درواز گوشوں تک پھیلا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کی بارگاہ میں اسلامی ممالک کے تشنگان علم کھنچ کھنچ کر چلے آرہے تھے آپ نے اپنے تلامذہ کی بہت بڑی جماعت چھوڑی ہے۔
علم و فضل: امام طحاوی نے علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں وہ مرتبہ بلند حاصل کرلیا تھا کہ عوام و خواص۔ علماء و عمال سبھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ اور کی جلالت علم کے سامنے جبین عقیدت خم کرتے تھے علاوہ ازیں آپ کے علم و فضل کا اعتراف اسلامی دنیا کی مشہور و معروف علمی ہستیوں نے ہر دور میں کیا ہے علامہ عینی فرماتے ہیں۔ ‘‘جن محدثین اور مورخین نے ان کا تذکرہ کیا ہے وہ سب ان کی مدح و توصیف میں متفق ہیں’’۔
حافظ ذہبی: الامام العلامۃ الحافظ صاحب التصانیف البدیعۃ۔ امام طحاوی بہت بڑے عالم بلند پایہ حافظ حدیث اور اور بہت سی عجیب و غریب کتابوں کے مصنف ہیں (تذکرۃ الحفاظ، ج۳، ص۲۸)
ابن یونس: ‘‘کان ثقۃ ثبتا فقیھا عاقلا لم یخلف مثلہ، ثقہ، ثبت، فقیہ اور عقلمند تھے انہوں نے اپنے پیچھے اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں چھوڑا۔ (ایضاً)
ابو اسحاق شیرازی: انتھت الی ابی جعفر ریاسۃ اصحاب ابی حنیفہ بمصر، مصر میں امام ابو حنیفہ کے پیرؤں کی سرداری ابو جعفر پر ختم ہے۔ (ایضاً)
علامہ سیوطی: وہ حدیث و فقہ میں امام، علوم دینیہ کے ماویٰ اور احادیث نبوی کےملجا تھے۔
حافظ عبدالبر: وہ کوفیوں کی روایت اور مسائل فقہ کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے تھے اور تمام مذاہب فقہاء کے عالم تھے۔ (لسان المیزان، ج۱، ص۲۷۵)
شاہ عبدالعزیز: نہایت پر ہیزگار۔ فقیہ اور دانشمند تھے۔ مصر میں ریاست حنفیہ کا سہرا انہیں کے سر تھا۔
امام طحاوی کی علمی عظمت کا سکہ پورے مصر پر چلتا تھا ان کی شہرت زندگی ہی میں اسلامی دنیا کے ہر ہر گوشے میں پہونچ چکی گھی۔ صرف طبقۂ علماء اور عوام ہی میں ان کی مقبولیت نہ تھی بلکہ اعیان سلطنت اور اصحاب جاہ و منصب آپ کی تعظیم و توقیر میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھتے۔ اپنے طرز عمل اور اعزاز و احترام کے رویہ سے آپ کی علمی شوکت اقتدار کا اعتراف کرتے۔
شرح معانی الآثار: علامہ طحاوی کی جملہ تصنیفات میں شہرت و قبول عام شرح معانی الآثار کو حاصل ہوا وہ دوسری تصانیف کے حصہ میں نہ آسکا بلاریب یہ کتاب فن حدیث میں ایک عظیم تصنیف اور حزب احناب کا سرمایۂ افتخار ہے اس کتاب میں حدیث، فقہ اور رجال کے متعدد علوم کو جس حسن اور عمدگی کے ساتھ جمع کردیا گیا ہے صرف مسلک حنفی ہی میں نہیں بلکہ دیگر مکاتبِ فکر میں بھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ علامہ امیر اتقانی فرماتے ہیں: ‘‘فانظر شرح معانی الآثار ھل تری لہ نظیرا فی سائر المذاہب فضلا عن مذھبنا ھذا’’ شرح معانی الآثار پر غور کرو کیا تم ہمارے مذہب حنفی کے علاوہ دوسری مذہب میں بھی اس کی نظیر پاسکتے ہو؟
وصال: آپ کا وصال82سال کی عمرمیں یکم ذیقعدہ 321ھ کو ہوا۔آپ کامزار بمقام"قرافہ" مصر میں حضرت امام شافعی کے مزارکےساتھ ہے۔
ماخذ ومراجع: محدثین عظام حیات خدمات۔تذکرۃ المحدثین۔
//php } ?>