حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1007 | شوال المکرم | 10 |
یوم وصال | 1079 | ربيع الأول | 09 |
حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی
نام ونسب: اسم گرامی: خواجہ محمد معصوم سرہندی۔کنیت: ابوالخیر۔لقب: قیوم ثانی،عروۃ الوثقیٰ،مجددالدین۔سلسلہ نسب: اس طرح ہے:خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی بن شیخ عبدالاحدبن شیخ زین العابدین بن شیخ عبدالحی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ رفیع الدین بن شیخ نصیرالدین بن شیخ سلیمان۔آپ کاشجرۂ نسب امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق اعظم سےجاکر ملتا ہے۔الیٰ آخرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 10/شوال المکرم 1007ھ مطابق اوائل مئی 1599ء کوہوئی۔کیونکہ ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہم حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی ملازمت سے مشرف ہوئے اور ان کی خدمت میں دیکھا جو کچھ دیکھا۔(تذکرہ مشائخِ نقشبند: 344)
ایام طفولیت: لڑکپن ہی میں آپ کے والد بزرگوار آپ کی بلند استعداد کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ لڑکا محمدی المشرب ہے۔ چنانچہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :از فرزندی محمد معصوم چہ نویسد کہ وے بالذات قابل ایں دولت است یعنی ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے قابل ہے۔ اور یہ بھی فرماتے تھے کہ محمد معصوم کی بلند استعداد کی وجہ یہ تھی کہ تین سال کی عمر میں حرف توحید آپ کی زبان سے نکلا۔ اور یوں کہنے لگے کہ میں آسمان ہوں، میں زمین ہوں، میں یہ ہوں، میں وہ ہوں،دیوار حق ہے۔ حضرت شیخ نے اُس وقت فرمایا کہ اس طریق میں پیر و جوان برابر ہیں۔ اور انوار فیوض کے وصول میں عورتیں اور بچے مساوی ہیں۔
تحصیلِ علم: حضرت مجدد آثارِ رشد کو دیکھ کر آپ پرنظر ِعنایت رکھتے، اور فرماتے تھے کہ چونکہ علم مبدءِ حال ہے۔ا س کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے حضرت نے آپ کو علوم معقول و منقول کی تحصیل کی ہدایت کی۔ اکثر علوم آپ نے اپنے والد بزرگوار سے اور کچھ اپنے بڑے بھائی خواجہ محمد صادق اور شیخ محمد طاہر لاہوری سے پڑھے۔چودہ سال کی عمر میں آپ نے واقعہ میں دیکھا کہ میرے بدن سے ایک نور نکلتا ہے کہ اُس سے تمام عالم منور ہے۔ اور وہ نور عالم کے ہر ذرہ میں ساری ہے۔ مثل آفتاب کے کہ اگر وہ غروب ہوجائے تو عالم تاریک ہے۔ آپ نے یہ واقعہ اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں عرض کیا۔ تو حضرت نے آ پ کو بدیں الفاظ بشارت دی۔ تو قطب وقت خویش مے شوی و ایں سخن از من یاد دار (مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول۔ مکتوب ۸۶)
چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا کہ ایک جہان آپ کے انوار و برکات سے معمور ہوگیا۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ بابا! تحصیل علوم سے جلدی فارغ التحصیل ہوجاؤ۔ کیونکہ ہم کو تم سے بڑے بڑے کام لینے ہیں۔ غرض حضرت کی توجہ سے آپ سولہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔بعد ازاں ہمہ تن متوجہ باطن ہوئے۔ اور عنایت الٰہی سے اپنے والد بزرگوار کے احوال و اسرار خاصہ سے حظ وافر حاصل کیا۔صاحب زبدۃ المقامات نے لکھا ہے کہ ایک روز میں نے خود حضرت مجدد سے سنا کہ فرماتے تھے کہ محمد معصوم کا حال روز بروز میری نسبتوں کے حاصل کرنے میں صاحب شرح وقایہ (صدرالشریعہ عبیداللہ) کا سا ہے۔ جو شرح وقایہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ میرے دادا (تاج الشریعہ محمود) بمقدار سبق تصنیف کرتے تھے۔ میں اُسی قدر حفظ کرلیتا تھا۔ یہاں تک کہ جس روز وقایہ کی تصنیف ختم ہوئی اسی روز میرا حفظ کرنا ختم ہوا۔(تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ:345)
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اپنے والدِ گرامی امام ربانی مجدد الفِ ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔آپ کی تربیت وتوجہ سے قیومِ زمان اور غوث دوراں کے منصب پر فائز ہوئے۔
سیرت وخصائص: قیومِ ثانی،غوثِ صمدانی،عارفِ اسرار رحمانی،جانشینِ امام ربانی،جگر گوشۂ مجدد الفِ ثانی، ابوالخیر حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نقشبندی مجددی۔ آپ اپنے والد ِ گرامی حضرت امام ربانی کےجانشین کامل اور عُلُوِّمرتبہ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ نے
حضرت مجدد الفِ ثانی کی جانشینی اور دینِ اسلام کی خدمت اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی کی ترویج واشاعت کا حق ادا کردیا۔آپ کی برکت سے سلسلہ عالیہ ہند سندھ،ایران،افغانستان،اور مشرق ِ وُسطیٰ،حجاز ویمن اور روم وغیرہ تک جا پہنچا۔
فضائل و مناقب:آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو خلعت قیومیت کی بشارت دی۔ چنانچہ ایک مکتوب میں آپ کو اور خواجہ محمد سعید رحمہا اللہ تعالیٰ کو یوں تحریر فرماتے ہیں: ’’کل نماز فجر کے بعد میں خاموش بیٹھا تھا کہ ظاہر ہوا کہ جو خلعت مجھ پر تھی وہ مجھ سے جدا ہوگئی۔ اور یہ آرزو ہوئی کہ اگر وہ دی جائے تو میرے فرزند ارشد محمد معصوم کو دی جائے۔ ایک لمحہ کے بعد دیکھا کہ میرے بیٹے کو عطا کی گئی۔ اور اُسے پوری پوری پہنادی گئی۔ اس خلعت زائلہ سے مراد معاملہ قیومیت تھا۔ جس کا تعلق تربیت و ارشاد سے تھا۔ اور اس مجمع گاہ سے تعلق کا سبب یہی معاملہ قیومیت تھا۔ا ور اس نئی خلعت کا معاملہ جب انجام کو پہنچے گا اور اتارنے کے لائق ہوجائے گی تو امید ہے کہ کمال کرم سے وہ میرے فرزند عزیز محمد سعید کو عطا کی جائے گی۔ یہ فقیر ہمیشہ تضرع سے یہ دعا کرتا ہے اور قبولیت کا اثر دیکھتا ہے اور اپنے فرزند محمد سعید کو اس دولت کا مستحق پاتا ہے۔(ایضاً:349)
عروۃ الوثقیٰ: حق تعالیٰ نے آ کو عروۃالوثقیٰ کا خطاب دیا۔ چنانچہ ۱1035ھ میں ایک ر وز آپ نے فرمایا کہ آج میں صبح کے حلقہ میں بیٹھا تھا کہ جناب سرور کائنات ﷺ تشریف فرما ہوکر مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ اور فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آپ کو عروۃ الوثقیٰ کا خطاب دیا ہے۔ اس نعمت عظمیٰ کا شکر بجالاؤ۔ اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام مقرب فرشتوں اور انبیاء و اولیا نے آکر میرے گرد حلقہ بنایا اور کہتے ہیں۔ السلام علیکم یا محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ۔ پھر ہر ایک نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں نے سنہری خط سے عرش مجید کے گرد محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ لکھا ہوا دیکھا ۔
کعبے کا ملاقات کےلئے آنا: حضرت مروج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ یا قوت احمر میں لکھتے ہیں کہ ایک روز حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آج فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے میں مراقبہ میں بیٹھا تھا کہ مجھ پر ظاہر ہوا کہ تمام جہان اہل جہان آدم وغیرہ ساری مخلوقات مجھے سجدہ کر رہے ہیں میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آخر یہ بھید کھال کہ کعبہ میری ملاقات کو آیا جس نے مجھے گھیر لیا۔ اس واسطے جو شخص کعبہ کو سجدہ کرتا تھا مجھے ظاہر میں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے سجدہ کر رہا ہے ان کے علاوہ اور فضائل ہیں جن میں سے بعضے آئندہ مذکور ہوں گے۔(ایضا:349)
حرمین شریفین کی زیارت: آپ اپنی قیومیت کے چونتیسویں سال حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے وہاں کے بعض معاملات آپ کے فرزند ثانی مروج الشریعت خواجہ عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رسالہ میں لکھے ہیں جس کا نام یاقوت احمر ہے۔ اس میں سے چند واقعات یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
حج کی قبولیت کا پروانہ: حضرت قیوم ثانی فرماتے ہیں کہ جب ہم ایام تشریق میں منیٰ سے شہر میں آئے تو طواف سے فارغ ہونے پر ظاہر ہوا کہ فرشتہ نے محض ادائے ارکان پر حج کی قبولیت اور اجر کا مہر شدہ کاغذ ہمیں عطا کیا ۔ ایام قیام مکہ میں آپ اکثر طواف میں مشغول رہا کرتے۔ اس وقت اس عبادت کو بہترین عبادت جانتے تھے۔ اور فرماتے کہ عجیب و غریب باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھتا ہوں کہ کعبہ ہم سے گلے ملتا ہے اور بڑے اشتیاق سے چومتا ہے۔ انہیں دنوں میں ایک روز ظاہر ہوا کہ مجھ سے انوار و برکات اس کثرت سے نکلتے ہیں کہ انہوں نے تمام چیزوں کو گھیرلیا ہے اور جنگل و بیابان ان سے پر ہوگیا ہے۔ اور ان کے مقابلہ میں تمام دیگر انوار چھپ گئے ہیں۔ جب میں اس کی حقیقت کے دریافت کے واسطے متوجہ ہوا تو معلوم ہو اکہ مجھ سے میری حقیقت دور کرکے کعبہ کی حقیقت سے مشرف فرمایا گیا ہے۔
ایک رات آپ وتر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ فرمایا رکن یمانی کے نزدیک بہت سے فرشتے موجود ہیں۔ چنانچہ حدیث میں بھی وارد ہے کہ ستر ہزار فرشتے رکن یمانی کے نزدیک رہتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا کہ وہ اپنی جگہ سے سرک کر میرے گرد اگرد جمع ہوگئے۔ اور ان کے ہاتھوں میں قلم دوات ہے۔ میری حقیقت لکھ کر چلے گئے۔ فرمایا کہ ایک روز بعد نماز فجر حلقہ میں دیکھا کہ مجھے ایک خلعت عالی عطا ہوا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ خلعت عبودیت ہے۔ ایک روز آپ حلقہ ذکر میں بیٹھے تھے۔ مراقبہ کے بعد فرمایا قلم دوات عنایت ہوئی۔ گویا مجھے منصب وزارت عطا ہوا ہے۔ اور جناب پیغمبرِ خدا ﷺکی عنایت سے مجھے تمام مخلوقات پر وزیرِ اعظم بنایا گیا ہے۔(ایضا:350)جب حرم شریف سے رخصت ہونے کے دن قریب آئے تو الطاف عظیمہ اور انعامات جلیلہ مرحمت ہوئے اور معلوم ہوا کہ ایک خلعت عالی سبز رنگ مکلل بجواہر عنایت ہوا جو خلعت وداع تھا اور بعضے صاحبزادگان جو رفیق سفر تھے اُن کو بھی عنایت ہوا۔
مدینہ منورہ میں حاضری:مکہ مشرفہ سے روانہ ہوکر آپ مدینہ منورہ میں پہنچے۔ اور روضہ منورہ پر حاضر ہوکر آداب زیارت بجالائے ۔آپ نے بپاس ادب اس معاملہ میں جناب رسول خدا ﷺ سے دریافت کیا اورمواجہہ شریفہ میں کھڑے ہوکر مراقبہ کیا۔ چنانچہ کمال رضا اس معاملہ میں معلوم ہوئی۔ اور خلوت اورارشاد عنایت ہوا۔ اور انوار و عنایات حضرت شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ظاہر ہوئے۔آپ نے فرمایا کہ اگرچہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار بقیع میں ہے۔ مگر حجرہ شریفہ ان کا گھر ہے۔ اکثر اوقات ام المومنین کو حجرہ شریفہ میں حضرت نبوی کے پاس پاتا ہوں اور مسجد شریف کو ان کے انوار سے پُر دیکھتا ہوں۔آپ کو مسجد نبوی میں دو روز کے اعتکاف کی اجازت ہوئی۔ رات کے وقت جب سب کو وہاں سے حسب معمول علیحدہ کردیا گیا۔ تو آپ مواجہہ شریف میں جاکر مراقب ہوئے، فرمایا کہ جناب رسالت مآبﷺحجرہ خاص سے باہر تشریف لائے اور بکمال عنایت مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ اُس وقت مجھ کو الحاق خاص آنحضرت ﷺ کی حقیقت سے حاصل ہوا۔
فرمایا کہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت ﷺ کا وجود مقدس مرکز جمیع عالمیان ہے۔ عرش سے فرش تک تمام مخلوقات آپ کی محتاج ہے۔ اور آپ سے فیض یاب ہے۔ اگرچہ وہاب مطلق اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن افاضہ آپ کے توسل شریف سے ہوتا ہے۔ اورمہمات ملک و ملکوت آپ کے اہتمام سے سرانجام پاتی ہیں۔ شب و روز کافہ مخلوقات پر روضہ مطہرہ سے انعام ہوتا رہتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپ وما ارسلنک الا رحمۃ للعٰلمین ہیں۔ ایک روز فرمایا کہ کل سے ظہور اسرار و تلاطم امواج انوار معلوم ہوتا تھا اور آج ایک سا معاملہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اشارہ سے بھی ظاہر نہیں کرسکتا۔ اور اگر ظاہر ہو۔ قطع البلعوم و ذبح الحلقوم کا سزاوار ہوجاؤں۔ مگر بعض مقامات رمز سے کہتا ہوں اور وہ معاملہ کمون و بروز ہے۔
پھر فرمایا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ سے روانہ ہونے لگا۔مسجد شریف میں رخصت کے واسطے حاضر ہوا۔ جدائی کے غم و الم کے سبب سے بے اختیار بار بار رونے لگا۔ اسی حالت میں حضرت رسالت خاتمیت کمال عظمت سے روضۃ مطہرہ سے حاضر ہوئے۔ اور نہایت کرم سے خلعت تاج سلاطین بکمال علو و رفعت کہ ہرگز ایسا نہیں دیکھا گیا تھا احقر کو پہنایا اور محسوس ہوا کہ اس تاج پر ایک شہپر کا طرہ لگا ہوا ہے اور اُس پر ایک لعل جڑا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ یہ خلعت خاص جسمِ اطہر آنحضرت ﷺ سے اترا ہوا ہے اور دیگر خلعتوں کی طرح نہیں۔ اور فرمایاکہ خلعت عطا کرنے سے نظر کشفی میں نسبت خاصہ مرحمت فرمانا مراد ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے وطن کو واپس ہوئے۔قصہ کوتاہ حضرت قیوم ثانی کی کثرت ارشاد و مشیخت بیان سے باہر ہے۔ جناب پیغمبر خدا ﷺکے زمانے کے بعد کسی ولی اللہ کو اس قدر ارشاد مشیخت نصیب نہیں ہوئی۔ چنانچہ تاریخ مرأت العالم و جہاں نماز میں جو عالمگیر کے حکم سے لکھی گئی ہیں یوں لکھا ہے کہ مشیخت کی مسند پر کوئی ایسا شیخ نہیں بیٹھا جیسا کہ شیخ محمد معصوم ﷺ جہان کے تمام اطراف و جوانب کے بادشاہ علماء مشائخ چھوٹے بڑے وضیع و شریف مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک کے آنحضرت کے مرید تھے۔ لا انتہا خاص و عام بندگان خدا صبح و شام پر وانوں کی طرح آنجناب پر جان فدا کرتے۔
ہندوستان، توران، ترکستان، بدخشان، دشت قبچاق، کا شغر، خطا، روم، شام اور یمن کے بادشاہ آنجناب کے مرید ہوئے۔ اُس وقت کے بڑے بڑے شیخ اور علماء اور گروہا گروہ اپنی اپنی مشیخت ترک کرے کے آنجناب کے مرید ہوئے۔ روئے زمین کے مختلف حصوں کے لوگ آنحضرت کو خواب میں دیکھ کر اور انبیاء اولیا سے خوشخبری پاکر حاضر خدمت ہوکر شرف بیعت سے مشرف ہوتے۔ مختلف ملکوں میں آنجناب کے خلفا کی خدمت میں ہزارہا آدمیوں کا مجمع رہتا۔ ہر روز سینکڑوں نئے مرید حاضر خدمت ہوتے اور فنا و بقا اور پروردگار کا پورا پورا قرب حاصل کرتے۔ حضرت کی مجلس کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ مجلس اقدس میں بڑے بڑے بادشاہ آپس میں گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ بغیر اجازت بات نہ کرتے۔ اگر بڑا ضروری کام ہوتا تو کاغذ پر لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ عالمگیر بادشاہ پر اگرچہ آپ بدرجہ غایت مہربان تھے لیکن پھر بھی بسبب غایت ادب اُس نے آنجناب کے حضور میں کسی سے کبھی گفتگو نہ کی اور بغیر اذن نہ بیٹھا۔کہتے ہیں کہ خلفاء اور فرزندوں کی وساطت کے بغیر براہِ راست نو لاکھ آدمی حضرت قیومِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوئے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد سات ہزار تھی جو سب کے سب صاحب کمالات تھے۔
وصال مُبارک: وفات سے ایک روز پیشتر جمعہ کے دن آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ امید نہیں کہ کل اس وقت تک دنیا میں رہوں۔ اور سب کو پند و نصائح فرما کر خلوت میں تشریف لے گئے۔ صبح کو آپ نے نماز فجر کمال ارکان تعدیل کے ساتھ ادا کی۔ مراقبہ معمولہ کے بعد اشراق پڑھی۔ بعد ازاں سکرات موت آپ پر شروع ہوگئے۔ اس وقت آپ کی زبان مبارک جلد جلد چلتی تھی۔ صاحبزادوں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ آپ یٰسین شریف پڑھتے تھے۔ غرض کہ شنبہ کے دن دوپہر کے وقت 9/ ربیع الاول 1079ھ کو آپ نے وصال فرمایا۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ۔تاریخ مشائخِ نقشبندیہ۔