حضرت ذوالنو ن مصری رحمتہ اللہ علیہ
طریقت کے امامو ں میں سے ایک بزرگ، سفینہ تحقیق و کرامت،صمصا مِ شرف وولایت حضرت ذوالنو ن ابن ابر اہیم مصری رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔آپ کا نام ثو بان تھا ۔اہل معرفت اور مشا ئخ طریقت میں آپ بڑے برگزیدہ تھے۔آپ نے ریاضت و مشقت اور طریق ملامت کو پسند رکھا تھا۔
انتظار رسولﷺ: مصر کے تمام رہنے والے آپ کے مرتبہ کی عظمت کو پہنچا ننے میں عاجز رہے اور اہل زمانہ آپ کے حال سے نا واقف رہے،یہا ں تک کہ مصر میں کسی نے بھی آپ کے حال و جمال کو انتقال کے وقت تک نہ پہنچا نا، جس رات آپ نے رحلت فرمائی تواس رات ستر لو گوں نے حضور سید عالم ﷺکی خواب میں زیارت کی، آپ ﷺنے ان سے فرمایا:خدا کا ایک محبوب بندہ دنیا سے رخصت ہو کر آرہا ہے۔ میں اس کے استقبال کے لئے آیا ہو ں۔
بوقت وفات: جب حضرت ذوالنو ن مصری رحمتہ اللہ علیہ نے وفات پا ئی تو ان کی پیشانی پر یہ لکھا تھا:ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ قتیل اللہ۔یہ اللہ کا محبوب ہے۔اللہ کی محبت میں فوت ہوا،یہ خدا کا شہید ہے۔
پرندوں کا سایہ کرنا: لوگو ں نے جب آپ کا جنازہ کند ھوں پر اٹھا یا تو فضا کے پر ندوں نے پر باندھ کر جنازہ پر سایہ کیا، ان واقعات کو دیکھ کر اپنے کئے ہوئے ظلم و جفا پر لوگ پشیما ن ہو ئےاور صدق دل سے تو بہ کرنے لگے۔
عارف کی ہر گھڑی: طریقت و حقیقت اور علوم معرفت میں آپ کے کلمات نہایت اہم ہیں،آپ نے فرمایا:العارف کل یوم اخشع لانہ فی کل ساعتہ من الرب اَلاقرب۔یعنی خیثت الہیٰ میں عارف کا ہر لمحہ بڑھ کرہے،اس لئے کہ اس کی ہر گھڑی رب سے زیادہ قریب ہے۔کیو نکہ بندہ جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کی حیرت و خشو ع اور زیادہ ہو گی، چو نکہ وہ بارگاہ حق کے دبدبہ کا زیادہ آ شنا ہوتا ہے اورا س کے دل پر جلال حق غالب ہوتاہے، جب وہ خود کو اس سے دور دیکھے گا تو اس کے وصال میں اور کوشش کرے گا اس طرح خشو ع پر خشوع کی حالت میں اضافہ ہوتا رہے گا، جیسا کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے مکالمہ کے وقت عرض کیا:یارب این اطلبک۔خدایا؟تجھے کہا ں تلاش کروں؟حق تعالیٰ نے فرمایا:عند المنکسرۃ قلو بھم۔شکستہ دل اور اپنے صفا ئے قلب سے مایوس شدہ لوگوں کے پاس۔حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:اے رب۔مجھ سے زیادہ شکستہ دل اور نا امید شخص اور کون ہو گا؟ارشاد فرمایا: میں وہیں ہو جہا ں تم ہو۔معلوم ہوا کہ اسیا مدعی معرفت جو بے خوف و خشوع ہو وہ جاہل ہے، عارف نہیں ہے، کیو نکہ معر فت کی حقیقت کی سب سے بڑی علامت صدقِ ارادت ہے صدقِ ارادت خدا کے سوا سبب کے فنا کرنے والی اور تمام نسبتو ں کو قطع کرنے والی ہو تی ہے۔
اسم اعظم:یو سف بن حسین کہتے ہیں مجھے بتا یا گیا کہ حضرت ذوالنو ن مصری رحمتہ اللہ اسم اعظم جانتے تھے۔میں مصر گیا اور ایک سال ان کی خدمت کی، پھرگزارش کی:استاذِ محترم! میں نے ایک سال آپ کی خدمت کی ہے، اب میرا ٓپ پر ایک حق ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسم اعظم جانتے ہیں۔آپ نے اچھی طرح میری جا نچ پڑتال کرلی ہے کہ مجھ سے زیادہ کو ئی بھی اس امانت کا حق دار نہیں۔ میں چا ہتا ہوں کہ آپ مجھے اسم اعظم سکھا دیں۔حضرت ذوالنو ن رحمتہ اللہ علیہ کچھ دیر خاموش رہے اور کو ئی جواب نہ دیا۔ گویا انہوں نے مجھے یہ اشارہ کیا کہ عنقریب بتا دیں گے، چھ مہینے کے بعد انہوں نے مجھے ایک برتن دیا جو رومال سے ڈھا نپا ہوا تھا، حضرت ذو النو ن حیرہ میں رہتے تھے،آپ نے فرمایا: فطا ط میں ہمارے فلاں دوست کے پاس لے جا ؤاور یہ برتن انہیں دے دینا۔ میں نے وہ برتن اٹھایا اور چلتا رہا، اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ حضرت ذوالنون جیسا شخص فلاں کو تحفہ بھیج رہا ہے، ؟ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے، مجھ سےصبر نہ ہو سکا۔ اس دوران میں دریا ئے نیل کے پل پر پہنچ گیا تھا، میں نے ڈھکن اٹھایا تو ایک چو ہے نے چھلا نگ لگائی اور بھاگ گیا۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ میں نے کہا:حضرت ذوالنون بھی عجیب آدمی ہیں۔ مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔میں غصہ سے بھرا ہوا واپس آیا، جب انہوں نے مجھے دیکھا تو میرے چہرے کو دیکھ کر سب کچھ سمجھ گئے۔آپ نے فرمایا : احمق؟ہم نے ایک چو ہا بطور امانت دے کر تمہیں آزمایا لیکن تم آز ما ئش میں پو رے نہ اترے، اسم اعظم جیسی امانت کی حفا ظت کیسے کرو گے؟
//php } ?>