منظومات  

رباعیات

جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہومختار ہو مالکِ خدائی تم ہوجلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خداآئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو (دیگر) یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَداایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰپائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواباے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا (دیگر) بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہمتعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہمیہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوتاللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم (دیگر) خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میںجو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاو...

رباعیات

جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہومختار ہو مالکِ خدائی تم ہوجلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خداآئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو (دیگر) یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَداایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰپائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواباے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا (دیگر) بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہمتعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہمیہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوتاللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم (دیگر) خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میںجو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاو...

السلام اے خسروِ دنیا و دیں

السلام اے خسروِ دنیا و دیںالسلام اے راحتِ جانِ حزیں السلام اے بادشاہِ دو جہاںالسلام اے سرورِ کون و مکاں السلام اے نورِ ایماں السلامالسلام اے راحتِ جاں السلام اے شکیبِ جانِ مضطر السلامآفتاب ذرّہ پرور السلام درد و غم کے چارہ فرما السلامدرد مندوں کے مسیحا السلام اے مرادیں دینے والے السلامدونوں عالم کے اُجالے السلام درد و غم میں مبتلا ہے یہ غریبدم چلا تیری دُہائی اے طبیب نبضیں ساقط رُوح مضطرجی نڈھالدردِ عصیاں سے ہوا ہے غیر حال بے سہاروں کے...

ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربار

ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربارگواہ ہیں دلِ محزون و چشمِ دریا بارطرح طرح سے ستاتا ہے زمرۂ اشراربدیع بہر خدا حرمتِ شہِ ابرارمدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار اِدھر اقارب عقارب عدو اجانب و خویشاِدھر ہوں جوشِ معاصی کے ہاتھ سے دل ریشبیاں میں کس سے کروں ہیں جو آفتیں در پیشپھنسا ہے سخت بلاؤں میں یہ عقیدت کیشمدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار نہ ہوں میں طالبِ افسر نہ سائل دیہیمکہ سنگ منزل...

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہےہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہےکچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کاجس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دےٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دےیہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کرہو جاؤں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر فکرِ بلند سے ہو عیاں اق...

نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری

نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیریکفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری خاک منہ میں ترے کہتا ہے کسے خاک کا ڈھیرمِٹ گیا دین ملی خاک میں عزت تیری تیرے نزدیک ہوا کذب الٰہی ممکنتجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری بلکہ کذّاب کیا تو نے تو اِقرار وقوعاُف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری علم شیطاں کا ہوا علمِ نبی سے زائدپڑھوں لاحول نہ کیوں دیکھ کے صورت تیری بزمِ میلاد ہو ’کانا‘ کے جنم سے بدترارے اندھے ارے مردود یہ جرأت تیری علمِ غیبی میں مجانی...

ہے پاک رتبہ فکر سے اس بے نیاز کا

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کاکچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجابکیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئےاللہ رے جگر ترے آگاہ راز کا غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کوجلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیںعالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیںحاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا اس بے کسی میں دل کو مرے ...

فکر اسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیرا

فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیراوصف کیا خاک لکھے خاک کا پُتلا تیرا طور پر ہی نہیں موقوف اُجالا تیراکون سے گھر میں نہیں جلوۂ زیبا تیرا ہر جگہ ذکر ہے اے واحد و یکتا تیراکون سی بزم میں روشن نہیں اِکّا تیرا پھر نمایاں جو سر طُور ہو جلوہ تیراآگ لینے کو چلے عاشقِ شیدا تیرا خِیرہ کرتا ہے نگاہوں کو اُجالا تیراکیجیے کون سی آنکھوں سے نظارہ تیرا جلوۂ یار نرالا ہے یہ پردہ تیراکہ گلے مل کے بھی کھلتا نہیں ملنا تیرا کیا خبر ہے کہ علی العرش کے معنی کی...

جن و انسان وملک کو ہے بھروسہ تیرا

جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیراسرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیراخوب رو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا دَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیراوقف ہے مانگنے والوں پہ خزانہ تیرا لا مکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرادُور پہنچایا ترے حسن نے شہرہ تیرا جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیراحسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا یہ نہیں ہے کہ فقط ہے یہ مدینہ تیراتو ہے مختار، دو عالم پہ ہے قبضہ تیرا کیا کہے وصف کوئی دشتِ مدینہ ...

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیراکبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا مئے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرابے خودی چھائے نہ کیوں پی کے پیالہ تیرا خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہےسالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا ہے تری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارےکسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا جورِ پامالیِ عالم سے اُسے کیا مطلبخاک میں مل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا کس قدر جوشِ تحیّر کے عیاں ہیں آثارنظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈےواہ اے ابر...