حضرت سلمان فارسی

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ فارس (ایران) کے شہر اصفہان کے رہنے والے تھے۔ آپ کا والد آتش پرست تھا۔ آپ عالم جوانی سے ہی طلبِ حق میں ساعی تھے۔ علمائے یہود و نصاریٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال صبر و استقامت اس راہ میں تکالیف برداشت کیں اور تقریباً دس مرتبہ یکے بعد دیگرے فروخت ہوئے۔ پہلے دینِ مجوس سے بیزار ہوکر دینِ موسوی میں داخل ہوئے۔ پھر دینِ نصاریٰ اختیار کیا۔ آخری راہب جس کے پاس تھے مرنے لگا تو اُس نے آپ کو بشارت دی کہ مدینہ منورہ میں نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ قریب آگیا ہے، اُن کا دین اختیار کرلینا۔ راہب مذکور کے مرنے کے بعد آپ عازمِ مدینہ ہوئے۔ راستے میں ایک شخص نے آپ کو غلامی کا الزام دے کر قید کرلیااور آپ بنو قریظہ کے ایک یہودی عثمان بن سہل کے ہاتھ فروخت ہوئے، جب حضور پر نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے ہجرت کے پہلے سال ہی دینِ اسلام قبول کرلیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر التفات کے طفیل ۵ھ میں اُس یہودی کی غلامی سے آزاد ہوگئے اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں رہنے لگے۔ آپ کی زبان فارسی تھی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن آپ کے منہ میں ڈال دیا تو آپ کی زبان عربی ہوگئی۔

فضائل و مناقب:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سابقین چار ہیں بعض ان میں میانہ رو ہیں اور بعض ان میں سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ یہ سبقت محض نیکیوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ چار شخص ہیں جن میں سے ایک خود میں ہوں، جو تمام عربوں سے پہلے نیکی کے میدان میں اُترا، دوسرے سلمان فارسی ہیں جو تمام فارس والوں سے سبقت لے گئے، تیسرے صہیبِ زومی سابقِ روم ہیں اور چوتھے بلالِ حبشی، سابقِ حبش ہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ خندق اور بعد کے غزوات میں شامل ہوگئے۔ غزوۂ احزاب میں جب خندق کھودنے لگے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خندق مسلمانوں میں تقسیم فرما دی۔ حضرت سلمان کے بارے میں مہاجرین و انصار میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ ہر ایک فریق کا دعویٰ تھا کہ سلمان ہم سے ہیں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سَلْمَانَ مِنَّ اَھْلَ الْبَیْت۔ (سلمان اہل بیت میں سے ہیں) آپ اشراف صحابہ کرام اور اصحاب صفہ میں سے ہیں آپ ان تین صحابہ کرام میں سے ہیں جن کا بہشت بہت مشتاق ہے اور آپ اُن چار صحابیوں میں سے ہیں جن کو خدا دوست رکھتا ہے اور اپنے حبیبِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی دوستی کا ارشاد فرماتا ہے، آپ ان چار بزرگوں میں سے ہیں جن کی نسبت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ علم کو ان کے پاس تلاش کرنا۔

زہد و ایثار:
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہدِ سعید میں آپ کو مدائن کی گورنری کے عہدہ جلیلہ پر فائز کرکے پانچ ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ جب آپ کو وظیفہ ملتا تو اُسے فقراء اور محتاجوں میں تقسیم کردیتے اور خود زنبیل بانی سے گزارہ کرتے۔ آپ کا کوئی گھر نہ تھا۔ دیواروں اور درختوں کے پتوں کے سایہ میں رہا کرتے تھے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں آپ کی رہائش کے لیے گھر بنا دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے گھر کی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے باصرار کہا کہ جس قسم کا گھر آپ کی طبیعت کے موافق ہے وہ مجھے معلوم ہے۔ فرمایا: بیان کر، اُس نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے ایسا گھر بنادیتا ہوں کہ جب آپ اُس میں کھڑے ہوں تو سر مبارک اُس کی چھت سے لگے اور جب پاؤں پھیلائیں تو پاؤں کی انگلیاں دیوار سے جا لگیں، فرمایا کہ درست ہے، چنانچہ اُس نے ایسا ہی گھر تیار کردیا۔

بعض ناواقف لوگ آپ کی ظاہری حالت دیکھ کر آپ کو مزدور سمجھتے۔ ایام گورنری میں ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھوایا۔ راستے میں ایک شخص نے پوچھا، اے امیر! آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھایا ہے۔ تب اُس شخص نے بہت معذرت کی کہ مجھے معلوم نہ تھا اور اصرار کیا کہ سامان یہیں چھوڑ دیں لیکن آپ حسبِ وعدہ بوجھ اُس کے مکان پر پہنچا کر ہی واپس لوٹے، آپ کے پاس ایک دھاری دار کملی تھی جس کا کچھ حصہ اوڑھ لیتے اور کچھ نیچے بچھالیتے، گورنری جیسے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے پر بھی یہی کملی آپ کے پاس رہتی تھی۔

روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ کو گالیاں دیں، آپ نے کہا کہ اگر قیامت کے دن میرے گناہوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو تو جو کچھ کہتا ہے میں اُس سے بھی بدتر ہوں اور اگر گناہوں کا پلہ ہلکا ہوگیا تو جو کچھ تو کہتا ہے مجھ کو اُس سے کوئی ڈر اور خطرہ نہیں ہے۔

آپ نے حضرت ابوداؤد کو ایک خط لکھا کہ اے برادر! دنیا اتنی جمع نہ کر کہ تو شکر ادا نہ کرسکے۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ جس مالدار نے اپنا مال اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ کیا ہوگا تو وہ مال قیامت کے دن دربارِ خداوندی میں حاضر کیا جائے گا۔ مالدار بھی سامنے ہوگا، وہ مالدار جب پل صراط پر ادھر اُدھر جھکنے لگے گا تو اس کا مال کہے گا تجھ سے چلا کیوں نہیں جاتا، جب تو مجھ سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرچکا ہے تو پھر ڈرتا کیوں ہے اس کے بعد ایسا مالدار حاضر کیا جائے  کہ جس نے اپنا مال حکم خداوندی کے خلاف خرچ کیا ہوگااس  کا مال اُس کے شانوں پر رکھ دیا جائے گا۔ جب پل صراط میں جھکنے لگا تو اس کا مال کہے گا خرابی ہو تجھ کو کہ تو نے مجھ سے خدا کا حق کیوں ادا نہ کیا۔ اُس کا حال اسی طرح رہے گا اور وہ دھائی مچائے گا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

وفات:
جب آپ کا آخری وقت قریب آیا تو بہت بے قرار ہوکر زار و قطار رونے لگے۔ عیادت کو آنے والے لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمانے لگے کہ مجھے نہ خوفِ موت ہے اور نہ دنیا کی خواہش۔ مجھ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا کہ اگر تو مجھ سے قیامت میں ملنا چاہتا ہے تو دنیا جمع نہ کرنا اور دنیا سے اس طرح جانا جس طرح میں جاتا ہوں لیکن میرے پاس تو سامانِ دنیا جمع ہوگیا ہے۔ بدیں وجہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ مبارک سے محروم نہ رہ جاؤں۔ آپ کے پاس سامان کیا تھا، ایک لوٹا، پالان، پوستین اور کملی۔

جب آپ کی دارالفنا سے دارالبقا کی طرف تیاری ہوئی تو اپنی رفیقۂ حیات سے فرمایا کہ جو کستوری تمہارے پاس ہے، اُسے پانی میں گھول کر میرے سر کے گرد چھڑک دو کیونکہ ایک قوم آنے والی ہے جو نہ انسان ہیں اور نہ جن۔ آپ کی زوجہ محترمہ کا بیان ہے کہ میں آپ کا ارشاد بجالائی اور گھر سے باہر نکلی۔ آواز آئی السلام علیک یا ولی اللہ۔ السلام علیک یا صاحب رسول اللہ جب  میں اندر آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ایسے لیٹے ہوئے ہیں کہ گویا سو رہے ہیں، آپ کی رحلت اڑھائی سو سال کی عمر مبارک میں ۱۰؍رجب ۳۳ھ مطابق ۶۵۴ء کو شہر مدائن میں واقع ہوئی اور وہیں مزار مقدس بنا۔ فیض باطنی آپ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ کسی شاعر نے یوں تاریخ رحلت کہی ؎

روحِ پاکش پاک بود و پاک رفت
ہست سالِ رحلتش ’’پاک باز‘‘
۳۳ھ

ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔       جب آپ اپنی خادمہ کو کسی کام کے لیے بھیجتے تو اُس کی عدم موجودگی میں آٹا خود گوندھ لیتے، فرماتے کہ ہم اُس سے دو کام نہیں لے سکتے۔

۲۔       آپ زنبیل بانی (بوریا بانی) کا شغل رکھتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک درہم کے کھجور کے پتے خریدتا ہوں اور اُس سے زنبیل یا بوریا تیار کرکے تین درہموں پر بیچ دیتا ہوں، اُن میں سے ایک درہم کھجور کے پتے خریدنے کے لیے رکھ لیتا ہوں، ایک درہم اپنے بال بچوں پر خرچ کرتا ہوں اور ایک درہم خیرات کردیتا ہوں۔

۳۔      جب آپ گورنری کے منصب پر فائز تھے تو ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت آپ زنبیل بانی کر رہے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں جبکہ گورنر کی حیثیت سے آپ کا وظیفہ مقرر ہے۔ آپ نے ارشاد کیا کہ میں اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا پسند کرتا ہوں۔

۴۔      دنیا میں مومن کا حال اُس بیمار کی مانند ہے جس کے ساتھ اس کا طبیب بیٹھا ہوا ہو اور وہ اُس کی بیماری اور علاج کو جانتا ہو۔ جب مریض کسی مضر اور ممنوعہ چیز کو چاہتا ہے تو وہ اُسے منع کردیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اگر تم اسے کھاؤ گے تو ہلاک ہوجاؤ گے۔ بعینہٖ مومن بہت سی چیزوں کو چاہتا ہے پس اللہ تعالیٰ اُس کو اُن سے روک دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے اور بہشت میں داخل ہوجاتا ہے۔

۵۔       تعجب ہے طالبِ دنیا پر جس کو موت طلب کر رہی ہے اور تعجب ہے اس غافل پر جس کو فراموش نہیں کیا گیا اور تعجب ہے اس ہنسنے والے پر جو یہ نہیں جانتا کہ اس کا پروردگار اُس سے راضی ہے یا ناخوش۔

۶۔       حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا کہ تمہارا روزینہ مثل توشۂ سوار کے ہو۔

۷۔      سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، پیارے بھائی! ہم میں سے جو پہلے وفات پائے وہ دوسرے کو خواب میں دکھائی دے، حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہاں، مومن بندے کی روح آزاد ہوتی ہے، زمین میں جہاں چاہتی ہے چلی جاتی ہے اور کافر کی روح قید خانے میں ہوتی ہے، پس حضرت  سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے وفات پائی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت اپنی چار پائی پر قیلولہ کر رہا تھا، آنکھ جو لگی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آئے ہیں، انہوں نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں نے جواب دیا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ اے ابوعبداللہ! تو نے اپنا مقام کیسا پایا؟ حضرت سلمان فارسی نے کہا: خوب ہے، پھر تین بار فرمایا تو توکل اختیار کر کیونکہ توکل اچھا ہے۔

۸۔      تو بازار میں سب سے پہلے داخل نہ ہو اور نہ سب سے پیچھے نکل کیونکہ وہ معرکہ شیطان ہے اور وہاں اُس کا جھنڈا کھڑا ہوتا ہے۔

۹۔       آپ نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیرے رب کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل و عیال کا تجھ پر حق ہے۔ پس ہر ایک حقدار کو اس کا حق ادا کر، پھر دونوں حضرات حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن کی بارگاہِ بیکس پناہ میں مندرجہ بالا باتوں کا ذکر کیا، حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان (فارسی) نے سچ کہا ہے۔

۱۰۔      آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کا نسب کیا ہے، فرمایا ’’اسلام‘‘ پوچھا آپ کے باپ کا کیا نام ہے فرمایا ’’اسلام‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ جب ہمارا دین ’’اسلام‘‘ ہے تو ہمارا سب کچھ ’’اسلام‘‘ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ماں باپ بہن بھائی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔

(تاریخِ مشائخ نقشبند)

 

تجویزوآراء