حضرت ذوالنون مصری

حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ

          یہ حضرت اول طبقہ کے ہیں آپکا نام ثوبان ب ابراھیم ہے۔آپ کی کنیت ابوالفیض ہے اورلقب ذوالنون۔اس کے سوا اور بھی القاب ہیں لیکن زیادہ صحیح یہی ہے۔آپ مواضع اخمیم مصر میں رہتے تھے۔جہاں کہ امام ژافعی علیہ الرحمۃ کی قبر ہے۔آپ کے والد نوبی (منسوب بہ نوبہ )تھے۔قریش کے موالی (مولیٰ وہ غلام جو آزاد کردیا گیا ہو)تھے۔نوبہ مصر و جش کے درمیان ایک علاقہ ہے۔آپ کے بھائی تھے جن میں ایک ذوالکفل تھا۔جن سے معاملات وغیرہ میں حکایات منقول ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ انکا نام میمون تھااور لقب ذوالکفل تھا ۔ذوالنون امام مالک بن انس کے شاگردوں میں سے ہیں۔مذہب مالکی رکھتے تھے۔ موطا کو ان سے سنا تھااور فقہ بھی آپ سے پڑھی تھے۔آپکے پیر ایک مغربی شخص تھے جن کا نام اسرافیل تھا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ذوالنون وہ شخص نہیں کہ جن کو لوگ کرامات سے آراستہ کریں اور مقامات سے تعریف کریں۔مقام حال وقت ان کے ہاتھ میں ایک ہنسی کھیل تھااور نکمی چیز۔یہ امام وقت اور یگانہ روزگار اور اس گروہ کے سردار تھے۔تمام مشائخ کو ان کی طرف سے نسبت ہے۔پہلے اس سے بھی مشائخ گزرے ہیں لیکن یہ وہ شخص ہیں کہ جو اشارات کو عبارا ت میں لائےاور اس طریقہ کی باتیں کیں اور جب دوسرے طبقہ میں حضرت جنید ؒ ظاہر ہوئے تو انہوں نے اس علم کو ترتیب دیااور شرح بسط سے لکھا"اور حضرت شبلی پیدا ہوئے تو انہوں نے اس علم کو منبر پر لے جا کر ظاہر کردیا۔حضرت جنیدؒ کہ کرتے تھے کہ ہم اس علم کو سردابوں اور گھروں میں پوشیدہ رکھتے تھے۔ لیکن شبلی آیا جس  نے اس علم کو منبر پر لے جا کر لوگوں پر ظاہر کردیااور ذوالنون فرماتے ہیں کہ میں نے تین سفر کیے ہیں اور تین علم لے کر آیا ہوں۔پہلے سفرمیں وہ علم لایا ہوں کہ جس کو نہ عام نے قبول کیا نہ خاص نے۔فبقیت سریدًا طریدًاوحیدًا(یعنی ہم میں لوگوں سے بھاگا ہوادور کیا ہوا تنہا رہ گیا۔)شیخ الاسلام قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اول توبہ کا علم تھاکہ جس کو خاص و عام قبو ل کرلیا کرتے ہیں۔دوسرا علم توکل معاملہ اور محبت کا تھاکہ جس کو خاص لوگ تو قبول کرلیا کرتے لیکن عام لوگ قبول نہیں کرتے۔تیسرا علم حقیقت کا تھا کہ جو لوگوں کے علم و عقل کی طاقت سے باہر تھا۔اس لیے دریافت نہ کر سکے ،بلکہ اس کو چھوڑ دیا اور اس سسے انکار کرنے لگےیہاں تک کہ وہ دنیا سے ۲۴۵ ہجری میں گزر گئے۔جب انکا جنازہ لے جاتے تھے تو ان کے جنازے پر پرندوں کا ایک غول دیکھا گیا،جس نے لوگوں کو اپنے سائے میں چھپالیا تھا اور ان جانوروں میں سے کسی نے ایک کوبھی نہ دیکھا تھا مگر ان کے بعد امام مزقی شاگرد امام شافعی ؒ کے جنازے پر دیکھا گیا۔ذوالنون عام میں مقبول ہوگئے اور دوسرےدن ان کی قبر پر یہ عبارت لکھی پائی گئی۔جو لوگوں کے خط سے نہ ملتی تھی۔ذوالنون حبیب اللہ من الشوق قتیل اللہ۔(یعنی ذوالنون خدا کے محبوب ہیں اور شوق محبت سے خدا کے مقتول ہیں)جب اس تحریر کو چھیلتے تو پھر وہی لکھا ہواپاتےتھے۔شیخ السلام فرماتے ہیں کہ وہ تیسرا محبوب سفر پاؤں سے نہ تھا،وہ قدم سے نہیں چلا کرتے بلکہ ہمت سے چلا کرتے۔ذوالنون فرماتے ہیں :مااعزاللہ عبدالعزیزاعزالہ منان یذل لہ علی نفسہ(یعنی اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نے کسی بندے کو عزت نہیں دی ہے مگر اس کو جو اپنے نفس کو خدا کے لئے ذلیل بنائے)اور یہ بھی کہا ہے انہوں نے: اخفی الحجاب و اشدہ رویۃ النفس و تد بیرھا(یعنی بڑا پوشیدا اور سخت پردہنفس کا دیکھنااور اس کی تدبیر ہے)اور یہ بھی ان کا مقولہ ہے:التفکر فی ذات اللہ تعالہۃ جھل و الا شارۃ الیہ شرک و الحقیقۃ المعرفۃ حیرۃ(یعنی خدا کی ذات میں سوچنا جہالت ہےاور اس کی طرف اشارہ کرنا شرک اور معرفت ی حقیقت حیرت ہے)اور شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ حیرت دو قسم پر ہےاول حیرت عام ہے وہ توالحاد و گمراہی ہےاور دوسری حیرت موجودات میں ہےاور وہ حیرت مشاہدہ و یافت ہےیہ بھی کہا ہے کہ اول توڑنا اور جوڑنا ہے اور آ خر میں نہ توڑنا ہے نہ جوڑنا۔ شیخ الاسلام قدس سرہ فرماتے ہیں۔

کیف یحکی وصل اثنین        ھما فی الا صل واحد

من قسم الواحد جھلا     فھو بالواحد جاحد

          (یعنی دو وصل کی حکایت کیسے کرتےہیں۔حالانکہ وہ دونوں دراصل ایک ہی ہیں جو شخص کہ ایک کو جہالت کی وجہ سے تقسیم کرتا ہےسو وہ ایک کا منکر ہے۔)ذوالنون سے لوگوں نے پوچھا کہ مرید کون ہے اور مراد کون ہے؟فرمایا: المرید یطلب و المراد یھرب(یعنی مرید تو طلب کرتاہے اور  راد بھاگتا ہے۔)شیخ الاسلام نے کہا کہ مرید طلب کرتا ہےاوراس کے ساتھ ہزاروں نیاز ہوتے ہیں اور مراد بھاگتا ہے۔اس کے پاس ہزاروں ناز ہوتے ہیں اوریہ بھی کہا ہے کہ احمد چشتی وہ ہے کہ جس نے پہلے سفید بال میرے پاؤں پر ملے ہیں اور ایک دفعہکا ذکر ہے کہ وہ ابوسعید معلم کے ہمراہ جن کی شیخ ابو اسحق شہریار کی قبر کے پاس پارس میں قبر ہے۔پیل گردن کے بازار میں ملے۔ ان دونوں کا اس میں مناظرہ تھاکہ مرید بہتر ہے یا مراد ۔ جب مجھ سے ملے تو کہنے لگے کہ حاکم آگیا ہے۔میں نے کہا:لامرید ولا مراد ولا خبر ولا استخبار ولا حد ولا رسم وھو الکل بالکل(یعنی نہ کوئی مرید ہے نہ مراد ہے نہ خبر کی طلب نہ حد ہے نہ رسم اور وہ کل ہے کل کے ساتھ)ابو سعید کے سر پر اوڑھنی تھی سر سے اتار کر پھینک دی اور چند نعرے مار کر چل دیےاور چشتی میرے پاؤں پر گر پڑا اور سفید بال میرے پاؤں پر ملتا تھا ۔ذوالنون فرماتے ہیں کہ میں ایک وقت چند لوگوں کے ساتھ کشتی میں بیٹھا تھاتاکہ جدہ سے مصرکی طرف جاؤں۔ایک جوان اوڑھنی اوڑھے ہوئے ہمارے ساتھ کشتی میں تھااور مجھے اس کی صحبت کی خواہش تھی،لیکن اس کی ہیبت مجھے اس سے باتیں کرنے کی جازت نہ دیتی تھی۔کیونکہ زمانے بھر میں وہ ایک عزیز شخص تھا اور کبھی بھی عبادت سے خالی نہ رہتا تھا۔یہاں تک کہ ایک دن ایک شخص کی زر و جواہرات کی تھیلی چرائی گئی اور تھیلی والےنے خاص اس جوان ہی کو متہم کیا ۔لوگوں نے چاہا کہ اس پر ظلم کریں ۔میں نے ان سے کہا کہ ان سےتم اس کی بابت کچھ نہ پوچھو جب تک کہ میں خود ان سے نہ پوچھلوں ۔ میں اس کے پاس آیا اور اس سے نرمی سے بات کی کہ ان لوگوں کا مال جاتا رہا اوور تم پر بدگمان ہوگئے۔میں نے ان کو سختی و ظلم سے روک دیا ہے۔اب کیا کرنا چاہیے اس نے آسما ن کی طرف منہ کیا اور کچھ پڑھا ۔ دریا کی تمام مچھلیاں پانی پر آگئیں اور ہر ایک کے منہ میں ایک ایک موتی تھا۔اس نےایک موتی لیا اور اس مرد کو دیدیا اور خود دریا پر قدم رکھ کر چلدیا۔بعد ازاں جو شخص تھیلی لےگیااس نے تھیلی پھینک دی اور مال مسروق مل گیا۔تمام کشتی والے بہت شرمسار ہوئےذوالنون سیاح بھی تھے کہتے ہیں کہ ایک وقت میں سفر میں تھا ایک جوان کو میں نے دیکھا جس کے دماغ میں شور تھا ۔میں نے اس سے کہا کہ میاں مسافر کہاں سے آتے ہو۔اس نے کہا کہ مسافر تو وہ ہوتا کہ جو خدا سے محبت نہ رکھتا ہو۔میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور بیہوش ہوکر گر پڑا ۔جب مجھے ہوش آیا تو وہ کہنے لگا کہ کیا ہوتھا ؟ میں نے کہا کہ علاج بیماری کہ موافق ہوگیا تھا۔شیخ الاسلام قدسہ سرہ فرماتے ہیں کہ خداکا حال جس شخص پر ظاہرہوتا ہےتو اس کو جو شخص دیکھتا ہےتو اس کے تن میں جان اسکی عاشق بن جاتی ہےجہاں وہ آرام پاتا ہے ۔وہاں دشمن فرمانبردار ہوجاتا ہے کیونکہ وہ غریبوں کا وطن ہے اور مفلسوں کے مایہدوستوں کے ہمراہ ہے۔جس وقوت کہ ایسا شخص تجھے مل جائےکہ تیرا مال اس کے ہاتھ میں ہو اور تیری  بیماری اس کے علاج کے ساتھ موافق ہوجائےتو اس کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حضرت عزیزی کی خدمت میں جو کہ متقدمین مشائخ میں سے تھےگئے۔ انہوں نے فرمایا !کیوں آیا ہے؟اگر اس لیے آیا ہے کہ اولین و آخرت کا علم سیکھے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ان کا علم تو خدا تعالیٰ ہے۔اور اگر اس لیے آیا ہے کہ اس کو ڈھونڈے تو جہاں سے تونے پہلا قدم اٹھایا تھا وہ تو وہیں تھا شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنےڈھونڈنے والے کے ہمراہ ہےوہ ڈھونڈ نے والے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طلب میں دوڑاتا ہے۔ اسرفیل رحمۃ اللہ متقد مین میں سے ہے شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ وہ ذوالنون مصری کے پیروں میں سے ہے مغرب کے رہنے والے تھے اور مصر میں آگئے تھے ان کی باتیں زہد و توکل و حسن عامل میں بہت سے مذکور ہیں ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ فتح شنجرف چھ سو فرسنگ سفر طے کر کے مصر میں ایک سوال کے حل کے لیے گئے اور جب فرصت ملی تو ارافیل سے پوچھا "ھل تعذب الا شرار قبل الذلل"(یعنی کیا برے لوگ برائی اور گناہ سے پہلے کے عذاب دیے جائیں گے )۔کہا کہ مجھےتین روز تک صبر کرنے دےچوتھے روز کہا کہ مجھے یہ جواب ملا ہے کہ اگر عمل کرنے سے پہلے ثواب ملنا جائز ہے تو گناہ سے پہلےکے عذاب بھی جائز ہوگا یہ کہا اور ایک چیخ ماری ۔اس کے بعد تین دن تک زندہ رہے پھر انتقال کر گئے۔شیخ الاسلام نے کہا کہ تین دن کا دیر کرنا اور پھر جواب دینا دراصل اور تین دن کی مہلت چاہتا تھا۔ورنہ اگر فورًا جواب دیتے تو فورًا مرجاتے۔شیخ السلام کہتے ہیں کہ ربوبیت بھی عین عبودیت ہے۔اس مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے کردی ہوئی ہے۔اور مخلوق اس کی مرضی و حکم کے ماتحت مقید ہے۔تاکہ ہر ایک کے لیے کیا کچھ لکھا ہے۔آخروہی کرتا ہے جو خود چاہتا ہےاسی کاحکم ہے۔اس میں وہ عادل ہے۔کوئی چون چرا نہیں کرسکتا اور نہ مناسب ہی ہے۔کیونکہ وہ سب کام علم حکمت سے کرتا ہےاور کرچکا ہے۔معلوم نہیں کہ کس پرعتاب ہوتا ہےاور کس پر مہربانی ہے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء