حضرت امام عبداللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:عبداللہ۔کنیت:ابومحمد۔لقب:عفیف الدین،ابولسعادات،ابوالبرکات،مؤرخِ اسلام وغیرہ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:ابومحمد عبداللہ یافعی بن اسعدبن علی بن سلیمان بن فلاح الیافعی الیمنی الشافعی۔علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 698ھ کوعدن یمن میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نےکثیرعلماءسےاخذِ علوم کیا۔ان میں سےامام ذہبی بن النضال،امام شرف الحرازی،امام نجم الدین طبری۔مکۃ المکرمہ میں کئی شیوخ سےعلمی استفادہ کیا۔اسی طرح مصراورشام کاسفرکیا،وہاں کےشیوخ سےاستفادہ کیا۔ان میں سےشیخ حسین حاکی،شیخ عبداللہ المالکی،شیخ محمدالمرشدی اہم ہیں۔شیخ مرشدی نےآپ کوبہت سی بشارتوں سےنواز۔اسی طرح علم ِ تصوف واخلاق شیخ علی المعروف شیخ طواشی سےاخذکیا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ ابوعبداللہ البصال علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورخرقۂ خلافت حاصل کیا۔حضرت شیخ بصال علیہ الرحمہ کاشجرۂ طریقت چندواسطوں سےحضرت محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی غوث الاعظم سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےجاکرملتاتھا۔حضرت غوث الاعظم سےمحبت وعقیدت کی بناءپران سےبیعت ہوئےتھے۔آپ نےان کی شان میں ایک کتاب بنام"خلاصۃ المفاخر فی اخبارالشیخ عبدالقادر"تحریرفرمائی۔
سیرت وخصائص: امام لاولیاء،قدوۃ الصلحاء،مجمع البحرین،شیخ الفریقین،جامع کمالاتِ علمیہ وعملیہ،پیشوائے اہلسنت،عارف انوارِ ربانی حضرت امام عبداللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش یمن میں ہوئی اوریہیں پہ تحصیلِ علوم کیا۔پھریہاں سےہجرت کرکےحجازِ مقدس تشریف لے گئے،اورحرمین شریفین کےفیوضات سےمستفیض ہوئے۔
علامہ مولانا جامی علیہ الرحمۃ الباری فرماتےہیں: امام عبداللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنےوقت کےبڑےمشائخ میں سےتھے،علومِ ظاہری وباطنی کےجامع تھے،آپ کی تصانیف نہایت عمدہ اورکثیرہیں۔ان میں سے"تاریخ مرأ ۃ الجنان،روضۃ الریاحین،الدرالنظیم۔مشہورہیں۔ان کےماسوااوربھی تصانیف ہیں۔اشعاربھی بہت عمدہ کہتےتھے۔(نفحات الانس:503)
آپ علیہ الرحمہ کثیرالعبادت،صاحبِ ورع وتقویٰ تھے۔آپ کی فضیلت عظمت اوربزرگی آپ کی زندگی میں ہی معروف تھی۔تمام علومِ عربیہ،صرف ونحو،ادب وبیان وبدیع،فقہ واصول،تفسیروحدیث،علم الحساب و فرائض،تاریخ وانساب،اورتصوف واخلاق میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔آپ کامحبوب ترین مشغلہ صوفیاء کی صحبت ومحبت اوران کی مجالس ِ خیرمیں حاضرہوکرفیوض وبرکات حاصل کرناشامل تھا۔اسی طرح لوگوں کی اصلاح وتربیت کرنا،فقراء پربہت ایثاروسخاوت ،اوران کی ضروریات کاخیال رکھتےتھے۔
آپ کی ولایت کےبارےمیں مشہورہےکہ آپ قطب الوقت تھے۔لیکن انتہائی منکسرالمزاج،اورخوش اخلاق تھے۔مخلوقِ خداپربہت مہربان ورحمدل تھے۔حضرت شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کےحامی اوران کی ذات کےمحب تھے۔ابنِ تیمیہ اوراس کےگروہ کےسخت مخالف تھے۔(طبقات الشافعیہ،ج3،ص94)
جب حضرت سید جلال الدین مخدومِ جہانیاں جہاں گشت سہروردی مکہ معظمہ گئے تو امام صاحب سے بھی ملاقات کاشرف حاصل کیا۔ ان دونوں حضرات میں اس درجہ اتحاد و محبت کا تعلق بڑھا کہ اس کی نظیر د نہیں یکھی گئی۔ حضرت امام یافعی نے سلسلۂ چشتیہ سے اخذِ فیض کے لیے حضرت مخدومِ جہانیاں کو حضرت شیخ سید نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی خدمت میں جانے کو کہا۔ چنانچہ حضرت مخدوم جب ہندوستان لوٹے تو دہلی میں حضرت شیخ نصیرالدین چراغ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خرقۂ چشت حاصل کیا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 21/جمادی الآخر768ھ،مطابق فروری/1367ءکوہوا۔مکۃ المکرمہ میں حضرت فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ کےپاس مدفون ہوئے۔
ماخذومراجع: طبقات الشافعیہ۔نفحات الانس۔خزینۃ الاصفیاء۔
//php } ?>