سید الاتقیاء حضرت علامہ مولانا تحسین رضا قادری
ولادت
ماہر علوم عقلیہ نقلیہ حضرت مولانا تحسین رضا خاں قادری رضوی بن حضرت مولانا حسنین رضا بن استاد زمن مولانا حسن رضا بن مولانا مفتی نقی علی خاں (والد ماجد امام احمد رضا بریلوی) کی ولادت ۴؍شعبان المعظم ۱۹۳۰ء کومحلہ سوداگران رضا نگر بریلی شریف میں ہوئی۔
خاندانی حالات
حضرت علامہ تحسین رضا بریلوی کے ج امجد مولانا حسن رضا بریلوی ۱۳۷۶ھ میں پیدا ہوئے فضل وکمال اور فقر و تصوف کو آپ کے خاندانی خصوصیات میں سمجھنا چاہیے۔ مولانا حسن رضا بریلوی نے اپنے برادر اکبر امام احمد رضا فاضل بریلوی اور پدر بزرگوار مفتی نقی علی خاں علیہ الرحمۃ کے خزائن علم و عقل سے مستفیض تھے۔ اور جواہر معافی وفضل سے بہرہ ور تھے۔ علاوہ ازیں بریلی میں اپنے اخی معظم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی فیض صحبت سے فیض معنوی حاصل کیا۔
استاد زمن مولانا حسن رضا کو شعر و شاعری کا شوق ابتداء ہی سے تھا۔ کچھ روز بطور خود مشق کرتے رہے، اس کے بعد مرز داغ دہلوی کو اپنا کلام سُنانا شروع کردیا اور ایک مدت تک رامپور میں رہ کر اُستاد کے گلشن سخن سے گلچیں ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بجائے خود اُستاد مستند قرار پائے۔ ۱۳۲۶ھ میں انتقال ہوا [1] ۔
علامہ تحسین رضا کے والد مولانا حسین رضا علیہ الرحمہ حضور مفتی اعظم سے صرف چھ ماہ بڑےتھے۔ تقریباً اکیانوے برس کی عمر پائی۔ تعلیم اسلام بریلی میں حاصل کی۔ اور امام احمد رضا قادری بریلوی سے شرف تلمذ واجازت وخلافت حاصل تھی۔ نیز معقولات کی کچھ کتابیں رامپور جاکر وہاں کے مشہور عالم مولانا ابو الوقت محمد ہدایت رسول نوری رضوی رام پوری سے پڑھیں، مولانا مفتی ارشاد حسین مجددی رامپوری کے حلقۂ درس میں بھی شامل ہوئے۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک دارالعلوم منظر اسلام میں درس بھی دیا۔ آپ سے اکتساب فیض کرنے والوں میں مشاہیر علما اور فضلاءہیں [2] ۔
جماعت رجائے مصطفیٰ کی شاندار خدمات میںمولانا حسنین رضا کا نما یاں حصہ ہے آپ نے جماعت انصار الاسلام بھی قائم کی۔ حضور مفتی اعظم کے دوش بدوش رہ کر شدھی تحریک کا سد باب کیا اور سردھڑ کی بازی لگادی۔
تعلیم وتربیت
حضرت علامہ تحسین رضا خاں کےوالدماجدنے اپنی خسرال محلہ کا نکرٹولہ پرانا شہر بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آپ نے اپنی ننہال ہی میں بچپن اور جوانی کا زمانہ گزارا اور اب بھی وہیں قیام پذیر ہیں۔ علامہ تحسین رضا نے ابتداً سید شبیر علی بریلوی مرحوم سے قاعدہ بغدادی پڑھا پھر ایک مکتب میں قرآن کریم اور اردو حساب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ فارسی کی ابتدائی کتابیں پرانے شہر کےایک مدرسہ میں پڑھیں جو اکبری مسجد واقع محلہ گھیر جعفر خاں میں قائم تھا۔ عربی کی تعلیم کےلیے والد بزگوار نے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی اور بعد منظر اسلام میں داخہ کرادیا، دورۂ حدیث شریف کے لیے والد ماجد کی خواہش کےمطابق علامہ تحسین رضا جامعہ رضویہ مظہریہ اسلام فیصل آباد (پاکستان) تشریف لے گئے۔ اور وہاں دورۂ حدیث کی کتابیں مولانا محمد سردار احمد رضوی علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔
فراغت
حضرت مولانا تحسین رضا خاں شعبان المعظم ۱۳۷۵ھ میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے سند فراغت حاصل کر کے بریلی شریف واپس ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں مولوی، ۱۹۵۰ء میں عالم، ۱۹۵۱ء میں منشی، ۱۹۵۲ء میں فاضل ادب، ۱۹۵۴ء میں کامل کے امتحانات دیئے۔
اساتذہ کرام
۱۔ صدر الشریعہ مولانا امجدعلی رضوی اعظمی [3]
۲۔ حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضانوری بریلوی
۳۔ محدث اعظم پاکستا مولانامحمد سردار احمد رضوی فیصل آباد
۴۔ شمس العلماء مفتی قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپوری
۵۔ شیخ المعقولات مولانا سردار علی خاں رضوی بریلوی
۶۔ حضرت مولانا غلام یٰسین رضوی بریلوی
۷۔ حضرت مولانا مفتی وقار الدین رضوی، دارالعلوم امجدیہ کراچی
۸۔ شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی
تدریسی زندگی کا آغاز
حضرت علامہ تحسین رضا نے حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے حکم پر فراغت سے قبل ۱۹۵۲ء میں دارالعلوم مظہر اسلام بریلی میں تدریسی سلسلہ کا آغاز کردیا۔ پھر اگست ۱۹۵۶ء مین فیصل آبا (پاکستان) چلےگئے اور تقریباً آٹھ ماہ رہکر دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ فیصل آباد سےآنے کے بعد دارالعلوم مظہر اسلام بریلی میں درس دینا شروع کیا۔ علامہ تحسین رضا نے مظہر اسلام میں ۱۹۷۲ء تک درس نظامیہ کی تعلیم دی۔ پھر و سال اسی مظہر اسلام بریلی میں صدر المدرسین کے فرائض انجام دیئے۔
علامہ تحسین رضا بعض حالات کی بناء پر ۱۹۷۵ء میں مظہر اسلام سے ملازمت ترک کرکے دارالعلوم منظر اسلام میں بحیثیت صدر مدرس مقرر ہوئے۔ منظر اسلام میں سات سال تدریسی فرائض انجام دیئے۔ ہزاروں طلبہ نے علمی استفادہ کیا۔ بعض ان میں لائق وفائق عالم وفاضل، محدث وفقیہہ اور مفتی ہوئے جن سے لک و بیرون ملک کی علمی دانش گاہیں اور درس گاہیں آج بھی آباد اور فیض بار ہیں۔
۱۹۸۲ء میں جامعہ نوریہ رضویہ بریلی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے چلانے کی ساری ذمہ داری علامہ تحسین رضا کے سپد کردی گئی۔ تادم تحریر جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہیں۔
حج وزیارت
حضرت علامہ تحسین رضا رضوی نوری بریلوی ۱۹۸۶ء میں زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔
عقد مسنون
علامہ تحسین رضا کا عقد مسنون جناب سعید اللہ خاں بریلوی کی صاحبزادی سے ۱۵؍ذی قعدہ ۱۳۸۶ھ؍ ۲۶؍فروری ۱۹۶۷ء بروز اتوار ہوا۔ اولاد امجاد کےنام مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ مولانا حسان رضا خاں رضوی
۲۔ رضوان رضا خاں رضوی
۳۔ حبیب رضا خاں رضوی
۴۔ عارفہ بیگم رضویہ
بیعت وخلافت
مولانا حسنین رضا علیہ الرحمہ نے آپ کو ۱۹۴۳ء میں عرس رضوی کے موقع پر حضور مفتی اعظم کے دستِ حق پرست پر بیوت کرادیا تھا۔ ۲۵؍صفر المظفر ۱۳۸۰ھ کو جلسہ عام میں مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفی رضا نوری بریلوی نے اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ اسٹیچ پر سید العلماء سید آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی، برہان الملت مفتی برہان الحق رضوی جبل پوری اورمجاہد ملت مولانا حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی وغیرہ اکابر علماء ومشائخ نے خرقہ پوشی کرائی۔ اور حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے عمامہ باندھا۔
مفتی اعظم کے متعلق
حضرت مولانا تحسین رضا راقم کےنام ایک مکتوب میں مفتی اعطم الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
‘‘حضور مفتی اعظم کا زہد وتقویٰ، بزرگانہ شفقت میرے لیے سب سے زیادہ باعث کشش ہوئی۔’’
مفتی اعظم کی بزرگانہ
علامہ تحسین رضا کے والد ماجد کو خاندان رضا کے افراد ‘‘صاحب’’ کہتے، اسی وجہ سے کبھی کبھی صاحبزادگان بھی صاحب کہتے۔ نیز حضور مفتی اعظم کو بھی صاحب کہتے، آپ تین بھائی ہیں اور سبھی بحمد تعالیٰ اپنے اپنے مقام پر مایۂ ناز افتخار علماء میں سے ہیں۔ مفتی اعظم قدس سرہے فرماتے تھے کہ:
‘‘صاحب کےجتنے لڑکے ہیں سب ہی خوب ہیں۔ باصلاحیات وبالیاقت ہیں۔ مگر ان میں تحسین رضا کا جواب نہیں [4] ۔’’
حضرت مولانا حسنین رجا علیہ الرحمہ مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضا نوری کا بہت ادب کرتےتھے۔
نمونۂ کلام
علامہ تحسین رضا ایک باکمال مفسر، محدث اور کہنہ مشق اُستاد ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعر بھی ہیں۔ آپ تحسین تخلص فرماتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
جس کو کہتے ہیں قیامت حشر جس کا نام ہے
در حقیقت تیرے دیوانوں کا جشن عام ہے
عظمت فرق شہہ کونین کیا جانے کوئی
جس نے چومے پائے اقدس عرش اُس کا نام ہے
آرہے ہیں وہ سر محشر شفاعت کے لیے
اب مجھے معلوم ہے جو کچھ مرا انجام ہے
روئے انور کا تصوف زلفیں مشکیں کا خیال
کیسی پاکیزہ سحر ہے کیا مبارک شام ہے
تو اگر چاہے تو بھر جائیں سیہ کاروں کے دل
ہاتھ میں تیرے عنانِ گردش، ایام ہے
ساقئ کوثر کا نام پاک ہے ورد زباں
کون کہتا ہےکہ تحسینؔ آج تشنہ کام ہے
قطعہ
علم غیب رسول کے منکر
ایک حقیقت کو بھول جاتے ہیں
غیب مانان کہ راز ہے لیکن
راز اپنے سب کب چھپاتے ہیں
چند تلامذہ
حضرت مولانا تحسین رضا سے اکتساب فیض کرنے والوں کے چند اسماء مندرجہ ذیل ہیں [5] ۔
۱۔ ملک اللہ ریس مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی شیخ الادب دارالعلوم منظر اسلام بریلی
۲۔ مولانا مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی مدیر عام الادارۃ الحنفیہ کشن گنج بہار
۳۔ مولانا صغیر احمد رضوی جوکھن پوری ناظم اعلیٰ الجامعۃ القادریہ رچھابہیڑی
۴۔ مولانا محمد حنیف خاں رضوی مدیر ماہنامہ رضائےمصطفیٰ بہڑی
۵۔ مولانا تطہیر احمد رضوی مدرس الجامعۃ القادریہ بہیڑی
۶۔ مولانا محمد ہاشم نعیمی مدرس جامعہ نعیمیہ
۷۔ مولانا محمد حسین رضوی ابو الحقانی بہاری
۸۔ مولانا عبدالرشید رضوی ابو الحقانی بہاری
۹۔ مولانا جید القادری مظفر پوری
۱۰۔ مولانا سعید اختر نعیمی بھوجپور مراد آباد
۱۱۔ مولانا ایوب عالم مظہری پور نوی
۱۲۔ مولانا امام الدین دیوریاوی
۱۳۔ مولانا امام الدین دیوریاوی
۱۴۔ مولانا ایوب عالم رضوی پور نوی مدرس منظر اسلام
۱۵۔ مولانا شرف عالم رضوی سیتا مڑھی۔۔۔ بہار
۱۶۔ مولانامحمد یامین مراد آبادی مدرس جامعہ حمیدیہ بنارس
[1] ۔ اردوئے معلی علی گڑھ، بابت جون ۱۹۱۴ء، مضمون مولانا حسرت موہانی
[2] ۔ حسین رضا بریلوی،مولانا: سیر اعلیٰ حضرت ص ۱۹، ۲۰، بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور ص ۴۰تا ۴۲ ملخصاً بابت اپریل ۱۹۸۱ء ، مضمون از مولانا سبطین رضا خاں قادری بریلوی مدظلہٗ
[3] ۔ حضرت علامہ تحسین رضا بریلوی نے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ سے تفسیر جلالین پڑھی، ۱۲رضوی غفرلہٗ
[4] ۔ حضرت مولانا تحسین رضا بریلوی سے راقم کی گفتگو ۱۲رضوی غفرلہٗ
[5] ۔ مکتوب حضرت مولانا تحسین رضا بریلوی بنام راقم ۱۲غفرلہٗ
//php } ?>