حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی

حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۲۷۵ھ سال ولادت با سعادت، حضرت قمیص قادری کے واسطہ سے سلسلۂ نسب غوث اعظم سے ملتا ہے، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت پیر شاہ نذر الدین اور اپن کے ماموں پیر فضل الدین شاہ کی نگرانی میں گھر پر پائی، بھوئی میں جامع معقول و منقول مولانا محمد شفیع سے قطبی تک پڑھا، بعدہٗ انگہ جاکر مولانا سلطان محمود سے اخذ علم کیا، اور انہیں کی ہمراہی میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رضیاللہ عنہ سے بیعت کی ڈھائی برس علاقہ چکوال میں مشہور عالم مولانا برہان الدین سے استفاذہ کیا، یہاں دے علامہ احمد حسن کانپوری کی غزارت علمی کا شہرہ سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، فاضل کانپوری سفر حجاز کے لیے تیار تھے، (یہ وقاعہ ۱۲۹۱ھ کا ہے) اس لیے اُن کےمشورے سے علی گڈھ جاکر استاذ العلماء مفتی لطف اللہ قدس سرہ سے فنون کی تکمیل کی، دورۂ حدیث مولانا احمد علی سہارن پوری سے کیا۔

دورۂ حدیث کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ درس کے دوران کسی طالب علم نے مولانا احمد علی سے سوال کیا، قیام تعظیمی پر کیا دلیل ہے؟ مولانا نے آپ کی طرف اشارہ کیا، آپ نے قوموا لسید کم سے استدلال فرمایا، سائل نے کہا، یہاں قیام تعظیمی پر کونسا قرینہ ہے؟ آپ نے فرمایا، مشتق پر حکم اس کے مبدأ کا ملت ہونا ظاہر کرتا ہے،یہاں سپادت قیام کی علت ہے، جس سے بہت خوش ہوئے،

۱۳۰۰؁ھ میں حضرت شیخ المشائخ خواجہ شمس الدین سیالوی قدس سرہٗ نے اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل سلسلہ چشتیہ نظامیہ اور قادریہ فخریہ کی اجازت مرحمت فرمائی، پیر و مرشد کے وصال کے بعد جذب وشوق میں بادیہ پیمائی کرتے ہوئے ۱۳۰۵ھ میں اجمیر شریف حاضر ہوئے، وہاں ایک دن حضرت خواجہ کی طرف سے آواز سنی، کہ جو کچھ معین الدین کے پاس ہے وہی تمہارے پاس ہے، گھر جاکر اُسے کماؤ،۔۔۔۔ اجمیر سے وطن جاکر آپ نے مثنوی مولانا رومی اور شیخ اکبر کی تصانیف فصوص الحکم و فتوحات مکیہ کا درس دینا شروع کیا، آپ کے درس میں اکابر ومشائخ علماء شریک ہوتے تھے، ۱۳۰۷؁ میں بے سروسامانی کے عالم میں توکل پر حج بیت اللہ اور زیارت مدینہ کا سفر کیا، مکہ معظمہ میں مشہور ہندو بتانی عالم علامہ رحمت اللہ عثمانی کیرانوی المتوفی ۱۳۰۹ھ سے مسئلہ نداء غائبانہ الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پر گفتگو ہوئی، آپ نے بخاری مشہور حدیث ماتقول فی ھذا الرجلت استدلال کرتے ہوئے فرمایا کے ہر مرنے ولاے سیے یہ سوال کیا جاتا ہے، اور یہ مسلم ہے کہ لفظ ‘‘ھذا’’ محسوس مبقر کے لیے موضوع ہے، اور جب تک کوئی مانع نہ ہو لفط کا معنی وضعی ہی مراد ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ سرور کائنات بیک وقت ہزاروں مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں، آپ کی گفتگو سن کر انہوں نے اپنے سابق خیال سے رجوع کرلیا، اور آپ سے بیعت ہونے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر آپ نے صرف اور ادو وظائف کی اجازت پر اکتفا فرمایا۔

مولانا رحمت اللہ کے شاگرد قاری عبداللہ مدرس مدرسہ صولتیہ کا خط جو خانقاہ گولڑہ میں محفوظ ہے اس میں مرقوم ہے کہ مولانا رحمت اللہ نزع کی حالت میں فرماتے تھے مجھے گولڑالے چلو، میری آنکھوں کے سامنے پیر صاحب کا وہ سبز رومال پھر رہا ہے۔۔۔ مولانا محمد غازی مدرس صولتیہ مکہ نے ملازمت چھوڑ کر گولڑا کی بودوباش اختیار کی۔۔۔۔۔ محبوب الٰہ حاجی شاہ امداد اللہ علیہ الرحمۃ مثنوی کا درس دے رہے تھے، آپ بھی موجود تھے، کسی نے لفظ ‘‘وصال’’ پر سوال کیا، کہ مسلک وحدۃ الوجود کی رد سے وصال اور فراق کے کیا معنیٰ ہوں گے، ھاجی صاحب سے جب سائل کی تشفی نہیں ہوئی تو آپ نے فرمایا، اگر اجازت ہو تو منشاء سائل عرض کروں!

آپ نے فرمایا، وصل جدائی اور دوئی کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ مسلک وحدۃ الوجود کے منافی ہے، ۔۔۔حاجی کا ماحصل یہ ہے، کہ واقعہ میں نودوئی نہیں، لیکن وہمن ے حجاب پیدا کردیا ہے، جب سالک مقام فناء میں دوئی سے گزر جاتا ہے تو وصل واقعئ منکشف ہوجاتا ہے۔

اس جواب کو سُن کر حاجی صاحب وجد میں آگئے، اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کی سند اجازت دی، آپ کا ارادہ واپس کا نہ تھا، مگر حاجی صاحب نے فرمایا، کہ پنجاب میں ایک زہریلی ہوا چلنے والی ہے، اگر آپ کچھ نہ کریں گے تو بھی فقط آپ کا قیام ہی اس کے انسداد کے لیے کافی ہوگا، آپ اس زہریلی ہوا کو قادیانی فتنہ سے عبیر کرتے تھے، چنانچہ قادیانیت کا زور ہوا تو پورے متحدہ ہندوستان میں آپ کی وہ منفرد شخصیت تھی جس نے سب سے پہلے قادیانیت کا رد کیا اور کتابیں لکھیں، مرزا قادیانی نے آپ کی تصنیف شمس الھدایہ فی اثبات حیاۃ المسیح (مطبوعہ ۱۹۰۰؁ء) کی اشاعت سے برافروختہ ہوکر آپ کو لاہور میں دعوت مناظرہ دی آپ جماعت علماء کے ساتھ کئی دن پہل لاہور پہونچ گئے، اور ۲۴؍اگست۱۹۰۰ء تک چھ دن انتظار کے بعد آپ گوڑہ شریف واپس ہوئے، شرمندگی و خجالت کو مٹانے کے لیے مرزائے دجال کے حواری محمد احسن امروہوی نے ‘‘شمس الہدایہ’’ کے رد میں ‘‘شمس بازغہ’’ لکھی، اور مرزا نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں اعجاز المسیح شائع کرائی، آپ نے اس کے رد میں ‘‘سیف چشتیائی’’ تالیف کی، جس میں اعجاز المسیح الدجال پر سو ۱۰۰سواشکالات وارد فرمائے، اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے عقائد باطلہ پر بھ ی تبصرہ کیا، آپ کی دوسری تصانیف میں رسالہ ‘‘اعلاء کلمۃ اللہ فی بیان ما اُھِلّ بہ لِغیر اللہ (مقبولان بارگاہِ الٰہی کے تصرفات، سماع موتیٰ، اولیائے کرام کے نام پر نذر ونیاز کے مباحث ہیں) مکتوبات شریف، ملفوظات شریف، تحقیق الحق فی کلمۃ الحق، حقائق ومعارف علمی وروحانی سے مملو ہیں،

آپ نے ۸۱؍برس کی عمر میں ۲۹؍صفر المظفر ۱۳۵۶ھ مطابق ۱۱؍مئی ۱۹۳۷ء بروز شنبہ بوقت عصر اسم ذات کا وِرد کرتے ہوئے وصال فرمایا، کسی نے تاریخ ولادت و وفات میں یہ قطعہ خوب کہا ہے ؎

گفت ہاتف تولد آں شاہ

 

آمدہ ‘‘برزمی ظل الٰہ

عبدہٗ عرصۂ حیاتش داں

 

سال رحلت ‘‘غریق محب الٰہ

مشہور قاری حضرت مولانا قاری عبدالرحمٰن مکی الہ آبادی مؤلف فوائد مکیہ آپ ہی کےمرید تھے

تجویزوآراء