قائدِملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدّیقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی۔ القابات: قائد اہل سنت، قائد ملت اسلامیہ، امام انقلاب، مجاہدِ اسلام،غازیِ ختم نبوّت، عالمی مبلغ اسلام،یادگارِاسلاف۔ سلسلۂ نسب: امام شاہ احمدنورانی صدّیقی بن شیخ الاسلام شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی بن حضرت شاہ عبد الحکیم صدّیقی()۔آپ کا سلسلۂ نسب 39 واسطوں سے خلیفۂ اوّل حضرت سیّدنا ابوبکر صدّیق سے ملتا ہے۔آپ کی والدۂ محترمہ بھی صدّیقی تھیں۔ اس لحاظ سے آپ نجیب الطرفین ’’صدّیقی‘‘ ہیں۔ (تذکرۂ امام شاہ احمد نورانی، ص27)۔ غارِ ثور میں سانپ نے حضرت ابوبکر صدّیق کو ڈسا تھا۔اس کا نشان پاؤں کے انگوٹھے پرتل کی شکل میں نسل در نسل چلا آرہا ہے،امام نورانی کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر وہ نشانِ محبت موجود تھاجس کی اہل محبت نے بارہا زیارت کی ہے۔حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یارخاں نعیمی فرماتے ہیں:’’میں نے بہت صدّیقی حضرات کے پاؤں کے انگوٹھے میں یہ تل دیکھے ہیں‘‘۔(مرآۃ شرح مشکوٰۃ، جلد8، ص359)
فقیہ العصر مفتی محمد ابراہیم قادری مدظلہ العالی(سکھر) فرماتے ہیں:’’میری نظر حضرت قائد اہل سنت کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر سیاہ تل کا واضح نشان ہے، میرا ذہن فوراً حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی کے ارشاد کی طرف ملتفت ہوا۔میں نے حضرت قائد اہل سنت سے مفتی صاحب کے مضمون کا خلاصہ بیان کیاجو اس وقت میرے ذہن میں موجود تھاعرض کیا کہ مفتی صاحب نے یہ تحریر کیا ہے‘‘۔تو حضرت قائد اہل سنت نے فرمایا: ’’جب مفتی صاحب شرح مشکوٰۃ شریف لکھ رہے تھے، اس دوران وہ کراچی میرے گھر پر تشریف لائے، اورمجھ سے فرمایا کہ اپنے پاؤں دکھاؤ؛ میں نے حکم کی تعمیل کی، تو میرے دونوں انگوٹھوں پر تل دیکھ کر فرمایا میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو صدّیقی ہوگا، اس کے پاؤں کے انگوٹھے پر سیاہ تل کانشان ہوگا۔ حضرت قائد اہل سنت نے فرمایا : ’’کہ مفتی صاحب نے میرے دونوں پاؤں کےتل کامشاہدہ فرمانے کےبعد اسے مرآۃ میں تحریر فرمایاہے، پھر میری اصلاح فرماتے ہوئے فرمایا کہ جو نجیب الطرفین ہوگا، اس کے دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر تل ہوگا۔‘‘ (جب جب تذکرہ خجندی ہوا، ص18 تا 19)
تار یخِ ولادت: آپ 17؍رمضان المبارک1344ھ،مطابق یکم؍ اپریل1926ء کو محلّہ مشائخاں’’میرٹھ‘‘ ہندوستان میں پیداہوئے۔(تذکرۂ امام شاہ احمد نورانی، ص36)
تحصیلِ علم: امام شاہ احمد نورانی صدّیقی ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ بزرگوں کے طریقے کے مطابق ایک پُروقار تقریب میں چار سال، چار ماہ اور چار دن کی عمر میں والدِ گرامی سےرسمِ ’’بسم اللہ‘‘ خوانی سے تعلیم کا آغاز کیا۔آپنے آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کرلیا تھا۔ دس سال کی عمر میں والدین کی معیت میں پہلا حج کیا، حج بیت اللہ سے فراغت کے بعد ایک سال مسجدِ نبوی شریف مدینۂ منوّرہ میں تجوید و قراءت کی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک پاس کرنےکےبعد نیشنل عربک کالج میرٹھ سے نمایاں پوزیشن سے انٹر کا امتحان پاس کیا،اس کالج میں ذریعۂ تعلیم عربی تھی، اسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن اور فاضل عربی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ میرٹھ کے مشہور مدرسہ ’’دارالعلوم اسلامیہ عربیہ‘‘ میں صدر العلماء، امام النحو حضرت علامہ سیّد غلام جیلانی میرٹھیسے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ دستار بندی کے موقع پر ایک پر وقار تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں آپ کے والدِ ماجدسفیر اسلام مولانا شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی کے علاوہ، مفتیِ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں، امام النحومولانا سیّد غلام جیلانی میرٹھی اور صدرالافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی بھی مسند افروز تھے۔صدرا لعلما حضرت غلام جیلانی میرٹھی کی سرپرستی میں کچھ عرصہ ’’فتویٰ نویسی‘‘ بھی فرماتے رہے۔ آپ جامع علومِ نقلیہ و عقلیہ تھے۔دینی علوم پر کامل دسترس اور گہری نظر رکھتے تھے۔آپ پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جن کو سترہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
بیعت وخلافت: عالمی مبلغِ اسلام،سفیر پاکستان، خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولاناشاہ عبدالعلیم صدّیقی کے مرید وخلیفہ اورجانشینِ صادق تھے۔ان کے علاوہ قطبِ مدینہ شاہ ضیاء الدین احمد قادری مدنی اور مولانا مفتی فضل الرحمٰن قادری مدنی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔(ایضاً:ص 45)
ازدواجی زندگی: امام شاہ احمد نورانی صدّیقی ایک جیّد عالمِ باعمل اور سچے عاشقِ رسولﷺ تھے۔آپ کے عظیم المرتبت والدِ گرامی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں کے عظیم خلفا میں سے تھے۔قطبِ مدینہ مولانا شیخ ضیاء الدین مدنی بھی اعلیٰ حضرت کے خلیفہ تھے۔ دونوں شخصیات میں پہلے ہی محبت تھی، پھر یہ محبّت رشتے داری و قرابت میں تبدیل ہوگئی۔ 1963ء میں علامہ شیخ مفتی فضل الرحمٰن مدنی کی صاحبزادی اور قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی کی پوتی سے نکاح ہوا۔ یہ پُرمسرت و پر وقار تقریبِ سعید مسجدِ نبوی شریف میں منعقد ہوئی۔ ایجاب و قبولِ مجاہدِ ملّت علامہ عبد الحامد بدایونی نے کرایا۔ خطبۂ نکاح تاج العلماء حضرت مفتی محمد عمر نعیمی نے پڑھا۔ دعائے خیر و برکت حضرت قطبِ مدینہ نے فرمائی۔ شادی کے بعد ایک عرصےتک آپ مدینۂ منوّرہ میں مقیم رہے۔علمائے پاکستان کے پُرزور اصرار پر آپ پاکستان تشریف لائے، اور نظامِ مصطفیٰﷺ کےلیے کوشاں ہوگئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ، نہایت متقی و پرہیزگار، صاحب ِ نسبتِ عظیمہ و کثیرہ، اور صاحبِ عزیمت و استقامت خاتون تھیں۔ یکم جمادی الاخریٰ1441ھ مطابق 27؍جنوری2020 بروز پیر واصل باللہ ہوئیں۔ دوسرے روز بروزِمنگل بعد نمازِعشاء تقریباً9:45 پر احاطۂ حضرت عبداللہ شاہ غازی میں نمازِ جنازہ اداکی گئی، نمازِ جنازہ کی امامت آپ کے صاحبزادے جناب شاہ محمد اویس نورانی صاحب نےفرمائی۔ ملک بھر سے کثیر تعداد میں علما و مشائخ اہل سنّت نےشرکت فرمائی۔ حضرت قائدِ اہلِ سنت کے قرب میں ان کی تدفین ہوئی۔
سیرت وخصائص: قائدِ ملتِ اسلامیہ، قائدِاہل سنّت، امام انقلاب، مجاہدِ اسلام، حق و صداقت کی نشانی، غازیِ ختم نبوّت، عالمی مبلغ اسلام، یاد گارِ اسلا ف، نابغۂ روزگار،خاندانِ صدّیقِ اکبر کے رجلِ رشید حضرت علامہ مولانا امام الشاہ احمد نورانی صدّیقی۔ آپ اسمِ بامسمّٰی تھے۔آپ اپنےنام کی طرح قول وعمل اورسیرت وکردارکے بھی نورانی تھے۔آپ جامع الکمالات اور جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے۔قرآن ِحکیم و قصیدۂ بردہ شریف اور دلائل الخیرات وحزب البحرکے عامل، شیخ کامل، سادہ طبیعت، نرم مزاج، دھیمی آواز، شیریں گفتار، گورا، باریک ہونٹ، نورانی چہرہ ، سنّتِ نبوی سے آراستہ ، اخلاقِ مصطفوی ﷺکے پیکر، اخلاص کی جیتی جاگتی تصویر، مہمان نواز، غریب پرور،متوکل، خوفِ خدا و عشقِ مصطفیٰﷺ سے سر شار، مد بّرانہ سوچ، قائدانہ صلاحتیوں سے ممتاز تھے۔ اقلیمِ سیاست کے ایک ایسے عظیم کردار تھے کہ اصول پسندی حق گوئی و بے باکی اور جرأت ان کا نشان تھا۔ شخصی حکمرانی ہو یا فوجی آمروں کی من مانیاں علامہ نے ایک بااصول، راست گو، نڈرسیاسی مدبراور قائد کی صورت میں نہ صرف کلمہ حق ادا کیا بلکہ اس کے لیے ہر طرح کی صعوبت و مشکل برداشت کی ۔ حضرت قائد اہل سنت دنیائے اسلام میں کلمۂ حق بلند کرنے والے ایک بے خوف اور نڈر عالمِ دین و قائد کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ کئی مرتبہ دہشت گردوں نے قاتلانہ حملہ کیا، اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔ اس کےباوجود کسی قسم کی سیکورٹی اور پروٹوکول نہیں لیا۔حکومت نے سیکورٹی فراہم کی تو آپ نے پولیس کو واپس بھیج دیااور فرمایا:
’’مجھے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور وہی میری حفاظت فرمائےگا‘‘۔ (تذکرۂ امام شاہ احمد نورنی، ص59)
نورانی سیاست: 1980ء کا واقعہ ہے کہ اس وقت حضرت قائدِ اہلِ سنّت کوپاکستان کی سیاست میں قدم رکھے ہوئے دس سال کا عرصہ ہوگیاتھا۔مدینۃ المنوّرہ میں حضرت قطبِ مدینہ کی خدمت میں کچھ حضرات نے حضرت نورانی صاحب کی سیاست کےبارے میں تبصرہ کیا۔ حضرت قطبِ مدینہنے بلاتأمّل عالمِ جذب میں ارشاد فرمایااور یہ کلمات کئی مرتبہ ارشاد فرمائے:
’’میرا نورانی نہ دبنے والا، نہ جھکنے والا، نہ بکنےوالا ہے، اور مولائے کریم نے اس کو یہ شجاعت و استقامت عطافرمائی ہے کہ بڑے سے بڑےظالم و جابر کے سامنےکلمۂ حق کہنے کی ہمّت و جرأت رکھتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس پرکرم اور رسولِ اکرمﷺ کی نظر کرم بھی ہے۔‘‘ (روشن دریچے، ص139)
حضرت قائدِ اہلِ سنّت اپنے اکابرین کی تعلیمات پر سختی سے کاربندتھے۔ملکی و قومی مسائل پر آپ نے مختلف مذہبی جماعتوں سے سیاسی اتحاد کیے، لیکن آپ نے کبھی بھی کسی بدمذہب کی اقتداء میں نماز ادا نہیں کی۔آپ کا معمول تھا کہ بیان سے پہلے قصیدۂ بردہ شریف اور اختتام پر سلام ِ امام احمد رضا اور یانبی سلام علیک وجدانی کیفیت میں پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:
’’میں نے قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کے دوران کہا تھا کہ دوقومی نظریے کی بنیاد امام ربانی حضرت مجددِ الفِ ثانی اور اس کی آبیاری امام اہلِ سنّت حضرت شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے کی۔ پھر اسی دو قومی نظریے کو پاکستان کی صورت میں منصّۂ شہود پر لانے کےلیے علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قابلِ فخر خدمات انجام دیں۔‘‘ (تذکرۂ امام شاہ احمد نورانی، ص54)
حضرت قائدِ اہلِ سنّت نے دنیاکے کونے کونے میں اسلام کا پیغامِ ہدایت پہنچایا اور ہزاروں بلکہ لاکھوں گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم دکھائی۔ آپ کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلموں نے دولتِ اسلام سے اپنا دامن بھرا جن میں پادری، راہب، وکلاء، انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔ وہ زیرک سیاستدان، علومِ قدیم و جدید کے ماہر، درویش صفت اورمتوکل فقیر کے علاوہ شیخ طریقت بھی تھے، لیکن وہ روایتی پیر نہیں تھے۔ اپنی نمائش وشہرت کے سخت مخالف تھے۔ اپنی نمائش کے لیے اُنھوں نے کبھی بھی کوئی راہ ہموار نہیں کی، ہمیشہ کسرِ نفسی، عاجزی، تواضع و سادگی سے کام لیتے تھے۔ اپنی دینی کاوشوں کو چھپاتے رہتے تھے۔ کسی کے زوردار اصرار کے بعد بیعت میں لیتے تھے، لیکن پھر بھی اس سے شریعتِ مطہرہ پر سختی سے پابندی کا عہد لیتے تھے۔ ہر دور و عہد میں مولانا کو وزارت، گورنری اور پلاٹ پرمٹ کی پیشکش ہوئی۔ اقتدار کی لونڈی نے باربار چوکھٹ پر دستک دی، لیکن آپ نے کمالِ استقلال سے ہر بار پیشکش ٹھکرا دی۔کچھی میمن مسجد صدر کے متصل ماسٹر کے فلیٹ میں سے ایک پرانے معمولی اور کرائے کے فلیٹ میں پوری زندگی درویشانہ بسر کی ؎
لوگ کیا کیا بِک گئے تو نے نہیں بیچے اُصول
تیرے دامن کو بہت ہے دولتِ عشقِ رسول ﷺ
آپ ملکی وبین الاقوامی بہت سے ادراوں اور تنظیموں کے بانی و رکن تھے۔ آپ اپنے وقت کی ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی شخصیت کا ہر ہرپہلوروشن اور شاندار ہے اور ہر ایک وسعت کا متقاضی ہے ۔
وصال: قائدِ اہلِ سنّت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی 16؍ شوّال 1424ھ مطابق11؍ دسمبر 2003ء ، بروز جمعرات اسلام آباد(پاکستان) میں بارہ بج کر بیس منٹ پر دوپہر کو 80 سال کی عمر میں واصل باللہ ہوئے۔آپ کی تربت ِاطہرحضرت عبد اللہ شاہ غازی کے مزارِپُر انوارکے احاطے میں ہے۔
ماخذو مراجع: تعارف علمائے اہل سنت۔روشن دریچے۔تذکرہ امام شاہ احمد نورانی۔