حضرت مولانا رضا علی خاں بریلوی

حضرت مولانا رضا علی خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مغلیہ دور آخر کی شب دیجور میں سپیدہ صبح کی طرح حافظ کاظم علی خاں کے بیٹے رضاعلی خاں ۱۲۲۴ھ ۱۸۰۹ ء بریلی میں پیدا ہوئے ۔آپ اس خاندان کے پہلے شخص ہیں جو علم الدین کی دولت لائے ۔سب سے پہلے مسند ا فتاء کو زینب بخشی اور انھیں کی ذات سے اس خاندان میں تلوار کے بجائے قلم کا دور شروع ہوا ۔آپ اپنے جد امجد اور والد ماجد کے خلف الصدیق قرار پائے ۔اسلاف کا جاہ وچشم ، علم وفضل زہد وتقوی ٰ آپ کی ذات سے نمایا اور پیشانی سے تاباں تھا ۔سنت رسولﷺ پر عمل اور اس میں پہل آپ کا مزاج تھا ۔ رضائے الہیٰ ہمیشہ آپ کی رضا رہی۔ آپ کا نام اسم بامسمیٰ تھا ۔ آپ کی ذات الحبَ فی اللہ و ا لبغض فی اللہ کی پیکرتھی ۔آپ نے صرف ۲۳ سال کی عمر میں۱۲۴۷ ھ ٹونک راجسھتان میں مولانا خلیل الرحمٰن سے علوم وفنون حاصل کرکے شہرہ آفاق ہوگئے ۔ خصوصاً تصوف میں اپنی نظیر آپ تھے ۔ تقریر بڑی پُر تاثیر فرماتے آپ کا کلام ،، گفتئہ او گفتہ اللہ بود،، کا شاہکار ہوتا۔

ایک بازاری ہند وعورت نے ہولی کے دنوں میں اپنے بالا خانے سے آپ کے اوپر رنگ چھوڑدیا ۔ایک مسلما ن نے اس کی اس حرکت پر تشدد کرنا چاہا۔آپنے فرمایا اس نے مجھ پر رنگ ڈالا ہے ، خدا اسے رنگ دے گا ۔ ادھر یہ جملہ زبان حق ترجمان سے نکلا اور ادھر وہ بازاری عورت قدموں پہ آ پڑی اور مسلمان ہوگئی ۳

۱۔ مولانا حسنین رضاخاں ، سیرت اعلٰحضرت ص ۱۴

۲۔ مولانا خلیل الرحٰمن ولد ملا محمد عرفان رام پوری میں پیدا ہوئے ۔امیر خاں والی ٹونک کے آخر زمانے میں ٹونک گئے ۔پھر بعد میں جا درہ تشریف لےگئے ۔وہیں انتقال فرمایا ۔

۳ ۔ مولانا ں ظفر الدین بہادری ؛ حیات اعلٰیحضرت ،، جلد اّول ص ۴

ہندوستان میں جب برطانوی اقتدار سیلاب بلا کیطر ح ہر طرف بڑھ رہا تھا ، لوگوں کو خرید خرید کر غلام بنایا جا رہا تھا ،ونیا دار حکام ، جاہ طلب امراء ، مصلحت اندیش ابن الوقت علماء انگریزوں سے سودا بازی میں مصروف تھے ، وغط و نصیحت کا سارا زور انگریزوں کی وفات داری پر تھا۔ اس معرکہ کرب وبلا میں علمائے اہلسنت مولانا فضل حق خیرآبادی ۱۲۱۲۲ھ / ۱۲۷۸ ھ ء ۱۷۹۷ھ / ۱۸۶۱ھ مولانا سید کفایت علی مراد آبادی شہادت رمضان ۱۲۷۴ھ/ ۱۸۵۸ھ ء سید عبدالجلیل علیگڑھی ش ۴ ۱۲۷ ھ / ۱۹۵۸ ء مولانا امام بخش صہبائی ،مفتی مظہر کریم دریا بادی م ۱۲۹۰ ھ / ۱۸۷۳ ء وغیر ہم فریضہ احقاق حق وابطالِ باطل انجام دے رہے تھے۔

برطانوی اقتدار کی للچائی نظریں بریلی پر تھیں ۔ جنرل ہڈسن اور اس کے وظیفہ خوار حرّیت پسندوں کو ختم کرنے میں مصروف تھے ۔بریلی کا مورچہ جرنل بیدار ﷜بخت کے کے ساتھ تھا ۔مجاہد کبیر مولانا رضاعلی خاں بنفس نفیس اپنے تلامذہ اور مریدین کے ساتھ فر یضئہ جہاد ادا کر رہے تھے ۔فرنگی افواج کو آگ اور خون دریا عبور کرنا پڑ رہا تھا آپ کا آستانہ مجاہدین کی پناہ گاہ تھا ۔ اور آپ کا گھر گھوڑوں کا اصطبل اور حریت پسندوں کا لنگر خانہ تھا ۳۔

۱۔ حوالہ کے لئے ملا خطہ ہو ‘حیات طیبہ’’مرزا حیرت دہلوی، مطبوعہ فاروقی دہلی ص ۲۹۶

۲۔ اردو کے مشہور انشاء پر داز عبد الماجد دریا باری اپنے حقیقی دادا مفتی مظہر کریم دریا بادی کے حالات لکھتے ہیں ،، ان پر مقدمہ اس کا چلا کہ ان کے شہر شا ہجہاں پور میں باغیوں کی کمیٹی انھیں کے مکان پر ہوتی تھی۔ ۹ سال کی سزا عبور دریائے شور کی سنادی گئی ۔کالے پانی جزیرہ انڈمان سے مشعلہ عملی اور خوش جلنی کی بنا پر سات ہی سال میں مدت اسیری ختم کرکے ۱۸۶۵ھء وطن واپسی ہوئی ۔ عقائد میں ہم مسلکی علمائے بدایوں کی ہے ۔مراسلت بھی ان حضرات سے رہا کرتی،، غایتہ المرم فی تحقیق المولود والقیام ،، کے عنوان سے ایک کتاب اپنے عزیز قریب کے نام سے محفل میلاد دادو اس قیام تعظیمی کی حمایت وجوانہ میں چھپوائی۔ایک کتاب کا مسودہ بھی ‘‘مناقب غوثیہ’’کے نام سے پرانےکاغذات میں ملا’’۔ ملخصاً آپ بیتی ص ۲۸ ۔۲۹ (۳) ماہنامہ اہل سنت ’’ کراچی ۱۹۷۵ ء جنگ آزادی نمبر ۱۸۵۷ ء

۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی اپنےعروج پر تھی ۔بر طانوی ہوس ملک گیری کی تلوار بے نیام تھی ۔ حریت پسند وں کی تلاش اور ان کی گردن زنی دستور عام تھا ۔بھلا وہ مولانا رضا علیخاں مجاہد کبیر کو کیسے معاف کر سکتے تھے ۔چانچہ بر طانوی سپاہی حضرت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ۔مکان کا گوشہ گوشہ چھان مارا یہاں تنک کہ وہ حضرت کی املی والی مسجد محلہ ذخیرہ میں گھس پڑے ، جہاں حضرت مصروف عبادت تھے ۔نامرا دسپاہی جان مراد تک پہنچ کر بھی نا مرادرہے اور حضرت کو نہ دیکھ سکے ۔ ۲/ جمادی الاول ۱۲۸۲ ھ/ ۱۸۶۶ ء کو آپ نے وصال فرمایا۔ آپ کا مزار سٹی قبروستان بریلی میں زیارت گاہ عام ہے۔

(تذکرہ جمیل)

تجویزوآراء