2015-08-31
علمائے اسلام
متفرق
6014
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1027 | ذوالقعدہ | 15 |
یوم وصال | 1118 | ذوالقعدہ | 28 |
سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:اورنگ زیب عالمگیر۔کنیت:ابوالمظفر۔لقب:محی الدین،سلطان المعظم،سلطان الہند۔پورانام:سلطان المعظم ابوالمظفر محی الملۃ والدین محمد اورنگ زیب عالمگیررحمۃ اللہ علیہ ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:سلطان اورنگ زیب عالمگیر، بن سلطان شاہ جہاں، بن نورالدین جہانگیر۔
تاریخِ ولادت:بروز ہفتہ،15ذیقعدہ/1027ھ،بمطابق 24/اکتوبر1618ء کو "مالوہ"اور گجرات کی آخری سرحد پر "دوحد"کے مقام پر پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ سلاطینِ مغلیہ میں سے واحد شخصیت ہیں ،جوحافظِ قرآن تھے۔آپ کی خوش قسمتی ہےکہ آپ کو اپنے وقت کے جید مشائخ اور اساتذہ کی صحبت کا موقع ملا جن میں شیخ ِجلیل شیخ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی،اورشیخ احمد معروف بہ ملاجیون(صاحبِ تفسیراتِ احمدیہ) ۔ان کے علاوہ میر محمد ہاشم گیلانی،ملا موہن بہاری،علامۂ زمان سعد اللہ وزیرِ اعظم شاہجہاں بادشاہ،مولانا سید محمد قنوجی،دانشمند خان (علیہم الرحمہ)۔3/ذوالحج 1045ھ کو 18 سال ؛10 دن کی عمر میں تمام علومِ مکتسبہ وفنونِ متعارفہ،عربی،فارسی،ترکی اور ہندی زبانوں میں پوری مہارت حاصل کی۔عربی اور فارسی خط(نسخ ونستعلیق)میں کمال حاصل کیا۔علومِ دینیہ تفسیر،حدیث،فقہِ حنفیہ،عقائدِ اصلیہ ومسائلِ فرعیہ،کتبِ طریقت مثلاً: احیاء العلوم،کیمیاء سعادت،کشف المحجوب اور کثیر کتب کامطالعہ بچپن میں کرلیاتھا۔اس کے ساتھ فنونِ حربیہ،ملکی آئین،طریقِ جہانبانی ودستورِ فرمانروائی کا وہ بہترین سلیقہ اس قلیل عمر میں مکمل کرلیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ عالمگیر کے زمانے میں درس وتدریس کو جو ترقی ملی ایسا کسی عہد میں نہیں ہوا۔حفظِ قرآنِ مجیدکی سعادت 43 سال کی عمر میں ہوئی۔اس موقع پر ایک شاعر نے کہا تھا۔
؎ تو حامیِ شرع وحامیِ تو شارع تو حافظِ قرآن وخداحافظِ تو
بیعت وخلافت: شیخ سیف الدین نبیرہ حضرت مجددالفِ ثانی ،اور خواجہ محمد سعید خلف الرشید حضرت مجددالفِ ثانی نے روحانی تربیت فرمائی ،اورحضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی کے ذریعے تکمیل ہوئی۔(علیہم الرحمۃ رحمۃ ًواسعۃً)۔ حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نے آپ کے بارے میں فرمایا:میں نے بادشاہ(عالمگیر)کے معاملات میں نظر کی ہے۔ان کا ظاہر تو امورِ سلطنت میں مصروف ہے ،مگرانکا باطن اللہ جل جلالہ کے ذکر میں مصروف ہے۔(مکتوب :220) ؎دست بکار کن، ودل بیارکن۔
سیرت وخصائص:سلطان المعظم،حامیِ سنت، ماحیِ بدعت،دین پرور ،محی الملۃ والدین،حامیِ شرع متین،صاحبِ اوصافِ کثیرہ محی الدین ابوالمظفر سلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کی دین پروری ،دینداری ،تقویٰ وپرہیزگاری ،علم وفضل،عدل ومساوات،علم دوستی ،"خدمتِ دین"اور عظیم کارناموں کی وجہ سے"بارہویں صدی کامجددکہاجاتاہے"۔اتنی وسیع سلطنت کے سلطان ہونےکے باوجود آپ نے کبھی بھی عبادت وریاضت میں کمی نہیں آنے دی۔آپ ہروقت باوضو رہتے تھے۔کلمہ طیبہ اور ادعیہ ماثورہ درودشریف اور ذکراللہ سے زبان تر رہتی تھی۔نماز صفِ اول میں باجماعت اداکرتے تھے۔تمام سنن ونوافل اور مستحبات خشوع وخضوع کیساتھ ادا کرتے تھے۔شب زندہ دار تھے۔سال کے اکثر حصے میں روزے سے رہتےتھے۔ڈاکٹربرنیز نے 1665 میں آپ کو دیکھا تھا۔وہ لکھتا ہے:"اس کی زندگی بالکل سادی اور زاہدانہ تھی۔اس کا جسم نحیف ہوگیاتھا،اوراس لاغری وکمزوری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا تھا"۔ نمازِ جمعہ وعیدین عام مسلمانوں کیساتھ بغیر کسی شاہی پروٹوکول کے اداکرتے تھے۔اہل اللہ کی صحبت کو پسند کرتے تھے۔رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں معتکف رہتے تھے۔
آپ نے امورِسلطنت سنبھالتے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں، اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال ، نجومی ، شاعر موقوف کر دئیے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی، اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔آپ کے دورِ حکومت میں حکمرانوں اور عمالوں کی نگہبانی کا بہترین نظام تھا۔قومی خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی ۔قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کرگزاراکرتےتھے۔ نظامِ سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوٰی تصنیف کیاگیاجسے"فتاوی عالمگیری "کہاجاتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتاہے۔آپ کے زمانے میں علم بیچا نہیں جاتا تھا،تعلیم جیسے مقدس شعبے کی تجارت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں سرکاری مدارس کی بنیاد رکھی جہاں ہرقسم کی تعلیم فری ہوتی اور اس کے ساتھ علماء وطلباء کو وظائف اور روزینے مقرر تھے۔جس کی وجہ سے مطمئن ہوکر تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے۔
آپ نے تجہیز وتکفین سے متعلق یہ وصیت فرمائی تھی:"چارروپیہ،دوآنےجوٹوپیوں کی سلائی سے حاصل ہوئے،ان سے میری تجہیزوتکفین ہو۔تین سو پانچ روپے قرآن نویسی کی اجرت کےمحفوظ ہیں،وفات کے دن مساکین میں تقسیم کردئیےجائیں"۔(آپ کے تحریر کردہ قرآن ِمجید کے چھ نسخے اور ایک پنج سورہ مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔آپ جس کلامِ مجید میں تلاوت کرتے تھے،وہ اس وقت کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ)کے قبضے میں ہے)۔(علماء ہند کا شاندارماضی:557)
وصال:بروز جمعۃ المبارک،28/ذیقعدہ 1118ھ،بمطابق20/فروری 1707ء ،بوقتِ صبح،90سال کی عمر میں کلمہ طیبہ کاورد کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔خلدآباد، ضلع اورنگ آباد،صوبہ مہاراشٹر(انڈیا) احاطہ درگاہ حضرت زین الدین علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔
ماخذومراجع: علماء ہند کا شاندارماضی۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ۔