مفتی اعظم پاکستان مفتی صاحبداد خان جمالی

 

علامہ مفتی محمد صاحبداد خان بن خمیسو خان جمالی گوٹھ لونی (ضلع سبی صوبہ بلوچستان) میں ۱۳۱۶ھ کو تولد ہوئے ۔ آپ کا خاندانی تعلق جمالی بلوچ قبیلے سے تھا ار آبائی وطن جھوک سید قاسم شاہ (تحصیل بھاگ، ڈویژن قلات، صوبہ بلوچستان) تھا جہاں آپ کی کافی بارانی زمینیں بھی تھیں۔

تعلیم و تربیت:

ابتداء میں آپ نے قرآن حکیم ایک مشہور اہل اللہ خواجہ سید محمد شاہ علیہ الرحمۃ کے پاس بمقام انجن شیڈ سبی میں پڑھا۔ تین جماعتیں اردو ’’برنس اسکول‘‘ سبی سے پاس  کی۔ عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمۃ (متوطن لانڈھی فقیر صٓحبان تحصیل بھاگ ، ریاست قلات) سے حاصل کی۔ چنانچہ ۱۳۲۶ھ تا ۱۳۳۰ھ تک وہیں پڑھتے رہے اس کے بعد نسدھ کے مختلف دینی مدارس میں  مورجہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ۱۳۳۴ھ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے اس وقت کے نامور دینی درسگاہ ’’مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ‘‘ گڑھی یاسین (ضلع شکار پور) میں داخلہ لیا۔ جہاں حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یاسینی علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۳۴۹ھ) کے پاس ۱۱، ذیقعدہ ۱۳۳۶ھ کو فارغ التحصیل ہو کر دستار فضیلت باندھی۔

قاضی القضاۃ:

مفتی صاحب ربیع الاخر ۱۳۵۳ھ/ جولائی ۱۹۳۴ء کو حضرت کواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی قدس سرہ کے انتخاب پر کان قلات الحاج میر احمد یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے۔ ۳۱، مئی ۱۹۳۵ء کو تباہ کن زلزلہ آیا جس نے کوئٹہ اور قلات کو نقصان پہچایا اسلئے آپ سندھ واپس آگئے۔ یہ ایسا سبب بنا کہ آپ ہمیشہ کیلئے سندھ کے ہو کے رہے۔ قدرت نے آپ سے سندھ میں بہت کام لیا۔

سندھ میں قیام:

محترم مولانا الٰہی بخش سلطان کوٹی مرحوم رقمطراز ہیں: ’’۱۳۴۰ھ کو استاد صاحب نے سلطان کوٹ (ضلع شکار پور) میں مستقل سکونت اختیار کی۔ حضرت  مفتی عبدالباقی ہمایوں علیہ الرحمۃ سجادہ نشین درگاہ ہمایوں شریف کی سرپرستی میں درس و تدریس، تبلیغ، تصنیف، تالیف، فتاویٰ نویسی اور نشر و اشاعت کے کام کا آغاز کیا۔

شادی و اولاد:

قلات خان آپ کے نہایت عقیدت مند تھے، اس نے قلات میں یقام کے دوران ممتاز سردار خاندان کی دوشیزہ سے آپ کی شادی کرائی۔ اس سے آپ کو پانچ بیٹے دو بیٹیاں تولد ہوئیں۔

۱۔      عبدالغفار جمالی مرحوم

۲۔     عبدالرشید مرحوم

۳۔     عبدالعزیز مرحوم

۴۔     عبدالقادر مرحوم

۵۔     عبدالکریم (بروایت عبدالکریم جمالی ۔ کراچی)

صحافت:

حجۃ الاسلام ، عاشق خیر الانام، مفتی اعظم علامہ مفتی عبدالغور ہمایونی علیہ الرحمۃ کی یاد میں آپ نے سندھی میں ماہنامہ ’’الھمایوں‘‘ رجب المرجب ۱۳۴۲ھ تا ۱۳۴۵ھ تک چار سال جاری رکھا۔ جس نے نجدیت اور رافضیت کو ناک میں چنے چبوا دیئے۔

اس کے بند ہونے کے بعد علماء کرام و مشائخ اہل سنت کے اصرار پر سندھی میں ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ سلطان کوٹ سے ۱۹۳۵ء تا ۱۹۳۸ء تک چار سال برابر جاری رکھا ۔

مفتی صاحب نے جب ماہنامہ الھمایون اور الا سلام جاری کئے تو پانچ سو کاپیوں کا سالانہ ہدیہ امام انقلاب حضرت پیر صبغت اللہ شاہ ثانی شہید پیر پگارہ ششم اپنی طرف سے پیشگی ادا فر ماتے تھے ۔

  (سندھ کے دو مسلک طبع سوئم )

ان رسائل نے اہل سنت و جماعت احناف کی خوب خدمت سر انجام دی ، نمائندگی اور ترجمانی کا صحیح معنی میں حق ادا کیا ۔ان دنوں سندھ میں نئے ابھرنے والا فتنہ وابیہ کی خوب خبر لی اور ان کے عقائد باطلہ و گستاخانہ سے امت مصطفویہ کو آ گاہ کیا اور عوام اہل سنت کو بیدار و منظم کیا ۔

مولانا ظفر علی نعمانی مہتمم دارالعلوم امجد یہ کراچی نے ’’الا سلام ‘‘ اردو میں کراچی سے جاری کیا جس میں کالم ’’الا ستفتائ‘‘ آپ کے سپرد تھا ۔ آپ پاک و ہند کے استفتاء کے علمی و تحقیقی جواب تحریر فرمایا کرتے تھے ۔ (رفیق علم سالنامہ دارالعلوم امجد یہ کراچی )

تحریک پاکستان :

مفتی صاحب ۱۹۳۹ء کو مذہبی نقطہ نظر سے مسلم لیگ میں شامل ہو کر تحریک پاکستان کی جدو جہد میں اہم کردار اد اکیا ۔ ’’کانگریس حکومت ‘‘کے خلاف مسجد منزل گاہ سکھر کی آزادی کے لئے کام کیا اور تمام حجت کے لئے سندھ کے کانگریسی وزیر اعلی خان بہادر اللہ بخش سومرو شکار پوری کو ۱۶، اگست ۱۹۳۹ء کو مسجد کی آزادی ، مسلمانوں کے حقوق کا احترام او رتحریک کے نتائج کے متعلق خط تحریر کیا۔

۲۷تا ۳۰، اپریل ۱۹۴۶ء کو بنارس (انڈیا) میں’’آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کا انعقاد ہوا ۔ جس میں برصغیر (پاک و ہند اور بنگال ) سے دوہزار علماء و مشائخ اہل سنت نے شرکت کی ۔ سب نے متفقہ طور پر یک زبان ہوکر پاکستان کی حمایت کی۔ ان حضرات میں مفتی صاحبداد خان سلطان کوٹی بھی تھے ۔

 (خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس )

جمعیت علماء پاکستان :

قیام پاکستان کے بعد جمعیت علماء پاکستان کے قیام کے لئے ۱۹۴۸ء میں علماء مشائخ اہل سنت نے ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر ملتان میں فخر اہل سنت شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی کی زیر صدارت ایک نمائندہ اجلاس منعقد کیا اور ۱۳، فروری ۱۹۴۹ء بمقام جہانگیر پارک صدر کراچی میں سالانہ اجلاس منعقد ہوا ۔جمعیت علماء پاکستان کے اسی اجلاس میں شریک علماء و مشائخ اہل سنت میں مفتی صاحبداد خان بھی تھے ۔ (قاسم ولایت ص ۱۴۰)

مرکزی دارالافتاء :

جمعیت علماء پاکستان نے مسلمانوں کی دینی معاملات میں آسانی کے لئے کراچی میں مرکزی دارالافتاء قائم کیا۔ اس اہم و بنیادی کام کے لئے کسی فقیہ شخصیت ضرورت تھی ۔ جمعیت کے قائدین نے مفتی صاحب کا انتخاب کیا۔ آپ ان دنوں کراچی میں درس و تدریس تصنیف و تالیف اور فتاویٰ نویسی کے مشغلہ میں مصروف تھے ۔

غالب گمان ہے کہ آپ ۱۹۳۸ء کے بعد سلطان کوٹ سے کراچی تشریف لے گئے اور دینی خدمات میں مصروف رہے ۔ لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کس مقام پر یہ کدمات انجام دیتے تھے ۔ وہ کونسی مسجد اور مدرسہ تھا جس کو آپ نے مرکز بنا رکھا تھا ؟

آپ کی ایک تصنیف ’’القول السداد ‘‘ ۱۹۵۳ء کو لاڑکانہ سے شائع ہوئی اس پر آپ کا پتہ اس طرح درج ہے: ’’مرکزی دارالا فتاء جمعیت علماء پاکستان متصل نئی مسجد جامع کلری مسان روڈ کراچی ‘‘۔

کراچی کا قدیم مدرسہ دارالعلو م امجد یہ پاکستان بننے کے بعد بنا اور جمعیت بھی قیام پاکستان کے بعد بنی ، آپ ان سے پہلے کراچی میں قیام پذیر تھے تحریک پاکستان میں کام کیا درس و تدریس سے وابستہ رہے ، ہوسکتا ہے کہ آپ کا قدیم مرکز ’’نئی مسجد ‘‘ہو۔ اس مسجد شریف کا موجودہ نام جامع مسجد ابراہیمی علاقہ کلری ہنگورا آباد شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ لیاری کراچی ہے ۔ وہاں کے بزرگ نمازیوں نے بھی بتایا کہ مفتی صاحب سندھ مدرستہ الا سلام میں مدرس اور اس مسجد میں امام و خطیب و مفتی تھے ۔ مسجد ابراہیمی کے قائم ہونے کا سن ۱۹۴۸ء ہے ۔

علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب ، حضرت مفتی صاحب کی علمی و جاہت کے متعلق رقمطراز ہیں :

’’حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے مسلک اہل سنت و جماعت کی بے مثال خدمات انجام دیں ، فن افتاء میںآپ کو یدطولی حاصل تھا ، دوردراز سے لوگ دینی و علمی مسائل میںرجوع کیا کرتے تھے ، ’’سواداعظم ‘‘ لاہور میںراقم کی نظر سے مدینہ طیبہ سے آیا ہوا استفتاء گذرا ہے جس کا مبسوط جواب مفتی صاحب نے تحریر فرمایا تھا‘‘۔ (تذکرہ اکابر اہل سنت ص۱۸۸)

نیو میمن مسجد :

قیام پاکستان کے بعد دارالافتاء میں ایک سوال آیا کہ کیا قبرستان کے اوپر مسجد بنائی جا سکتی ہے کہ نہیں ؟آپ نے اس کا تفصیلی مدلل جواب تحریر فرمایا کہ اس طرح مسجد بنائی جائے کہ قبروں کو تکلیف بھی نہ پہنچے او ر بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت بھی پوری ہو ، وہ اس طرح کہ قبرستان کو کمرہ نما بنا کر پلر اٹھا کر اس کے اوپر مسجد بنائی جائے ۔ اس فتویٰ کی بنیاد پر میمن برادری نے کراچی کی مرکزی جامع مسجد ’’نیو میمن مسجد‘‘ بالٹن مارکیٹ ایم اے جناح روڈ کو تعمیر کیا جو کہ آپ کی فقہی بصیرت کی سب سے بڑی گواہ ہے ۔

اس طرح مفتی صاحب قیام پاکستان کے بعد کراچی کے سب سے اول مفتی قرار پائے ۔ ہائے افسوس !آج ہم اولین محسنین کو بھلا بیٹھے ہیں ۔

مفتی اعظم پاکستان :

آپ کو ’’مفتی اعظم پاکستان ‘‘کا خطاب کب اور کس نے دیا؟ یہ فقیر راشدی غفرلہ کے علم میں نہیں ہے ۔ فقیر نے جو اس سلسلہ میں تحقیق کی ہے وہ درج ذیل ہے:

اکثر علماء کرام و مشائخ طریقت نے انہیں اسی خطاب سے یاد کیا ہے اور علماء اہل سنت و جماعت کے متفق و مرکزی دارالافتاء کے وہ رئیس بھی تھے ۔

٭     مولانا مفتی سید غلام معین الدین نعیمیؒ (تلمیذ صدر الافاضل وایڈیٹر سوادالاعظم لاہور )نے ایک مضمون میںمفتی محمد صاحب کو ’’مفتی اعظم ‘‘ لکھا ہے ۔

(حیات صدر الافاضل ص۱۹۷۔ تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ص ۳۹۸ مطبوعہ کھاریاں )

٭     حضرت مولانا مفتی سید ریاض الحسن جیلانی حامدی ؒ (حیدرآباد سندھ ) نے اپنی تصنیف الفیوضات الحامدیہ میں آپ کو ’’مفتی اعظم پاکستان ‘‘ تحریر کیا ہے۔

 (الفیو ضات الحامدیہ فی تعمیر المساجد ص ۳۵ مطبوعہ حیدرآباد سن ۱۳۷۴ھ)

٭     خطیب پاکستان مولانا محمد عارف اللہ قادری میرٹھی ؒ (ایڈیٹر ماہنا مہ ’’سالک ‘‘راولپنڈی )نے امضان المبارک ۱۳۷۶ھ ؍ ۱۹۵۷ء کے شمار ے میں آپ کے نام کے ساتھ ’’مفتی اعظم پاکستان ‘‘ تحریر کیا ہے۔

٭     حضرت علامہ تقدس علی خان رضوی نے آپ کو ’’مفتی اعظم پاکستان ‘‘لکھا ۔ (القول المقبول ص۶)

مولانا مفتی محمد اعجاز ولی رضوی شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور نے ۱۹۶۰ء کو آپ کے فتویٰ پر تصدیق کرتے ہوئے آپ کو ’’مفتی اعظم ‘‘ اور مفتی غلام معین الدین نعیمی نے ’’مفتی اعظم پاکستان ‘‘ تحریر کیا ہے۔ (ایضا ص۱۶)

خطابات دینے والو ں سے آپ کو کوئی نسبت نہیں ہے ، نہ وہ آپ کے شاگرد ہیں ، نہ استاد بھائی نہ پیر بھائی ہیں بلکہ سب نے آپ کی فقہی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔

درس و تدریس :

 فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے درگاہ جیلانیہ قادریہ رانی پور ( سندھ ) سے تدریس کا آ غاز کیا ۔ اس کے بعد درگاہ کٹبا ر شریف ( بلوچستان ) میں مدرس رہے۔ او ر تقریبا بارہ سال مسند تدریس پر جلوہ افروز رہے ۔ اس کے بعد ایک سال قلات میں پڑھایا ۔ ۱۹۳۵ء تا ۱۹۳۸ء تک غالبا چار سال سلطان کوٹ میں پڑھایا ۔ کراچی میں نئی مسجد میں پرھایا ۔ گاڑی کھاتہ کراچی میں دارالعلوم امجد یہ قائم ہوا اس میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔

قیام پاکستان کے بعد آپ سندھ مدرسہ الاسلام کراچی میں عرصہ تک دینیات پڑھاتے رہے اور ۱۹۵۲ء میں اس خدمت سے سبکدوش ہوئے ۔ (سہ ماہی مہران جامشورو سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)

حرمجاہدین نے امام انقلاب ، بطل حریت ، حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی کی بے مثال قیادت میں انگریزو ں کے خلاف تحریک چلائی ۔ انگریزوں نے مجاہدین کے روحانی مرکز درگاہ شریف راشدیہ ’’پیر جو گوٹھ ‘‘ کو شدید نقصان پہنچایا دیواروں کو بم سے اڑایا ، کتب خانہ لوٹ لیا ،حر مجاہدین کو گرفتار کر کے شدید اذیتیں دی گئیں ہیں ، حضرت کو گرفتار کیا گیا اور سینٹرل جیل حیدرآباد میںرات کی تاریکی میں ڈرڈر کے شہید کیا گیا اور آپ کے دو صاحبزادوں کو گرفتار کرکے لندن بھیج دیا۔ یہاں تحریک کو بیان کرنا محل موقعہ نہیں ہے کسی دوسرے مقام پر تفصیل سے لکھا جائے گا یہاں صرف اختصار کے ساتھ اصل مسئلہ بتانا ہے تاکہ پس منظر واضح ہو ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک نے برٹش گورنمنٹ کی نیند یں اڑادیں تھیں اور بالآ خر انہوں نے ہندوپاک سے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔

قیام پاکستان کے بعد علماء و مشائخ اہل سنت کی اجتماعی و انفرادی کوششوں سے موجودہ پیر صاحب پگارہ سید شاہ مرادن شاہ راشدی عرف سکندر شاہ (صدر پاکستان مسلم لیگ منکشنل ) اپنے برادر سید نادر علی شاہ راشدی کے ساتھ لندن سے پاکستان تشریف لائے اور درگاہ عالیہ راشدیہ پیر ان پگارہ پیر جو گوٹھ (ضلع خیر پور میرس سندھ ) کے بحیثیت ’’سجادہ نشین ہفتم ‘‘ آپ کی دستار فضیلت ہوئی ۔ انگریز کے ظلم و ستم کے سبب درگاہ شریف کا نظام معطل تھا ۔ پیر صاحب کے آنے کے بعد رونقیں بحال ہوئیں، جماعت ککے چہرے فرط مسرت سے کھل اٹھے ۔ خصوصا جماعت مریدین کی تعلیم و تربیت اور عموما اہل سنت و جماعت کی رہنمائی کے لئے براعظم کی اد عطیم و مرکزی خانقاہ راشدیہ پر ’’جامعہ راشدیہ‘‘ کے بحال کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ پیر صاحب کی نگرانی میںحضرت مولانا فقیر محمد صالح قادری (امام مسجد شریف درگاہ شریف ) کی انتھک کوششوں سے جامعہ راشدیہ کا ۵ ، مئی ۱۹۵۳ء کو افتتاح ہوا ۔

مولانا محمد صالح نے اپنے استاد محترم مفتی محمدصاحبداد کو کراچی سے جامعہ راشدیہ میں لے کر آئے اور مفتی صاحب کی کوشش سے علامہ تقدس علی خان بریلوی جامعہ میں تشریف لائے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے ۔ دونوں جلیل القدر شخصیات نے سندھ میںعلماء کی ایک جماعت تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ۔ 

اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ کی بحالی کے بعد آپ کراچی سے درگاہ شریف پیر جو گوٹھ آئے اور تاحیات اسی جامعہ میں درس و تدریس ، فتاوی نویسی اور تصنیف و تحقیق کے اہم و ضروری کام میں مصروف رہے ۔ حاصل مطلب یہ کہ آپ نے تقریبا ۱۵ سال کراچی میںاور تقریبا چھ سات سال کا عرصہ جامعہ راشدیہ میںقیام کیا ۔

شاعری :

آپ شاعری کا بھی پاکیزہ ذوق رکھتے تھے اور شاعری میں ’’ناصح ‘‘ کو تخلص اپنایا ہے ۔ اپنے استاد محترم مفتی محمد قاسم یاسینی کی وفات پر آپ نے قطعہ تاریخ وصال کہا جو کہ اپنے مقام پر درج ہے ۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ آپ تاریخ گوئی کے فن میںبھی دسترس رکھتے تھے ۔

عادات و خصائل :

 مفتی محمد صاحبداد جمالی ، عالم شب خیز ، مناظر ، متکلم ، مفتی ، عظیم مدرس ، باخبر سیاستدان ، ملکی حالات پر دسترس رکھنے والے صحافی ، تحریک پاکستان کے سر گرم کارکن ، مسلک کے درد و جذبہ کی جیتی جاگتی تصویر ، رد باطل میںیدطولی رکھتے تھے ۔ انہیں ہندو پاک میںمقبولیت حاصل تھی ، اہل سنت و جماعت کے اکابر علماء میںان کا شمار تھا ۔ وہ اہل سنت و جماعت کو بیدار و منظم دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لئے عمر بھر کوشش بھی فرماتے رہے ۔ وہ ایک تحریک تھے ، زندگی تحریک میںگذاری ۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ انہوں نے شب و روز اسلام و سنت کی تبلیغ و اشاعت میںگذارا۔

حضرت مولانا محمد اسحاق جتوئی (متوفی ۱۴۱۹ھ ) نے ایک ملاقات میںفقیر راشدی کو بتایا کہ ایک باردرگاہ شریف صدیقیہ شہداد کوٹ میںجلسہ تھا ۔ بعد جلسہ علماء اپنے اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے ۔ میں چونکہ نوجوان تھا اور مولانا مفتی نجم الدین یا سینی کے کمرے میںان کے قریب اپنے بسترے پر کمر سیدھی کر رہا تھا کہ اچانک مولانا صاحب مجھے مخاطب ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا !جاوٗ دیکھ کر آو ٗ مفتی صاحبداد صاحب کیا کر رہے ہیں سنا ہے کہ وہ ساری رات قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے ہیں ۔ میں حکم کو بجالانے کے لئے اٹھ کر چلا گیا جاکر دیکھا واقعی قرآن شریف کھلا ہوا ہے اور وہ تلاوت میں مصروف ہیں ۔ دوسری بار آدھی رات کو اور تیسری بار پچھلی گھڑی کو مجھے اٹھایا اور میں نے تینوں ٹائم انہیں فکر قرآن میںمستغرق پایا ۔ سبحان اللہ !

ردوہابیت :

 ان دنوں سندھ میںدیوبندیوں کے سر خیل مولویوں ، عبید اللہ سندھی ، دین محمد وفائی ، محمد صادق کھڈہ مارکیٹ (لیاری کراچی)تاج محمود امروٹی اور سید رشد اللہ شاہ جھنڈے والے وغیرہ کیلئے حضرت مفتی صاحب شمشیر برہنہ تھے ۔ آپ سندھ بھر میںانہیں تقریری تحریری طور پر للکارتے رہے ، بار بار انہیں میدان عمل میںمناظرہ کیلئے دعوت دیتے رہے لیکن وہ بزدل مرد میدان کہاں تھے وہ تو چھپ چھپ کر حملہ کرنے کے عادی تھے ۔ جب دین محمد وفائی نے کراچی کا رخ کیا تو آپ نے کراچی پہنچ کر اس کا ناطقہ بند کیا اور عوام الناس کو اس کے باطل عقائدے آگاہ کرکے بد عقیدگی کے آگے بند باندھا ۔

انہی لوگوں کے رد میں آپ نے بزبان سندھی میں ’’البلاغ المبین ‘‘کتاب تحریر فرمائی جو کہ ایک سو اسی (۱۸۰)صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ ایک مقام پر رقمطراز ہیں :

’’مشہور وہابی مبلغ مولوی دین محمد وفائی نے اپنے رسالہ ’’توحید ‘‘ کراچی کے شمارے ذوالحجہ ۱۳۴۳ھ میں اعلان کیا ہے کہ نجدیت کے اصل الاصول کتاب تقویۃ الایمان کے سندھی میں ترجمہ ’’توحید الاسلام ‘‘ کی اشاعت میںمولای تاج محمود امروٹی کے علاوہ پیر رشد اللہ شاہ جھنڈے والے کی بھی کافی امداد تھی ۔ ’’سندھ میں جھنڈہ گوٹھ (کامدرسہ ) وہابیت کا مرکزی علمبر دار مقام ہے ۔ جس مدرسہ کے معلم کھلے الفاظ میں اپنے حلقہ تدریس میں سر کار غوث اعظم کی شان میںگستاخیاں کرتے ہیں ۔

 (تفصیل کے لئے دیکھئے البلاغالمبین ص۵)

آپ اپنی کتاب البلاغ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’یہ کتا ب حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ، حضرت صاحبزاد محمد معصوم درگاہ خنیاری شریف (ضلع نوابشاہ ) اور حضرت صاحبزادہ محمد اسماعیل جان سر ہندی وغیرہ وغیرہ علماء و مشائخ کی مالی امداد سے شائع ہوئی ۔ (البلاغ المبین ص۱۸۰)

آپ نے مولوی دین محمد وفائی کے رسالہ کے پوسٹ مارٹم میں الحق الصریح (سندھی ) کتاب تحریر فرمائی ۔ اس کے علاوہ سندھ کے دیگر وہابیوں دیوبندیوں اوراہل حدیث مولویوں کا تعاقب کیا ہے ۔ ۳۹۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۵۶ء کو المکتبہ نیو نہام روڈ کراچی سے دوسری بار شائع ہوئی جس کی گونج آج بھی باطل کے ایوانوں میںسنی جا سکتی ہے۔

تصنیف و تالیف :

 آپ نے تدریس کے علاوہ تحریر کے حوالے سے بھی کارہا نمایاں انجام دیں ۔بدلتے حالات کو سمجھتے ہوئے قلم کا خوب استعمال کیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف قلم کی اہمیت کو سمجھتے تھے بلکہ اس کو بہترین طریقے سے استعمالل کرنا بھی جانتے تھے۔ آپ نے قلم کے ذریعے اسلام و سنیت کی خوب خدمت انجام دی ،حق کا بول بالا کیا اور باطل کا سرنگوں کیا ۔اپنے قلم کے ذریعے اصلاح عقائد کے ساتھ اصلاح معاشرہ کی بھی خدمات انجام دیں اس کے علاوہ مظلوم کی داد رسی کی ان کے حقوق کی آواز بلند کی اور غافل مسلمانوں کو ان کے فرائض یاد دلانے کے لئے آپ قلم کو جنبش دیتے رہے۔

آپ کی بعض تصنیف و تالیف کے نام درج ذیل ہیں :

۱۔       البلا غ المبین فی ردالمکتوب المسمی بامام المبین (سندھی ) طبع اول ۱۳۴۵ھ ؍ ۱۹۲۶ء

۲۔       الحق الصریح فی جواب الرسالۃ المسماۃ بالا عتقاد و الصحیح (سندھی ) طبع اول ۱۳۴۹ھ طبع دوئم ۱۳۷۵ھ ؍ ۱۹۵۵ء

اس کتاب پر اس وقت کے نامور آٹھ علماء ذی وقار کی تقا ریظ رقم ہیں ۔

مثلا : مولانا قمر الدین عطائی مہیسر (مدفون شہداد کوٹ)اور ناصر ملت مولانا ناصر جلالی (کراچی ) وغیرہ

۳۔     القول السداد (اردو ) جس زمانہ میں مفتی صاحب کا کراچی میں قیام تھا، ان دنوں لا ڑکانہ سے مولانا محمد ظہور الحق قادری رضوی (محلہ دڑی لاڑکانہ )نے اردو میں ایک سوال مفتی صاحب سے کیا کہ زید کہتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے سوا کسی شہر و قریہ میں قربانی منشاء قرآن مجید نہیں مکہ میں بھی اتنی ہی ہونی چاہئے جتنی استعمال میں آسکے ،اس سوال کا نہایت جامع جواب مفتی صاحب نے تحریر فرمایا جس نے القول السداد کی صورت اختیار کی ۔یہ رسالہ ۶۴صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کو سائل مولانا ظہور الحق مرحوم نے اعلی کتابت و طباعت سے مزین کراکے اپریل ۱۹۵۴ء کو سکھر سے چھپوا کر لاڑکانہ سے عام کیا ۔

۴۔     سیف الرحمن علی اعداء القرآن ۔ (سندھی ) مبلغ اسلام مولانا قمر الدین مہیسر نے ایک استفتاء کے ذریعے شیعیت کے متعلق پانچ سوالات کئے ۔ مفتی صاحب نے جواب میں سیف الرحمن تحریر فرمائی جو کہ ۱۲۵ صفحات پر مشتمل ہے جس کو الھمایون کے خصوصی نمبر کے تحت اسی سال یعنی ۱۳۴۵ھ کوشائع کیا ۔ اس کے علاوہ اسی سال کی ابتداء میں یعنی محرم الحرام ۱۳۴۵ھ کے شمارہ میں بھی شیعہ مذہب کا پوسٹ مارٹم کیا تھا ۔

مولانا قمرالدین مہیسر نے اسی خط میں اور مولانا حکیم عبدالوہاب گلال نے تحفۃ الوہاب جلد اول ص ۱۴پر الہمایون کے محرم الحرا م والے شمارے سے حوالے کو ڈکئے ہیں ۔ اس شمارہ میں غالبا آپ نے شیعہ کی مستند کتب سے ثابت کیا ہے کہ امام حسین کو کوفہ دعوت دینے ، بلانے والے ، خطوط لکھنے والے ، محبت کا دم بھرنے والے ، بے وفائی کرنے والے اور شہید کرنے والے تمام شیعہ تھے ۔

اس سے واضح ہوا کہ آپ شیعہ فتنہ سے غافل نہیں تھے بلکہ بر وقت ان کا ردان کی بنیادی کتب سے کر کے مسلمانوں کو گمراہی سے بچایا اور کھل کر بتایا کہ شیعہ حب آل رسول کا دعویٰ کر تے ہیں لیکن حقیقت مین یہی آل رسول کے قاتل ہیں ۔ آپ کی حقیقت افروز کتب کا آج تک شیعہ وہابی مدلل جواب دینے سے عاجزرہے ہیں ۔

۵۔      السیف المسلول علی اعداء آل رسول ۔ (سندھی ) اس میں آل رسول کا دشمن شیعہ فرقے کو ان کی امہات کتب سے ثابت کیا گیا ہے ۔

۶۔     الصارم الربانی علی کرشن القادیانی ۔ قادیانیت مرزائیت کا رد بلیغ

۷۔      التوسل بسید الرسل الی خالق الکل (اردو)

۸۔      الھام القدیر فی مسئلہ التقدیر ۔مسئلہ تقدیر کی وضاحت اور شکوک و شبہات کا ازالہ

۹۔     سبیل النجاح فی مسائل العیال والنگاح ۔ نکاح و طلاق کے مسائل اور عائلی قوانین پر تبصرہ

۱۰۔     القول المقبول فی عظمت قول اللہ والرسول (اردو ) ۔ لاوٗ ڈسپیکر کی آواز پر امام کے افعال کی پیروی کرنے کے ناجائز ہونے پر مبسوط فتویٰ ۔ طبع اول ۱۹۶۰ء ، طبع دوئم مسلم کتابوی لاہور ۲۰۰۳ء

۱۱۔       وہابی شفاعت کے منکر ہیں (سندھی )               

۱۲۔     اخلاق النبی ﷺ

۱۳۔    اقامۃالبرہان                            

۱۴۔    عشرہ عاملہ

۱۵۔     فتاویٰ ناصح                                       

۱۶۔    وہابی گستاخ رسول

۱۷۔    تذ کرۃ الصلحاء ۔ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی کی تالیف کا اردو ترجمہ کیا۔ جسے اس زمانہ کے صوفی عبدالرحیم کلکۃ واللے نے کراچی سے شائع کر کے مفت تقسیم کیا تھا ۔

۱۸۔     تعمیر مساجد (اردو ) نیو میمن مسجد کی تعمیر کے متعلق جاری کردہ فتویٰ

۱۹۔     سماع موتی                                       

۲۰۔    مطالبہ حق: آریوں کے رد میں

۲۱۔    پر کاش آریوں کے رد میں                  

۲۲۔    میلاد شریف وغیرہ موضوع پر رسائل تحریر فرمائے ۔

۲۳۔    وہب اللہ شاہ جھنڈے والے کے ھکم سے مولوی جمیل خیر پوری سابق صدر مدرس مدرسہ پیر جھنڈہ نے اہلسنت وجماعت پر الزاما ت واتہامات پر مشتمل کتا بچہ بنام ’’الالیق بالقبول فی بشریت الرسول ‘‘ لکھا ۔ مفتی صاحب نے اس کے جواب میں ایک رسالہ ۱۳۸۳ھ؍ ۱۹۶۴ء کو تحریر فرمایا ۔ یہ رسالہ غالبا آپ کی آخری تصنیف ہے جو کہ ’’ القول الانو ر فی بحث النور والبشر ‘‘ ( موٗ لف : علامہ عبدالصمد میتلو مرحوم سابق استاد جامعہ راشدیہ) کے ساتھ غوثیہ کتب خانہ سانگھڑ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔

۲۴۔   آپ نے امام احمد رضا خان محدث بریلوی کی مرتبہ کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ کی تائید اور اکابر دیوبند کے خلاف تاریخی فتویٰ جاری فرمایا جو کہ ’’ الصوارم الہند یہ ‘‘ میں محفوظ ہے ، اردو ترجمہ یہاں درج کیا جارہا ہے۔

    


(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء