2015-11-14
علمائے اسلام
متفرق
3309
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1329 | ذوالحجہ | 28 |
یوم وصال | 1368 | صفر المظفر | 02 |
حضرت علامہ مولانا فضل احمد صوفی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: مولانا فضل احمد صوفی۔والد کا اسمِ گرامی:سلطان الواعظین خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مولانا فضل احمد صوفی بن مولاناعبدالاحد محدث پیلی بھیتی بن مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی بن مولانا محمد طیب بن مولانا محمد طاہرعلیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ سلطان الواعظین خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی کےمنجھلے صاحبزادے فضل احمد صوفی اپنے برادر مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کے ساتھ 28/ذوالحجہ 1329ھ،مطابق 20/ دسمبر 1911ء بروز بدھ اپنے ننھیال گنج مراد آباد ( ضلع کانپور )میں جڑواں پیدا ہوئے ۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے والد اور چچا مولانا عبدالحئی پیلی بھیتی سے حاصل کی۔ صرف ونحو کی کچھ کتابیں مولانا فضل حق رحمانی پیلی بھیتی سے پڑھیں پھر کانپور چلے گئے ۔ جہاں آپ نے حلیم مسلم ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا اور امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فضل احمد صوفی کو اوائل عمر سے ہی شعر و ادب اور مضمون نویسی سے شغف تھا ، چنانچہ آپ نے ابتدا ًادبی موضوعات پر مضامین لکھے اور کانپور سے ایک ادبی ماہنامہ "تحریریں" جاری کیا ۔لیکن معاشی مجبوریوں کے پیش نظر یہ سلسلہ ترک کر کے ریلوے کے سی ٹی ایم آفس میں ملازمت اختیار کرلی اور بمبئی میں آپ کو لکھنے پڑھنے کے وافر مواقع میسر آئے اور مختلف اخبارات کے لئے مضامین لکھنا شروع کر دیئے ۔ آپ بیک وقت عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی میں قومی سیاست کا عروج تھا اور مسلمان زعماء مسلمانوں کی سیاسی بیداری کے لئے شبانہ روز جدوجہد کر رہے تھے لہذا آ پ نے بھی قومی موضوعات پر قلم اٹھایا اور سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے کھل کر اظہار خیال کیا۔ فضل احمد صوفی کی قلمی ڈائریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی علمی استعداد پڑھانے کے لئے مطالعہ جاری رکھا۔ 1935ء تا 1938ء تک بہت دیدہ ریزی سے مطالعہ کیا۔
بیعت: آپ اپنے والد سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد پیلی بھیتی سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں دستِ بیعت ہوئے ۔
سیرت وخصائص: صوفیِ باصفا،مجاہدِ اسلام وپاکستان،حضرت علامہ مولانا صوفی فضل احمد صوفی رحمۃ اللہ علیہ۔زمانۂ ابتلاء میں آپ کی عظیم خدمات ہیں۔آپ نے بلاخوف ولائم ہرسطح پر مسلمانوں کی راہنمائی ووکالت کاحق اداکردیا۔ایسا کیوں نہ ہوتا کہ جن کےوالد خلیفۂ اعلیٰ حضرت اور دادا امام المحدثین ہیں۔تحریک پاکستان میں خدمات: مولانا فضل احمد صوفی حق گوئی اور بے با کی کو آئین جو انمرداں تصور کرتے تھے اور بلا خوف حق بات کہتے اور حق بات کی تائید کرتے ۔ 1935ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی انگستان سے وطن واپسی مسلمانوں کیلئے ایک ہمت افزاء شگون تھا، کیوں کہ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد مسلمانان ہند کو کوئی ایسی شخصیت افق سیاست پر نظر نہیں آتی تھی جوان کی سیاسی جدوجہد کی صحیح سمت متعین کرے ۔ ہر چند علامہ اقبال بھی مسلمانوں میں فکری انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے تھے لیکن ان کو بھی ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی ، جو ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکے ۔ چنانچہ قائداعظم کی ہندوستان واپسی کا مسلمانوں کے ہر طبقے نے خیر مقدم کیا اور آپ کو تعاون کا یقین دلایا۔ ان دنوں قائداعظم بمبئی میں مقیم تھے اور بر صغیر کے مسلمانوں کی نگاہیں اسی جانب لگی ہوئی تھیں ۔ مولانا فضل احمد صوفی نے بھی اس مر حلہ پر قائداعظم کی آواز پر لبیک کہااور مسلم لیگ کی کھل کر حمایت شروع کر دی اسی دوران مسلم لیگ کی مقبولیت سے گھبراکر جمعیت علماء ہند (دیوبندیوں) کے چند سر برآوردہ افراد نے لکھنومیں شیعہ سنی مناقشات کا بازار گرم کر دیا تاکہ مسلمان فرقہ واریت کا شکار ہو جائیں اور مسلم لیگ اپنی تنظیم نو میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں کچھ رہنماوٗں نے مسلم لیگ اور قائداعظم پر تبرا شروع کر دیا، اور کہا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن اس نے لکھنو کے شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرانے کے سلسلہ میں کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مولانا فضل احمد نے اس موقع پر ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا اور بتایا کہ شیعہ سنی اختلافات ختم کرنے کے سلسلہ میں مسلم لیگ نے کیا کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا:"شاید یہ اعتراض کرنے والے اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ محمد علی جناح نے سب سے پہلے ان اختلافات کو ختم کرانے کے سلسلے میں مسلم لیگ کی خدمات پیش کی تھیں ۔ لیکن ان کو نہ معلوم کن وجوہات کی بناء پر قبول نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ کی حکمت عملی سوائے خاموشی کے اور کیا ہو سکتی تھی کیوں کہ ایک سیاسی جماعت کو اس قسم کے فرقہ وارانہ مظاہروں سے دورہی رہنا چاہئے"۔ (ٹائمز آف انڈیا 25مئی 1939ء )
23/ مارچ 1940ء کو لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری فضل احمد صوفی کیلئے شدید مسرت کا باعث ہوئی ،چنانچہ آپ نے مسلم لیگ کے منصوبہ وطن کے خدوخال کو اپنے مضامین میں اجاگر کیا اور قرار داد لاہور کو جو بعد مین قرار داد پاکستان کا روپ دھار گئی ۔ بین الاقوامی سیاسی اصولوں کی کسوٹی پر رکھ کر پیش کیا۔ اس سلسلہ میں"دی پروگریس"بمبئی میں شائع ہونے والا آپ کا مضمون "مسلم لیگ ہوم لینڈ پلان " بڑی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس مضمون میں صوفی نے ان اعتراضات کا بھی شافی جواب دیا ہے جو لاہور میں قرار داد کی منظوری کے فورا بعد ہندووٗں کی جانب سے اٹھائے گئے تھے ۔ فضل احمد صوفی نے 3/ دسمبر 1941ء کو ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر کو ایک خط "پاکستا ن "کے عنوا ن سے لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ:"کانگریسی رہنما خصوصا وہ جو مسٹر منشی کے ہم خیا ل ہیں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان سے سخت برہم دکھائی دیتے ہیں لیکن برہمی سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عوامل پر غور کیا جائے جنہوں نے مسلمانوں کو پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1937ء میں کانگریس کی جانب سے وزارتیں قبول کرنے سے قبل مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کانگریس کی قوم پرستی اور متعصبانہ ذہنیت ہے جو مطالبہ پاکستان کا باعث ہوئی ہے اور اس حقیقت کو کانگریسی رہنما ڈومیسہ نے مرکزی اسمبلی میں دوران تقریر تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ "دراصل پاکستان کے بانی مسٹر جناح نہیں بلکہ مسٹر گاندھی ہیں جنہوں نے ہر شخص کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے "۔ (پاکستان ، مراسلہ فضل احمد صوفی ، مطبوعہ ٹائمز آف انڈیا ۔ 3/ دسمبر 1941ء )۔
1939ء تا 1947ء تک آٹھ سال آپ نے تحریک پاکستان کے لئے ایک موثر وکیل کی حیثیت سے مسلم لیگ کی پالیسیوں پر نہایت ٹھوس مضامین قلمبند کئے اور کانگریس کی فرقہ پرست ذہنیت کی شدید مذمت کی۔ اس ضمن میں انہوں نے جمعیت علماء ہند کے رہنما وٗ ں اور ابو الکلام آزاد کو بھی معاف نہیں کیا اور ان کی سیاسی کردار کی خامیوں کی نشاندہی کی۔
وصال: مولانا فضل احمد صوفی 1946ء کے اواخر میں بمبئی سے تبادلہ ہو کر کراچی آگئے پھر تپ دق (ٹی بی)نے ان کو ایسا دبوچا کہ2/صفرالمظفر 1368ھ،مطابق 4/ دسمبر 1948ء بروز ہفتہ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی نے نماز جنازہ پڑھائی اور کراچی کے قدیم قبرستان میوہ شاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
ماخذومراجع: انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔
//php } ?>