شیخ حسین بن منصور حلاج
شیخ حسین بن منصور حلاج (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت حسین۔کنیت: ابوالمغیث۔لقب:حلاج۔آپ عوام میں’’منصورحلاج‘‘کےنام سےمعروف ہیں۔حالانکہ آپ کانام حسین اور والد کانام منصورہے۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:ابوالمغیث شیخ حسین بن منصور حلاج بن محمی۔(تذکرہ منصور حلاج:13)ان کےداداآتش پرست اور اپنےوقت کےبہت بڑےفلسفی ،اورفلسفےکےمعلم تھے۔ان کےوالد اپناآبائی مذہب ترک کرکےدینِ اسلام قبول کرلیاتھا۔وہ ایک درویش صفت اوراپنےکام میں مصروف رہنےوالےانسان تھے۔ریشمی کپڑےکی مارکیٹ میں ان کاایک نام تھا۔ریشمی کیڑےپالنا اورپھران سےکپڑےتیارکرناان کامشغلہ تھا۔
حلاج کی وجہ تسمیہ: حلاج عربی زبان کالفظ ہے۔اردو میں اس کامطلب ہے’’دھنیا‘‘یعنی روئی اور بنولےکوالگ الگ کرنےوالا۔شیخ فریدالدین عطاراور مولانا جامی فرماتےہیں:’’یہ آپ کی ذات نہیں تھی بلکہ آپ اس لقب سےاس لئے مشہور ہوگئے کہ ایک بار آپ روئی کے ایک ڈھیرکےقریب سےگزرے،ایک نگاہ کی توروئی اوربنولےعلیحدہ علیحدہ ہوگئے،اس دن سے آپ کو حلاج کہا جانے لگا۔حضرت ابوسعید ابوالخیر نے آپ کے نام کی ایک اور توجیہ لکھی ہے کہ آپ کی ایک دُھنیے سے دوستی تھی ہر وقت اس کے پاس وقت گزارتے ایک دن اس دُھنیے نے ازراہ محبت آپ کو روئی اور بنولے علیحدہ کرنے پر لگادیا تو آپ نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ تمام بنولے روئی سے جدا ہوکر علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔آپ کے انداز کلام سے حق و باطل بھی علیحدہ علیحدہ ہوگیا تھا۔ اس دن سے آپ کا نام حلاج پڑ گیا۔(تذکرۃ الاولیاء:255/نفحات الانس:156)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 243ھ مطابق 857ء/858ءکو بمقام ’’طور‘‘بیضاء ،ایران میں ہوئی۔(تذکرہ حسین بن منصور حلاج ۔از ڈاکٹر شاہد مختار:17/وکیپیڈیافارسی)
تحصیلِ علم: حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج کےمتعلق مشہور ہےکہ بچپن میں ہی عام بچوں سےمختلف تھے۔اپنےہم عمر بچوں سےعلیحدہ اور خاموش رہتےتھے۔فضول گوئی،ہنسی مذاق سےاجتناب کرتےاوراپنی ذات میں گم رہتےتھے۔یہاں تک کہ لوگ ’’مستانہ‘‘کہنےلگے۔ان کےوالد نےمدرسہ دارالحفاظ میں داخل کرادیا۔873ء میں قرآن مجیدحفظ کرلیا۔اس دور میں علمِ حدیث،فقہ،تفسیر،ادبیات،تاریخ،تصوف اور علم الکلام کادور دورہ تھا۔توشیخ حلاج نےتمام علوم ِ مروجہ میں دسترس حاصل کی۔ان کازیادہ میلان تصوف کی طرف تھا۔اس لئےتحصیل علوم کےبعد حضرت سہل بن عبداللہ تستریجواپنےوقت کےعظیم صوفی اورمدرس تھے،دوسال تک ان کےمدرسۂ تصوف میں رہے،اور یہی سب سےپہلےآپ کےشیخِ طریقت بھی ہیں۔حضرت سہل تستریسےعلیحدہ ہوکربصرہ چلےگئے،بصرہ بھی آپ کےلئےسازگارثابت نہ ہوا کیونکہ یہاں کی سیاسی فضاء خاندان ِ اہل بیت کےخلاف تھی،اورایساجری انسان حالات سےمصلحت اورسمجھوتےکاقائل نہیں ہوتا۔اس لئےیہاں سےبغدادکی طرف ہجرت کرناپڑی۔مشائخِ بغداداوربالخصوص حضرت جنید بغدادیسےعلمی استفادہ کیا۔وہاں سے حجازمقدس گئےاورحجاز مقدس سےصوفیاء کی ایک جماعت کےساتھ پھربغداد واپس آگئے،حضرت جنیدبغدادیسےملاقات ہوئی ۔حضرت جنیدفرمانےلگے:’’جلد ہی تولکڑی کاسرسرخ کرےگا یعنی سولی چڑھادیاجائےگا۔انہوں نےجواب میں کہا:پھرآپ کولباس تصوف اتارکراہل ِ ظاہرکالباس پہنناپڑےگا‘‘۔واقعی ایساہی ہوا۔(تذکرۃ الاولیاء:254)
بیعت وخلافت: حضرت شیخ حسین بن منصورحلاججیدمشائخ کی صحبت میں رہےاوران سےاستفادہ کیا۔حضرت عمروبن عثمان مکی کےسلسلہ طریقت میں منسلک ہوگئے،اور ایک عرصےتک ان کی صحبت میں رہے۔(تذکرۃ الاولیاء:254)
سیرت وخصائص: وحیدالدہر،عاشقِ صادق،عظیم جدجہدکےمالک،جذبۂ خودی سےسرشار،عالی ہمت،رفیع القدر،قتیل راہِ عشق،عارف اسرار رموز،کاشف سرِمستور،ابوالمغیث حضرت شیخ حسین بن منصور حلاج۔آپکی ذات عالم اسلام میں شروع سےآج تک معروف رہی ہے۔صوفیاء وعلماء کےآپ کےبارےمیں بہت اقوال وآراء ہیں۔ایک عام قاری الجھ جاتاہے۔اس کوسمجھ نہیں آتاکہ آپ کی ذات کیاتھی۔کتب میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ان سےبھی تشکیک کواور زیادہ تقویت ملتی ہے۔یہی کچھ میرےساتھ بھی ہوا۔میں نےمختلف اقوال پڑھنےکےبعدآپ سےصرفِ نظر کرنےکاارداہ کیاہی تھا کہ اللہ جل شانہ نےمیری دستگیری فرمائی ۔اچانک میرےذہن میں خیال آیا کہ دیکھوں کہ ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتاگنج بخشنے’’کشف المحجوب‘‘میں آپ کےبارےمیں کیافرمایا ہے۔جب میں نےپڑھاتو دل سےتشکیک کےبادل چھٹتےگئےاورحقائقِ ظاہرہوگئے۔کشف المحجوب واقعی کشف المجوب ہے۔
حضرت داتاگنج بخش فرماتےہیں:’’آپ سرمستانِ بادۂ وحدت اورمشتاق جمال احدیت گزرےہیں،اور نہایت قوی الحال مشائخ میں سےتھے‘‘۔(کشف المحجوب:304)۔آپ کےبارےمیں صوفیاء کی مختلف آراء نقل کرنےبعدایک مغالطےکاازالہ کرتےہوئےفرماتےہیں:’’بعض لوگ آپ کےکمالات وخوارق ِ عادات امور کومکراورجادو کےساتھ نسبت کرتےہیں۔ان کاخیال ہے کہ یہ منصور بن حلاج بغدادی ہےجومحمود بن زکریاکااستاد اور ابوسعیدقرامطی کارفیقِ خاص ہے۔حالانکہ وہ حسین بن منصور بن صلاح ہے،اور یہ حسین بن منصور حلاج ہیں،پھر وہ بغداد کا رہنےوالاہے،اوریہ فارس کےرہنےوالے ہیں‘‘۔(ایضا:305)پھر فرماتےہیں:’’دیکھتےنہیں کہ حضرت شبلی حضرت حسین بن منصور کی شان میں کیا فرمارہےہیں آپ کااعلان ہے:انا والحلاج فی شیء واحد فخلصنی جنونی واھلکلہ عقلہ۔یعنی میں اور حلاج ایک ہی طریقے پرہیں۔مگرمجھےمیرےدیوانہ پن نے آزاد کرادیااور حلاج کواس کی عقل مندی نے ہلاک کرادیا۔اگرمعاذاللہ وہ بےدین ہوتےتوشیخ شبلی کبھی نہ فرماتےکہ میں اور حلاج ایک ہی طریق پرہیں۔حضرت محمد بن خفیف فرماتےہیں:ھوعالم ربانی۔ان کےعلاوہ بہت سےمشائخ نےآپ کی تعریف کی اوربزرگ فرمایا‘‘۔(ایضا:306)۔حضرت حسین بن منصورحلاجاپنی مدتِ عمر میں لباس صلاحیت کےساتھ مزین رہے۔نماز کےپابند ذکر ومناجات میں لیل ونہارگزارنےوالے،روزےکےپابنداور آپ کی حمدنہایت مہذب تھی،اور توحید میں لطیف نکتے بیان فرماتے تھے۔اگروہ جادوگرہوتےتوصوم وصلوٰۃ کی پابندی اور ذکرواذکارمیں سرگرمی ان سےمحال تھی۔توصحیح طورپر ثابت ہوا کہ ان سےجو امورِ خارق عادت ظہورمیں آئےوہ کرامت تھے،اور کرامت سوائے ولی کےمتحقق نہیں ہوسکتی۔(ایضا:307)
پھرفرماتےہیں:’’آپ کی تصانیف بہت مشہور ہیں اورکلام نہایت مہذب ہےاورجوآپ نےاصول وفروع میں لکھاہے،اور میں (داتاصاحب)نےپچاس رسالےان کےتصنیف شدہ دیکھےہیں۔میں نےحضرت حسین بن منصورحلاجکےکلام کی شرح لکھی ہےاور اس کتاب میں دلائل وحجج باہرہ کےساتھ میں نےیہ ثابت کیاہے کہ یہ کلام اتنا بلندہے کہ اس کوارباب حال کےسوا اورکوئی نہیں سمجھ سکتا۔ایک کتاب بنام ’’منہاج الدین‘‘ ہماری تالیف ہےاس میں حضرت حسین بن منصور حلاجکےابتداء حال سےانتہاء تک تمام کوائف ذکرکیےہیں۔یہاں (کشف المحجوب میں)ہم نےان کامختصر تذکرہ کردیاہے‘‘۔(ایضا:309)
شیخ فریدالدین عطارفرماتےہیں: بعض ظاہر بین علماء نے آپ کی گفتگوکو کفر سے تعبیر کیا، بعض نے آپ کو حلولی قرار دیا، لیکن جسے توحید کے رموز و اسرار سے واقفیت تھی،وہ اسےحلول نہیں کہہ سکتا۔چنانچہ شیخ فریدالدین عطارنےآپ کےکلام کوعین توحیدقراردیاہے،اور فرمایا:’’مجھے اس شخص پر سخت تعجب آتا ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں ایک درخت سے انی انا اللہ کی آواز کو توحید پرمنطبق کرے اور جب یہی آوازحسین بن منصورسےآئےتواسےکفرقراردیں۔حضرت عمر بات کریں تو ینطق الحق علی لسا ن العمر (اللہ تعالیٰ عمر کی زبان سے بات کرتا ہے) کوتوحید خیال کریں مگر یہی بات حسین ابن منصور کی زبان سےنکلے،تو اسے حلول اور الحاد سے تعبیر کیا جائے۔(تذکرۃ الاولیاء:253)
خزینۃ الاصفیاء میں ہے: حضرت حسین ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ نے کائنات ارضی کی سیاحت کی، مخلوق خدا کواللہ کی طرف دعوت دیتے رہے، سولہ سال کی عمر میں حضرت عبداللہ تستری کی صحبت سے استفادہ کیا۔ بغداد آئے مشائخ بغداد سے استفادہ کیا، بصرہ پہنچے،علماء و مشائخ سے گفتگو رہی، ابو عثمان عمرو مکی سے تعلق پیدا ہوگیا،اورایک عرصےتک ان کی صحبت میں رہے،حضرت ابویعقوب الاقطع آپ کی ذہانت و کمالات سےاتنےمتأثر ہوئے کہ اپنی بیٹی آپ کےنکاح میں دےدی۔حضرت ابوعثمان نےعلم الحقائق میں ایک کتاب لکھی تھی۔وہ جن اسرارو رموز ِتصوف پرمشتمل تھی،وہ علماء ظاہر کے لیے ناقابلِ فہم تھے۔آپ نے اس کتاب کوایک عرصہ پوشیدہ رکھا۔شیخ حسین بن منصورنےبڑی جرأت کرکےاس کتاب کے مسائل کو منبروں پر کھڑے ہوکر بیان کرنا شروع کیے۔عام علماء کی مجالس میں بیان کیے لوگوں میں واقعی ایک شور برپا ہونےلگا۔لوگوں نےحسین بن منصورتوکیا شیخ ابوعثمان عمرو کےبھی خلاف ہوگئے۔حضرت ابوعثمان ان رموز کے افشاء پر حضرت حسین بن منصورسے سخت ناراض ہوئے،اور اپنی مجالس سےعلیحدہ کردیا۔ ساتھ ہی جلال میں آکر فرمایا:’’ اللہ حسین کی زبان اور دست و پا کو قطع کردے اور کوئی ایسا شخص پیدا کرے جو اسے تختۂ دار پر کھڑا کرے‘‘۔(خزینۃ الاصفیاء:104/نفحات الانس:157)
دعوائےاناالحق کی تحقیق: عوام میں مشہور ہے کہ حضرت حسین بن منصور حلاج نے ’’اَنَا الْحَقُ‘‘(یعنی میں حق ہوں) کہا تھا اس کا رد کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان فتاوی رضویہ میں تحریرفرماتےہيں:’’حضرت سیدی حسین بن منصور حلاج ،جن کوعوام ’’منصور‘‘کہتے ہیں۔منصور اِن کے والد کانام تھا، اوران کااسم گرامی حسین ہے۔(آپ )اکابر اہلِ حال سے تھے،ان کی ایک بہن ان سے بدَرَجَہا مرتبۂ ولایت ومعرِفت میں زائدتھیں۔وہ آخرشب کوجنگل تشریف لے جاتیں اوریادِالٰہی میں مصروف ہوجاتیں۔ایک دن ان کی آنکھ کھلی،بہن کونہ پایا،گھرمیں ہر جگہ تلاش کیا،پتانہ چلا،اُن کووسوسہ گزرا،دوسری شب میں قصداً سوتے میں جان ڈال کرجاگتے رہے۔وہ اپنے وقت پراُٹھ کرچلیں،یہ آہستہ آہستہ پیچھےہولئے،دیکھتےرہے۔آسمان سےسونےکی زنجیر میں یاقوت کاجام اُترا اوران کے دہن مبارک(یعنی مُنہ شریف)کے برابرآ لگا،انہوں نے پینا شروع کیا،اِن سےصبرنہ ہو سکا کہ یہ جنت کی نعمت نہ ملے ۔بے اختیارکہہ اُٹھے کہ بہن! تمہیں اﷲکی قسم کہ تھوڑا میرے لئے چھوڑدو،انہوں نے ایک جُرعَہ (یعنی ایک گھونٹ) چھوڑ دیا،انہوں نے پیا،اس کےپیتےہی ہرجڑی بُوٹی،ہردرودیوارسے ان کو یہ آواز آنے لگی کہ کون اس کازیادہ مستحق ہےکہ ہماری راہ میں قتل کیاجائے۔انہوں نے کہنا شروع کردیا’’اَنَا لَاََحَقُّ‘‘ بیشک میں سب سے زیادہ اس کا سزاوار(یعنی حق دار)ہوں۔ لوگوں کےسننےمیں آیا’’اَنَاالْحَقُّ‘‘(یعنی میں حق ہوں) وہ (لوگ)دعوۂ خدائی سمجھے،اور یہ(یعنی خدائی کادعوی) کفرہےاورمسلمان ہوکرجوکفرکرےمرتدہے اورمرتد کی سزاقتل ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص400)
آپ کاقتل: ایک قول تو یہ ہےکہ آپ کاقتل ایک سیاسی قتل تھا۔جیساکہ حکمران اپنےمخالفین کوقتل کراتےہیں۔(تذکرہ شیخ حسین بن منصور حلاج:222)۔اسی طرح آپ کےقتل میں روافض کااہم کردارتھا۔(ایضا)اس لئے آپ پررفض کاالزام بہتان ہے۔آپجیل میں بھی کثرت کےساتھ نوافل پڑھتےتھے۔جب جیل سےباہرتھےاس وقت ہرفرض نمازکےلئےغسل کرتے۔آپ کوبڑی بےدردی سےشہید کیاگیا۔پہلےآپ کےاعضاکاٹےگئے،کوڑےبرسائےگئے،آنکھیں نکالیں گئیں،زبان کاٹی گئی،پھربےدردی سےسولی پہ چڑھایاگیا۔جب سپاہی آپ کو تختۂ دار پر لے گئے چشم دید گواہوں نے بیان کیا ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کے لیے ایک لاکھ لوگ موجود تھے۔شیخ حسین بن منصور آنکھ کھولتے اور آواز دیتے حق حق حق انا لاحق ایک درویش اس مجمعے میں سے آگے بڑھا اور آپ کو پوچھنے لگا حضرت عشق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا آج دیکھ لو گے پھر کچھ کل دیکھو گے اور پھر پرسوں دیکھو گے!اس دن آپ کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا دوسرے روز آپ کی نعش کو جلایا گیا، تیسرے دن آپ کی مٹی کو اڑایا گیا۔حاضرین نے سنا کہ آپ کے ایک ایک عضو سے انا لاحق انا لاحق کی آواز آ رہی ہے آپ کا اک ایک عضو علیحدہ کردیا گیا خون کے قطرے قطرے سے صدائے انالاحق انالاحق سنائی دی جانےلگی۔ آپ کے جسم کو جلا دیا گیا مگر خاکستر کے ایک ایک ذرہ سے صدائے انالاحق سنی جاتی رہی، تیسرے دن آپ کی خاکستر کو دریائےدجلہ میں بہا دیا گیا، دریا میں ایک تلاطم برپا ہوگیا اور وادی دجلہ انا لاحق کے شور سے گونج اٹھی۔کہتے ہیں کہ آپ نے تختہ دار پر آنے سے پہلے اپنے ایک محرم راز کو بتایا تھا کہ جب آپ کی خاکستر دریائے دجلہ میں پھینکی جائے گی کہ تو دوسرے دن دریائے دجلہ میں ایک طوفانی سیلاب آئے گا اور اس کی موجیں بغداد شہر کی دیواروں سے ٹکرانا شروع کردیں گی، اس وقت میری یہ یہ قمیص دریا کے سامنےلےجا کرکہنااے دجلہ تجھے حسین بن منصور کی اس قمیص کے پیش نظر شہر سے ہٹ جانا چاہیے، واقعتاً ایسا ہی ہوا، اس دوست نے حضرت کی قمیص سامنے کی اور اس طرح دریائے دجلہ کا رُخ بدل گیا، سیلاب تھم گیا اور شہر بغداد بچ گیا۔اتنے ظلم و ستم کے باوجود حضرت حسین ابن منصور کے باقی ماندہ اعضاء اور خاکستر کو جمع کیا گیا، اور عقیدت مندوں نے آپ کا ایک مزار تعمیر کرایا۔(خزینۃ الاصفیاء:105)
تاریخِ شہادت: آپ کی شہادت بروز منگل 4/ذوالقعدہ 309ھ مطابق 3/مارچ 922ءکوہوئی۔
داتاگنج بخشکی نصیحت: آپ فرماتےہیں:اس قسم کےمغلوب الحال صوفیاء کرام کےکلام کاہرگزاتباع نہیں کرناچاہئےاس لئےوہ اپنےحال میں اس قدر مغلوب ہوتےہیں کہ ان میں استقامت قطعی نہیں ہوتی،اور اُن صوفیاء کی پیروی کرنی چاہئےجوصاحبِ استقامت ہیں۔میں حضرت حسین بن حلاجکواپنےدل میں عزیزرکھتاہوں اور ان کی عظمت میرےدل میں ہے۔لیکن آپ مغلوب الحال تھے۔(کشف المحجوب:308)۔وہابی وغیرہ دشمنان اولیاء نےبہت سےمقامات پرآپ کےخلاف ابن تیمیہ وغیرہ کےحوالےبہت زہراگلاہے۔اس پر توجہ دینےکی ضرورت نہیں ہے۔حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی،حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی،حضرت امام غزالی،حضرت داتاگنج بخش،حضرت مجددالفِ ثانی،اوراعلیٰ حضرتوغیرہ اکابرینِ امت نےآپ کی مدح فرمائی ہے۔میں نےیہ اختصارکےساتھ بیان کیاہے۔تفصیل کےلئے۔۔۔کشف المحجوب،داتاگنج بخش۔تذکرۃ الاولیاء،شیخ فریدالدین عطار۔خزینۃ الاصفیا،مفتی غلام سرور لاہوریقابلِ مطالعہ ہیں۔فقیرتونسویؔ غفرلہ۔