حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
نام ونسب:اسم گرامی:حضرت عباس بن عبدالمطلب۔کنیت:ابوالفضل۔لقب:خاتم المہاجرین،عم رسول اللہ ﷺ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ۔الی آخرہ۔(الاصابہ )
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 566ءمیں واقعہ فیل سےتین سال قبل مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔حضرت عباس پانچ سال کی عمرمیں اتفاقیہ طورپرکہیں گم ہوگئے۔ان کی والدہ محترمہ کو بڑی فکر ہوئی،انہوں نے اسی وقت نذرمانی کہ اگر عباس مجھ کو مل گئے تو میں بیت اللہ پر حریر و دیباج کا، جو نہایت بیش قیمت کپڑا ہوتا ہے، غلاف چڑھاؤں گی۔نذر ماننے کے بعد ہی حضرت عباس مل گئے، ان کی والدہ نے نذر پوری کی۔حضرت عباس کی والدہ ہی وہ اول عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیش بہا کپڑے کا غلاف بیت اللہ کو پہنایا۔
تحصیلِ علم: زمانۂ جاہلیت میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان افرادمیں سےتھےجولکھناپڑھناجانتےتھے۔چنانچہ حضرت عباس جب سن تمیز کو پہنچے تو علم الانسا ب،علم التاریخ،علم الادیان میں مہارت حاصل کی،چوں کہ عرب میں یہ علوم عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،خصوصاً علم الانساب، کیوں کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام ہی کے زمانے سے برابر یہ خبر چلی آرہی تھی کہ عرب میں نسل اسماعیل ہی سے نبی آخرالزامان پیدا ہوں گے، اس وجہ سے علم الانساب کا بہت خیال رکھاجاتاتھا۔رسول اللہ کی بعثت کےبعدتورسول اللہ ﷺکاہرصحابی وحی کاامین اورعلومِ مصطفیٰ ﷺکاوارث بنا۔
سیرت وخصائص: کچھ شخصیات زمانہ جاہلیت واسلام دونوں میں عزت کی نگاہ سےدیکھی جاتیں تھیں،اوران کی رائےکوتسلیم کیاجاتاتھا،ان میں سےایک ذات حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بھی ہے۔آپ قبل از قبول اسلام اوربعدازقبول اسلام ہمیشہ عزت وتکریم کی نگاہ سےدیکھےگئے۔اس گھرانےکےطبع سلیم رکھنےوالےبزرگ قبل ازاعلان نبوت ملت خلیل پرعمل پیراتھے،جیسےحضرت عبدالمطلب،چنانچہ ان کی پرہیزگاری عرب میں مشہورتھی۔اس لئے بیت اللہ اوردیگراہم قومی امورکی نگرانی انہیں کےذمہ تھی۔حضرت عبدالمطلب کےبعد قریش نے حضرت عباس میں علم،شجاعت،سخاوت،سیادت،خاندانی نجابت،صلہ رحمی دیکھ کر انہیں کو بیت اللہ کا محافظ منتخب کیا۔(الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب) چناں چہ حضرت عباس ہمیشہ بیت اللہ کی حفاظت میں اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور آپ نے اس قدر اچھا انتظام کیا کہ کسی کومجال نہ تھی کہ کوئی شخص بیت اللہ میں بیٹھ کر کسی کی ہجویا غیبت کر سکے،اگر کوئی ایسا کرتا تو حضرت عباس فوراً اس کو تنبیہ فرمادیا کرتے تھے اور ان کے حکم کے آگے سب کی گردنیں خم ہو جاتی تھیں۔ (کامل ابن اثیر،ج:1،ص:9)
تعمیر کعبہ: حضرت عباس کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں اتفاقیہ طور پر آگ لگ گئی،جس کی وجہ سے عمارت مسمار ہوگئی، قریش نے جمع ہوئےاور اس کو بنانا شروع کیا تو ہر شخص کار ثواب سمجھ کراس کی تعمیر میں حصہ لینے لگا،حضرت عباس نےسب سے زیادہ اس میں حصہ لیا۔
حضرت عباس کا نکاح:حضرت عباس کا نکاح حضرت لبابۃ الکبریٰ سے ہوا، جو ام المومنین حضرت میمونہ کی حقیقی بہن تھیں ،ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبابۃ الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل ہے ،یہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ان سے مروی ہیں ۔یہ رسول اللہ کی چچی محترمہ تھیں اورآپ ﷺکابہت خیال رکھتیں تھیں۔
قبولِ اسلام:جب آپ ﷺنےاعلان نبوت فرمایاتو اس وقت حضرت عباس کی عمر تینتالیس سال تھی۔آپ نےغزوۂ بدرکےبعدہی اسلام ظاہرکیا،اس کی وجہ یہ ہےکہ آپ کا ایک عرصہ تک مکہ میں مقیم رہنا اورعلانیہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہونا درحقیقت ایک مصلحت پر مبنی تھا،وہ کفارمکہ کی نقل وحرکت اوران کے رازہائے سربستہ کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے، نیز اس سرزمین کفر میں جو ضعفائے اسلام رہ گئے تھے ان کے لیے تنہا ماویٰ وملجا تھے،یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس نے جب کبھی رسالت پناہ ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ نے منع کردیااورفرمایا :کہ "آپ کا مکہ میں مقیم رہنا بہتر ہے،خدانے جس طرح مجھ پر نبوت ختم کی ہے ،اسی طرح آپ پر ہجرت ختم کرے گا۔یہی وجہ ہےکہ جنگ بدر میں لڑائی سے پہلے حضوراکرمﷺ نے فرمادیا تھا: کہ تم لوگ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل مت کرنا کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں،اورکفار مکہ ان پر دباؤ ڈال کر انہیں جنگ میں لائے ہیں ۔ (سیرتِ مصطفیٰﷺ:151)
فضائل ومناقب: آپ کےبہت فضائل ہیں۔سب سےبڑی فضیلت رسول اللہﷺ کی قرابت ہے۔رسول اللہﷺ کےعم محترم ہیں۔حضورﷺانہیں والدکہ کر بُلاتےتھے۔جب پوری قوم نےآپ ﷺکاساتھ چھوڑدیا،اوردشمنی پہ اترآئے،اورمعاشی،معاشرتی ہرقسم کابائیکاٹ کردیا،اورخاندان بنی ہاشم نے"شعب ابی اطالب"میں تین سال انتہائی کسمپرسی میں بسرکیےیہاں تک کہ نوبت درختوں کےپتےکھانے،اورسوکھاچمڑاچبانے،اورپیٹ پرپتھرباندھنےتک جاپہنچی ۔ان مشکل حالات میں حضرت عباس اورحضرت عبدالمطلب نےرسول اللہ ﷺکاساتھ نہ چھوڑا۔
ہجرت ِحضرت عباس رضی اللہ عنہ: حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے حضور اقدسﷺ کی بارگاہ میں(مکہ معظمہ سے) خط تحریرکیا کہ مجھے اذن عطا ہو تو ہجرت کر کے (مدینہ طیبہ) حاضر ہوجاؤں۔ اس کے جواب میں حضور پر نورﷺ نے یہ فرمایا:یا عم اقم مکانک الذی انت فیہ، فان اﷲ یختم بک الھجرۃ کما ختم بی النبوۃ۔ اے چچا!اطمینان سے رہو کہ تم ہجرت میں خاتم المہاجرین ہونے والے ہو، جس طرح میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں ﷺ ۔( تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ذکر من اسمہ عباس، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 7/235)
جب رسول اللہ ﷺ نےکفارمکہ کےظلم وستم کی وجہ سےابتداءً مدینۃ المنورہ کی طرف ہجرت کاارادہ کیاتوآپﷺ نےحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمشورہ فرمایا کہ میراارادہ یہاں سےہجرت کاہےآپ کی کیارائےہے،اس وقت مدینۃ المنورہ کےبارہ افراداسلام قبول کرچکےتھے۔توحضرت عباس نےاس وقت منع کردیا،اورعرض کی اتنی قلیل لوگوں کےساتھ آپ تشریف نہ لےجائیں،بلکہ آپ اپنانائب بھیج کروہاں تبلیغ کریں۔آپ ﷺکو یہ رائےبہت پسندآئی،اورحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کومدینۃ المنورہ تبلیغ کی غرض سےبھیج دیا۔اوران کی کوششوں سےحضرت سعد بن معاذمشرف بااسلام ہوگئے،اوران کی تبلیغ پران کاپوراقبیلہ مسلمان ہوگیا۔دوسرےسال اسی(80) مسلمان حج کےلئےمکۃ المکرمہ آئے۔تواس وقت ان سےبات چیت اوررسول اللہ ﷺکی ہرحال میں حفاظت واطاعت کاعہدکرنےوالےحضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔
ان لوگوں نے پورا عہد کیا اور کہا:اے عباس!ہم نے خدا کے لیے یہ عہدکیاہے،کہ ہم ان پر اپنی جانیں قربان کردیں گےاوران کاساتھ نہ چھوڑیں گے،جب تک جسم میں جان باقی ہےہم ان تک کسی دشمن کو نہیں پہنچنےدیں گے،ہم اپنی جان ،اولادسب کچھ ان پرقربان کردیں گے۔لیکن! ایک عرض ہماری بھی ہے کہ، اگر آں حضرت ﷺ اپنے دشمنوں پر غالب آجائیں اور کسی کا خوف و اندیشہ نہ رہے تو ایسا نہ ہوکہ آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ چلے آئیں۔آپ ﷺنے یہ سن کرارشاد فرمایا: کہ ایسانہ ہوگا، میری قبر تمہاری قبروں میں ہوگی اور میرا گھر تمہارے گھروں میں ہوگا ۔جن کے ساتھ تم لڑوگے میں بھی لڑوں گا،جن سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا۔یہ فرما کر آپ ﷺکھڑے ہوئے اور تقریر کی۔ چند ایام گزرنے کے بعد آپ ﷺباذن خداوندی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہم راہ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرماگئے۔سبحان اللہ! انصارنےکیساساتھ نبھایا،اورمصطفیٰ کریم ﷺنےکیساکرم فرمایا۔
منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد نبوی سے متصل تھا اوربارش میں اس مکان کاپرنالے کاپانی گلی میں گرتاتھا،جس کی وجہ سےگلی میں پانی بھرجاتاتھا،امیرالمؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ دیا ۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم!اس پرنالہ کو رسول اﷲﷺنے میری گردن پر سوار ہو کر اپنے مقدس ہاتھوں سے لگایا تھا۔ یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عباس! مجھے اسکا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہو کر اس پر نالہ کو پھر اسی جگہ لگا دیجئے ،جہاں رسول اللہ ﷺنےلگایاتھاچنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(وفاء الوفا جلد1 ص348)۔(یہ صحابی تھے،وہابی نہیں تھے،وہ رسول اللہ کی نسبت والی چیزوں کاخیال اوران کوبحال رکھتےتھے،اوریہ گرانےاور مٹانےپہ تلےہوئےہیں)
آپ کےتوسل سےبارش کانزول: امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب شدید قحط پڑگیا اور خشک سالی کی مصیبت سے دنیا ئے عرب بدحالی میں مبتلا ہوگئی تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز استسقاء کے لیے مدینہ منورہ سے باہر میدان میں تشریف لے گئے اور اس موقع پر ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجتماع ہوا ۔ اس بھرے مجمع میں دعا کے وقت حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو تھام کرانہیں اٹھایا اور انکو اپنے آگے کھڑا کر کے اس طرح دعا مانگی:''یا اللہ ! پہلے جب ہم لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تھے تو تیرے نبی کو وسیلہ بناکر بارش کی دعائیں مانگتے تھے اورتو ہم کو بارش عطافرماتا تھا مگر آج ہم تیرے نبیﷺکے چچا کو وسیلہ بناکر دعا مانگتے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطافرمادے''۔(صحیح البخاری:3710)
پھر جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بارش کے ليے دعامانگی تو ناگہاں اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اورلوگ جو ش مسرت اورجذبہ عقیدت سے آپ کی چادر مبارک کو چومنے لگے اورکچھ لوگ آپ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے۔
وفات:آپ کاوصال 12/رجب المرجب 32ھ،مطابق 18فروری 653ء،بروزجمعۃ المبارک88سال کی عمرمیں ہوا۔جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نےقبرمیں اتارا۔
ماخذومراجع: صحیح البخاری۔وفاء الوفاء۔سیرت مصطفیٰﷺ۔الاصابہ۔کامل ابن کثیر۔