حضرت حسین بن منصور حلاج
حضرت حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کی کنیت ابوالمغیث تھی، بیضائے فارس کے رہنے والے تھے، سوزو مستی شوق و سکر میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے، آپ نے بڑی جدوجہد سے کام لیا، مخصوص احوال و مقامات حاصل کیے، بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑیں، اسرار و حقائق معرفت میں بڑی مشکل اور پیچیدہ عبادات سے اظہار خیال کرتے تھے، بایں ہمہ آپ کا کلام فصاحت و بلاغت سے مالا مال تھا، ان کلمات کی وجہ سے بہت سے علماء و مشائخ نے آپ کے کلمات پر اعتراض کیا ہے، اور ان کے دعووں سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں علوم تصوف میں کوئی ورک نہیں، بایں ہمہ ابن عطاء عبداللہ خفیف، شبلی، ابوالقاسم نصرآبادی، سید مخدوم ابوالحسن الہجویری گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہم جیسے مشاہیر نے آپ کے کلام کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے، شیخ ابوالقاسم گرگانی شیخ بو علی فارمدی، امام یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہم تو آپ کے قریبی احباب میں سے تھے اور آپ کے اسرار و رموز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور پھر اس کی ترجمانی بھی کرتے تھے۔ حضرت ابوالقاسم قشیری جیسے دوسرے مشائخ نے آپ کے کلام کو ساحرا نہ قرار دیا تھا۔ بعض ظاہر بین علماء نے آپ کی گفتگو کو کفر سے تعبیر کیا، بعض نے آپ کو حلولی قرار دیا، لیکن جسے توحید کے رموز و اسرار سے واقفیت تھی، وہ سے حلول نہیں کہہ سکتا، چنانچہ شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ الغفار نے آپ کے کلام کو عین توحید قرار دیا ہے، اور فرمایا مجھے اس شخص پر سخت تعجب آتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ایک درخت سے انی ان اللہ کی آواز کو توحید پر منسق کرے اور جب یہی آواز حسین منصور سے آئے تو اسے کفر قرار ے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات کریں تو ینفق الحق علی لسا العمر (اللہ تعالیٰ عمر کی زبان سے بات کرتا ہے) کو توحید خیال کریں مگر یہی بات حسین ابن منصور کی زبان سے نکلے، تو اسے حلول اور الحاد سے تعبیر کیا جائے۔
حضرت حسین ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ نے کائنات ارضی کی سیاحت کی، مخلوق خدا کی اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے، سولہ سال کی عمر میں حضرت عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے استفادہ کیا۔ بغداد آئے مشائخ بغداد سے استفادہ کیا، بصرے پہنچے، علماء و مشائخ سے گفتگو رہی، ابو عثمان عمرو مکی سے تعلق پیدا کیا، اور ایک عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے، حضرت ابویعقوب الاقطع آپ کی ذہانت و کمالات سے اتنے متاثر تھے کہ اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دے دی، حضرت ابوعثمان نے علم حقائق میں ایک کتاب لکھی تھی، وہ جن اسرار و رموز تصوف پر مشتمل تھی، وہ علماء ظاہر کے لیے ناقابل فہم تھے، آپ نے اس کتاب کو ایک عرصہ پوشیدہ رکھا، حسین بن منصور نے بڑی جرأت کرکے اس کتاب کے مسائل کو منبروں پر کھڑے ہوکر بیان کرنا شروع کیے، عام علماء کی مجالس میں بیان کیے لوگوں میں واقعی ایک شور برپا ہونے لگا، لوگوں نے حسین منصور تو کیا، ابوعثمان عمرو کے بھی خلاف ہوگئے، حضرت ابوعثمان ان رموز کے افشاء پر حضرت حسین منصور سے سخت ناراض ہوئے، اور اپنی مجالس سے علیحدہ کردیا، ساتھ ہی جلال میں آکر فرمایا، اللہ حسین کی زبان اور دست و پا کو قطع کردے اور کوئی ایسا شخص پیدا کرے جو اسے تختۂ دار پر کھڑا کرے۔
اس واقعہ کے بعد حضرت حسین منصور بغداد آئے حضرت جنید بغدادی کی محفل میں ان مسائل پر گفتگو کی۔مگر آپ نے آپ کے خیالات کو قبول نہ فرمایا، بغداد کو چھوڑ کر تستر میں ایک سال تک قیام کیا، آپ کسی ظاہر بین عالم کی بات کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے جاتے تھے بعض حلقوں میں آپ کے خلاف حسد پیدا ہوگیا اور اختلاف کی آگ بھڑکنے لگی آپ وہاں سے خراسان میں آگئےا ور پورے پانچ سال تک عام لوگوں سے پوشیدہ رہے۔ پانچ سال بعد قاداں میں آئے اور چند کتابیں تصنیف کیں، اہواز کے علماء سے گفتگو کی، ان کی اس گفتگو نے ان علاقوں میں بڑی مقبولیت حاصل کی، لوگ آپ کے گرویدہ ہونے لگے، حتی کہ آپ کو حلاج الاسرار کیا جانے لگا، آپ بصرہ گئے، اور پھر حرمین الشریفین حاضر ہوئے حرم میں حضرت ابویعقوب نہر جوری نے آپ کو جادوگری سے منسوب کیا، آپ پھر بصرہ میں آئے اور وہاں سے اہواز پہنچے، کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان (پاک و ہند) یں آئے اور ایک عرصہ تک علماء مشائخ ہند سے ملاقاتین کرتے رہے، اور خلق کو اللہ کی طرف دعوت دیتے میں مصروف رہے، پھر ماوار النہر چین ، چین میں جاکر بڑی گراں قدر کتابیں تصنیف کیں، جب آپ واپس آئے، تو مختلف ممالک کے علماء کرام اور مشائخ نے آپ کو خط لکھنے اور بعض رموز تصوف دریافت کرنے شروع کیے، ہندوستان والے آپ کو ابوالمغیث کے لقب سے یاد کرتے، چین والے آپ کو ابوالمعین قرار دیتے خراسان کے علماء ابوالمخیر کہہ کر خطاب کرتے فارس کے خطوں میں آپ کو ابوعبداللہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا، خراسان کے خطوں میں صلاح الاسرار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا بغداد میں آپ کا نام اصطلم تھا، اور بصرہ والے آپ کو مخیر کہہ کر یاد کرتےآپ کچھ عرصہ بعد مکہ مکرمہ چلے گئے دو سال تک حرم پاک کی مجاوری کی سعادت حاصل کی، بہت سے احوال حقیقت آپ پر ظاہر ہوئے، واپس آکر مخلوق کو پھر دعوت فکر دی، چونکہ لوگ آپ کے ان احوال و مقامات سے واقف نہ تھے، آپ کی مخالفت بڑھنے لگی، اور آپ کو پچاس شہروں سے نکال دیا گیا۔
حلاج آپ کو اس لیے کہا کرتے تھے کہ ایک بار آپ روئی کے ایک ڈھیر کے قریب سے گزرے، ایک نگاہ کی تو روئی اور بنوے علیحدہ علیحدہ ہوگئے، اس دن سے آپ کو حلاج کہا جانے لگا۔
[حضرت ابوسعید ابوالخیر نے آپ کے نام کی ایک اور توجیہ لکھی ہے کہ آپ کو ایک دُھنیے سے دوستی تھی ہر وقت اس کے پاس وقت گزارتے ایک دن اس دُھنیے نے ازراہ محبت آپ کو روئی اور بنوے علیحدہ کرنے پر لگادیا تو آپ نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ تمام بنوے روئی سے جدا ہوکر علیحدہ علیحدہ ہوگئے، آپ کے انداز کلام سے حق و باطل بھی علیحدہ علیحدہ ہوگیا تھا۔ اس دن سے آپ کا نام حلاج پڑ گیا۔ (مترجم)]
حضرت حسین رات دن میں چار سو رکعت نماز ادا کرتے تھے اتنی عبادت کو اپنے لیے فریضہ تصور کرتے، لوگوں نے آپ کو پوچھا آپ جس مقام پر فائز ہیں، اتنی عبادت اور ریاضت کی کیا ضرورت ہے، آپ فرماتے رنج و راحت کا دستور پر کچھ اثر نہیں ہوتا، یہ فافی لوگ ہوتے ہیں، آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے پچاس سال کی عمر میں ہزار سال کی نمازیں ادا کی ہیں، اور ہر نماز فرض سے پہلے غسل کیا ہے۔
حضرت رشید سمرقندی فرماتے ہیں کہ ایک بار حسین منصور اپنے چار صد ہم خیال صوفیاء کو ساتھ لے کر کعبۃ اللہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں یہ قافلہ راستہ بھول گیا، اور ایک نامعلوم وادی میں جا پہنچا، کھانے کی کمی ہوئی، چار دن تک سارے لوگ بھوک سے بے حال ہونے لگے تو آپ سے خوراک کا مطالبہ کیا، آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اور صف بستہ ہوجاؤ، جب سب صف بستہ ہوگئے، آپ ہاتھ سے ہر ایک کے سامنے دو روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت رکھتے جاتے۔ اس طرح چار سو افراد کے لیے کھانا مہیا کیا، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو کھجوریں آگئیں اور وادی کے ایک ہی درخت کو جھاڑ کر اتنی کھجوریں حاصل ہوئیں کہ چار سو افراد سیر ہوگئے، دوران سفر آپ جس درخت سے پشت لگاتے میوہ زمین پر گرتا اور لوگ پیٹ بھر کر کھاتے، ایک وقت ایسا آیا کہ صحرا میں کوئی درخت نہ تھا، آپ نے کھڑے ہوکر دوستوں کو کہا اب مجھے ہلاؤ، دوستوں نے آپ کو ایسا ہلانا شروع کیا، جیسے درخت کو جھاڑا جاتا ہے، اتنی کھجوریں گریں کہ سب سیر ہوگئے ایک دفعہ دوستوں نے انجیر کھانے کا مطالبہ کیا، اسی وقت آسمان سے انجیر کے طباق گرنے لگے ، احباب کے سامنے چنے گئے، جنہوں نے پیٹ بھر کر کھائے۔
ایک دن آپ ایک جگہ تشریف فرما تھے۔ ایک بچھو آپ کے گرد اگرد چکر لگا رہا تھا، آپ کے ایک دوست نے دیکھا تو بچھو کو مارنے دوڑا، آپ نے اسے منع کیا اور فرمایا بارہ سال ہوئے ایسی کئی چیزیں میری رفیق زندگی رہی ہیں، بچھو تو میری گودڑی میں آشیانہ بنائے رہتے ہیں۔
جب آپ پر سکر و حدت کا غلبہ ہوا تو آپ درجہ فنا فی الفناء پر فائز ہوئے ہر وقت کلمۂ انا الحق کہتے رہتے تھے، لوگوں کی زبانیں آپ کے خلاف کھلنے لگیں، خلیفہ بغداد کو بھی یہ خبر پہنچی ، علماء ظاہربیں نے آپ کو قتل کردینے کا فتویٰ دیا، محمد داود نامی شخص اور دوسرے کئی گروہ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، علماء فقہا نے احتجاج کیا، خلیفہ مقتدر باللہ کو آپ کو قتل کرنے پر آمادہ کیا، انہی دنوں حضرت حسین سید الطائفہ جنید بغدادی کے دروازے پر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹایا، زور سے دستک دی، آپ نے کہا کون ہے؟ حسین بن منصور نے کہا: انا الحق (میں اللہ ہوں) آپ نے فرمایا: ایسا نہ کہو، بلکہ یوں کہو کہ ہو الحق (وہ اللہ ہے) کہا، ہاں وہ ہمہ اوست ہے، مگر آپ کہتے ہیں کہ اللہ گم ہے حالانکہ حسین ابن منصور گم ہے اللہ تو موجود ہے، باقی ہے حضرت جنید بغدادی نے فرمایا: عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم تختۂ دار کو اپنے خون سے رنگین کرو گے، آپ نے فرمایا: ہاں، مگر اس وقت جب آپ باطنی لباس سے عاری ہوکر ظاہری لباس زیب تن کرلیں گے۔
علماء ظاہربین حسین بن منصور کے خلاف فتویٰ قتل لے کر خلیفہ وقت کے پاس گئے، خلیفہ نے کہا: جب تک حضرت جنید اس فتویٰ کی تائید و تصدیق نہیں کریں گے میں اس کے قتل کا حکم نہیں دوں گا، چنانچہ علماء کرام حضرت جنید قدس سرہ کی خدمت میں گئے اور اصرار کیا وہ اس فتویٰ کی تصدیق فرمادیں، آپ حجرے سے نکلے صوفیاء کا لباس اتارا، علماء کی خلعت زیب تن کی اور اس فتویٰ پر لکھا نحن نحکم بالظاہر (ہم ظاہر پر فتویٰ دیتے ہیں) علماء اس فتویٰ کو لے کر علی بن عیسی وزیر کے پاس گئے اس نے حسین ابن منصور کو بلا کر قید خانے میں محبوس کردیا، آپ ایک سال تک قید خانے میں رہے لوگ آپ کو ملنے جاتے، مسائل دریافت کرتے، حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے، آخر کار عام لوگوں کو آپ سے ملنے پر پابندی لگادی گئی اور پانچ ماہ تک آپ کے پاس کوئی نہ گیا، صرف ابن عطاء اور عبداللہ بن خفیف ایک ایک بار ملاقات کو گئے۔
زندان میں پہلی رات حضرت کو رکھا گیا تو رات کو غائب تھے سارا جیل خانہ تلاش کر مارا مگر آپ کہیں نظر نہ آئے، دوسری رات قیدی تو کیا قید خانہ ہی غائب تھا، آخر کار تیسری رات حضرت کو قید خانہ میں موجود پایا، پوچھا کہ آپ کہاں تھے؟ آپ نے کہا: پہلی رات تو میں اللہ کے پاس تھا، اور دوسری رات اللہ میرے پاس تھا، یہی وجہ ہے کہ قید خانہ بھی غائب تھا، اب مجھے اس لیے واپس بھیج دیا گیا ہے کہ احترامِ شریعت برقرار کروں۔
حسین ابن منصور جیل خانے میں ہر رات ایک ہزار رکعت نماز ادا کیے کرتے تھے، لوگوں نے کہا: جب آپ ہی خدا ہیں تو یہ نماز کے لیے پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: ہم اپنی قدر جانتے ہیں۔
جن دنوں حسین قید خانہ میں تھے تو آپ کے تین اور ساتھی بھی قید میں تھے، آپ نے انہیں بلایا اور مجھے تمہاری بے قراری اور گھبراہٹ دیکھی نہیں جاتی، اگر تم لوگ چاہو تو تمہیں آزاد کردوں، انہوں نے کہا: آپ تو خود قید میں ہیں، آپ کس طرح آزاد کراسکتے ہیں، آپ نے فرمایا: ہم لوگ شریعت کے احترام کے پابند ہیں، ہم اسی رشتہ میں پابند ہیں، آپ نے ایک انگلی سے اشارہ کیا تو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ٹوٹ گئیں، دروازے کھل گئے، ہر دیوار سے دروازے کھل گئے، آپ نے فرمایا: ہر قیدی آزاد ہے، لوگوں نے کہا: آپ خود کیوں نہیں آرہے، آپ نے فرمایا: میرا اور اللہ کے درمیان ایک راز ہے، جسے تختۂ دار پر ہی ظاہر کیا جائے گا، دوسری صبح جیل کے محافظ آئے اور آپ سے دریافت کرنے لگے کہ دوسرے قیدی کہاں ہیں، آپ نے فرمایا وہ تو رہا ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا آپ کہاں تھے فرمایا میں تو یہاں ہی تھا مگر اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہے اور وہ ناراضگی تختۂ دار پر آنے کے بغیر دور نہیں ہوسکتی، یہ خبر خلیفہ وقت کو پہنچی تو کہنے لگا، اس شخص کے زندہ رہنے سے ملک میں فتنہ پھیلنے کا خدشہ ہے، اسے یا تو قتل کردو یا اتنا مارو کہ آئندہ اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلےا نہوں نے آپ کو باہر نکال کر مارنا پیٹنا شروع کردیا، اور کہتے ہیں آپ کو تین سو ضربیں لگائی گئیں، ہر ضرب پر آواز آتی تھی، یا ابن منصور! لا تخف ھذا معراج الصدیقی (اے ابن منصور ڈرو نہیں یہ مقام صادقین کی معراج کا ہے) ادھر حضرت منصور ہر ضرب پر انا الحق کا نعرہ لگاتے، آپ کو اس ابتلا میں بھی کامیاب پایا، تو آپ کو تختۂ دار پر لے گئے چشم دید گواہوں نے بیان کیا ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کے لیے ایک لاکھ لوگ موجود تھے، حسین ابن منصور آنکھ کھولتے اور آواز دیتے حق حق حق انا الحق ایک درویش اس مجمعے میں سے آگے بڑھا اور آپ کو پوچھنے لگا حضرت عشق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا آج دیکھ لو گے پھر کچھ کل دیکھو گے اور پھر پرسوں دیکھو گے!! اس دن آپ کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا دوسرے روز آپ کی نعش کو جلایا گیا، تیسرے دن آپ کو مٹی کو اڑایا گیا۔
حسین ابن منصور راستے میں جا رہے تھے ان کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی زنجیروں کا بوجھ بہت زیادہ تھا اور آپ خوش خوش ٹہل رہے تھے لوگوں نے فرمایا آپ کس لیے خوش خرامی کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا: میں تو معراج پر جا رہا ہوں، تختۂ دار کے قریب پہنچے باب الطاق تک پہنچے تو تختۂ دار کو چوما، اپنا پاؤں سیڑھی پر رکھا تو آپ کے عقیدت مندوں نے دریافت کیا کہ اپنے منکروں اور عقیدت مندوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، آپ نے فرمایامنکر لوگ مجھے سنگسار کریں گے تو ہر ایک کو دو طرح کا ثواب ہوگا، اگر پتھر ماریں گے تو ایک ثواب ملے گا کیونکہ تم لوگ تو مجھ سے عقیدت رکھتے ہو اور حسن ظن میں گرتفار ہو مگر وہ لوگ محض اتباع شرع اور توحید کے جذبہ میں سنگباری کریں گے، یہ کہتے ہوئے سولی کی سیڑھی پر جا چڑھے، اسی اثناء میں آپ کی نگاہیں شیخ شبلی پر پڑیں، انہوں نے بلند آواز سے کہا حسین الم تنہک عن العالمین (کیا میں تمہیں لوگوں سے منع نہیں کیا کرتا تھا) آپ نے پوچھا کہ تصوف کیا ہے آپ نے فرمایا: جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں وہ وت بہت کم تر بات ہے، اور اس سے بلند تر مقام کو ابھی تک آپ نہیں پاسکے، چنانچہ لوگوں نے آپ پر سنگباری شروع کردی، حضرت شبلی نے بھی اتباع شریعت میں ایک پھول پھینکا، حسین منصور() کے منہ سے آہ نکلی! حضرت شبلی نے کہا: سب لوگ پتھراؤ کر رہے ہیں، مگر آپ خاموش رہے، میرے پھول پر آپ نے آہ کردی ہے، آپ نے فرمایا: وہ جانتے نہیں، معذور ہیں، اندھے ہیں، مگر تم سب کچھ جانتے ہوئے پھول پھینکتے ہو مجھے درد ہوا، اسی میدان میں جلاد آگے بڑھے آپ کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے تو مسکرائے، لوگون نے پوچھا کہ یہ تبسم کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: عالم بالا تک پہنچنے کے لیے بس ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے خون آلود ہاتھوں کو اپنے چہرے پر ملا اور کہا میرے چہرے کی زردی اس خون سے سرخی میں تبدیل ہو رہی ہے، میں اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوکر جانا چاہتا ہوں، لوگوں نے پوچھا یہ اپنی کلائیوں کو خون آلود کرنے کا کیا مطلب ہے، فرمایا: میں نماز عشق ادا کرنے کے لیے وضو کر رہا ہوں‘‘ جلادوں نے آپ کی آنکھیں نکال دیں مجمعے میں کچھ لوگ آہ و فغاں کرنے لگے، کچھ سنگ باری کرنے لگے، اب جلادوں نے آپ کی زبان کاٹنا چاہی، آپ نے فرمایا: مجھے چند باتیں کرنے دو آپ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور کہا اے میرے اللہ یہ لوگ تیرے لیے مجھ پر جس قدر سختیاں کر رہے ہیں وہ ان کی دانست کے مطابق درست ہے، اگر انہوں نے میرے ہاتھ پاؤں کاٹے ہیں تو تیرے حکم کی تعمیل میں کانٹے ہیں اگر میرا سر تن سے جدا کر رہے ہیں تو تیرے جلال کے مشاہدے میں کر رہے ہیں جلادوں نے آپ کے کان اور ناک کاٹ ڈالے، لوگوں نے پھر پتھر برسانے شروع کردیے، حضرت حسین ابن منصور نے جو آخری بات کی وہ یہ تھی حب الواحد! افراد الواحد! حب الواحد افراد الواحد۔
پھر ایک آیت کریمہ پڑھی: یستعجل بھا الذین لا یومنون بھا والذین امنوا مشفقون منھا ویعلمون انہ الحق! ترجمہ:۔۔۔
اس کے بعد آپ کی زبان کاٹ لی گئی۔
شام کے وقت خلیفہ کا حکم پہنچا کہ اگر حضرت منصور نے انا الحق کہنے سے توبہ نہیں کی تو اس کی گردن کاٹ دی جائے، سر کاٹ دیا گیا، آپ نے ایک قہقہہ لگایا اور جان جان آفریں کے سپر د کردی اس طرح آپ نے اپنی قضا کو اللہ کی رضا کے حوالے کردیا، حاضرین نے سنا کہ آپ کے ایک ایک عضو سے انا الحق انا الحق کی آواز آ رہی ہے آپ کا اک ایک عضو علیحدہ کردیا گیا خون کے قطرے قطرے سے صدائے انا الحق انا الحق سنائی دی جانے لگی، آپ کے جسم کو جلا دیا گیا مگر خاکستر کے ایک ایک ذرہ سے صدائے ان االحق سنی جاتی رہی، تیسرے دن آپ کی خاکستر کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا، دریا میں ایک تلاطم برپا ہوگیا اور وادی دجلہ انا الحق کے شور سے گونج اٹھی۔
کہتے ہیں کہ آپ نے تختہ دار پر آنے سے پہلے اپنے ایک محرم راز کو بتایا تھا کہ جب آپ کی خاکستر دریائے دجلہ میں پھینکی جائے گی کہ تو دوسرے دن دریائے دجلہ میں ایک طوفانی سیلاب آئے گا اور اس کی موجیں بغداد شہر کی دیواروں سے ٹکرانا شروع کردیں گی، اس وقت میری یہ گودڑی دریا کے سامنے لے جا کر کہنا، دجلہ تجھے حسین ابن منصور کی اس گودڑی کے پیش نظر شہر سے ہٹ جانا چاہیے، واقعتاً ایسا ہی ہوا، اس دوست نے حضرت کی گودڑی سامنے کی اور اس طرح دریائے دجلہ کا رُخ بدل گیا، سیلاب تھم گیا اور شہر بغداد بچ گیا۔
اتنے ظلم و ستم کے باوجود حضرت حسین ابن منصور کے باقی ماندہ اعضاء اور خاکستر کو جمع کیا گیا، اور عقیدت مندوں نے آپ کا ایک مزار تعمیر کرایا، بزرگان طریقت فرماتے ہیں کہ طریقت میں جو مقام حضرت حسین ابن منصور کو میسر ہوا اور فتوحات کے جو دروازے کھلے وہ دوسرے اولیاء طریقت پر بہت کم ہوئے ہیں، شیخ عباس طوسی فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میدان عرفات میں آپ کو پایہ رنجیر لایا جائے گا اگر کھلا لایا جاتا تو ڈر ہے کہ آپ کے سوزِ عشق سے تمام عرصات جل جائیں۔
آپ کے قتل کے بعد حضرت شبلی نے آپ کو خواب میں دیکھا اور دریافت کیا آپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا، آپ نے بتایا اللہ تعالیٰ نے مجھے مقام صدق دے کر بخش دیا، اپنے اکرام سے نوازا، آپ سے حضرت شبلی نے پوچھا آپ کے قاتلوں سے کیا سلوک کیا گیا، پھر سنگباری کرنے والوں کو کیا سزا دی گئی، آپ نے فرمایا: وہ معذور تھے، انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے، حضرت شبلی فرماتے ہیں کہ حضرت حسین ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ تختہ دار پر کھڑے تھے، شیطان آیا اور کہنے لگا آپ تو انا الحق کہتے ہیں میں نے تو صرف یہی کہا تھا کہ میں غیر اللہ کو سجدہ نہیں کرتا مگر آج تک مجھے لعنت کر رہے ہیں، آپ کو رحمۃ اللہ علیہ کہہ کر پکارتے ہیں آپ نے فرمایا: تمہاری انا اپنی ذات کے لیے تھی اور میرا انا الحق کہنا، اللہ کی ذات کا اظہار تھا، تم کہتے وقت خود نہیں تھے میں حق بین تھا۔
صاحب نفحات الانس نے آپ کے واقعہ قتل بروز منگل چار ذیقعدہ ۳۰۹ھ لکھا ہے، سفینۃ الاولیاء کے مصنف نے بھی آپ سے ہی اتفاق کیا ہے، مگر مخبر الواصلین آپ کی تاریخ کو ۳۰۷ھ تحریر کیا ہے، ہمارے نزدیک پہلی تاریخ درست ہے اس وقت آپ کی عمر ۹۷ سال تھی۔
۱۔ یافت از حق با جمال حق وصال
۲۔ نور حق بود و عیاں شد نور عین
۳۔ آنکہ اور لفظ انا الحق گفتہ است
۴۔ قتل شد بر نام حق ہم چوں حسین
شد ازین دار فنا بردار شد |
|
سال وصل او عجب قتل حسین |
صاحب حق اہل دیں(۳۰۹)۔ صدیق زمانہ(۳۰۹)۔ ولی مہدی مقدس(۳۰۹)۔ مہدی قطب الحق(۳۰۹)
قطب دین حق(۳۰۹)۔ طالب اللہ حق نما(۳۰۹) حبیب اللہ ہادی حق نما(۳۰۹) طالب مقبولِ مطلب (۳۰۹)
امام المومنین(۳۰۹)۔ ولی ربانی(۳۰۹)۔ قطب الٰہی(۳۰۹) سے بھی تواریخ وفات برآمد ہوتی ہیں۔
(خزینۃ الاصفیاء)