حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشین گوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ نبی آخرزماں حضرت محمد ﷺ کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
آپ کا نسب:نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہِ نبوت سے سلمان الخیرلقب ملا، ابوعبداللہ، کنیت ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک۔
حالات:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایران کے شہر اصفہان کے ایک گاؤں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا۔ مگر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل سچ کی تلاش میں تھا۔ پہلے آپ نے عیسائیت اختیار کی اور حق کی تلاش جاری رکھی۔ ایک عیسائی راہب نے انہیں بتایا کہ ایک سچے نبی کی آمد قریب ہے جس کی پیشین گوئی پرانی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔ اس باعلم راہب نے اس نبی کا حلیہ اور ان کے ظہور کی ممکنہ جگہ یعنی مدینہ کے بارے میں بھی بتایا جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا ۔ یہ جاننے کے بعدسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ جانے کی کوشش شروع کر دی۔ مدینہ منورہ کے راستے میں ان کو ایک عرب بدوی گروہ نے دھوکے سے ایک یہودی کے ہاتھ غلام کے طور پر بیچ دیا۔ یہ یہودی مدینہ منورہ میں رہتا تھا چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور اس یہودی کے باغ میں سخت محنت پر مجبور ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے سنا کہ ایک نبوت کے دعویدار مکہ شہر سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے ہیں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان کی خصوصیات سے فوراً پہچان لیاکہ یہی اللہ کے سچے نبی ہیں۔ انہوں نے مہر نبوت بھی ملاحظہ کی۔ اس وقت انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کو غلامی سے آزادی دلانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے کھجور کے درخت بوئے جس کا مقصد یہودی کی شرط پوری کرنا تھا۔
فضائل ومناقب:ان کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے۔(صحیح البخاری حدیث:4897) (یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پردلالت کرتی ہے،کیونکہ امام صاحب کاتعلق اسی قوم سےتھا،اورآج تک اس قوم میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کاظہورنہیں ہوا)۔ غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حضرت سلمان سب سے زیادہ سرگرم تھے ۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ "سلمان ہمارا ہے" انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان ہمارا ہے"۔ رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ""سلمان منااہل البیت"یعنی سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ، اس لئے سلمان کو مہاجرین یا انصار کے بجائے(بطور ِتکریماً) اہل بیت میں شمار کیا گيا۔(مستدرک علی الصحیحین:6539/معجم الکبیر:6040)
زہد وتقویٰ:ان کا زہد وورع اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہوجاتی ہے، اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمربھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیواریادرخت کا سایہ ملتا پڑے رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنادوں؟ فرمایا: مجھ کواس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا رہا، یہ برابر انکار کرتے رہے، آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤنگا، فرمایا:وہ کیسا؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں توسرچھت سے مل جائے اور اگرآرام کریں توپیر دیواروں سے لگیں، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔
مواخاۃ: حضورﷺنےحضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مواخاۃ (بھائی چارہ ) قائم فرمادیاتھا،اورپھران میں ایسی محبت تھی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی بایدوشاید۔
وفات:حضرت علی رضی اللہ عنہ نےسلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو656ء میں مدائن کا گورنر مقرر کیا مگر وہاں جانے کے چند ہفتے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔آپ کی وفات10 رجب المرجب33ہجری میں ہوئی۔آپ کا مزارمدائن میں ہے۔
//php } ?>