قدوۃ الفضلاء حضرت علا مہ مفتی محمد صاحبداد کاں قدس سرہ العزیز
امام الفقہاء قدوۃ الفضلاء حضرت علامہ مفتی محمد صاحبداد خاں رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۳۱۶ھ/۱۸۹۸ء میں بمقام لونی (مضافات سبی صوبہ بلوچستان )پیدا ہوئے۔ قرآن مجید خواجہ محمد شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے پڑھا۔ فارسی کی ابتدائی کتابیں مولانا محمدیوسف رحمہ اللہ تعالیٰ (لانڈھی مضافات بھاگ ، قلات )سے پڑھیں ، پھر مدرسہ قاسمیہ (گڑھی یاسین مضافات سکھر)میں مولانا محمد قاسم سے علوم دفنون کی تحصیل کی اور ۱۳۳۶ھ /۱۹۱۷ء میں سند فراغت حاصل کی ،بعد ازاں کچھ عرصہ رانی پور اور کچھ زمانہ سلطان کوٹ(مضافات سکھر )میں مدرس رہے ۔ایک مدت تک قلات کیت قاضی القضاۃ رہے ب عد ازاں پیر پگارا حضرت پیر سید محمد صبغتہ اللہ رحمہ اللہ تعالی کے طلب فرمانے پر پیر گوٹھ (ضلع خیر پور ، میرس سندھ تشریف لے گئے اور جامعہ راشدیہ میں صدر مدرس میں مقرر ہوئے اور علم و فضل کے پیاسوں کو خوب خوب حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے مسلک اہل سنت و جماعت کی بے مثال خدمات دیں[1]
فن افتاء میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ، دور و دراز سے لاگ دینی و علمی مسائل میں ع کیا کرتے تھے ، سواد اعظم لاہور میں راقم کی نظر سے مدینہ طیبہ سے آ یاہوا استفتاء گزر اہے اس کا مبسوط جواب مفتی صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ عموماً اپنے فتاویٰ میں بہار شریعت ( از صدر الشریعہ مولانا امجد علی قدس سرہ ) کا حوالہ دیا کرتے تھے ، اس طرح ایک تو ماخذ کی نشا مذہی ہو جاتی اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ بہار شریعت کا مستند ہونا عوام و خواص پر ظاہر ہو جاتا[2]
مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقتی ضروریات کے پیش نظر متعدد کتابیں،رقم فرمائیں فی الحال جن تصانیف کے نام ہمارے سامنے آئے ہیں،یہ ہیں:۔
۱۔ القول المقبول فی عظمۃ قول اللہ والر سول : لائڈ سپیکر کی آواز پر امام کے افعال کی پیروی کرنے کے ناجائز ہانے پر مبسوط فتویٰ
۲۔ الہان القدری فی مسئلۃ التقدیر : مسئلۂ تقدیر کی وضاحت اور شکوک و شہابت کا ازالہ۔
۳۔ شبیل النجاح فی مسائل العیال والنکاح : نکاح و طلاق کے مسائل اور عائلی قوانین پر تبصرہ۔
وغیرہ وغیرہ
حضرت مفتی صاحبداد خاں قدس سرہ ۲ جمادی الاولیٰ،۲۹ اگست ( ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ئ) اتوار کی شب اس دار فانی سے انتقال فرماگئے اور سلبان کوٹ (مضافات شکار پور ) میں مدفون ہوئے[3]
[1] غلام مہر علی ، مولانا: الیواقیت المہر یہ، ص ۱۵۳
[2] (۱۸۸پیج نمبر ) پاسبان (امام احمد رضا نمبر، مارچ ، اپریل ۱۹۶۲ئ) ص ۱۷
[3] غلام مہر علی ، مولانا : الیواقیت المہر یہ ، ص ۱۵۴۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)