حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی
حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
احمد بن محمد بن سلامہ بن عبد الملک الازدی الطحاوی: اپنے زمانہ کی فقہ و حدیث میں جلیل لقدر عظیم الشان امام ثقہ سعتمد تھے،مصر میں امام ابو حنیفہ کے مذہب کی ریاست آپ پر منتہیٰ ہوئی حافظ سیوطی نے حسن المحاضرہ میں لکھا ہے کہ آپ ثقہ ثبت فقیہ تھے،یہاں تک کہ آپ جیسا آپ کے بعد جیسا آپ کے بعد کوئی نہیں ہوا۔انساب میں سمعانی شافعی نے لکھا ہے کہ آ پ ایسےامام ثقہ اور فقیہ عقیل تھے کہ آپ جیسا کوئی پیچھے آپ کے نہیں ہوا۔ابن عبد البرسے منقول ہے کہ آپ کوفی المذہب اور جمیع مذاہب علماء کے عالم تھے۔بستان المحدثین میں لکھا ہے کہ آپ کی کتاب مختصر اس بات پر دال ہے کہ آپ مجتہد منسب تھے اور مقلد حنفی نہ تھے۔
امیر کاتب اتقانی نے غایۃ البیان شرح ہدایہ کی کتاب الصوم میں لکھا ہے کہ آپ موتمن ہیں نہ متہم باوجود کثرت علم و اجتہاد وورع اور معرفت مذاہب وغیرہ میں مقدم ہونے کے اگر آپ کی نسبت کسی کو شک ہو تو آپ کی شرح معانی الآثار دیکھ کر اپنی تسلی کرلے،کیا ہمارے مذہب کے سوا کسی دوسرے مذہب میں آپ کی نظیر مل سکتی ہے؟نافعؔ الکبیرمیں لکھا ہے کہ اگر آپ کو شروع چوتھی صدی کا مجدد امت محمدیہ اور مصداق حدیث ان اللہ یبعث لھازہ الامہ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجد لھا دینھا قرار دیا جائے تو ملجا ظ آپ کی شہرت اور رفعت ذکر اور تصانیف مفیدہ کے کچھ بعید نہیں۔
آپ یکشنبہ کی رات ماہ ربیع الاول ۲۲۹ھ[1]بقول بعض ۲۳۰ھ میں پیدا ہوئے۔ابو جعفر کنیت تھی۔ابتداء میں شافعی المذہب تھے اور اپنے ماموں مزنی شافعی سے پڑھا کرتے تھے لیکن چونکہ آپ اکثر کتب مذہب حنفیہ کے دیکھنے کا شوق تھا اس لیے آپ ماموں نے ایک دن آپ سےخفاء ہو کر ابو جعفر احمد بن عمران ھنفی کے پاس چلے گئے اور ان سے پڑھنا شروع کیا،پھر ۲۶۸ھ میں شام میں جاکر قاضی القضاۃ ابا حازم عبد الحمید تلمیذعیسٰی بن ابان سے استفادہ کیا اور حدیث کو ہارون بن سعید ایلی و یونس بن عبد الاعلیٰ و محمد بن عبد الحکم و بجیر بن نصروغیرہ ایک جم غفیر تلامیذ ابن وہب اور نیز اپنے والد محمد بن سلام وغیرہ مصروں سے سُنا اور روایت کیا اور آپ سے احمد بن قاسم خشاب و ابو بکر مقری و طبرانی اور محمد بن بکر بن مطروح وغیرہ محدثین نے روایت کی،اور ابو بکر محمد بن منصور دامغانی وغیرہ نے تفقہ۔
فتاویٰ برہنہ میں آپ کے انتقال مذہب کا سبب یہ لکھا ہے کہ آپ ایک دن اپنے ماموں سے پڑھ رہے تھے کہ آپ کے سبق میں یہ مسئلہ آیا کہ اگر کوئی حاملہ عورت مر جائے اور اس کےپیٹ میں بچہ زندہ ہو تو برخلاف مذہب امام ابو حنیفہ کے امام شافعی کے نزید عورت میں اس شخص کی ہر گز پیروی نہیں کرتاجو مجھ جیسے آدمی کی ہلاکت کچھ پروانہ کرے کیونکہ آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے کہ آ کی والدہ مادجدہ فوت ہوگئی تھیں اور آپ پیٹ چیر کر نکالے گئے تے۔یہ حال دیکھ کر آپ کے ماموں نے آپ سے کہا کہ خدا کی قسم تو ہرگز فقیہ نہیں ہوگا۔پس جب آپ خدا کے فضل سے فقہ و حدیث میں امام بے عدیل اور فاضل بے مثیل ہوئے تو اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے ماموں پر خدا کی رحمت نازل ہواگر وہ زندہ ہوتے تو اپنے مذہب شافعی کے بموجب ضرور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتے۔
ابو لیلی خلیلی نے اپنی کتاب ارشاد میں لکھا ہے کہ محمد بن احمد شروطی نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے کس لئے اپنے ماموں کا مذہب شافعی چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کیا۔آپ نے فرمایا کہ میں اکثر دیکھا کرتا تھا وہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کی کتابوں کا مطالعہ کرتے اور فائدہ اٹھاتے تھے۔وفات آپ کی غزوۂ ذیعقد۳۲۱ھ میں ہوئی۔آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں:۔
معانی الآثار،مشکل الآثار،احکام القرآن،مختصر فقہ،(اس پر بہت سے علماء نے شرحیں لکھی ہیں)شرح جامع کبیر،شرح جامع صغیر،کتاب شروالاوسط ،کتاب السجلات،کتاب الوصایا،کتاب الفرائض،تاریخ کبیر،کتاب مناقب امام ابی حنیفہ، کتاب نوادر الفقیہ،کتاب نوادر الحکایات(کچھ اوپر بیس جزو) کتاب اختلاف الروایات علیٰ مذہب الکوفیین۔کتاب مختصر صغیر،کتاب مختصر کبیر،کتاب الرد علیٰ ابی عبید فی ما اخطائی اختلاف النسب،کتاب الرو علیٰ عیسٰی بن ابان۔کتاب حکم راضی مکہ، کتاب قسم الفیئی والغنام وغیر ذٰلک،
طحاوی طحا کی طرف منسوب ہے جو ملک مصر میں ایک قصبہ ہے اور ازد قبائل یمن میں سے ایک قبیلہ کا نام ’’نوردنیا‘‘ اور ’’فقیہ بے عدیل‘‘ آپ ایک قصبہ ہے اور از د قبائل یمن میں سے ایک قبیلہ کا نام ہے’’نور دنیا‘‘ اور ’’فقیہ بے عدیل‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہیں۔
1۔ بقول ابن جوزی ۲۳۷ھ اور بقول ابن الاثیر ۲۳۹ھ میں پیدا ہوئے۔(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)