مفتی اعظم پاکستان مفتی صاحبداد خان جمالی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:علامہ مفتی محمد صاحبداد خان۔لقب:مفتیِ اعظم پاکستان۔ والد کااسمِ گرامی: خمیسو خان جمالی مرحوم۔جمالی بلوچ قبیلے سےتعلق کی وجہ سے "جمالی "کہلاتے ہیں۔
تاریخِ ولادت :1316ھ،مطابق 1898ء کو" گوٹھ لونی"(ضلع سبی،بلوچستان)میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا آبائی وطن جھوک سید قاسم شاہ (تحصیل بھاگ، ڈویژن قلات، بلوچستان)تھا ۔جہاں آپ کی کافی بارانی زمینیں بھی تھیں۔
تحصیلِ علم: ابتداء میں آپ نے قرآن حکیم ایک مشہور اہل اللہ خواجہ سید محمد شاہ علیہ الرحمۃ کے پاس بمقام انجن شیڈ سبی میں پڑھا۔ تین جماعتیں اردو "برنس اسکول" سبی سے پاس کی۔ عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمۃ(متوطن تحصیل بھاگ ، ریاست قلات)سے حاصل کی۔ چنانچہ 1326ھ تا 1330ھ وہیں پڑھتے رہے ۔اس کے بعد سندھ کے مختلف دینی مدارس میں مروجہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1334ھ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے اس وقت کے نامور دینی درسگاہ "مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ"گڑھی یاسین(ضلع شکار پور) میں داخلہ لیا۔ جہاں حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یاسینی علیہ الرحمۃکے پاس 11/ ذیقعدہ 1336ھ کو فارغ التحصیل ہو کر دستار فضیلت باندھی۔
بیعت وخلافت: اس بارے میں کہیں سے کوئی روایت نہیں ملی ہے۔ظنِ غالب ہے کہ آپ حضرت خواجہ محمد حسن جان علیہ الرحمہ سے بیعت تھے۔
سیرت وخصائص:محقق ِاہلسنت،فقیہ العصر،نازشِ زمانہ،فریدِ یگانہ،امام الفقہاء،قدوۃ الفضلاء،قاضی القضاۃ،مفتیِ اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبددخان جمالی رحمۃ اللہ علیہ۔مفتی محمد صاحبداد جمالی ، عالم ِشب خیز ، مناظر، متکلم،مفتی،عظیم مدرس،باخبر سیاستدان،ملکی حالات پر دسترس رکھنے والےصحافی،تحریکِ پاکستان کےسرگرم کارکن،مسلک کےدردوجذبہ کی جیتی جاگتی تصویر،ردباطل میں یدِطولیٰ رکھتے تھے ۔ انہیں ہندو پاک میں مقبولیت ِ عامہ حاصل تھی۔اہل سنت و جماعت کے اکابر علماء میں ان کا شمارہوتا تھا ۔ وہ اہل سنت و جماعت کو بیدار و منظم دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لئے عمر بھر کوشش بھی فرماتے رہے ۔ وہ ایک تحریک تھے ۔ زندگی تحریک میں گذاردی ۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ انہوں نے شب و روز اسلام و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں گذارا۔
شرفِ ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے مسلک اہل سنت و جماعت کی بے مثال خدمات انجام دیں،فن ِافتاء میں آپ کو یدِطولیٰ حاصل تھا۔ دوردراز سے لوگ دینی و علمی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت: ص188)
قاضی القضاۃ: مفتی صاحب ربیع الاخر 1353ھ/ جولائی 1934ء کو حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی قدس سرہ کے انتخاب پر خان آف ریاستِ قلات الحاج میر احمد یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)مقرر ہوئے۔کچھ عرصہ بعد آپ سندھ واپس تشریف لائے۔
صحافت: حجۃ الاسلام ، عاشق خیر الانام، مفتی اعظم علامہ مفتی عبدالغور ہمایونی علیہ الرحمۃ کی یاد میں آپ نے سندھی میں ماہنامہ "الھمایوں" رجب المرجب 1342ھ تا 1345ھ چار سال جاری رکھا۔ جس نے نجدیت اور رافضیت کو ناک میں چنے چبوا دیئے تھے۔اس کے بند ہونے کے بعد علماء کرام و مشائخ اہل سنت کے اصرار پر سندھی میں ماہنامہ "الاسلام" سلطان کوٹ سےجاری فرمایا۔ان رسائل نے اہل سنت و جماعت احناف کی خوب خدمت سر انجام دیں ، نمائندگی اور ترجمانی کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ۔ان دنوں سندھ میں نئے ابھرنے والا فتنہ وہابیہ کی خوب خبر لی اور ان کے عقائد باطلہ و گستاخانہ عبارات سے امت مصطفویہ کو آ گاہ کیا اور عوام اہل سنت کو بیدار و منظم کیا ۔
تحریک پاکستان میں کردار:مفتی صاحب 1939ء کو مذہبی نقطہ نظر سےمسلم لیگ میں شامل ہوکرتحریکِ پاکستان کی جدو جہد میں اہم کردار اداکیا۔"کانگریس"کےسخت مخالف تھے۔جب 1946کو بنارس میں "آل انڈیا سنی کانفرنس " کا انعقاد ہوا ۔جس میں برصغیر (پاک و ہند اور بنگال)سے سینکڑوں علماء و مشائخ اہل سنت نے شرکت کی ۔ سب نے متفقہ طور پر یک زبان ہوکر پاکستان کی حمایت کی۔ ان حضرات میں مفتی صاحبداد خان جمالی بھی شریک تھے ۔اسی طرح پاکستان بننے کے بعد"جمعیت علماءپاکستان "کے پلیٹ فارم سے اہم ذمہ داریاں سرانجام دیں۔
مفتی صاحب ساری زندگی درس وتدریس ،تحریروتصنیف،وعظ ونصیحت،احقاقِ حق اور ابطالِ باطل میں گزاری۔جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ کی ترقی میں آپ کاعظیم کردار ہے۔آپ نے جامعہ میں محققین کی جماعت تیار کی،جنہوں نے اہلسنت کے فروغ میں اہم کردار اداکیاہے۔آپ ہی کی کوششوں سے نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ پیر جوگوٹھ تشریف لائے تھے۔انہی شیخین کی برکت ومحنت سے جامعہ راشدیہ کو چارچاندلگ گئے ۔فی زمانہ آپ کی کتب اور فتاویٰ کونئے اسلوب کے مطابق عام کرنے کی ضرورت ہے۔
وصال:2/جمادی الثانی1385ھ،مطابق 2/اگست 1965ءاتوارکی شب اس دارفانی سےانتقال فرماگئے ۔سلطان کوٹ مضافاتِ شکاپور(سندھ) میں عالی شان مزارشریف ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔انوار علمائے اہلسنت (سندھ)۔
//php } ?>