حضرت امام عبد اللہ الیافعی الیمنی

حضرت امام عبد اللہ الیافعی الیمنی علیہ الرحمۃ

آپ ابو سعادات عفیف الدین عبد اللہ بن اسعد یافعی یمنی حرمین شریفین کے رہنے والےشرفہا اللہ رضی اللہ عنہ۔آپ اپنے وتق کے بڑے مشائخ میں اور علوم ظاہری و باطنی کے عالم ہیں۔آپ کی تصنیفات ہیں۔منجما۔ان کے "تاریخ مراۃ الجنان عبرۃ الیتفطان فی معرفت حوادث الزمان" اور کتاب روفتہ الریاحین فی حکایات الصالحین کتاب درالنظیم فی فضائل القرآن العظیم"اس کے ماسوا اور بھی تصانیف ہیں۔اشعار بھی عمدہ کہتے تھے۔آپ لکھتے ہیں کہ شیخ علاؤ الدین خوارزمیؒ نے فرمایا ہے کہ ایک رات شام کے ایک شہر میں اپنی خلوت میں عشاء کی نماز کے بعد میں بیٹھا جاگتا تھا۔اندر سے خلوت کا دروازہ بند کای ہوا تھا۔دفتہ ً میں نے دو مرد اپنی خلوت میں دیکھے۔مجھے معلوم نہ ہوا  کہ وہ اندر کیسے آگئے۔ ایک گھڑی تک مجھ سے باتیں کرتے رہے"اور ایک دوسرے کے ساتھ فقراکی باتیں کرتے رہے۔شام کے ایک مرد خدا کا ذکر کیا "اور اس کی تعریف کی اور کہنے لگے "وہ نیک مرد ہے "اگر وہ جان لیتا کہ کہان سے کھاتا ہے۔اس کے بعد کہنے لگے"ہمارا سلام اپنے دوست عبداللہ کو پہنچا دینا۔مین نے کہا کہ اس کو کہاں سے پہچانتے ہو"وہ تو حجاز میں ہے ۔کہنے لگے"ہم کو معلوم ہے۔اٹھے اور محراب کی طرف بڑھے۔میں نے سمجھا کہ نماز پڑھیں گے"مگر وہ دیوار سے باہر نکل گئے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شیخ مذکور نے کہا ہے"میں شام کے بعض کناروں میں ماہ رجب ۷۴۲ھ میں ظہر کے بعد دوپہر میری خلوت میں آئے۔مجھ کو معلوم نہ ہوا کہ کہاں سے آئے ہیں اور کس شہر کے ہیں۔جب مجھ کوسلام کہا اور  مصافحہ کیا"تو مجھ کو ان سے محبت ہوگئی۔میں نے کہا"آپ کہاں سے آئے ہیں؟کہنے لگے"سبحان اللہ تم جیسا اس کی بابت سوال کرے۔اس کے بعد جو میرے  پاس جو کا خشک ٹکڑا تھا۔میں نے ان کے سامنے رکھ دیا۔کہنے لگے"ہم اس لیے  تو نہیں آئے۔میں نے کہا"پھر کس لیے آئے ہو؟ کہنے لگے"ہم آئے ہیں"اور تم کو وصیت کرتے ہیں کہ ہمارا سلام عبد اللہ یافعی کو پہنچا دینا اور کہہ دو کہ تم کو خوشخبری ہو۔میں نے کہا"تم اس کو کیونکر پہچانتے ہو؟کہنے لگے کہ ہم ان سے ملے ہیں اور وہ ہم کو ملے ہیں۔میں نے کہا"اس خوشخبری دینے کا تم کو حکم ہوا ہے؟کہنے لگے"ہاں" اور ایسا ذکر کیا کہ ہم بھائیوں کے پاس سے آتے ہیں"جو مشرق میں ہے۔پھر اسی وقت غائب ہوگئے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے شروع میں ترود تھا کہ علم کی طلب میں مشغول ہوجاؤں کہ جو فضیلت و کمالات کا موجب ہے یا عبادت میں مشغول رہوں کہ جس سے شیرینی اور آفت قیل و قال سے سلامتی پیدا ہوتی ہے۔اس کشاکش واضطراب میں مجھ کو نہ آرام تھا"نہ نیند آتی تھی۔میرے پاس ایک کتاب تھی۔جس کے مطالعہ میں رات دن لگا رہتا تھا۔اس بے قراری میں میں نے اس کو کھولا۔اس میں ایک ورق دیکھا کہ پہلے کبھی نہ دیکھاتھا۔اس میں چند شعر لکھے ہوئے تھے کہ جو کسی سے میں نے نہ سنے تھے۔وہ یہ شعر تھے۔

کن عن ھمومک معرضا     وکل   الا مور    الی  القضاء

 فلر    بما      السع  المضیق  ولو     بما      ضاق القضاء

   ولرب   امر  متعب لک     فی     عواقبہ  رضاء

  اللہ یفعل   ما    یشاءفلن         تکن       متعرضاء

یعنی  اپنےغموں کو چھوڑ دے"اور اپنے سب کام قضا کے سپرد کردے۔کیونکہ البتہ بسا اوقات تنگی فراخ ہوجاتی ہے"اور بسا اوقات قضا تنگ ہوجاتی ہے۔البتہ بہت سے رنج میں ڈالنے والے کام ہیں۔جن کے انجام میں تیرے لیے رضامندی ہے۔اللہ جو چاہتا ہے "وہی کرتا ہے۔پس تو ہرگز اعتراض نہ کر۔جب میں نے ان شعروں کو پڑھا"تو گویا پانی تھا۔جو میری آگ پر ڈال دیا گیا۔میری حرارت و اضطراب کے سخت قلق کو دبا دیا گیا۔انہوں نے اپنی کتاب"مراۃ الجنان" کی بنا سال پر رکھی ہے۔جوفن تاریخ میں ہے۔۷۵۰ھ تک حوادث کا بیان کیا ہے۔معلوم نہیں کہ اس کے بعد اور کتنے سال تک زندہ رہے ہیں۔رضی اللہ عنہ ونفعنا

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء