حضرت فاضلِ جلیل علّامہ مولانا غلام مہر علی گولڑوی

حضرت فاضلِ جلیل علّامہ مولانا غلام مہر علی گولڑوی، چشتیاں علیہ الرحمۃ 

 

فاضلِ جلیل حضرت علامہ مولانا غلام مہر علی بن مولانا جان محمد مدظلہ ۱۵؍ شوال ۱۳۴۲ھ/ ۲۰؍ جون ۱۹۲۴ء بروز اتوار محمود پور بہاول نگر میں پیدا ہوئے۔

آپ پنجاب کے مشہور راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عبداللہ بھٹی المشہور دلّا بھٹی جس نے مغلِ اعظم اکبر کے خلاف جنگ لڑی، آپ کے اجداد میں سے تھے۔

آپ کے والد ماجد حضرت مولانا جان محمد مدظلہ نے ۱۳۳۶ھ میں دہلی اور ۱۳۵۷ھ میں مدینہ منورہ سے سند حاصل کی۔

پانچ سال کی عمر میں آپ نے والد ماجد سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا اور دس سال کی عمر میں تکمیل حفظ کے بعد علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے ایک سال میں کتب فارسی، صرف و نحو (کافیہ تک) فقہ، قدوری تک اور رسائل منطق اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ سے پڑھے۔

شرح مائۃ عامل اور منیتہ المصلی پڑھ رہے تھے کہ ۱۳۵۷ھ میں والد ماجد کے ہمراہ حج بیت اللہ شریف کی غرض سے عازمِ حرمین طیبین ہوئے۔ کچھ اسباق حرم شریف اور روضتہ رسول علیٰ اصاحبہا الصّلوٰۃ والسّلام کے سائے میں والد مکرم ہی سے پڑھے۔

حج سے واپسی پر مدرسہ صادقیہ منچن آباد ضلع بہاول نگر میں داخل ہوئے صدر مدرس مولانا غلام مصطفےٰ صحیح العقیدہ عالمِ دین تھے اور انہیں حضرت سلطان العارفین خواجہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ سے ارادت تھی، جبکہ دیگر مدّرسین بدعقیدہ اور انبیاء و اولیا کی شان میں تنقیص کرنے والے لوگ تھے، چنانچہ ان میں سے ایک نے ایک دن سلطان المشائخ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ کی شان میں بے ادبی کی جس کی وجہ سے آپ نے اس دارلعلوم کو چھوڑدیا۔ یہاں آپ نے شرح جامی، ہدایہ، نور الانوار اورسلم العلوم تک کتابیں پڑھی تھیں۔

۱۳۶۱ھ میں آپ منچن آباد سے مدرسہ اسلامیہ مفتاح العلوم بہاول نگر چلے گئے اور کتب فنون حضرت مولانا محمد اکمل سے پڑھیں اور علاوہ ازیں امام الفنون حضرت مولانا فتح محمد بہاولنگری سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔

۱۳۶۲ھ میں جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں داخلہ لیا اور امام المعقول حضرت مولانا مہر محمد علیہ الرحمہ سے اکثر کتب فنون مثلاً شرح قاضی مبارک، حمد اللہ، توضیح تلویح، اقلیدس، خیالی اور امورِ عامہ کے علاوہ ادب عربی کی تمام کتب تفسیر جلالین اور مشکوٰۃ شریف کا درس لیا۔

علوم و فنون مروّجہ کی تکمیل کے بعد دارالعلوم حزب الاحناف (اندرون دہلی دروازہ لاہور[۱])میں داخلہ لیا اور کتب صحاح ستہ (کتبِ احادیث) مفتی اعظم حضرت علامہ ابو البرکات سیّد احمد رحمہ اللہ سے پڑھنے کے بعد ۱۳۶۵ھ میں جبکہ آپ کی عمر ۲۳ سال تھی، سندِ فراغت و دستارِ فضیلت حاصل کی۔

[۱۔ آجکل دارالعلوم حزب الاحناف بھاٹی گیٹ کے باہر حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ کے جوار میں گنج بخش روڈ (لال کوٹھی) پر واقع ہے۔ (مرتب)]

فراغت کے بعد آپ گھر لوٹے اور حضرت والد مکرم کی نگرانی میں تدریس شروع کردی۔ تدریس کے علاوہ آپ تبلیغِ دین کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے علاقہ میں بعض بد عقیدہ لوگوں نے توحید و رسالت کے خود ساختہ مفہوم کی تشہیر و تبلیغ کے ذریعے گمراہی کا جال بچھا رکھا تھا۔ چنانچہ حضرت علامہ مولانا غلام مہر علی نے ان سے مناظرے کر کے عوام پر ان کی مکر و فریب کو آشکارا کیا اور ان کی ہدایت کا سامان بہم پہنچایا۔

آپ نے ایک سال پیر محل ضلع فیصل آباد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیے۔ اسی دوران آپ کے والد مکرم نویں حج کے سلسلے میں حجاز مقدس تشریف لے گئے، چنانچہ آپ کو گھریلو انتظامات کی خاطر واپس گھر آنا پڑا۔

والد ماجد کی حج سے واپسی پر آپ نے اہلِ چشتیاں کی پُر خلوص دعوت کو قبول فرماتے ہوئے جامع مسجد چشتیاں میں فرائض خطابت سر انجام دینے شروع کیے۔

۱۳۸۴ھ میں آپ نے ’’مدرسہ عربیہ انوار الاسلام‘‘کے نام سے ایک ادارہ منچن آباد میں بھی قائم فرمایا۔

دربارِ عالیہ گولڑہ شریف سے آپ کا پُرانا خاندانی تعلق ہے جس کا واضح ثبوت آپ کا اسمِ گرامی ہے، چنانچہ آپ نے اس تعلق کو قائم رکھتے ہوئے ۱۳۶۵ھ میں حضرت خواجہ پیر غلام محی الدین المعروف بالوجی رحمہ اللہ کے دستِ اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔

حضرت علامہ مولانا غلام مہر علی قابل مدرس، بے باک خطیب اور کامیاب مناظر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ قلم شخصیّت بھی ہیں۔ چنانچہ آپ نے مسلکِ اہل سنت کی تائید اور اہل باطل کی تردید میں مندرجہ ذیل کتب و رسائل بھی تحریر فرمائے۔

۱۔                                       رسالہ نور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) حضور علیہ السّلام کی نورانیت کے ثبوت میں۔

۲۔                                     مواعظِ مہریہ                            آپ کے مواعظ و تقاریر کا مجموعہ

۳۔                                      صواعق عتابیہ علیٰ رأس الوہابیہ                        وہابیہ کی تردید میں

۴۔                                      خاتم النبیین،                    حضور علیہ السّلام کی ختمِ نبوت کے بارے میں

۵۔                                      دیوبندی مذہب،         وہابیہ کی اپنی کتب کے حوالہ جات سے کھلی دین دشمنی۔

۶۔                                      مترجم خطباتِ رضویہ، [۱] (پنجابی نظم میں اعلیٰ حضرت کے خطبات کا ترجمہ)

۷۔                                      الیواقیت المہریہ،     الثورۃ الہندیہ کی شرح [۲]

[۱۔ مولانا غلام مہر علی، الیواقیت المہریہ ص ۱۷۷ تا ۱۸۰۔]

[۲۔ الثورۃ الہندیہ (باغی ہندوستان) مجاہدِ تحریکِ آزادی غلام فضلِ حق خیر آبادی کی تصنیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، ’’باغی ہندوستان‘‘ مطبوعہ مکتبہ قادریہ، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور۔]

نوٹ: الیواقیت المہریہ میں علامہ مولانا غلام مہر علی نے عربی زبان میں علمأ اہل سنت کے حالاتِ زندگی جمع کیے ہیں جو تذکرہ نگاروں کے لیے ماخذ ہے۔ (مرتب)

(تعارف علماءِ اہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء