فاتح عیسائیت مولانا ابو النصر منظور احمد شاہ ہاشمی، ساہیوال
پیکرِ عشقِ رسالت حضرت مولانا ابو النصر منظور احمد شاہ صاحب ہاشمی بن حضرت مولانا چراغ علی شاہ ۲۴؍ رجب المرجب ۱۳۳۹ھ / ۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۰ء میں موضع چوہان ضلع فیروز وپور (انڈیا) کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ نسباً ہاشمی ہیں اور آپ کا سلسلۂ نسب چالیس واسطوں سے سیّد امام مسلم رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا چراغ علی شاہ مستند عالم ہونے کے علاوہ طبیب بھی ہیں۔ علم الانسان میں کافی دسترس حاصل ہے۔ ’’بدر قریش‘‘ آپ کی مشہور تالیف ہے۔ جلال آبادی کی مرکزی جامع مسجد میں خطیب رہ چکے ہیں۔
آپ نے فارسی اور صرف کی کتب (مکمّل) اپنے والد ماجد سے ہندوستان میں ہی پڑھیں اور پھر جلال آباد غربی فیروز آباد کے مدرسہ امداد العلوم میں پڑھتے رہے۔ تقسیم ہند کے وقت جب پاکستان کی طرف ہجرت کر کے ضلع ساہیوال کے موضع ڈھپئی میں سکونت اختیار کی، تو موضع ٹوانہ میں مولانا ابو لسیر مولانا محمد اسماعیل فاضل بصیر پوری علیہ الرحمہ سے کنز الد قائق، قدوری اور کافیہ وغیرہ کتب پڑھیں۔ مشکوٰۃ شریف اور جلالین شریف کا درس پاکپتن شریف کے مولانا الحاج محمد شریف تقشبندی سے لیا اور پھر اہل سنّت کی مرکزی درسگاہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ دو تین سال تک فقیہہ اعظم ابو الخیر مولانامفتی محمد نور اللہ نعیمی سے شرف تلمذ حاصل کرتے رہے اور بالآخر اسی دار العلوم سے ۱۹۵۲ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
آپ نے درسِ نظامی کے نصاب کی تکمیل کے علاوہ میڑک، فاضل عربی اور فاضل فارسی کے امتحانات بھی پاس کیے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور سے درجہ تخصص (ایم اے) کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں آپ علماء اکیڈمی کوئٹہ و پشاور کے بھی فاضل ہیں۔
۱۹۵۲ء میں آپ نے درسِ نظامی کی تحصیل کے بعد ساہیوال کے محلّہ حیدری سے تبلیغِ دین کا آغاز کیا۔ صحیح عقائد کی ترویج اور اصلاحِ معاشرہ کے فرائض، بے شمار رکاوٹوں کے باوجود احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مسجد قصاباں بیرونِ غلّہ منڈی میں خطابت فرمائی اور پھر سنہری مسجد گول چکر میں تشریف لائے جہاں اب تک تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں آپ نے ایک دینی ادارہ کی بنیاد ڈالی جو پہلے دار العلوم عربیہ اور پھر جامعہ حنفیہ کے نام سے موسوم ہوا۔ بارہ سال اسی دارالعلوم میں مہتمم اور مدّرس کے طور پر کام کرنے کے بعد آپ نے ۱۹۶۳ء میں ایک نیا دارالعلوم جامعہ فریدیہ کے نام سے قائم کیا، جو آپ کی نگرانی میں اپنی عمر کی تیرہ منزلیں طے کر چکا ہے۔
تحریکِ پاکستان کے وقت آپ کا دور طالب علمی تھا۔ آپ نے طلبہ کے وفود کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف قصبات و دیہات میں عوام کو تحریک کے مقاصد اور اہمیّت سے روشناس کرایا۔
پاکستان بننے کے بعد مرزائیت کے ناسور کو ختم کرنے کی خاطر مسلمانانِ پاکستان نے دومرتبہ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء) تحریک چلائی جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیّت قرار دیا۔ ان دونوں تحریکوں میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
۱۹۵۳ء کی تحریک میں آپ نے ساہیوال میں دورے کیے اور مرزائیوں کے عقائد سے عوام کو روشناس کرایا۔ ’’مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت‘‘ نامی رسالہ دس ہزار کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کیا۔ مختلف باطل فرقوں کے مبلّغین بالخصوص مشہور عیسائی پادریوں سے آپ کے بہت سے مناظرے ہوئے اور انہی مناظروں میں اسلام کی حقّانیت کا اقرار کرتے ہوئے ایک ہزار عیسائی مسلمان ہوئے (وللہ الحمد)
حضرت مولانا سیّد منظور احمد نے میدانِ تحریر میں کافی کام کیا ہے۔ آپ کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حضور الحرمین، ۲۔ آئینہ حق، ۳۔ مقالۂ علمیّہ، ۴۔ لاتثلیت فی التوحید، ۵۔ مسیح کون ہے، ۶۔ بہائی اصول، ۷۔ اسلام اور ماہِ صیام، ۸۔ اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ، ۹۔ اسلام اور حفظانِ صحّت، ۱۰۔ اسلام اور سوشلزم، ۱۱۔ اسلام اور عید قربان، ۱۲۔ فلسفۂ زکوٰۃ، ۱۳۔ فلسفۂ جہاد، ۱۴۔ علِم القرآن، ۱۵۔ جنگِ مصر، ۱۶۔ مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت، ۱۷۔ فیوضاتِ فریدی(زیرِ طبع)[۱]
[۱۔ فیوضات فریدی حضرت شاہ صاحب کے مختلف دینی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جنکو منظور حسین قاسم رضوی ایم اے مرتب کررہے ہیں۔]
الفریدی کے نام سے آپ کی سرپرستی میں ایک ماہوار تبلیغی رسالہ بھی شائع ہونے لگا۔ آپ نے ۱۹۵۴ء میں شیخ الاولیاء حضرت میاں علی محمد رحمۃ اللہ علیہ آف بسّی شریف سے بیعت اختیار کی۔
تائیدِ خداوندی سے آپ ۱۹۷۶ء تک گیارہ مرتبہ حجِ بیت اللہ شریف ارو زیارت روضۂ انور سے مشرّف ہوچکے ہیں۔ (ایں سعادت بزدر بازونیست)
آپ کو پاکیزہ صاف ستھری شاعری سے بھی شغف ہے، چنانچہ آپ نے عشق رسالت میں ڈوبی ہوئی چند نعمتیں تحریر کیں۔ آپ کے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا اصغر علی مدّرس جامعہ فریدیہ ساہیوال۔
۲۔ مولانا نعمت علی ناظم مکتبہ فریدیہ ساہیوال۔
۳۔ مولانا محمد یوسف خطیب مسجد مائی والی و مدرس جامعہ فریدیہ ساہیوال۔
۴۔ مولانا ظفر اقبال فریدی مدرسن جامعہ فریدیہ ساہیوال۔
۵۔ مولانا ابوالفتح شبیر احمد ہاشمی خطیب بوریوالہ، وہاڑی۔
آپ کے چار صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ہیں[۲]
[۲۔ یہ تمام حالات منظور حسین شاہ قاسم رضوی نائب ناظم اشاعت ’’الفرید‘‘ نے مرتب کے نام ارسال فرمائے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)