سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی :عبدالاحد۔لقب:سلطان الواعظین ۔والد کا اسمِ گرامی:استاذالمحدثین مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ ۔سلسلہ ٔنسب اسطرح ہے :مولاناعبدالاحد محدث پیلی بھیتی بن مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی بن مولانا محمد طیب بن مولانا محمد طاہرعلیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی 1298ھ بمطابق 1883ء کو پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے چچا مولانا عبداللطیف سورتی سے حاصل کی اور بعد میں اپنے والدِ گرامی سے تمام علوم و فنون کی تکمیل کی۔ اور تیرہ برس کی عمر میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچے۔ جہاں آپ نے باقاعدہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے دورۂ حدیث کیا،اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے دست مبارک سے آپ کی دستار بندی فرمائی۔
بیعت وخلافت:اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت فرمائی اور اجازت وخلافت سے ممتاز ہوئے۔اپنے والدِ گرامی کی طرف سےحضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی علیہ الرحمۃ کے سلسلہ میں بھی بیعت کرنے کے مجاز تھے۔
سیرت وخصائص:عالمِ علمِ ھدیٰ ،مایۂ لطف وعطاء،پیکرِ صدق وصفا،نازشِ اہلِ بصیرت ،افتخارِ دین وملت،نائبِ اعلیٰ حضرت ،پرتوِ استاذالمحدثین،سلطان الواعظین حضرت علامہ مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کو جملہ علوم وفنون پر کامل دسترس حاصل تھی۔ خلوص کیساتھ ساری زندگی دینِ متین کے فروغ کیلئے کوشاں رہے،دورِ ابتلاء میں ملت کی راہنمائی کاحق اداکردیا۔سلطان الواعظین علیہ الرحمۃ کے رگ و پے میں جذبۂ حریت موجزن تھا ۔ آپ آزادیٔ وطن کے دلدادہ اورانگریزوں کی فریب کارانہ چالوں کے شدید مخالف تھے۔ برصغیر میں پروان چڑھنے والی تحریکوں میں حتی المقدور حصہ لیتے تھے۔ ندوۃ العلماء کے مفاسد کو عوام پر واضح کرنے کیلئے مختلف شہروں کے دورے کئے، اور مسلمانوں کو اس ادارہ کی تائید و تعاون سے باز رکھا۔آپ نے مسلم ہندو اتحاد کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں کے نزدیک کافر ہیں۔ اور کس طرح ممکن ہے کہ ایک دشمن کو سینے سے لگا یا جائے اور دوسرے دشمن کا مقاطعہ کیا جائے۔ کانگریسی مولویوں کے ذریعے جو ہندومسلم اتحاد کی فضا پیدا ہوئی جو یقیناً نہ صرف غیر شرعی صورتحال تھی بلکہ اس سے آزادی وطن کی جد و جہد میں بھی شدید رخنہ پڑنے کا اندیشہ تھا چنانچہ آپ نے اس نازک وقت میں اہلِ اسلام کی صحیح راہنمائی فرمائی اورفکرِرضا کو عام کیا۔اسی طرح حجازِ مقدس پر برطانیہ کی پشت پناہی میں وہابیوں کے قبضہ اور مزارات ِصحابہ ٔ واہلِ بیت کی بے حرمتی ومسماری کے خلاف مذمت کی۔
آپ کو فنِ خطابت پر ید طولی ٰحاصل تھا۔ آواز نہایت پاٹ دار اور ایسی تھی کہ گھنٹوں ماحول میں اس کی گونج برقرار رہتی تھی۔ تقریر کے دوران رقت طاری ہو جاتی اور وجد کے عالم میں درود و سلام پڑھنے لگتے تھےاور عوام پر بھی بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ یہی وجہ ہے کہ نو عمری ہی میں آپ کے مواعظ حسنہ کی پورے برصغیر میں شہرت ہوگئی تھی ۔ آپ کے وعظ کی اثر پذیری سے متاثر ہو کر اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے بریلی میں ایک خصوصی تقریب کے دوران آپ کو ‘‘سلطان الواعظین’’ کا خطاب عطا فرمایا۔ اعلیٰ حضرت آپ پر بے حد شفقت فرماتےتھے۔1323ھ میں آپ نے اعلیٰ حضرت کے ہمراہی میں حج وزیارت کا شرف حاصل کیااور آپ کو مجددِ وقت کی خدمت کا عظیم موقع قدرت نے عطافرمایا ۔
امام اہلِ سنت نے آپ کو ان الفاظ میں یاد فرمایا :
؎ اک اک وعظ عبدالاحد پر کیسے نتھنے پھلاتے یہ ہیں۔
وصال: 13، شعبان 1352ھ بمطابق یکم دسمبر 1933ء بروز جمعۃ المبارک عصر اور مغرب کے درمیان داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔زبان آخری کلام "محمدالرسول اللہ ﷺ"تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔