غوثُ الاسلام والمسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:سید پیرمہرعلی شاہ گولڑوی۔القاب:شیخُ الاسلام،مجددِزماں،غوثُ الاسلام والمسلمین،محافظِ ختمِ نبوت،فاتحِ قادیانیت،مامورعن الرسولﷺ۔والد کا اسمِ گرامی:سید نذر دین شاہ علیہ الرحمہ۔ آپ کا سلسلۂِ نسب پچیس واسطوں سے حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چھتیس واسطوں سے حضرت سید نا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ بروزپیر یکم رمضان المبارک /1275ھ،مطابق 4/اپریل 1859ءکو "گولڑہ شریف"ضلع راولپنڈی میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم:قرآن مجید پڑھنے کے بعد مولانا غلام محی الدین ہزاوری سے کافیہ تک کتابیں پڑھیں۔پھر "بھوئی "ضلع راولپنڈی میں مولانا محمد شفیع قریشی کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور نحو واصول کی متوسط کتب کےعلاوہ منطق میں قطبی پڑھی،بعد ازاں اکثر و بیشتر کتب" انگہ "ضلع سرگودھا میں مولانا سلطان محمود (مرید خاص حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ)سے پڑھیں اورمولانا احمد حسن کانپوری کی خدمت میں حاضرہوئے اس وقت مولانا احمد حسن کانپوری سفر ِحج کے لئے تیار تھے،اس لئے آپ نے استاذ الکل مولانا لطف اللہ علی گڑھی کی خدمت میں حاضر ہو کر معقول اور ریاضی کی کتبِ عالیہ کا درس لیا۔مولانا احمد علی محدث سہارنپوری محشی بخاری سے درسِ حدیث لیا اور 1295ھ1878ء میں سند ِحدیث حاصل کی۔قو تِ حا فظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کا سبق رو زا نہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے ۔ جب قرآن حکیم نا ظر ہ ختم کیا ،تو اس وقت آپ کو پو را قرآنِ کر یم بھی حفظ ہوچکا تھا۔اسی طرح جب کسی کتاب کا مطالعہ کرتے وہ حفظ ہوجاتی،بلاتأمل اس کی عبارتیں نقل کردیتے تھے۔
بیعت وخلافت:سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی قدس سرہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔حرمین طیبین میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں خلافت عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص:شیخ الاسلام،مجددِ زماں،غوث الاسلام والمسلمین،محافظِ ختمِ نبوت،فاتحِ قادیانیت،مامورمن الرسولﷺ،جامع العلوم،ماہ شریعتِ، مہر ِطریقت حضرت پیر سیدمہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کی ذاتِ گرامی ان محسنینِ اسلام میں سے جنہوں نے کٹھن و قت میں ملتِ اسلامیہ کی راہبری کا فریضہ سر انجام دیا،اور دینِ اسلام کی محافظت کا حق اداکردیا۔تکمیلِ علوم کے بعد ایک عرصہ تک درس و تدریس کے ذریعہ تشنگانِ علوم کو سیراب کیا۔شیخِ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ کے نظریۂِ وحدۃ الوجود کے زبر دست حامی اور مبلغ تھے۔مفکرِ اسلام شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبا ل علیہ الرحمہ نے شیخِ اکبر کےفلسفے کوسمجھنے کے لئے آپ کی ذات کی طرف رجوع کیا تھا۔
1307ھ1890ء میں حرمین شریفین کی زیارت کے لئے گئے تو حضرت خواجہ عبد الرحمن چھوہروی قدس سرہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔مکہ مکرمہ میں مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ بانی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے ملاقات ہوئی تو وہ آپ کے علم و فضل سے بہت متأثر ہوئے۔مولانا محمد غازی نائب مدرس مدرسہ صولتیہ آپ کے فضل و کمال کے اتنے گرویدہ ہوئے کہ ہمیشہ کے لئے گولڑہ شریف آگئے۔ جب آپ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس وقت وہ مثنوی شریف کا درس دے رہے تھے۔ایک شخص مثنوی شریف کے ایک شعر کے بارے میں تشفی حاصل کرنا چاہتا تھا،حضرت حاجی صاحب کی اجازت سے حضرت پیر صاحب نے اس شعر کی ایسی عارفانہ تقریر کی کہ حاجی صاحب وجد میں آگئے اور آپ کو سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں اجازت سے نوازا حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی خود فرماتے ہیں:"بوقتِ زیارتِ بیت اللہ حاجی امداد اللہ صاحب جوکہ اہل کشف و کرامت تھے خود ہی نعمتِ باطنی بخشنے کو اس عاجز کی طرف متوجہ ہوئے ہمارے دل میں خیال آیا کہ جو چہرہ ہم نے دیکھا ہے(یعنی خواجہ سیالوی) وہ جہان میں نظر نہیں آتا۔ان کے کمالِ اصرار کے بعد کہا کہ ہم کو تو حاجت نہیں لیکن آپ کی عنایت بھی جو آپ کی رضا مندی سے ہے غیر مشکور نہیں اور نیز یہ عنایت بھی ہم اپنے شیخ کی جانب سے جانتے ہیں بعدہ انہوں نے سلسلۂ صابریہ اکرام فرمایا"۔
حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ چاہتے تھے کہ حرمین طیبین میں قیام کیا جائے۔لیکن حضرت حاجی صاحب نے بتاکید مراجعت کا حکم دیا اور فرمایا:"ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپاہونے والا ہے لہٰذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان میں واپس چلے جاؤ۔بالفرض اگر آپ ہند میں خاموش ہو کر بیٹھ بھی جائیں گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا۔پس ہم حضرت حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی رو سے مرزا قادیانی کے فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں"۔
پیر صاحب پر رسول اللہﷺکا کرم:مدینہ طیبہ کے سفر میں "وادیِ حمراء "میں ڈاکوؤں کے خطرے کی بناء پر حضرت عشاء کی سنتیں ادا نہ کر سکے۔خوا ب میں حضور سیدِ عالم ﷺکے جمالِ جہاں آراسے مستفیض ہوئے حضور ﷺنے فرمایا:"آلِ رسول رانباید کہ ترکِ سنت کند"اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ اپنی مشہور نعت میں فرماتے ہیں :
لاہو مکھ تھیں مخّطط بردِ یمن اوہا مٹھیاں گالیں الاؤ مٹھن
|
من بھانوری شکل دکھاؤ سجن جو حمرا وادی سَن کریاں
|
حضرت پیر مہر علی شاگولڑوی قدس سرہ نے عمر بھر شریعت و طریقت کی بے مثال خدمات انجام دیں۔مسلکِ اہل سنت کی حمایت اور بد مذہبوں کی سر کوبی پر خاص طور پر توجہ فرمائی۔مولانا فیض احمد گولڑوی لکھتے ہیں:"حضرت نے امکان ِکذب باری تعالیٰ کو محال،علمِ غیب عطائی اور سماعِ موتٰی کو برحق اور ندائے یا رسول اللہ، زیارت قبور، توسل واستمداد انبیاء واولیاء علیہم السلام اورایصالِ ثواب کو جائز قرار دیا"۔حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی علیہ الرحمہ کی پیشین گوئی کے مطابق آپ کی مساعیِ جمیلہ نے فتنۂ قادیانیت کی سازشوں پر پانی پھیر دیا1317ھ1899ء۔1900ء میں آپ نے " شمس الہدایہ " لکھ کر حیات مسیح علیہ السلام پر زبر دست دلائل قائم کئے۔مزار قادیانی ان دلائل کا جواب تو نہ دے سکا البتہ مناظرے کا چیلنج دیدیا۔ 25جولائی 1900ء کی تاریخ برائے مناظرہ طے پائی۔حضر ت پیرصاحب اور علماء کی بہت بڑی جماعت مقررہ تاریخ پرشاہی مسجد لاہور میں پہنچ گئی،لیکن مرزا قادیانی کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہو سکی ،اس خفت کو مٹانے کے لئے 15دسمبر 1900ءکو سورۂ فاتحہ کی تفسیر "اعجاز المسیح "کے نام سے عربی زبان میں شائع کی جس کے بارے میں مرزا صاحب یہ تأثرہ دے رہے تھے کہ یہ الہامی تفسیر ہے۔حضرت پیر صاحب نے 1902ء میں "سیف ِچشتیائی" لکھ کر شائع فرمادی۔ جس میں مرزا صاحب کی عربی دانی کی قلعی کھول دی اور قادیانی دعووں کی دھجیاں بکھیر دیں۔یہ کتاب آج تک لا جواب ہے۔ اسی طرح جب "وہابیت "نے پر پرزے نکالنے شروع کئے اور سوادِاعظم اہل سنت کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کیں تو آپ نے ان کاسختی سے محاسبہ فرمایا۔مولوی عبد الاحد خانپوری وہابی آپ کی وہابیت کش پالیسی پر بڑے برہم رہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے ایک رسالے میں دس علمی سوال لکھ کر حضرت کو جواب دینے کی دعوت دی۔ آپ نے "الفتوحات الصمدیہ "میں ان سوالات کے جوابات دے کر بارہ سوالات اپنی طرف سے پیش کئے جن کا جواب مولوی عبد الاحد خانپوری بلکہ ان کی تمام جماعت سے نہ بن سکا،اورتا قیامت نہ بن سکے گا انشاء اللہ۔(یہ وہابیت پر قرض ہے)"اعلاء کلمۃ اللہ "(نذرو نیاز،سماع موتی،استمداد و غیرہ مسائل پر لا جواب کتاب) بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔"الحاصل کاملین کی ارواح اور بتوں میں ظاہر و باہر فرق ہے لہٰذا بتوں کے بارے میں وارد ہونے والی آیات کو انبیاء واولیاء پر چسپاں کرنا جیسا کہ "تقویۃ الایمان" میں کیا،قبیح تحریف اور بد ترین تخریب ہے"۔
مجدد دین و ملت حضر ت پیر سید مہر علی شا ہ صا حب چشتی گو لڑوی قدس سرہ العز یز نے تبلیغ اسلا م ، احیا ئے سنت وا حیا ئے ملت ، احقا قِ حق اور اذہا قِ با طل اور تزکیہ ٔنفس کا عظیم فر یضہ جس مؤثر اور دلآویز اندا ز میں سر انجا م دیا ، وہ تا ریخِ اسلا م میں سنہر ی حر و ف سے لکھا جا ئے گا ۔چو دھویں صدی ہجری میں آپ اپنی دینی و ملی، ملکی اور مسلکی خدما ت کی بہ دو لت ایک ممتاز اور منفرد مقا م ر کھتے ہیں۔ اشا عتِ دین،اصلا حِ خلق ، احیا ءِ سنت وازالہ ِبدعت،اعلاءِ کلمتہ الحق ، دین حق کی سر بلندی اور کفر کی سر کو بی اور اسلا می اقدار کا فر وغ اوربا طل و مفسد تحریکوں کے قلع قمع کے لئے آپ کی عظیم خدما ت اظہر من الشمس ہیں۔پیر سید مہر علی شا ہ صا حب رحمتہ اللہ علیہ خود شریعت وطریقت کے عظیم الشا ن عالم و فا ضل تھے، اس لئے شر یعت مطہر ہ پر سختی سے پابند تھے اور اپنے مریدین و معتقدین کو بھی شریعت کی پاسداری کی تاکیدو تلقین فر ما تے ،آپ کی زندگی اور سیرتِ مبا رکہ قرآن و سنت کا قا بلِ رشک اورکا مل نمو نہ تھی، آپ کی زندگی تر ویج و اشا عت ِدین، اصلا ح و تر بیت ِمسلمین ، تعمیر ملک و ملت اور خدمتِ خلق کیلئے وقف تھی۔
وصال:بروزمنگل،29صفرالمظفر/1356ھ،مطابق 11/مئی1937ءکو آپ کاوصال ہوا۔گولڑہ شریف اسلام آباد میں آپ کامزار مبارک مرکزِ انواروتجلیات ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت۔مہرِ منیر۔
//php } ?>