شاہ احمد نورانی صدّیقی، قائدِ ملّتِ اسلامیہ، امام
اسمِ گرامی: شاہ احمد نورانی۔
اَلقابات: قائدِ اہلِ سنّت، قائدِ ملّتِ اسلامیہ، امامِ انقلاب، مجاہدِ اسلام،
حق و صداقت کی نشانی، غازیِ ختمِ نبوّت،
فاتحِ مرزائیت، عالمی مبلغ
اسلام، یاد گارِ اَسلا ف۔
والدِ ماجد: سفیرِ اسلام مبلغِ اعظم حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی مدنی(خلیفۂ
اعلیٰ حضرت)۔
جدِّ امجد(دادا): نجیبِ مصطفیٰﷺ
حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبدالحکیم
جوؔش و حکیمؔ صدّیقی میرٹھی
(خلیفۂ حاجی امداداللہ مہاجر مکی و خلیفۂ شاہ علی حسین الاشرفی الجیلانی المعروف ’’اشرفی میاں‘‘)۔
برادرِ جدِّ امجد: بچوں کے مشہور شاعر مولانا اسماعیل میرٹھی
آپ کے دادا کے برادرِ اَصغر (چھوٹے بھائی) تھے۔
نسب:
قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا سلسلۂ نسب 39 واسطوں سے خلیفۂ اوّل حضرت سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔ آپ حضرت محمد بن ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنھما کی اولاد سے ہیں۔ آپ
کا سلسلۂ نسب یہ ہے:
’’شاہ احمد نورانی صدّیقی بن
شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی بن شاہ عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ صدّیقی بن شیخ پیر بخش
بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن مولانا محمد عاقل بن مولانا محمد
شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا
احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی بن حضرت منصور خجندی(رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)۔‘‘
آپ کی والدۂ
ماجدہ بھی نسباً صدّیقی تھیں؛ اِس اعتبار سے، آپ نجیب
الطرفین صدّیقی ہیں۔
ولادت:
آپ 17؍ رمضان
المبارک1344ھ مطابق یکم اپریل1926ء کو محلّہ مشائخاں’’میرٹھ‘‘ ہندوستان میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم:
حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی
نے آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کرلیا تھا۔ حفظِ قرآن کے بعد ثانوی تعلیم کے
لیے ایسے اسکول میں داخلہ لیا جہاں ذریعۂ تعلیم عربی تھا۔ عربک کالج میرٹھ سے بھی
ڈگریاں حاصل کیں۔ درسِ نظامی کی کتبِ متداولہ مدرسۂ اسلامیہ قومیہ میرٹھ میں اُستاذ
العلما امام النحو حضرت علامہ مولانا سیّد غلام
جیلانی میرٹھی (خلیفۂ شاہ علی حسین الاشرفی الجیلانی المعروف ’’اشرفی میاں‘‘)سے پڑھیں۔
دستار بندی:
آپ کی دستار بندی کے موقع پر ایک پُر وقار تقریب کا انعقاد
ہوا، جس میں آپ کے استادِ محترم حضرت
علامہ مولانا سیّد غلام جیلانی میرٹھی، آپ کے
والدِ ماجد مولانا شاہ عبدالعلیم صدّیقی قادری اور
صدرالافاضل مولانا سیّد نعیم الدین مرادآبادی کے
علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں (رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)بھی مسند افروز تھے اور اِن سب کے
دست ہائے مبارک سے آپ کی دستار بندی ہوئی۔
زبانوں پر عُبور:
آپ پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جن کو سترہ(17) زبانوں پر
عبور حاصل تھا۔
بیعت وخلافت:
امام شاہ احمد نورانی عالمی
مبلغِ اسلام مولاناشاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی کے مرید وخلیفہ
اورجانشینِ صادق تھے اور خلیفۂ
اعلیٰ حضرت حضرت قطبِ مدینہ شاہ ضیاء الدین احمد
قادری مدنی سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی۔(رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)
سیرت وخصائص:
قائدِاہلِ سنّت،قائدِ ملّتِ اسلامیہ، اِمام ِانقلاب، مجاہدِ اسلام، حق و صداقت کی نشانی، غازیِ ختم
ِنبوّت، عالمی مبلغ اسلام، یاد گارِ اسلا ف، نابغۂٔ روزگار، خاندانِ صدّیقِ اکبر رضی اللہ
تعالٰی عنہ کے رَجلِ رشید حضرت علامہ
مولانا امام شاہ احمد نورانی صدّیقی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ اسمِ بامسمّٰی تھے۔ آپ اپنےنام کی طرح قول وعمل
اورسیرت وکردارکے بھی نورانی تھے۔ آپ جامع الکمالات اور جامع الصفات شخصیت کے
مالک تھے۔ قرآنِ حکیم و قصیدۂ بُردہ شریف اور دلائل الخیرات وحزب البحرکے عامل، شیخِ کامل، سادہ طبیعت،
نرم مزاج ، دھیمی آواز، شیریں گفتار، گورا رنگ، باریک ہونٹ، نورانی چہرہ ،
سنّتِ نبوی سے آراستہ، اَخلاقِ مصطفوی ﷺکے
پیکر، اخلاص کی جیتی جاگتی تصویر، مہمان نواز، غریب پرور،متوکّل، خوفِ خدا و عشقِ مصطفیٰﷺ سے سر شار،
مدبّرانہ سوچ ، قائدانہ صلاحتیوں سے ممتاز تھے۔ اقلیمِ سیاست کے ایک ایسے عظیم
کردار تھے کہ اصول پسندی، حق گوئی و بے باکی اور جرأت ان کا نشان تھا۔ شخصی
حکمرانی ہو یا فوجی آمروں کی من مانیاں، علامہ نے ایک بااصول، راست گو، نڈرسیاسی
مدبّراور قائد کی صورت میں نہ صرف کلمۂ حق ادا کیا بلکہ اس کے لیے ہر طرح کی صعوبت
و مشکل برداشت کی۔ مولانا دنیائے اسلام میں کلمۂ حق بلند کرنے والے کی حیثیت سے
ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ آپ نے دنیاکے کونے کونے میں اسلام کا پیغامِ ہدایت
پہنچایا اور ہزاروں بلکہ لاکھوں گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم دکھائی۔ آپ کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلموں نے دولتِ اسلام سے اپنا
دامن بھرا جن میں پادری، راہب، وکلا، انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر مختلف شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ وہ زیرک سیاست دان، علومِ قدیم
و جدید کے ماہر، درویش صفت، متوکّل فقیر کے علاوہ شیخ طریقت بھی تھے، لیکن وہ
روایتی پیر نہیں تھے۔ اپنی نمائش وشہرت کے سخت مخالف تھے۔ اپنی نمائش کے لیے انہوں
نے کبھی بھی کوئی راہ ہموار نہیں کی۔ ہمیشہ کسر ِنفسی، عاجزی، تواضع و سادگی سے
کام لیتے تھے۔ اپنی دینی کاوشوں کو چھپاتے رہتے تھے۔ کسی کے بار بار اصرار کے بعد
ہی اُس کو بیعت میں لیتے تھے، لیکن پھر
بھی اس سے شریعتِ مطہرہ پر سختی سے پابند ی کا عہد لیتے تھے۔ ہر دور و عہد میں
مولانا کو وزارت، گورنری اور پلاٹ پرمٹ کی پیش کش ہوئی۔ اقتدار کی لونڈی نے باربار
اُن کی چوکھٹ پر دستک دی لیکن آپ نے کمالِ استقلال سے ہر بار پیش کش ٹھکرا دی۔
کچھی میمن مسجد (صدر، کراچی) سے متصل ماسٹر ہاؤس کے ایک کرائے کے پرانے معمولی فلیٹ میں پوری زندگی
درویشانہ بسر کی ۔ ؎
آپ ملکی وبین
الاقوامی بہت سے اداروں اور تنظیموں کے بانی تھے،جن میں سے ایک دعوتِ اسلامی بھی
ہے۔ آپ نابغۂ روز گار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی شخصیت کا ہر پہلوروشن اور شان
دار ہے اور ہر ایک وسعت کا متقاضی ہے۔
وصال:
قائدِ اہلِ سنّت حضرت علامہ
شاہ احمد نورانی صدّیقی نے 16؍شوّال المکرم
1424ھ مطابق 11؍ دسمبر 2003ء بروزِ جمعرات اسلام آباد میں بارہ بج کر بیس منٹ پر
دوپہر کو 80سال کی عمر میں انتقال کیا۔
مزارِ پُر اَنوار:
آپ کی قبرِ انور کلفٹن کراچی
میں حضرت عبد اللہ شاہ غازی بابا کے مزارِ
پُر اَنوار کے اِحاطے میں ہے۔
صنعتِ توشیح میں لکھی گئی ایک
منقبت:
شاہ
میرے، نورِ احمدﷺ سے ہیں نورانی بہت
آپ کو
حاصل ہے گویا فضلِ رحمانی بہت
ہر طرف
اسلام کا ڈنکا بجایا آپ نے
ایک
میں کیا، معترف ہے خلقِ سبحانی بہت
حامیِ سنّت
بھی ہیں اور ماحیِ بدعت بھی وہ
میرے قائد سے ہے خائف حزبِ شیطانی بہت
دیکھ
کر وہ پیاری صورت یاد آتا ہے خدا
نقشِ
نورانی بڑھائے ذوقِ ایمانی بہت
وہ امامِ اہلِ سنّت
پاک داماں، خوش ادا
رب نے
بخشی اُن کی سیرت میں درخشانی بہت
ابنِ
یارِ غار ہیں وہ پیکرِ صدق و وفا
نخل سے
اس گُل نے پایا فیضِ روحانی بہت
یہ
قمر، شمس و کواکب اُن کے بن لگتے ہیں ماند
صورتاً
ہے گرچہ اِن سے جگ میں تابانی بہت
داغ جب
سے فرقتِ شہ کا لگا ہے سینے میں
یہ نظر
بے چین ہے اور دل میں ویرانی بہت
قبرِ انور سے ہے جاری آج بھی فیضانِ شاہ
یہ
نؔدیم احمد بھی پائے فیضِ نورانی بہت
نوٹ: انجمن ضیائے طیبہ پاکستان (کراچی) سے وابستہ مولانا ندیم احمد نؔدیم نورانی زِیْدَ مَجْدُہٗ نے یہ منقبت صنعتِ توشیح میں لکھی ہے، اِس کے ہر مصرع کا پہلا حرف ترتیب وار لکھیں تو اسمِ مبارک ’’شاہ احمد نورانی صدّیقی‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ یہ منقبت ماہ نامہ اُفق كراچی (نومبر ۲۰۱۰ء مطابق ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ) كے صفحہ 40 پر بھی شائع ہو چکی ہے اور حضرت امام شاہ احمد نورانی کے تایا جان حضرت علامہ محمد بشیر صدّیقی کے حالات ِ زندگی پرندیم نورانی صاحب کی کتاب: ’’علامہ حاجی محمد بشیر صدّیقی کا سفرِ زندگی‘‘ کے صفحہ 11پر بھی موجود ہے۔ یہ کتاب جمیلِ ملّت حضرت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی نے شائع کی تھی۔
مآخِذ و مراجع:
روشن دریچے، از جمیلِ ملّت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی۔
تعارفِ علمائے اہلِ سنّت، از علامہ مولانا
محمدصدّیق ہزاروی۔
اَنوارِ علمائے اہلِ سنّت(سندھ)، از علامہ
پیر قاضی سیّد زین العابدین راشدی۔
جب جب تذکرۂ خجندؔی
ہوا، از
ندیم احمد نؔدیم نورانی [(حال: انجمن ضیائے طیبہ (پاکستان)، کراچی)]۔
علامہ حاجی محمد بشیر
صدّیقی کا سفرِ زندگی[(ملقّب بہ لقبِ تاریخی: ’’یک اجل تحریر در حیاتِ بشیر‘‘(2017ء)]،
از ندیم احمد نؔدیم نورانی [(حال: انجمن ضیائے
طیبہ (پاکستان)، کراچی)]۔
ماہ نامہ اُفق كراچی،نومبر ۲۰۱۰ء مطابق ذوالحجہ ۱۴۳۱ھ۔