حضرت عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہما
آپ کی والدہ ماجدہ ام الفضل تھیں۔ جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی سگی ہمشیرہ تھیں۔ حضور آپ کو بہت پیار فرماتے اور بارہا ان کے حق میں دعا فرمائی اَللھم عَلَّمِ الحکمۃ (اے اللہ انہیں حکمت عطا فرما) اس دعائے کیمیا اثر سے آپ کو تاویل القرآن کا علم نصیب ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قرآن کی تفسیر آپ ہی بیان فرمایا کرتے۔ آپ کے علم حدیث اور تفسیر سے دنیا عرب نے دامن مراد بھرا۔
آپ سن چونسٹھ ۶۴ھ میں فوت ہوئے۔ دفن کرنے کے بعد لوگ اپنے گھروں کو آنے لگے تو غیب سے آواز آئی یَا اَیُّھَا النَّفس الْمُطْمَئنّۃ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیۃ
ارتحالِ پاک او بے گفتگو نیز جانباز جلال اے نیک خو
|
|
زیب آدم ہست آں پاکیزہ رو زاہد والی دِگر طالب حبیب
|
(خزینۃ الاصفیاء)
//php } ?>