حضرت مولانا فضل احمد صوفی

حضرت مولانا فضل احمد صوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

بن سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد ( خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا امام احمد رضا خان محدث بریلوی متوفی ۱۳۴۰ء ) کے منجھلے صاحبزادے فضل احمد صوفی اپنے برادر مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کے ساتھ ۲۸، ذوالحجہ ۱۳۲۹ھ بمطابق ۲۰، دسمبر ۱۹۱۱ء بروز بدھ اپنے ننھیال گنج مراد آباد ( ضلع کانپور ) میں جڑواں پیدا ہوئے ۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم اپنے والد اور چچا مولانا عبدالحئی پیلی بھیتی سے حاصل کی۔ صرف ونحو کی کچھ کتابیں مولانا فضل حق رحمانی پیلی بھیتی سے پڑھیں پھر کانپور چلے گئے ۔ جہاں آپ نے حلیم مسلم ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا اور امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

فضل احمد صوفی کو ادائل عمر سے ہی شعر و ادب اور مضمون نویسی سے شغف تھا ، چنانچہ آپ نے ابتدا ادبی موضوعات پر مضامین لکھے اور کانپور سے ایک ادبی ماہنامہ ’’تحریریں ‘‘ جاری کیا لیکن معاشی مجبوریوں کے پیش نظر یہ سلسلہ ترک کر کے ریلوے کے سی ٹی ایم آفس میں ملازمت اختیار کرلی اور بمبئی میں آپ کو لکھنے پڑھنے کے وافر مواقع میسر آئے اور مختلف اخبارات کے لئے مضامین لکھنا شروع کر دیئے ۔ آپ بیک وقت عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی میں قومی سیاست کا عروج تھا اور مسلمان زعماء مسلمانوں کی سیاسی بیداری کے لئے شبانہ روز جدوجہد کر رہے تھے لہذا آ پ نے بھی قومی موضوعات پر قلم اٹھایا اور سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے کھل کر اظہار خیال کیا۔

فضل احمد صوفی کی قلمی ڈائریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی علمی استعداد پڑھانے کے لئے مطالعہ جاری رکھا۔ ۱۹۳۵ء تا ۱۹۳۸ء تک بہت دیدہ ریزی سے مطالعہ کیا۔

تحریک پاکستان :

فضل احمد صوفی حق گوئی اور بے با کی کو آئین جو انمرداں تصور کرتے تھے اور بلا خوف حق بات کہتے اور حق بات کی تائید کرتے ۔ ۱۹۳۵ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی انگستان سے وطن واپسی مسلمانوں کیلئے ایک ہمت افزاء شگون تھا، کیوں کہ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد مسلمانان ہند کو کوئی ایسی شخصیت افق سیاست پر نظر نہیں آتی تھی جوان کی سیاسی جدوجہد کی صحیح سمت متعین کرے ۔ ہر چند علامہ اقبال بھی مسلمانوں میں فکری انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے تھے لیکن ان کو بھی ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی ، جو ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکے ۔ چنانچہ قائداعظم کی ہندوستان واپسی کا مسلمانوں کے ہر طبقے نے خیر مقدم کیا اور آپ کو تعاون کا یقین دلایا۔ ان دنوں قائداعظم بمبئی میں مقیم تھے اور بر صغیر کے مسلمانوں کی نگاہیں اسی جانب لگی ہوئی تھیں ۔ مولانا فضل احمد صوفی نے بھی اس مر حلہ پر قائداعظم کی آواز پر لبیک کہااور مسلم لیگ کی کھل کر حمایت شروع کر دی اسی دوران مسلم لیگ کی مقبولیت سے گھبراکر جمعیت علماء ہند (دیوبندیوں ) کے چند سر برآوردہ افراد نے لکھنومیں شیعہ سنی مناقشات کا بازار گرم کر دیا تاکہ مسلمان فرقہ واریت کا شکار ہو جائیں اور مسلم لیگ اپنی تنظیم نو میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں کچھ رہنماوٗں نے مسلم لیگ اور قائداعظم پر تبسرا شروع کر دیا۔ اور کہا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن اس نے لکھنو کے شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرانے کے سلسلہ میں کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مولانا فضل احمد نے اس موقع پر ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا اور بتایا کہ شیعہ سنی اختلافات ختم کرنے کے سلسلہ میں مسلم لیگ نے کیا کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا:

’’شاید یہ اعتراض کرنے والے اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ محمد علی جناح نے سب سے پہلے ان اختلافات کو ختم کرانے کے سلسلے میں مسلم لیگ کی خدمات پیش کی تھیں ۔ لیکن ان کو نہ معلوم کن وجوہات کی بناء پر قبول نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ کی حکمت عملی سوائے خاموشی کے اور کیا ہو سکتی تھی کیوں کہ ایک سیاسی جماعت کو اس قسم کے فرقہ وارانہ مظاہروں سے دورہی رہنا چاہئے‘‘۔ (ٹائمز آف انڈیا ۲۵مئی ۱۹۳۹ء )

مولانا فضل احمد صوفی نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کو عوام الناس سے روشناس کرانے اور مسلمانوں کو ایک علیحدہ قومیت کا احساس دلانے کیلئے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مضامین لکھے ۔ آپ کو اپنے مخصوص احساس قومیت کی بناء پر علامہ اقبال ، اکبر الہ آبادی ، الطاف حسین حالی کی شاعری سے خصوصی طور پر انس تھا۔ آپ کی قلمی یادداشتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے حالی اکبر اور اقبال کی شاعری کی روح میں پوشیدہ فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ قلمی یاد داشتوں میں حالی اکبر اور اقبال کی شاعری اور ان کے فلسفہ پربڑے مبسوط مضامین شامل ہیں ۔ جن سے صوفی کی شعر فہمی اور اپنے عہد کے خارجی اور داخلی عوامل کے ادراک کی نشاندہی ہوتی ہے۔

صوفی نے کانگریس وزارتوں کی وضع کردہ وار دھا اسکیم پر بھی کڑی نکتہ چینی کی اورٹائمز آف انڈیا میں اس اسکیم کے منفی پہلووٗں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اپنے مضامین میں واضح طور پر کہا کہ کانگریس قوم پرستی اور تعصب کا شکار ہے اور جو مسلمان کانگریس سے اچھائی کی تو قعات رکھتے ہیں وہ خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ ۲۳، مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری فضل احمد صوفی کیلئے شدید مسرت کا باعث ہوئی ،چنانچہ آپ نے مسلم لیگ کے منصوبہ وطن کے خدوخال کو اپنے مضامین میں اجاگر کیا اور قرار داد لاہور کو جو بعد مین قرار داد پاکستان کا روپ دھار گئی ۔ بین الاقوامی سیاسی اصولوں کی کسوٹی پر رکھ کر پیش کیا۔ اس سلسلہ میں ’’دی پروگریس ‘‘بمبئی میں شائع ہونے والا آپ کا مضمون ’’مسلم لیگ ہوم لینڈ پلان ‘‘ بڑی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس مضمون میں صوفی نے ان اعتراضات کا بھی شافی جواب دیا ہے جو لاہور میں قرار داد کی منظوری کے فورا بعد ہندووٗں کی جانب سے اٹھائے گئے تھے ۔ فضل احمد صوفی نے ۳، دسمبر ۱۹۴۱ء کو ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر کو ایک خط ’’پاکستا ن ‘‘ کے عنوا ن سے لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ:

کانگریسی رہنما خصوصا وہ جو مسٹر منشی کے ہم خیا ل ہیں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان سے سخت برہم دکھائی دیتے ہیں لیکن برہمی سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عوامل پر غور کیا جائے جنہوں نے مسلمانوں کو پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ۱۹۳۷ء میں کانگریس کی جانب سے وزارتیں قبول کرنے سے قبل مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کانگریس کی قوم پرستی اور متعصبانہ ذہنیت ہے جو مطالبہ پاکستان کا باعث ہوئی ہے اور اس حقیقت کو کانگریسی رہنما ڈومیسہ نے مرکزی اسمبلی میں دوران تقریر تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ، ’’دراصل پاکستان کے بانی مسٹر جناح نہیں بلکہ مسٹر گاندھی ہیں جنہوں نے ہر شخص کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے ۔ ‘‘

(پاکستان ، مراسلہ فضل احمد صوفی ، مطبوعہ ٹائمز آف انڈیا ۔ ۳، دسمبر ۱۹۴۱ء )

۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۷ء تک آٹھ سال صوفی نے تحریک پاکستان کے لئے ایک موثر وکیل کی حیثیت سے مسلم لیگ کی پالیسیوں پر نہایت ٹھوس مضامین قلمبند کئے اور کانگریس کی فرقہ پرست ذہنیت کی شدید مذمت کی۔ اس ضمن میں انہوں نے جمعیت علماء ہند کے رہنما وٗ ں اور ابو الکلام آزاد کو بھی معاف نہیں کیا اور ان کی سیاسی کردار کی خامیوں کی نشاندہی کی۔

تصنیف و تالیف :

آپ کے انگریز مضامین ٹائمز آف انڈیا ، دی پروگریس بمبئی ، مارننگ اسٹینڈرڈ بمبئی ، بمبئی سینٹل ، فری پریس بمبئی جرنل ، بمبئی کرانیکل ، اسٹار بمبئی ، مارننگ پیر الڈبمبئی ، اور نیشنل اسٹینڈرڈ بمبئی ۔

چند مطبوعہ اردو مضامین :

ہفت روزہ بیدار بمبئی ، ہفتہ وار نظام بمبئی ، روز نامہ انقلاب بمبئی ، ہفت روزہ جمہور بمبئی ، روز نامہ اقبال بمبئی ، روز نامہ خلافت بمبئی ہفت روزہ بیداری مالی گاوٗ ں اور نگار لکھنوٗ میں مستقل شائع ہوتے رہے۔

۱۔ سنت رسول ( کتابچہ ) ۳۶صفحات مطبوعہ تحریک احیائے سنت کراچی ۱۹۶۳ء

۲۔ حضرت امام ابو یوسف کی اقتصادی و تمدنی اصلاحات ، مطبوعہ ہفت روزہ جمہور بمبئی ۹، ستمبر ۱۹۴۵ء

۳۔ مہدی حسن افدی اک مایہ ناز انشاء پرداز ، مطبوعہ ہفت روزہ نظام بمبئی ۱۶، دسمبر ۱۹۴۵ ء

۴۔ اقبال اور پیام امید مطبوعہ ہفتہ وار بیدار بمبئی ، ۱۵، جنوری ۱۹۴۶ء

انگریزی کے چند مطبوعہ مضامین :

اردو کے چند غیر مطبوعہ مضامین :

۱۔ حالی کا تجزیاتی مطالعہ ۳۲ فل اسکیپ صفحات پر مشتمل

۲۔ اکبر الہ آبادی ۳۶فل اسکیپ صفحات پر مشتمل

اس کے علاوہ ادبی اور سیاسی موضوعات پر متعدد مختصر مضامین

بیعت :

آپ اپنے والد سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد پیلی بھیتی سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں دست بیعت ہوئے ۔

شادی و اولاد:

آپ نے ایک شادی کی اس سے اکلوتا بیٹا معین احمد صوفی تولد ہوئے۔جو کہ پیلی بھیت (انڈیا ) میں قیام پذیر ہیں اور دربار محدث سورتی کے سجادہ نشین بھی ہیں ۔

وصال :

فضل احمد صوفی ۱۹۴۶ء کے اواخر میں بمبئی سے تبادلہ ہو کر کراچی آگئے پھر تپ دق ( ٹی بی ) نے ان کو ایسا دبوچا کہ ۴، دسمبر ۱۹۴۸ء بروز ہفتہ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی نے نماز جنازہ پڑھائی اور کراچی کے قدیم قبرستان میوہ شاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

[کرم فرما جناب خواجہ رضی حیدر صاحب کے مضمون سے ان کے تایا فضل احمد صوفی کے حالات موخوذ ہیں ]

(انوارِ علماءِ اہلسنت )

تجویزوآراء