حسن رضا خاں حسؔن بریلوی، شہنشاہِ سخن مولانامحمد
اسمِ گرامی: محمد حسن رضا خان۔
لقب: شہنشاہِ سخن،استاذِ زمن،تاجدارِ فکر
وفن۔
نسب:
سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
محمد
حسن رضا خان بن مولانا مفتی نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان(علیہم الرحمۃ )۔
ولادت:
آپ 4؍ ربیع الاوّل1276ھ مطابق19؍ اکتوبر1859ءکو حضرت مولانا
نقی علی خان کے گھر پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:
ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والدِ گرامی مولانا مفتی نقی علی
خان اور برادرِ اکبر شیخ الاسلام
والمسلمین الشاہ امام احمد رضا خانکے زیرِ
سایہ ہوئی۔ فَنِّ شاعری میں برادرِ اکبر اور مرزا داغ دہلوی سے استفادہ
فرمایا۔
بیعت وخلافت:
سراج العارفین سیّد شاہ ابوالحسین احمد نوری قادری
برکاتی مارہروی
کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور سندِ خلافت سے شرف یاب ہوئے۔
سیرت وخصائص:
ماہرِ علم وفن،شہنشاہِ سخن،اُستاذِ زمن،سخن وَرِ خوش بیاں، ناظمِ
شیریں زباں مولانا محمد حسن رضا خاں کے
نام کی علم وفن اورشعر وسخن کی کہکشاؤں میں وہی حیثیت ہےجوستاروں کے جھرمٹ
میں ماہِ تمام کی۔ سیرت وتذکرہ نگاری میں آپ کی زبان وبیان کی جامعیت کا کوئی ہم
پلہ نظر نہیں آتا۔ رد ِّباطل او ر احقاقِ حق میں آپ کی مہارت اور صلابت وپختگی
اپنی نظیر آپ ہے۔ اگر مختصر سے جملے میں مولانا کو ’’نظم
ونثر کابےتاج بادشاہ‘‘ کہہ دیا
جائے تویقیناً کوئی مبالغہ آمیزی نہ ہوگی۔ مولانا حسن رضا بریلوی کا
مجموعۂ نعتیہ کلام ،شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا اور تمام تر فنّی
محاسن سے مزیّن اور آراستہ ہے ۔موضوعات کا تنوع،فکر کی ہمہ گیری، محبّتِ رسولﷺ کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جا بہ جا
ملتے ہیں۔ آپ کے کلام میں اندازِبیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی
بھی،معنیٰ آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ ہم آہنگی بھی،استعارہ سازی بھی ہے، پیکر
تراشی بھی ،طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدّت طرازی بھی، کلاسیکیت کا عنصر بھی
ہے،رنگِ تغزل کی آمیزش بھی، ایجاز و اختصار اور ترکیب سازی بھی ہے۔ استعارہ
سازی،تشبیہات، اقتباسات، فصاحت وبلاغت،حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب، حُسنِ طلب و
حُسنِ تضاد، لف و نشر مرتب و لف ونشر غیر مرتب، تجانیس،تلمیحات، تلمیعات، اشتقاق، مراعاۃ
النظیروغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی۔
الغرض، آپ کا پورا کلام
خود آگہی،کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔
مگر کیا کہا جائے
اردو ادب کے اُن مؤرّخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی
عصبیت اور جانب داریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہوکر اردو کے اس عظیم شاعر کے
ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یک سر خالی
رکھا ۔آپ کا ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کرکے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی خیانت وجُرم کا ارتکاب
کیا ہے۔
فاشتکی
الی اللہ والیہ ترجع الامور۔
وصال:
03؍ شوّال المکرم1326ھ مطابق 1908ء کو 50سال 6ماہ کی
عمر میں وصال ہوا۔