قائد اہل سنت مولاناحافظ شاہ احمد نورانی

مولانا شاہ احمد نورانی بن عالمی مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی ۱۷ ، رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ/ اپریل ۱۹۲۸ء کو میرٹھ (بھارت) کے محلہ مشائخاں میں تولد ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، اسی نسبت سے آپ ’’صدیقی‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ امت الرئوف بھی صحیح النسل صدیقی تھیں۔ آپ کا سلسلہ ۳۰ ویں پشت میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے ملتا ہے اس طرح آپ نجیب الطرفین صدیقی تھے۔

تعلیم و تربیت:

مولانا نورانی نے آٹ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ مع تجوید کیا۔ اس کے بع دثانوی تعلیم کیلئے ایسے اسکول میں داخلہ لیا جہاں ذریعہ تعلیم عربی تھا۔ عربک کالج میرٹھ (یوپی بھارت) سے گریجویٹ کیا۔ الہ آباد یونیوسٹی سے فاضل عربی کے امتحان پاس کئے۔ درس نظامی کی تکمیل مدرسہ اسلامیہ میرٹھ میں امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ متوفی (۱۹۷۸ئ) صاحب بشیر القادری شرح صحیح البحاری سے کی۔

دستار فضیلت کے موقع پر ایک پر وقار تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں آپ کے استاد محترم مولانا غلام جیلانی آپ کے والد ماجد علامہ عبدلعلیم صدیقی (۱۹۵۳ئ) صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی مسند افروز تھے۔

آپ نے قیام کراچی کے دور میں دس ماہ کا فرانسیسی زبان کا کورس بھی کیا تھا۔

پاکستان میں قیام:

۱۹۷۴ء کو اپنے والد ماجد اہل خانہ کے ساتھ پاکستان کراچی تشریف لائے اسی وقت سے صدر بوہری بازار کے گنجان علاقے میں کچھی میمن مسجد سے  ملحقہ قدیم عمارت کے ایک مختصر فلیٹ میں مولانا نے زندگی گزاری۔ یہیں سے بھائیوں بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں ہوئی۔ عمر کے آخری حصہ میں آپ کی بیگم کو ورثہ میں والدین سے کچھ رقم ملی تو بیگم صاحبہ نے کلکفٹن کے علاقہ میں زند امیر خسرو پارک ، بالمقابل درگاہ حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ بنگلہ (بیت الرضوان) خریدا جس میں اہل خانہ شفٹ ہوئے۔

صدر کا شور شرابہ ہنگامہ خیز زندگی آپ کے فلیٹ کے ارد گرد سونار کی بھٹیاں جس میں سونا صاف کرنے کیلئے تیزاب استعمال ہوتی ہے اس تلیف کے باجود آپ نے اس فلیٹ نما کمرے میں ۵۵ سال کا طویل عرصہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ گزارا۔ اس گھٹن کی وجہ سے آپ کی بیگم سانس کی تکلیف میں مبتلا ہوئیں۔

شادی و اولاد:

آپ کے والد ماجد کی قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی سے دوستی تھی، دونوں فاضل بریلوی کے چہیتے خلفاء میں سے تھے۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی اپنے لخت جگر نورانی میاں کی شادی مولانا مدنی کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن مدنی کی صاحبزادی سلمیٰ بیگم سے ۱۹۶۴ء کو کی۔ س سے مولانا کو دو بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں جس کی تفصیل یوں ہے:

۱۔      مولانا محمد انس نورانی صدیقی ۔ ایس ایم کامرس کالج سے بی کام اور کراچی یونیورسٹی سے اسالمک اسٹڈیز میںماسٹرز کیا۔ اس کے علاوہ بغداد اور لیبیا کی تریپول یونیوسٹی سے تعلیم حاصل کی

۲۔     اناس۔ نے سینٹ جوزف اسکول سے میٹرک کیا، اس کے بعد سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا۔ ۱۹۸۸ء کو شادی کے بعد اپنے شوہر سیدناصر کے ساتھ دبئی چلی گئی اور شارجہ میں رہائش پزیر ہیں۔

۳۔     ایمان: نے بھی سینٹ جوز کالج سے گریجویشن کیا ۔ ان کے شوہر شیخ آفاق الدین امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاسل کرنے کے بعد کراچی مین جواہرات کا کاروبار کر ہے ہیں۔

مولانا کی دونوں صاحبزادیاں اپنی والدہ کی طرح پردہ دار اور ہائوس وائف (گھریلو عورت) ہیں۔

۴۔     محمد اویس صدیقی سینٹ پیٹرک کالج سے بی کام کیا ۔ اس کے بعد بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلے گئے ، وہاں تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کر رہے ہیں۔

(فیملی میگزین میں فیملی انٹرویو ۱۹۹۸ئ)

بیعت و خلافت:

آپ اپنے والد ماجد شیخ الاسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمۃ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رجویہ میںدست بیعت، خلیفہ اور جانشین تھے۔

ذریعہ معاش:

اپنے والد ماجد سے پتھر کی پہچان کا فن سیکھا تھا۔ قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت کرتے تھے، اس کی آمدنی سے گھر کا خرچہ چلاتے تھے۔ کبھی بھی تبلیغ اسلام کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ کسی بھی مقام پر خطاب کیلئے مدعو ہونے پر آنے جانے کی ٹکٹ لیتے ، لیکن نذرانہ قبول نہیں کرتے تھے۔

(جنگ سنڈے میگزین ۳ مارچ، ۲۰۰۲ء کو انٹرویو)

عالمی زبانیں:

آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ عربی فارسی، اردو انگریزی (امریکن اور برٹش لہجہ میں) سواحلی افریقی اور فرانسیسی سبھی زبانیں بڑی روانی سے بولتے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیتے ۔

تحریک پاکستان:

علامہ نورانی تحریک پاکستان کے دور میں طالب علم تھے۔ آپ نے دل کھول کر نہ صرف تحریک پاکستان میں حصہ لیا بلکہ انہیں دنوں آپ نے میرٹھ کی سطح پر نوجوانوں کو ہندئووں کا مقابلہ کرنے کیلئے عسکری انداز میں منظم بھی کیا تھا۔

مسلم لیگ کی حمایت میں ضلع مین پوری (یوپی بھارت) میں۱۹۴۵ء کو سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ (نورانی  میاں کی تبلیغی مصروفیات ، ص۴، نعمان اکیڈمی)

تصنیف و تالیف:

آپ کی شخصیت ہمہ جہت ہے، ایک ذات کے مختلف پہلو ہیں اور ان تابناک پہلوئوں میں عظیم وسعت و گہرائی ہے۔ تمام پہلوئوں کا گھیرائو کرنا اسان کام نہیں۔ آپ جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ، ورلڈ اسلامک مشن کے چیئرمین تھے ان اداروں کے زیر اہتمام دینی مدارس جاری ہیں، لٹریچر کی اشاعت کا بھی کام ہوتارہا ہے ۔ الدعوۃ (عربی) دی میسج (انگریزی) مجلے بھی تبلیغ اسلام کیلئے جاری ہیں۔ جن میں آپ کے پر مغز مضامین چھپتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے دو ضخیم کتابیں عیسائیت اور قادنیت کے رد میں تحریر فرمائیں:

۱۔      دی سیل آف دی پرافٹ (ختم نبوت) انگریزی

۲۔     جیس کرائسٹ ان دی لائٹ آف قرآن (حیات عیسی علیہ السلام قرآن کی روشنی میں)

۳۔     جیل کے دن جیل کی راتیں (تحریک نظام مصطفی ﷺ میں اسیری کے دنوں میں لکھی گئی )

تراویح میں ختم قرآن:

تراویح میں ختم قرآن سناناہر سال آپ کا معمول تھا۔ تقریبا ۱۲ سال کی عمر سے آخر عمر تک۔ اس عمل کو بغیر ناغہ اور بلا معاوضہ برقرار رکھا۔ اس طرح نصف صدی سے زئد عرصہ یعنی ۶۴ سال اس خدمت پر معمور رہے۔ جناح مسجد (برنس روڈ کراچی) میں مسلسل ۳۶ برس تک تراویح میں قرآن پاک سنانے کی خدمت انجام دی اور ہمیشہ ۲۰ رمضان المبارک کو یعنی ۲۱ شب ختم شریف ہوتا تھا۔

تبلیغی تحریک و تنظیمی سرگرمیاں:

۵۴ ۱۹ء کو علامہ نورانی نے اپنے والد ماجد علامہ عبدالعلیم صدیقی القادری علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۹۵۳ئ) کے وصال کے بعد ان کے مشن کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ سر انجام دینے کا عزم کیا۔

٭     ۱۹۵۵ء میں آپ جامعہ ازہر مصر کے علماء کی دعوت پر قاہرہ تشریف لے گئے اور علماء کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا۔

٭     ۱۹۵۸ء میں علامہ نورانی نے حضرت شیخ ضیاء الدین بابا خانوف مفتی اعظم روس کی خصوصی دعوت پر روس کا تبلیغی دورہ کیا اور سوشلسٹ معاشرے کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ ازبکستان، تاشقند، سمرقند، بخارا کے مسلمانوں میں دینی جذبہ پیدا کرنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا اور روسی حکومت کے پروگرام کے برعکس سوشلسٹ رہنما لینن کی قبر پر پھول چڑھانے سے انکار کردیا۔

٭     ۱۹۵۹ء میں علامہ نورانی نے مشرق وسطیٰ کا خیر سگالی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۰ء میں آپ نے مشرقی افریقہ مڈغاسکر اور ماریشس کا تبلیغی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۱ء میں آپ نے سیلون(سری لنکا) اور شمالی افریقہ کا تبلیغی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۲ء میں آپ نے صومالیہ، کینیا، ٹانگانیکا، یوگنڈا اور ماریشس کا تبلیغی دورہ کیا نیز نائجیریا کے وزیر اعلیٰ جناب احمد شہید کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے اور ان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے چار ماہ کا تبلیغی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۳ء میں علامہ نورانی نے ترکی، فرانس ، مغربی جرمنی، برطانیہ، ماریشس، نائیجیریا اور اسکینڈنیوین ممالک کے تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے نیز اسی سال عوامی جمہوریہ چین کا تبلیغی دورہ کیا

٭     ۱۹۶۴ء میں علامہ نورانی نے امریکہ، جنوبی امریکہ، کینیڈا کا تبلیغی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۵ء میں علامہ نورانی نے کینیا ، تنزانیہ، یوگنڈا، مالاگوسی، ماریشس اور سرینام (ڈچ گیانا جنوبی امریکہ) کا تبلیغی دورہ کیا۔ اسی سال سرینام (جنوبی امریکہ) میں بھی سات ماہ قیام کرکے فتنہ قادیانیت کو کچلا اور ایک مناظرے میں مرزائیوں کو ایسی شکست فاش دی کہ اب وہاں مرزائی کسی سنی عالم دین کے مقابلے پر آنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

٭     ۱۹۶۷ء میں آپ نے ’’جمیعت تبلیغ اسلام‘‘ کی دعوت پر شمالی انگلینڈ کا تبلیغی دورہ کیا اوراس کے علاوہ امریکہ کا بھی تبلیغی دورہ کیا۔

٭     ۱۹۶۸ء میں علامہ نورانی نے ٹرینداڈ میں ایک قادیانی (جو کہ اسلامک ریویولندن (برطانیہ) کا ایڈیٹر تھا) سے ساڑھے پانچ گھنٹے مناظرہ کیا ۔ بالآخر وہ کتابیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔

٭     ۱۹۷۱ء میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا تقریباً ڈیڑھ ماہ کا تبلیغی دورہ کیا۔

ورلڈ اسلامک مشن:

علامہ نورانی نے ۱۲ اپریل ۱۹۷۴ء کو بریڈ فورڈ(برطانیہ)  سینٹ جار جز ہال میں ایک عظیم الشان ’’عالمی کانفرنس‘‘ کی صدارت کی۔ اس کانفرنس میں مختلف ممالک کے پچاس علماء شریک ہوئے۔ کانفرنس میں علامہ نورانی کو ’’ورلڈ اسلامک مشن‘‘ کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر علامہ نورانی نے چوبیس ملکوں میں مشن کی شاخون کے قیام کیلئے کنوینرز نامزد کئے، ان ملکوں کے نام یہ ہیں: پاکستان، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تنزانیہ، پرتگال، صومالیہ، جنوبی افریقہ، سینی گال، نائجریریا، مصر، شام ، عراق، افغانستان، مغربی جرمنی، فرانس، ہالینڈ، انگلینڈ، امریکہ، سرینام (ڈچ گیانا) ، ارجنٹائن، سعودی عرب اور ٹرینی ڈاڈ۔

۱۹۷۵ء میں علامہ نورانی نے ورلڈ اسلامک مشن کے تحت مولانا عبدالستار خان نیازی ، پروفیسر شاہ فرید الحد(قائد حزب اختلاف سابق صوبائی اسمبلی سندھ) ، رئیس التحریر علامہ ارشد القادری (پرنسپل جامعہ مدینۃ العلوم ، ڈین ہاگ، ہالینڈ) کی رفاقت میں امریکہ ، افریقہ اور یورپ کا تبلیغی دورہ کیا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حاضری اور حج و زیار ت کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کے بعد وفد ۱۲ جنوری ۱۹۷۵ء کو جدہ سے نیروبی (کینیا، افریقہ) پہنچا۔ نیروبی کی جامع مسجد کھبراہ میں علامہ نورانی نے عربی میں خطاب  کیا بعد میں تقریر کا سوڈانی زبان میں ترجمہ پیش کیا گیا۔ نیروبی ٹی وی اسٹیشن پر آپ کا انٹرویو ریکارڈ ہوا۔

افریقہ کے مختلف ممالک کا اٹھارہ روز تک تبلیغی دورہ فرمانے کے بعد یہ وفد لندن(برطانیہ) روانہ ہو گیا، جہاں دو ہفتہ قیام کے بعد وفد نے امریکہ، جنوبی امریکہ، کنیڈا، مغربی جرمنی، اسپین، تیونس، لیبیا، الجزائر، مصر، اور ترکی کا تبلیغی دورہ کیا۔ اس دورہ میں تقریباً ایک لاکھ میل سے زائد سفر کیا۔ اور چھ سو ۶۰۰ سے زائد تقاریر فرمائیں۔ اس دورہ میں بہت سے غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

 (ہفت روزہ افق کراچی ظہور الحسن بھوپالی شہید)  

علامہ نورانی فروری ۱۹۷۸ء میں تبلیغی دورہ پر ماریشس (افریقہ ) تشریف لے گئے ، وہاں آپ نے ایک اسلانی دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور ۱۲ ، ربیع الاول کو ایک عظیم الشان جلسہ میلادالنبی ﷺ سے خطاب کیا ۔ اسی جلسہ میں ماریشس کے وزیراعظم رام غلام ، گورنر جنرل سر عثمان ، چیف جسٹس ، ایچ کا سن علی ، سابق نائب وزیراعظم سر عثمان ، اراکین اسمبلی ، غیر ملکی سفر اء ، نے شرکت کی ۔ بعد میں علامہ نورانی ماریشس سے مدینہ منورہ حاضری دینے کے لئے سعودی عرب پہنچے اور مکہ معظمہ سے عمرہ ادا کرتے ہوئے ورلڈ اسلامک مشن نیروبی کی دعوت پر کینیا ( افریقہ )تشریف لے گئے ۔ مئی ۱۹۷۸ء میں آپ کیپ ٹاوٗن (جنوبی افریقہ ) کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے ، وہاں کے میئر کی جانب سے شہریوں کے استقبالیہ میں آپ نے ’’اسلام بیسویں صدی کے چیلنج کو قبول کرتا ہے ـ‘‘کے زیر عنوان انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے دور جدید کے مسائل اور اسلام کے پیش کردہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ اب دنیا بھر میں غیر مطمئن او ر بے چین انسانوں کے اسلام کی اکملیت اور جامعیت کا احساس ہو رہا ہے ۔کیپ ٹاوٗن کے میئر نے علامہ نورانی کا خیر مقدم کر تے ہوئے انہیں ’’سفیر اسلام ‘‘کا خطاب دیا۔(روز نامہ جنگ کراچی )

تبلیغی دورہ کے بعد واپس کراچی پہنچے پر مولانا نورانی نے بتایا کہ ان حالیہ دورہ میں ۱۰۵افریقی ، یورپی اور مقامی افراد نے اسلام قبول کیا اور متعدد مقامات بالخصوص جنوبی افریقہ میں ورلڈ اسلامک مشن کی نئی شاخیں اور مراکز قائم ہوئے ۔

انہوں نے بتایا کہ ماریشس ، ری یونین اور ساوٗتھ افریقہ میں ریڈ یو اور ٹی وی پر تبلیغی پروگرام ہوئے اور انگریزی میں تقاریر ہوئیں ۔ ماریشس ، ری یونین اور ساوٗ تھ افریقہ کے اخبارات میں بھی ان تبلیغی پروگران کو کوریج ملی ۔

جنوری ۱۹۸۰ء میںعلامہ نورانی نے ورلڈ اسلامک مشن کراچی کے دفتر میں یو گنڈا (افریقہ )سے آئے ہوئے مسلمانوں کے ایک وفد سے ملاقاے کی جو کہ ٹرسٹ کے دفترمیں اسلامی تبلیغی مسائل کے بارے میں بات چیت کے لئے خصوصی طور پر آیا تھا ۔ علامہ نورانی نے وفد کو قرآن حکیم کے ایک ہزار نسخے اور پانچ ہزار عربی ابتدائی قاعدے پیش کئے ۔ دعوت اسلامی کی بنیاد ڈالنے کے لئے مولانا نورانی صاحب کے گھر ۱۹۸۰ یا ۱۹۸۱ کو اجلاس ہوا اور دعوت اسلامی کے وجود کے بعد پاکستان میں کام کرنے کیلئے کہ دعوت اسلامی سنیوں خالصتا مذہبی اور تبلیغی جماعت ہے مولانا نورانی نے تصدیق نامہ کا لیٹر جاری کیا اس کی بنیاد پر مساجد میں بیان ودرس کی اجازت ملتی تھی ۔

فروری ۱۹۸۰ء میں امریکہ کا کامیا ب تبلیغی دارہ کیا اسی دورہ میں آپ نے نیو یارک یونیور سٹی کے انٹر نیشنل ہال میں اسلام کی ہمہ گیریت کے موضوع پر انگریزی میں خطاب کیا۔ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر خاتون نے علامہ نورانی کی تقریر سے متاثرہو کر اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد آپ جزائر ویسٹ انڈیز سے ملحقہ ریاست ٹرینی ڈاڈ کے مسلمانوں کی دعوت پر تبلیغی دورہ کے لئے تشریف لے گئے ۔ جب آپ نیو یارک سے ٹرینی ڈاڈ پہنچے تو آپ کا فقید المثال استقبال کیا گیا پوری ریاست میں عام تعطیل کر کی گئے ۔ علامہ نورانی نے یہ تبلیغی دورہ پچیس ۲۵ دن میں مکمل کیا او ر تقریبا چالیس عظیم الشان اجتماعات سے خطاب کیا۔ (نوائے وقت روالپنڈی ) ٹرینی ڈاڈ کا دورہ مکمل کر نے کے بعد آپ فروری ۱۹۸۰کے آخری ہفتہ مٰں سر ینام پہنچے یہاں پندرہ روز قیام کے بعد تین روز کے لئے اساوٗ آئی لینڈ تشریف لے گئے ، دونوں مقامات پر تبلیغی جلسوں سے خطاب کیا۔

۱۰، مارچ ۱۹۸۰ ء کو نیو یارک سے ہوتے ہوئے نیو جرسی پہنچے ۔ میامی کے چار روزہ دورہ کے دوران علامہ نورانی نیاسلامک سینٹر میامی کی جامع مسکد میں جمعہ کی نماز سے قبل انگریزی میںخطاب کیا، جہاں ایک افریقی مشرف بہاسلام ہوا۔

 علامہ نورانی نے کولمبیا یونیورسٹی میں ’’افغانستان میں روسی جارحیت اور افغان مہاجرین‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ یکم اپریل سے ۱۵ اپریل ۱۹۸۰ء تک کیلئے کیلے فورنیا اور لا س اینجلس کا دورہ کیا۔ ۱۵، اپریل سے آخر ماہ تک کینیڈا کا دو ہفتہ کا تبلیغی دورہ کیا۔ کینیڈا میں علامہ نورانی کا زبردست استقبال ہوا اور تمام بڑے شہروں میں آپ کی تقاریر کا پروگرام مرتب کیا گیا۔

۱۵ جون ۱۹۸۰ء کو آپ ورلڈ اسلامک مشن کی چوتھی ’’عالمی کانفرنس‘‘ کی صدارت کیلئے ہالینڈ تشریف لے گئے۔ ایمسٹر ڈیم کے چاپ ایڈن ہال میں عظیم اجتماع ہوا۔ ہالینڈ میں کم و بیش ڈھائی لاکھ مسلمان ہیں جو ایمسٹر ڈیم ، ڈین ہاگ، روٹرڈیم، اترخ، انتھوفن، سوٹیلو وغیرہ میں رہتے ہیں۔

انہوں نے تمام شہروں سے ہوائی جہازوں کاروں اور کوچز کے ذریعے کثیر تعداد مین اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ برطانیہ ، بیلجیئم، ناروے، بھارت،، پاکستان، مصر، ترکی، مراکش، الجزائر، امریکہ، ٹرینی ڈاڈ کے علماء اور مندوبین نے بھی شرکت کی۔ ہالینڈ کے تمام اخبارات نے نمایاں خبریں شائع کیں اور ریڈیو ٹیلی وژن نے کانفرنس کا پروگرام ریکارڈ کیا۔

اجلاس کے بعد ورلڈ اسلامک مشن کے انتخابات ہوئے جس میں مشن کیلئے سیکریٹری مولانا قمر الزمان اعظمی منتخب ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی (پاکستان) ، علاہ ارشد القادری (بھارت)، مولانا عبدالوہاب صدیقی بن علامہ محمد عمر اچھروی (برطانیہ) مولانا محمد غفران صدیقی (امریکہ) کو نائب صدر منتخب کیا گیا۔ سید غلام سیدین (برطانیہ) خازن منتخب ہوئے۔

مولانا نورانی نے ۱۹۸۰ء میں علامہ ارشد القادری کے ہمراہ گھر پر علماء و مشائخ کی موجودگی میں دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ آج دعوت اسلامی جو پھیل رہی ہے اس تمام کا ثواب مولانا کے نامہ اعمال میں لھا جائے گا ۔ کیونکہ یہ دعوت اسلامی کے بانیان میںسے ہیں۔

ہالینڈ کا تبلیغی دورہ مکمل کرنے کے بعد علامہ نورانی ماریطانیہ اور ماریشس کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے۔ یہاں سے آپ عمرہ کی ادائیگی اور زیارت حرمین شریفین کیلئے تشریف لے گئے، ہواں سے اپنا چھ ماہ کا طویل تبلیگی دورہ مکمل کرکے ۲۶ ، شعبان ۱۴۰۰ھ/۱۰ ، جولائی ۱۹۸۰ء بروز جمعرات کو بمبئی (بھارت) کے راستے کراچی پہنچے۔ ایئرپورٹ پرآپ کا پر جوش استقبال ہوا۔

جنوری ۱۹۸۱ء میں علامہ نورانی کینیا کے مسلمانوں کی دعوت پر تبلیغی دورہ کیلئے کراچی سے روانہ ہوئے آپ پہلے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے وہاں عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی حاضری دی۔ پھر عید میلاد النبی ﷺ کی ایک عظیم الشان تقریب سے خطاب کرنے کیلئے نیروبی (کینیا، افریقہ) تشریف لے گئے ، بعد ازاں آپ نے ماریشس، جنوبی افریقہ، زمبابوے، ملاوی، جزائر فجی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، ہانگ کانگ اور سنگا پور کے کامیاب تبلیغی دورے کئے۔ اس چھ ماہ کے تبلیغی دورہ میں نوے (۹۰) افراد آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

۱۸ ، دسمبر ۱۹۸۲ء کو علامہ نورانی ماریشس (افریقہ) کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے اس دورہ مین بہت سے قادیانی آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام اور طریقت قادریہ میں دست بیعت ہوئے۔ یہاں آپ نے تقریباً ۴۵ مذہبی اجتماعات سے خطاب کیا، یہ تمام پروگرام ریڈیو ماریشس سے نشر ہوئے۔ آپ نے علیمیہ مشینری کالج ماریشس کا معائنہ بھی کیا۔ (دی میسج، کراچی)

۳۰ جنوری ۱۹۸۳ء کو آپ نے دارالعلوم علیمیہ رضویہ ڈربن کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ افتتاح کے موقعہ پر مدینہ منورہ(سعودی عرب) سے آپ کے سسر محترم شیخ فضل الرحمن مدنی بھی تشریف لائے۔ علامہ نورانی نے یہاں تقریباً ۲۳ دن قیام کیا۔ ڈربن، کیپ ٹائون، جاہنسبرگ اور پریٹوریا (دارالخلافہ جنوبی افریقہ) میں سینکڑوں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔

ڈربن میں منعقدہ ایک عظیم الشان اجتماع میں چار سو قادیانیوں نے قادیانیت سے تائب ہو کر علامہ نورانی کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ان نو مسلموں کو ورلڈ اسلامک مشن کی طرف سے ترجہ قرآن کنزالایمان شریف کے نسخے (انگریزی ترجمہ والے) پیش کئے گئے۔ (نوائے وقت ملتان)

۱۱ فروری ۱۹۸۳ء شام کو ایمسٹرڈم سے تقریباً ۶۰ کلو میٹر دور مشہور شہر ہیگ میں جہاں انٹرنیشنل کورٹس آف جسٹس کا ہیڈ آفس ہے ایک عظیم الشان تین منزلہ عمارت کے ہال میں ’’جامعہ مدینۃ السلام‘‘ (کالج فار مسلم اسکالر) کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ پوری عمارت مقامی اور بیرونی مہمانوں سے کھچاکچھ بھری ہوئی تھی۔

۱۳، فروری ۱۹۸۳ء کو روٹرڈم میں ایک بڑا تبلیغی اجتماع ہوا، جس میں ہزارون کی تعدد میں مسلم مرد عورتیں ارو بچے شریک ہوئے۔ اسی طرح ہیگ کے مشہور تاریخی کانگریس ہال کے تبلیغی اجتماع میں تقریباً پانچ ہزار مسلم مرد عورتوں اور بچوں نے شرکت کی۔

ہالینڈ میں آپ کا ایک ماہ قیام رہا تقریباً ہر روز میلاد النبی ﷺ کے جلسوں سے خطاب کیا۔ اس تبلیغی دورہ میں ایک سو پچھتر عیسائی اور قادیانی آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ علامہ نورانی نے ہر ایک کا اسلامی نام رکھا اور سلسلہ قادریہ میں دست بیعت کیا۔

۲۲ ، اپریل ۱۹۸۳ء کو آپ لندن (برطانیہ) چلے گئے یہاں مسلم مساجد کی مشترکہ تنظیم کے اجلاس منعقد ہوئے اور اتحاد بین المسلمین کے لئے یہ کوشش بھر پور طور پر کامیاب ہوئی۔

اس کے بعد آپ نے گلاسکو (برطانیہ) نیویارک (امریکہ) ڈنمارک، مغربی جرمنی اور فرانس کا دورہ کیا فرانس میں آپ نے ختم نبوت کے موضوع پر ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ علامہ نورانی فرانس سے اپنے دورہ کے اخری مرحلہ میں بیلجئم پہنچے (روزنامہ جنگ لاہور)

۸ ، دسمبر ۱۹۸۳ء کو آپ کراچی سے ایمسٹر ڈم (ہالینڈ) میں جامع مسجد طیبہ کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے تشریف لے گئے۔ آپ نے ۱۱ دسمبر ۱۹۸۳ء کو جامع مسجد طیبہ کا باقاعدہ اففتاح فرمایا اور ایک عظیم اجتماع سے خطاب فرمایا۔ اس مسجد میں تقریباً ہزار آدمی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔ جامع مسجد طیبہ کی افتتاحی تقریب کے بعد علامہ نورانی نے قادیانیوں اور عیسائیوں کو بھی مسلمان کیا جو جرمنی برطانیہ، ماریشس، نیروبی (کینیا) ارو یورپ کے مختلف شہروں سے ہالینڈ پہنچے تھے۔

جنوری ۱۹۸۴ء میں علامہ نورانی نے ماریشس کا تبلیغی دورہ کیا۔ آپ نے اس دورہ میں کئی غیر مسلموں کو حلقہ اسلام میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کی اور اہم اجتماعات سے خطاب کیا۔

۱۹۸۴ء میں آپ نے ہالینڈ اوربرطانیہ کا تبلیغی دورہ کیا ہالینڈ میں آپ نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپ اور افریقہ کے مسلمان قادیانی فتنے کا بیج بونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانیوں نے اگر اپنا ہیڈ کوارٹر ربوہ سے ہالینڈ منتقل کرنے کی کوشش کی تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔

بعد ازاں آپ نے برطانیہ میں چھ مساجد کا سنگ بنیاد رکھا۔

۱۹۸۵ء میں ایمسٹرڈم (ہالینڈ) کی جامع مسجد پایہ تکمیل تک پہنچی اس مسجد پر تقریباً پچیس ملین پاکستانی روپے خرچ آئے۔ یورپ کی یہ پہلی مسجد ہے جس میں پانچوں وقت لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے یہ بھی مولانا نورانی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ایمسٹر ڈم کے یہودی میئر سے لائوڈ اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت حاصل کرکے دی۔ اس مسجد کے زیریں حصہ میں اسلامک کلچر سینٹر ہے جہاں پر نمازی فارغ وقت مین بیٹھ کر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں اس میں ایک اسلامک لائبریری بھی قائم ہے ۔ اس لائبریری میںایک سو سال پہلے ایک ڈچ کے ہاتھ کا عربی میں لکھا ہوا قرآن پاک کا نسخہ بھی موجود ہے۔ یہ نسخہ ہالینڈ کے پوپ نے مسجد کو تحفہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ لاہور)

جون ۱۹۸۷ء میں مولانا نورانی نے  ہالینڈ کا آٹھ روزہ تبلیغی دورہ کیا اس دوران آپ نے مذہبی اجتماعات سے خطاب کے علاوہ ایک مسجد کا افتتاح بھی فرمایا۔

دسمبر ۱۹۸۷ء میں آپ نے تھائی لینڈ، جرمنی، سوئیٹزر لینڈ اور افریقی ممالک کا تین ہفتہ کا تبلیغی دورہ فرمایا (جنگ لاہور)

جنوری ۱۹۸۸ء میں آپ نے ہالینڈ کا تبلیغی دورہ کے دوران ہالینڈ کے شہر سولو میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اسی سال ۱۲ ، جون ۱۹۸۸ء کو شمالی لندن میں ورلڈ اسلامک مشن کے تحت بننے والی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ واضح رہے کہ مشن کے تحت یورپ اور افریقہ میں اب تک درجنوں مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔

اگست ۱۹۸۸ء میں آپ نے برطانیہ کا تبلیغی دورہ کیا۔ لندن میں اپنے پانچ روزہ قیام کے دوران لیسٹر مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ جس کی تعمیر پر پندرہ لاکھ پونڈ سٹرینگ خرچ آئے گا۔

ستمبر ۱۹۸۹ء میں علامہ نورانی چھ روزہ دورہ پر مصر تشریف لے گئے جہاں انہوں نے جامعہ الازہر (قاہرہ) اور مساوات اسلامی یونیورسٹی کی سینٹ کے اجلاس میں شرکت کی۔ علامہ نورانی ان یونیوسٹیوں کی سینٹ کے رکن ہیں (نوائے وقت ملتان)

(ماخوذ : نورانی میاں کی تبلیغی سرگرمیاں مرتبہ خلیل احمد رانا مطبوعہ ۱۹۸۹ئ)

مولانا نورانی قومی اسمبلی کی ایٹمی دفاعی کمیٹی کے بھی رکن تھے جس کا نام سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کمیٹی رکھا گیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے بھر پور کام کیا، اس سلسلے میں ایک بھاری رقم فنڈ بھی مہیا کی ۔

سوال:  ایک موقعہ پر کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے ایٹمی راز چوری کیا ہے؟

جواب: مولانا نورانی نے فرمایا کہ ہم نے چودہ سو سال قبل ایٹمی طاقت حاصل کر لی تھی اور میزائل بنا لیا تھا کیا آپ نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد پر میزائل نما منارے بنے ہوتے ہیں دنیا نے ابھی اس سلسلے میں ترقی کی ہے مگر ہمارا کام سب سے قدیم ہے۔ (جاگ اٹھا ہے پاکستان پروگرام)

سیاسی خدمات:

یوں تو جمیعت علماء پاکستان ۱۹۴۸ء سے معرض وجود میں آچکی تھی لیکن اس کا حقیقی جنم ۱۹۷۰ء میں ہوا۔ مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت کی جانب سے پہلا سیاسی قوت کا مظاہرہ جون ۱۹۷۰ء میں ٹوبہ ٹیک سندھ میں ’’سنی کانفرنس‘‘ کی صورت میں کیا گیا جو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولوی عبدالحمید بھاشانی کی جانب سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو لینن گرڈ بنانے کے اعلان اور ’’کسان کانفرنس‘‘ کا جواب تھا۔ سنی کانفرنس میں ہی آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کای گیا۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں جمیعت علماء پاکستان نے ’’چابی‘‘ کے  نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ (روزنامہ امت کراچی ۱۲ ، دسمبر ۲۰۰۳ئ) اب تک جمعیت فقط مذہبی جماعت تھی لیکن علامہ نورانی نے مذہبی کے ساتھ سیاسی قوت بنا کر ملک گیر جماعت بنا یا۔

مولانا نورانی نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بالآخر اسمبلی میں جمیعت کے پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں فتنہ قادیانیت کے خلاف مولانا نے قومی اسمبلی کے فلور پر تاریخی تقریرکی، پاکستان کے آئین میں مسلمان کی مختصر اور جامع تعریف کو شامل کرائی ارو ان کی عملی جد و جہد اور رہنمائی کے سبب ۳۰ جون ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش کی اور اسی قرارداد کی بنیاد پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

اس قرار داد پر حزب اختلاف کے ۲۲ افراد (جن کی تعداد بعد میں ۳۷ ہوگئی) نے دستخط کئے۔ البتہ جمیعت علماء اسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی دیوبندی اور مولوی عبدالحکیم دیو بندی نے اس قرار داد پر دستخط نہیں کئے۔ اس تحریک میں علامہ نورانی کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کا ممبر بھی منتخب کیا گیا۔ آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کی۔

آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختم نبوت کے مسئلے سے انہیں آگاہ کیا۔ اس تحریک میں تین ماہ کے دوران آپ نے صرف پنجاب کے علاقے میں تقریباً چالیس ہزار میل کا دورہ کیا۔ ڈیڑھ سو شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں عام جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔

(کتاب مولانا شاہ احمد نورانی)

(۱۹۷۳ء می انہوں نے پیپلز پارٹی کے سوشلزم اور بھٹو ازم کے خلاف ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ آپ نے فرمایا پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا اس لئے یہاں نظام مصطفی ﷺ کے سوا کوئی غیر اسلامی نظام ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔)

وہ گھڑی آن پہنچی جس کا انتظار ۱۹۰۱ء سے مسلم امہ کو تھا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے جس طرح مسیلمہ بن کذاب کو اس کے انجام سے دوچار کیا تھا۔ آج انہیں کی اولاد سے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی قرار داد کے مطابق حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا اور یوں امت مسلمہ کا خواب ۷۳ سلا کے بعد حقیقت میں ڈھل گیا اسمبلی کے اس تاریخی فیصلے کے نتیجے میں ہزار کے قریب اندرون و بیرون ملک مرزائی لاہوری وغیرہ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔

جمعیت کے نمائندوں نے مسلمان کی جو متفقہ تعریف تر تیب دی تھی اور اسے اسمبلی مین پیش کیا گیا تھا وہ جوں کی توں صدر اور وزیراعظم کے حلف نامے میں شامل کی گئی ہے ۔ اس طرح صدارت اور وزارت عظمی کے عہدوں پر منکرین ختم نبوت کے چوردروازے سے داخلے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں ۔ اب جمعیت نے یہ مطالبات کئے ہیں :

٭     اسلامی دفعات کو آئنی تحفظ دیا جائے ۔

٭     عائلی قوانین منسوخ کئے جائیں ۔

٭     مسلح افواج کے سر براہوں کے لئے بھی مسلمان ہونے کی شرط لگائی جائے ۔

٭     مسلمان کے مرتد ہونے پر پابندی لگائی جائے ۔

 (مولانا نورانی ایک عالم ، ایک سیاستدان ص۳۷،ص۴۷مطبوعہ کراچی ۱۹۹۹ئ)

مولانا کے انتقال کا غم تازہ ہے ، دل افسردہ ہے آنکھیں دکھ درد میں تر ہیں ہر طرف اندھیر ا نظر آرہا ہے ،ملک و ملت یتیم ہو گئے ، ڈھونڈے بھی کوئی ان کا نعم البدل نظر نہیں اارہا ہے ۔پور ا عالم اسلام غم میں نڈھال ہے۔ شفیع الزمان صدیقی نے سچ کہا ہے:

تھے مسلک سنی کا وہ تابندہ ستارہ

شائستہ تھے گفتار میں ، تھی فن کے روانی

ان جیسا کبھی پیدا نہ ہوگا کوئی عالم

اک شاہ نورانی تھے، فقط شاہ نورانی

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنازہ میں ایسے لوگ بھی نظر آئے جنہوں نے ان کی زندگی میں ان کی قدر نہ کی ، اقتدار کی ہوس اور اناپرستی نے انہیں جماعتی انتشار کا سبب بنایا۔ مرزا مقصود یار خان اپنے کالم ’’قلندرانہ صفات کے حامل‘‘میںسچ لکھتے ہیں :

مولانا ہمیشہ عوام کے حقوق غضب کر نے والے حکمرانوں کے لئے ایک تازیانہ بنے رہے ۔بے شمار لوگ مولانا کے باعث اقتدار کی سیڑھیاں چڑھے اور ساتھ چھوڑ گئے لیکن مولانا کے ماتھے پر ایک شکن نہ ابھری اور نہ کوئی شکوہ کیا ان کے لئے دعائے خیر کی لیکن ساتھ چھوڑنے والے اقتدار کی بھول بھلیوں میں ایسے کھوئے کہ ااج ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہے لیکن مولانا اپنی جگہ مضبوط پتھر کی طرح جمے رہے ، اپنے ارادے اور قول کے پکے ، خودداری سے بنی شخصیت جس کے لئے راہیں خودوا ہوتی گئیں صداقت کی شرافت کی ۔ (روز نامہ جراٗت)

او رکسی نے کیا خوب کہا ہے :

لوگ کیا کیا بک گئے تو نے نہیں بیچے اصول

تیرے دامن کو بہت ہے دولت عشق رسول

ہر دور و عہد میں مولانا کو وزارت ، گورنری اور پلاٹ پرمٹ کی پیشکش ہوئی ۔اقتدار کی لونڈی نے باربار چوکھٹ پر دستک دی لیکن آپ نے کمال استقلال سے ہر بار پیشکش ٹھکرادی اور چور دروازے سے اقتدار میںآنے کو جمہوریت کے منافی قرار دیا۔

مولانا نورانی نے صدر صدام حسین سے ملاقات کی اور جنگ بندی کے لئے مفید مشورے فراہم کئے ۔ ایران کو پیش کش کی گئی مگر وہ رضا مند نہ ہوا اور حملے جاری رکھے تو مولانا نورانی کے مشورے سے صدام حسین نے حکم دیا کہ عراقی فوج میں جو شیعہ ہیں ان کو آگے ایرانی فوج کے مقابل تعینات کیا جائے اور جو سنی ہے اس کو باڈر سے ہٹا دیا جائے اس اقدام کے نتیجہ میں ایران نے دیکھا کہ شیعہ شیعہ کو ماررہا ہے وہ فوری رضا مند ہو گیا جنگ بندی کے لئے اور یوں چند سالو ں پر محیط جنگ کا خاتمہ ہو گیا ۔مولانا نورانی کی اس فراست اور جنگ کے خاتمہ پر اقوام متحدہ نے مولانا نورانی کو عالمی امن کی سند جاری کی ۔

۲۔     لندن میںآپ کو بغداد (عراق )میں ہونے والی علماء کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ مل گیا۔موتمر الشعبی الاسلامی یا پاپولر اسلامک کانفرنس ۱۰تا ۱۵، اپریل ۱۹۸۳ء کو عراق میں ہو رہی تھی ۔ صدر صدام حسین نے اس میں شرکت مسلم علماء کو دعوت دی تھی کہ وہ آکر جنگ بند کرانے کا راستہ بتائیں اور دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کریں ۔ کانفرنس چند رو ز کے لئے ملتوی ہوگئی پھر ۱۶ ، اپریل ۱۹۸۳ء کو شروع ہوئی ۔ علامہ نارانی نے کانفرنس سے فکر انگیز تاریخی خطاب کیا ۔

 (ماہنامہ دی میسج کراچی )

۲۴، مارچ ۱۹۸۶ء کو ایران عراق جنگ ختم کرانے کے سلسلے میں ’’ورلڈعلماء کانفرنس ‘‘ کی قائم کردہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے بغداد (عراق )گئے ۔ (روز نامہ جنگ لاہور)

جولائی ۱۹۸۷ء کو آپ نے وزارت اوقا ف عراق کی دعوت پر ۱۳روزہ تبلیغی دورہ کیا ۔

اکتوبر ۱۹۸۷ء کو آپ نے جمیعت علماء پاکستان کے وفد کے ساتھ لیبیا میں منعقدہ ’’بین الاقوامی اسلامی کانفرنس ‘‘مین شرکت کی اور ایران عراق جنگ بند کرانے کے بارے میں لیبیا کے سر براہ کرنل معمر قزافی سے ملاقات کی ۔(جنگ لاہور)

۱۸، جون ۱۹۸۸ء کو آپ ایران عراق جنگ کے خاتمہ کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پیر یز ڈی کو ٹیار سے ملاقات کرنے کیلئے لاہور سے (براستہ کراچی)نیو یارک (امریکہ )تشریف لے گئے ۔ (توز نامہ نوائے وقت ملتان )

۱۹۸۰ء کی دھائی میں پاکستان کی سیاست میں لسانیت اور علاقائی رنگ اتنا غالب آیا کہ ’’مہاجر قومی موومنٹ ‘‘کی بنیاد ڈالی گئی ۔ عصبیت و نفرت کی سیاست ہونے لگی ۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی پاکستان کی وہ واحد شخصیت تھی کہ جس نے مہاجر قومی موومنٹ کے سیاسی و سماجی کردار پر بھر پور تنفید کی اور قوم کو ااگاہ کیا کہ ملک میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی اس سازش کے تانے بانے بہت گہرے ہیں ۔

علامہ کی اس راست گوئی ، بے باکی اور جراٗت اظہار کا پورا کراچی گواہ ہے انہوں نے صوبائی علاقائی لسانی گروہی سیاست کے خلاف بھر پور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ سندھ یونٹ کے نام پر لسانی فسادات کے موقع پر سندھ بھر کا دورہ کیا یہ وہ وقت تھا کہ جب حیدرآباد کا پکا قلعہ ، سانحہ علی گڑھ جیسے واقعات نے انسانیت کا چہرہ خون االود کر دیا تھا علامہ نورانی نے اس موقع پر الطاف حسین کی سیاسی ناپختگی اور دہشت گردانہ عزائم کی بھر پور مخالفت کی یہ وہ وقت تھا کہ انہوں نے کراچی کا کوئی ایسا علاقہ نہیں تھا کہ جہاں اس وقت کی مہاجر قومی موومنٹ کی ریاست میں ریاست قائم کرنے کی کوشش کی مخالفت نہیں کی ہو ۔ کمال کی بات یہ تھی کہ اس بدترین دور میں جب ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ‘‘کے نعرے بلند تھے ۔ علاقوں میں آہنی گیٹ تعمیر کر کے عوام کو آزادانہ نقل و حرکت سے روک دیا گیا تھا ، باشعور طبقہ فرد واحد کے مظالم تلے دبا ہوا تھا سیکٹر اور یو نٹ کی سطح پر انسانیت کی تذلیل کی جارہی تھی تو ایسے میں صرف علامہ شاہ احمد نورانی کی وہ واحد شخصیت تھی کہ جس نے سیاسی پلیٹ فارم پر آواز حق بلند کی اس جراٗت اظہار کا خمیازہ یہ ادا کرنا پڑا کہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے ، ان کی بے حرمتی کی گئی ، ان پر جھوٹے الزامات عائد کئے گئے ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے اس عرصے میں۷ہزار سے زائد کھلے مقامات پر اجتماعات منعقد کر کے ایم کیو ایم کی دہشت گردی بھتہ خوری اور قتل عام کی سر گرمیوں کی بیخ کنی کی ۔انہیں قتل کی دھمکیوں کا سلسلہ آخر تک جاری رہا لیکن اس کے باوجود اس مرد خدانے کبھی بھی سیکورٹی گارڈ اور مسلح افراد کا دستہ اپنے ساتھ نہیں رکھا ۔ (روز نامہ امت کراچی ، ۱۲، دسمبر ۲۰۰۳ ئ)ایم کیو ایم کی اصلیت جب ظاہر ہوئی تو گورنمنٹ نے صفایا کیا بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے ٹارچرسیل نجی جیل ، اور بھاری مقدار میںاسلحہ اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اور بدنام زمانہ تنظیم نے تنظیم کا نام تبدیل کر کے ’’متحدہ قومی موومنٹ ‘‘رکھا گو یا اس کی شکست اور نورانی و حق کی فتح ہوئی گویا تنظیم نے دبے لفظوں میں اپنی دہشت گر پالیسی ، نفرت انگیز سیاست سے دست بردار ہوکر اب دوسری قوموں کو تسلیم کر لیا ہے ورنہ کبھی ان ہی قوموں کی گردن زنی جائز تھی ۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں جب کہ سب قومیت کو بالآخر قبول ہی کرنا تھا تو پہلے اس قدر بے دردی سفا کی سے قومیت کے نام پر قتل عام کیوں کیا گیا؟

علامہ اقبال کا درج ذیل شعر ان کی زندگی کی عکاسی کر رہا ہے یہ شعراکثر وہ اسٹوڈنٹس کو ڈائر یوں پر لکھ کر دیتے تھے۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرہنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و حجاز

۴۔     آخری دور میں انہوں نے مذہبی سیاسی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحدو منظم کر کے ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘قائم کی۔ مذہبی قوت کو متحدہ کر کے کئی محاذوں پر کام کیا (۱)یہودی لابی این جی اوز (۲)لادینی قوت (۳) ملک دشمن عناصر (۴)اور دہشت گرد مذہبی تنظیموں کے خلاف بھر پور کام کیا ۔ جس کے سبب ملک میں امن وامان رہا ، آئے دن مسجد اور امام بارگاہ پر حملہ قتل وگارتگری کنٹرول میںآئی ۔ ملک امن کا گہوارہ بن گیا۔ سیاسی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں سے بالکل الگ کرنا ایک بہت بڑا انقلابی قدم ہے۔

سیاست کے حوالہ سے ان کی چا ر اہم و منفرد خدمات کو اختصار کے پیش نظر رکھتے ہوئے درج کیا ہے ۔ جس سے ان کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ تمام انقلابی کام مولانا کی ’’تجدیدی شخصیت ‘‘کو اجا گر کر رہے ہیں ۔

مولانا نے اہل سنت و جماعت کو اپنی عظیم سیاسی تاریخ دی ہے یہ جماعت و جمعیت کا سیاسی اثاثہ ہے ۔ اس ’’نورانی تاریخ ‘‘کو آنے والی نسل کے لئے محفوظ ہو گا تاکہ وہ نورانی سیاست سے رہنمائی پاتے رہیں اور اپنے کردار کو ممتاز و منفرد بناتے رہیں ۔

عادات و خصائل :

قرآن حکیم و قصیدہ بردہ شریف کے عامل ، شیخ کامل ، سادہ طبیعت ، نرم مزاج ، دھیمی آواز ، شیرین گفتار ، روانگی و شائستگی سے آراستہ ، گندمی رنگ ، باریک ہونٹ ، نورانی چہرہ ، سنت نبوی سے آراستہ ، اخلاق مصطفوی کے پیکر ، اخلاص کی جیتی جاگتی تصویر ، مہمان نواز ، غریب پرور ، متوکل ، خوف خدا و عشق مصطفی سے سر شار ، مد برانہ سوچ ، قائدانہ صلاحتیوں سے ممتاز تھے ۔اقلیم سیاست کے ایک ایسے عظیم کردار تھے کہ اصول پسندی حق گوئی و بے باکی اور جراٗت ان کا نشان تھا ۔ شخصی حکمرانی ہو یا فوجی آمروں کی من مانیاں علامہ نے ایک بااصول ، راست گو، نڈرسیاسی ،مدبراور قائد کی صورت میں نہ صرف کلمہ حق ادا کیا بلکہ اس کے لئے ہر طرح کی صعوبت مشکل برداشت کی ۔ مولانا دنیائے اسلام میںکلمہ حق بلند کرنے والے کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے ۔

ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی نے اپنے قلم سے مولانا کی تصویر اس طرح کھینچی ہے ، وہ رقمطر از ہیں :

’’متحدہ قومحاذ‘‘ کی تربیت و تشکیل میں ان کا نمایاں حصہ ہے ۔ ۱۹۷۳ء کی دستور سازی میں ان کی سیاسی کاوشیں اپنا رنگ دکھاتی رہیں ۔ اجتماعی جدوجہد کا فن انہیں خوب آتا ہے ۔ سیاسی باریکیوں اور نزاکتوں کو خاموشی سے گذرنے نہیں دیتے۔ قوت فیصلہ اور کار سے بہرہ ور ہیں ۔ بعض مواقع پر انہوں نے فیصلہ کن قدم اٹھایا اور تنظیم کو بکھڑنے سے بچایا ۔ قومی مسائل پر سیاسی نقطہ نظر سے غور و فکر کرتے تھے ۔ پارلیمانی مباحثنے ان کے جو ہر نکھاردیئے ہیں ۔ (ہفت روز ہ زندگی کراچی ۱۹۷۷ئ)

محمد ذکی صاحب ایڈوکیٹ اپنے مضمون میں مولانا کی سادگی سے متعلق لکھتے ہیں :

۱۹۷۱ء میں کراچی یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ ایک بار کراچی جانے کے لئے حیدرآباد سے وین میں بیٹھا تو دیکھا مولانا بھی ہمسفر ہیں ، اس وقت مولانا قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ایسی جماعت کے سر براہ تھے جس کے کئی اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میںموجود تھے ۔ ان دنوں کراچی حیدرآباد کے شہروں میں مولانا اور ان کی جمعیت کا زبردست اثر و رسوخ تھا ۔ مولانا نورانی کو کمال سادگی سے عام مسافر وین میں سفر کرتے دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی ۔ پاکستان میںسیاستدان پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے رکن بن جاتے ہیں تو ان کے انداز اطوار اور تیور بدل جاتے ہیں مگر اقتدار اور ایوانوں کی جہلمل نے مولانا جیسی عظیم شخصیت پر کبھی اثر انداز نہیں ہو سکی ۔ (جراٗت کراچی ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ )

ورلڈ اسلامک مشن شاخ برطانیہ کے صدر عبدالروٗف مصطفائی نے مولانا نورانی کے سوئم میں خطاب کرتے ہوئے بتایا : مولانا نورانی کو ہم ہر سال لاکھوں پونڈ جمع کر کے دیتے تھے لیکن وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے ۔

ایک کالم نویس لکھتے ہیں :مولانا کے مخالف بھی یہ الزام کبھی نہ لگا سکے کہ وہ دیگربے شمار سیاستدانوں کی طرح ’’لوٹا کریسی ‘‘اور ’’مالی کرپشن ‘‘ میںمبتلا ہو کر اپنے دامن کو داغ دار کرتے رہتے ہیں ان میںسب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سیاست میںشرافت ، وضع داری، صبر و تحمل کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔وہ انتقامی سیاست اور اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیشہ گریز کرتے رہے ہیں ۔ مولانا نے میری اطلاع کے مطابق اپنے سیاسی مکتب میں کئی نوآمیز سیاسی کارکنوں کی تربیت کا فرض بھی ادا کیا ہے۔ دوست محمد فیضی ، محمد صدیق راٹھور ، حافظ محمد تقی ، ظہور الحسن شہید بھوپالی (ایڈیٹر افق کراچی )بھی ان ہی کے ’’مکتب سیاست ‘‘سے بہت کچھ سیکھ کر نکلے تھے ۔(روز نامہ آغاز کراچی ، ۱۳، دسمبر ۲۰۰۳ئ)

حقیقت تو یہ ہے کہ جمعیت علماء پاکستان میں تمام وہ رہنما جو سیاسی سوج بوجھ رکھتے ہیں وہ سبھی امام نورانی کے تربیت یافتہ ہیں ۔ مثلا: پروفیسر شاہ فرید الحق ، ملک محمد اکبر ساقی ، رفیق احمد باجوہ ایڈوکیٹ ۔ حاجی حنیف طیب ۔ جاوید چانڈیو ۔ ڈاکٹر محمد زبیر ۔سلیم قادری ۔ محمد عثمان نوری وغیرہ وغیرہ

وہ زیرک سیاستدان ، علوم قدیم و جدید کے ماہر ، درویش صفت ،متوکل فقیر کے علاوہ شیخ طریقت بھی تھے ۔ لیکن وہ روایتی پیر نہیں تھے ۔ اپنی نمائش  وایٹوٹائزمنٹ کے سخت مخالف تھے ، وہ اپنی نیکی کی نمائش نہیں کرتے تھے ،وہ تعریف و توصیف پر خوش ہونے والے پیر نہیں تھے ۔ اپنی نمائش کے لئے انہوں نے کبھی بھی کوئی راہ ہموار نہیں کی ۔ ہمیشہ کسر نفسی عاجزی تواضع و سادگی سے کام لیتے تھے ۔ اپنی دینی کاوشوں کو چھپاتے رہتے تھے ۔ کسی کے زورداراصرار کے بعد بیعت میں لیتے تھے ۔ لیکن پھر بھی اس سے شریعت مطہرہ پر سختی سے پابند ی کا عہد لیتے تھے ۔ کچھی میمن مسجد صدر کے متصل ماسٹر کے فلیٹ میں سے ایک پرانے معمولی اور کرائے کے فلیٹ میں پوری زندگی درویشانہ بسر کی ۔

۱۹۷۹ء میں جہانگیر پارک صدر میں ’’نورانی شبینہ اور اجتماعی دعا‘‘ کے پروگرام کا اجراء کر کے ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسلمانوں کو شب بیداری اور تلاوت قرآن سماعت کی سعادت سے بہرہ ور کرتے اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا ۔ وہ نابغہ روز گار شخصیت کے مالک تھے ان کی شخصیت کا ہر پہلوروشن اور شاندار ہے اور ہر ایک وسعت کا متقاضی ہے ۔

فقیر کو طالب علمی کے زمانے سے تقریبا ۱۵ سال قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، لاڑکانہ میںجمعیت میںکام کیا ان کے پراگرام اٹینڈ کئے ۔ لاڑکانہ جہاد کانفرنس میں جب ان کو اسٹیج پر دعوت دے رہا تھا تو اس وقت عوام سے گذارش کی کہ ان کا کھڑے ہو کر استقبال کریں تو فوری طور پر جناح باغ میںہزاروں لوگ کھڑے ہو کر ان کا شاندار استقبال کیا تو نورانی میاں نے اسی وقت دھیمے آواز میں ایسا کرنے سے مجھے منع کیا ۔ درگاہ عالیہ راشدیہ پیر جو گوٹھ کے سالانہ جلسہ ۲۷، رجب کو ہر سال دیکھا ، درگاہ مشوری شریف میں حاضری دیتے ہوئے دیکھا ، جناح باغ لاڑکانہ میں ولولہ انگیز اور فکر انگیز خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔ لیکن ہر بار انہیں عظیم انسان پایا ، عالم اسلام کا عظیم سرمایہ پایا۔

القابات و خطابات :

مولانا نورانی کو علماء و مشائخ اور عوام اہل سنت مختلف القابات و خطابت سے یاد کرتے تھے یقینا وہ ان خطابات کے حقیقی معنوں میں صحیح حقدار تھے ۔ ان میںسے بعض یہ ہیں :

قائد اہل سنت ، قائد ملت اسلامیہ، امام انقلاب ، مجاہد اسلام حق و صداقت کی نشانی ، غازی ختم نبوت عالمی مبلغ اسلام ، یاد گار اسلا ف ، نابغہ روزگار ، پندرہویں صدی کے مجددوغیرہ وغیرہ

خیال و فکر کی سچائیاں بھی شامل ہیں

میرے لہو میں میرے شجرہ نسب کی طرح

وصال :

قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ۱۶، شوال ۱۴۲۴ھ ؍ ۱۱، دسمبر ۲۰۰۳ء بروز جمعرات اسلام آباد میںپونے بارہ بجے دوپہر کو ۷۶ سال کی عمر میںانتقال کیا۔پاک فضائیہ کے سی ون خصوصی طیارے کے ذریعے جسم اقدس اسلام آباد سے کراچی پہنچایا گیا۔ ایئر پورٹ پر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی موبائل ایمبولنس خدمت کے لئے کھڑ ی تھی جس نے تدفین تک خدمت انجام دی ۔

جمعہ کے روز نشتر پارک میں چاڑھے چار بجے نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ امامت کے فرائض نورانی میاں کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد انس صدیقی نے انجام دیئے ۔ اخبارات نے لکھا کہ ’’پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی  ’’دس کلو میٹر تک جلوس جنازہ تھا ۔ فضا درود و سلام سے گونج اٹھی ، آہوں سسکیوں میں سپرد خاک کیا گیا ۔ نماز جنازہ اور تدفین میں انسانوں کا سمندر امڈآیا ۔ کراچی حیدرآبادکی اہم مارکیٹیں بند ، تین دن سوگ کا اعلان ، دینی سیاسی تنظیموں کی مصروفیات موقوف ،پورا ملک افسر دہ و غمگین نظر آیا۔

پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ ایک ساتھی نے پوچھا کہ کس کا انتقال ہوگیا ہے کیوں کہ ہماری بہن کا ہالینڈ سے فون آیا تھا وہ بتا رہی تھیں کہ وہاں مسجد سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں پاکستان میں کسی بزرگ کے انتقال پر پوری دنیا سے مسلمانو ں نے نماز جنازہ میں شرکت کی کوشش کی لیکن فقط لندن ، کینیڈا اور سعودی عرب سے بہت کم لوگ شریک ہو سکے ۔ مولانا نورانی کے انتقال پر سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نثار احمد کھوڑو (صدر پیپلز پارٹی صوبہ سندھ ) کی تحریک پر سندھ اسمبلی کا اجلاس ۱۷، دسمبر تک ملتوی ہوا۔ امام مسجد اقصی (بیت المقدس )شیخ محمد صیام نے نورانی میاں کے انتقال پر کراچی میںجلسہ ملتوی کر دیا۔ انتقال کی اطلاع ملتے ہی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی رہی ۔

تبع تابعی حضرت سید عبداللہ شاہ غازی (متوفی ۱۵۱ھ )کی درگاہ مقدس کی سیڑھیوں سے متصل والدہ ماجدہ کے قدموں میں لاکھوں سو گواران کی موجودگی میںتدفین عمل میں آئی ۔

بروز اتوار امیر خسروپارک کلفٹن میں فاتحہ سوئم کی تقریب صبح ۹ بجے سے منعقد ہوئی ، جس میںقائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کے جو ان سال بڑے صاحبزادے مولانا محمد انس صدیقی نورانی کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا اور قطب مدینہ کے جانشین شیخ محمد رضوان مدنی نے انہیں دستار فضیلت باندھی ۔ اور خلافت سے نواز ادرودوسلام کا ورد نعرہ تکبیر و رسالت کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے ۔ انس نورانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اپنے والد کے مشن کو جاری رکھیں گے ۔‘‘

وفاقی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ، پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری ، پنجاب کے سابق وزیر اعلی میاں منظور احمد وٹو ، ڈاکٹر مولانا سر فراز احمد نعیمی لاہور ، سردار شیر باز خان مزاری ، ناظم کراچی نعمت اللہ خان ، نائب ناظم کراچی طارق حسن، ڈاکٹر صفدر عباسی (لاڑکانہ ) شیعہ عالم حسن ترابی ، مفتی ابوبکر عطاری ،ریاض حسین نجفی (شیعہ ) علامہ سیدعرفان حسین شاہ مشہدی و دیگر نے شرکت کی۔

سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کا تعزیتی پیغام سابق وزیراعلی سندھ آفتاب شعبان میرانی نے مولانا انس کو پہنچایا ۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم پاکستان میر ظفر خان جمالی کے تعزیتی بیانات اخبارات میں شائع ہوئے ۔

نورانی چہلم :

۱۸، جنوری ۲۰۰۴ ء بروز اتوار امیر خسرو پارک کلفٹن بالمقابل درگاہ عبداللہ شاہ غازی کراچی میں منعقد ہوا پورا پارک بھرا ہوا تھا تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ملک و بیرون ملک سے علماء و مشائخ اہل سنت اور سیاسی سماجی شخصیات نے شرکت کی اور اپنے عظیم قائد کو خراج عقیدے پیش کیا۔

ساراجہاںرویاہے

نہ صرف آنکھیں ہیں پرنم بلکہ دل رویا ہے

ہم نے در نایاب ، ملت کا کنول کھویا ہے

جس کی پرواز تھی شاہین کی نجظروں سے بلند

اب خاکی شبستان میں جا سویا ہے

جس کی تدبیر و سیاست تھی شبنم سے شفاف

اس کا پس مرگ بھی رحمت نے کفن دھویا ہے

ہے کانوں میں اب تک اس کی تلاوت کیمٹھاس

اس کا اہنگ خطاب بھی یوں گویا ہے

اہل سنت کے سپوت ہوں گروقف چمن

ہے وہ صدیوں کی بہار اس نے جو بویا ہے

’’آصف ‘‘ تم ہی نہیں اس کی فرقت میں حزیں

اس کی الفت میں تو سارا جہاں رویا ہے

 

تجویزوآراء