حضرت مولانا رضا علی خاں
نام ونسب:اسمِ گرامی: حضرت مولانا رضا علی خان ۔لقب: امام العلماء،قدوۃالصلحاء۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:امام العلماء حضرت مولانا رضا علی خان بن حافظ محمد کاظم علی خان بن جناب محمد اعظم خان بن جناب محمد سعادت یارخان بن جناب محمد سعید اللہ خان بن عبدالرحمن بن یوسف خان قندھاری بن دولت خان بن داؤد خان۔(علیہم الرحمہ)
تاریخِ ولادت: آپ 1224ھ کوپیداہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ نے مولانا خلیل الرحمن علیہ الرحمہ سے "ٹونک"(راجستھان ،ہند)تمام علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تحصیل وتکمیل فرمائی۔آپ علیہ الرحمہ 1245 ھ کو سندِ فراغ حاصل فرمائی۔آپ تمام علوم کے جامع تھے۔بالخصوص فقہ وتصوف میں مرجعِ خاص وعام تھے۔
سیرت وخصائص:قدوۃالواصلین،زبدۃ الکاملین،رئیس المتوکلین ومتصوفین، قطب الوقت،امام العلماء،سندالاتقیاء حضرت علامہ مولانا رضاعلی خان رحمۃ اللہ علیہ۔خصوصاً نسبت کلام، سبقت سلام، زہد و قناعت، علم و تواضع، تجرید و تفرید آپ کی خصوصیات سے تھے۔ آپ کے اوصاف وکمالات شمارسےباہر ہیں۔آپ جیدعالمِ دین اور ولیِ کامل کےساتھ ساتھ پرتاثیر خطیب بھی تھے۔ آپ کےبیان سے متأثرہوکر بہت سے فساق وفجار تائب ہوکر لوٹتے تھے۔
کمالات:حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، حضرت مولانا رضا علی خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے کمالات و کرامات میں بیان فرماتے تھے :کہ حضرت کا گزر ایک روز"کوچۂ سیتارام "کی طرف سے ہوا۔ ہنود کے تہوار" ہولی "کا زمانہ تھا۔ ایک ہندوانی بازاری طوائف نے اپنے بالا خانہ سے حضرت پر رنگ چھوڑ دیا۔ یہ کیفیت شارع عام(سڑک) پر ایک جوشیلے مسلمان نے دیکھتے ہی، بالا خانہ پر جا کر تشدد کرنا چاہا، مگر حضور نے اُسے روکا اور فرمایا۔ بھائی! کیوں اس پر تشدد کرتے ہو؟ اس نے مجھ پر رنگ ڈالا ہے خدا اسے رنگ دے گا۔ یہ فرمانا تھا کہ وہ طوائف بے تابا نہ قدموں پر آکر گر پڑی، اور معافی مانگی، اور اسی وقت مشرف با اسلام ہوگئی۔ حضرت نے وہیں اس نوجوان کے ساتھ اس کا عقد (نکاح)کر دیا۔
اسی طرح 1857انگریز کے غدر کے زمانہ میں ان کے ظلم وستم سے بچنے کیلئےبہت سے مسلمان شہر چھوڑکر دیہاتوں کی طرف چلے گئے،اور بہت سے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔لیکن حضرت کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔باجماعت نماز اداکرتے تھے۔ایک دن حضرت مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ادھر سے گوروں (انگریزوں) کا گزر ہوا۔ خیال ہوا کہ شاید مسجد میں کوئی شخص ہو تو اس کو پکڑ کرماریں پیٹیں۔(اس وقت مسلمانوں پر ایسے ظلم ہواکرتے تھے) انگریز مسجد میں گھسے، ادھر ادھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ کہنے لگے کہ مسجد میں کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ حضرت مسجد میں ہی تشریف فرماتھے۔اللہ تعالیٰ نے گوروں کو اندھاکردیا تھا کہ حضرت کو دیکھنے سے معذور رہے۔یہ کرامت حضرت کی اس معجزۂ صادقہ نبویہ ﷺ کی تصدیق ہے کہ شب ہجرت کفار کے درمیان میں سے حضور ﷺ تشریف لے گئے۔لیکن کفار کونظر نہ آئے۔
مجاہدِ جنگ آزدی: آپ اپنے وقت جید عالمِ دین ومفتی وصوفیِ باصفاء کےساتھ ساتھ "جلیل القدرمجاہد"بھی تھے۔ آپ جنگِ آزدی کے عظیم راہنماء تھے۔آپ تمام عمر انگریز سامراجیت کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔"لارڈہسٹنگ"آپ کےنام سے کانپتاتھا۔"جنرل ہڈسن"نے آپ کے سرکی قیمت "پانچ سو روپے"مقرر کررکھی تھی۔لیکن گیدڑ انگریز رسول اللہ ﷺ کے شیر کاکچھ نہ بگاڑسکا۔انگریز نے آپ کی جائیداد ضبط کرلی،لیکن دنیا کے کتوں کوکیا معلوم؟ان نفوسِ قدسیہ کےہاں تودنیاکی حیثیت مردارکی سی ہے۔
حضرت علامہ مولانا محمد حسن صاحب علمیؔ (مصنف خطبہ"علمیہ")جن کا خطبہ پاک ہند میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ شہر تو شہر، دیہات تک مساجد میں وہی خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ وہ حضرت ہی کے شاگرد و مرید تھے، اور یہ خطبہ آپ کی نظر انور سےگزرا ہوا ہے۔ اور آج تک جو" خطبۂ علمی" چھپتا ہے اس کے اخیر مصنف کی یہ عبارت ضرور ہوتی ہے۔"اس مؤلف عاصی محمد حسن علمیؔ کو امیدواری جناب باری عَزَّاِسْمُہٗ سے یہ ہے کہ اپنے فضل عمیم اور طفیل رسول کریم ملقب بہ "اِنَّکَ عَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ" کے ہم سب مومنین کو بعفو جرائم و عصیان اور فیضان تو توفیق و احسان کے عزت بخشے۔ اور ہمارے مرشدو مولیٰ، عالم علم ربانی، مقبول بارگاہ سبحانی، مخزن اسرار معقول و منقول، کاشف استار فروع و اصول، مطلع العلوم، مجمع الفہوم، عالم باعمل، فاضل بے بدل، منبع الاخلاق، منھل الاشفاق، مصدر احسان، مظہر امتنان، مولانا و مخدومنا، لوذعیِ زمان، مولوی رضا علی خان کو بیچ دونوں جہان کے رحمت خاصہ میں اپنے رکھ کر اقصیٰ مراتب قبولیت کو پہنچائے۔ آمین یارب العلمین
وصال: آپ کاوصال 2/جمادی الاول1286ھ،مطابق اگست 1869ءکوہوا۔آپ کامزار بریلی شریف میں ہے۔
ماخذومراجع: حیاتِ اعلیٰ حضرت۔حیات مولانا نقی علی خان۔
//php } ?>