حضرت شیخ محمد معصوم سرہندی
حضرت شیخ محمد معصوم سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
بن امام ربانی مجدد الف ثانی
شیخ محمد معصوم بن شیخ احمد مجدد الف ثانی بن عبد الاحد سرہندی جامع علوم ظاہری و باطنی،حاویٔ فروع واصول،قطب الوقت،مرشدِ عصر،صاحب کرامات تھے،عروۃ الوثقیٰ خطاب تھا،علوم اپنے والد امجد مجدد الف ثانی سے پڑھے اور سولہ سال کی عمر میں جمیع علوم ظاہری سے فارغ ہوکر اور فضیلت کی دستارباندھ کر علوم باطنی میں مشغول ہوئے اور اپنے والد ماجد کی توجہ سے تمام اولاد سے گوے سبقت لے گئے،صحبت اغنیاء اور مجلس بادشاہ سے آپ کو بڑی نفرت تھی یہاں تک کہ شاہ جہاں بادشاہ آپ کی مصاحبت کی بڑی رغبت رکھتا تھا مگر اس کو میسر نہ ہوئی البتہ اورنگ زیب عالمگیر آپ کا مرید ہوا لیکن ہمیشہ کی صحبت اس کو بھی نصیب نہ ہوئی،جب آپ نے ہندوستان سے غرم زیارت حرمین شریفین کا کیا کو پہنچے،ایک لاکھ سے زیادہ شمار کیے گئے ہیں۔وفات آپ کی ۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۹ھ میں وقوع میں آئی۔’’مشہور کشور‘‘ اور ’’آرائش مکنونات‘‘ اور ’’اسرار حقیقت‘‘ تاریخ وفات ہیں اور مجموعہ مکتوبات آپ کی تصنیف سے یادگار ہے۔
حضرت شیخ محمد معصوم سرہندی کا یومِ ولادت ۱۱شوال ۱۰۰۷ھ ہے جبکہ یومِ وفات بمقام سرہند ۹ربیع الاول ۱۰۷۹ھ میں ہوئی۔
(حدائق الحنفیہ)
حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی قدس سرہ
سرہند شریف (انڈیا) ۱۰۰۷ھ/۱۵۹۹ء۔۔۔ ۱۰۷۹ھ/ ۱۶۶۸ء سرہند شریف (انڈیا)
قطعۂ تاریخِ وصال
آپ تھے شیخِ مجدد کے جگر کے ٹکڑے
|
|
کیوں نہ تاریخ کے اوراق میں ہونگے مرقوم |
|
(صابر براری، کراچی)
چراغِ ہفت محفل خواجہ معصوم |
|
منور از فروغش ہند تا رُوم |
(ناصر علی سرہندی)
آپ امام ربّانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے تیسرے صاحبزادے تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت ۱۰؍شوال۱۰۰۷ھ/۱۵۹۹ء کو ہوئی۔ حضرت مجدد قدس سرہ ارشاد فرماتے تھے کہ محمد معصوم کی آمد ہمارے واسطےبہت مبارک ہوئی۔ کیونکہ اُس کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہم حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مستفید و مستفیض ہوئے، اور جو کچھ دیکھنا تھا بس دیکھا (کیا بیان کیا جائے!)
لڑکپن ہی میں آپ کے والد بزرگوار حضرت مجدد قدس سرہ آپ کی بلند استعداد کی تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ لڑکا محمدی المشرب ہے۔ چنانچہ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
از فرزندی محمد معصوم چہ نولید کہ وے بالذات قابل ایں دولت است یعنی ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام۔
’’فرزندی محمد معصوم کے متعلق کیا لکھوں کہ وہ تو بالذات اس دولت کے قابل ہے یعنی ولایت خاصہ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ‘‘۔
اور یہ بھی فرماتے تھے کہ محمد معصوم کی بلند استعداد کی وجہ تھی کہ تین سال کی عمر میں حرفِ توحید آپ کی زبان سے نکلا اور یُوں کہنے لگے کہ:
’’میں آسمان ہُوں، میں زمین ہُوں، میں یہ ہُوں، میں وہ ہُوں، دیوار حق ہے‘‘۔ حضرت مجدد قدس سرہ نے اُس وقت فرمایا کہ:
’’اس طریق پر پیر و جواں برابر ہیں اور انوارِ فیوض کے وصول میں عورتیں اور بچے مساوی ہیں‘‘۔
آپ کے آثارِ رُشد کو دیکھ کر حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ آپ پر نظرِ عنایت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ چونکہ علم مبداء حال ہے لہذا اس کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ بدیں وجہ حضرت نے آپ کو علومِ عقلیہ و نقلیہ حاصل کرنے کی تاکید و ہدایت کی۔ اکثر و بیشتر علوم آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت مجدد قدس سرہ سے اور کچھ اپنے بڑے بھائی خواجہ محمد صادق اور شیخ طاہر لاہوری سے پڑھے۔
چودہ سال کی عمر میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ میرے بدن سے نُور نکلتا ہے اور اُس سے تمام عالم منّور ہے اور وہ نُور سورج کی طرح ہر ذرّۂ عالم میں جاری وساری ہے کہ اگر وہ غروب ہوجائے تو تمام عالم تیرہ و تاریک ہوجائے۔ آپ نے یہ خواب والد بزرگوار حضرت مجدد قدس سرہ کی خدمت میں عرض کیا تو حضرت نے آپ کو بدیں الفاظ بشارت دی:
تُو قطبِ وقتِ خویش مے شوی وایں سخن ازمن یاد دار
’’میری بات یاد رکھ کہ تُو اپنے وقت کا قُطب ہوگا‘‘۔ (مکتوب معصومیہ جلد اوّل مکتوب ۸۶)
چنانچہ ایسا ہی ظہور پذیر ہوا کہ ایک زمانہ آپ کے انوار و برکات سے معمور ہوگیا۔ حضرت مجدد قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ:
’’بابا! تحصیل علوم سے جلد فارغ ہو جاؤ، کیونکہ ہم نے تم سے بڑے بڑے کام لینے ہیں‘‘۔
غرض حضرت مجدّد قدس سرہ کی توجہ سے آپ سولہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔ بعد ازاں ہمہ تن متوجہ بباطن ہوئے اور عنایت الٰہی سے اپنے والد بزرگوار کے احوال و اسرارِ خاصہ سے حظِ وافر حاصل کیا۔
علی اکبر اُردستانی اپنے کتاب مجمع الاولیاء (قلمی) میں آپ کے متعلق یُوں لکھتے ہے
’’شمعٔ جمعٔ عرفا، رُوحِ ابدانِ اولیاء قدوۂ اہلِ صفا خلاصۂِ مجمعٔ صُلحاء، گنجینۂ معارف وعلوم، شیخ محمد معصوم سلمہ ربۂ، قطبِ وقت حضرت شیخ احمد (علیہ الرحمہ) کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار سے علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی اور علوم عقلی و نقلی کے درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، پُورے قرآن کو تیس دن میں حفظ کرلیا، تجوید میں سندِ عالی رکھتے ہیں حسنِ خلق اور حقوق العباد کی پابندی آپ کا طریقۂ خاص ہے۔ حضرت مجدد (قدس سرہ) کے سامنے ہی خلافت سے سرفراز ہوئے اور طالبان معرفت کی تربیت میں مشغول ہوگئے اور اُن کے بعد بھی مشغول ہیں‘‘
صاحب زبدۃالمقامات نے لکھا ہے کہ ایک روز میں نے خود حضرت مجدد قدس سرہ سے سنا کہ فرماتے تھے کہ محمد معصوم کا حال روز بروز میری نسبتوں کے حاصل کرنے میں صاحب شرح وقایہ (صدرالشریعہ عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ) کا سا ہے جو شرح و قایہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ میرے دادا (تاج الشریعہ محمود رحمۃ اللہ علیہ) ہر روز بمقدارِ سبق تصنیف کرتے تھے، میں اُسی قدر حفظ کرلیتا تھا، یہاں تک کہ جس روز وقایہ کی تصنیف ختم ہوئی۔ اُسی روز میرا حفظ کرنا ختم ہوا۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالاحد وحدت رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مضمون کو اپنی نظم میں بکمال لطافت و نزاکت ادا کیا ہے۔
مجدّد بتوصیفِ اُولب کُشاد |
|
بفرمود کائے پورِ عرفاں نژاد |
حضرت مجدّد قدس سرہ اُن کی تعریف میں یوں لب کُشا ہوئے۔ فرمایا کہ اے عرفاں نژاد بیٹے۔
ز عرفاں نو شتم ورق در ورق |
|
ہمہ خواندی ازمن سبق در سبق |
میں نے علم و عرفان کو ورق در ورق لکھا ہے۔ اور تو نے وہ سبق در سبق مجھ سے پڑھ لیا ہے۔
تُویک نقطہ زیں لوح نگزاشتی |
|
ہر آنچہ نہادم تو برداشتی |
تُو نے اس تختی پر ایک نقطہ بھی نہیں چھوڑا۔ جو کچھ میں نے رکھا وہ تُو نے اُٹھالیا۔
تو آخر چون من قطبِ دوراں شوی |
|
زمن ایں بشارت بیاد آوری |
آخر کار تو میری طرح زمانے کا قطب ہوگا تو میری اس بشارت کو یاد رکھ۔
فضائل و مناقب
۱۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو خلعتِ قیومیّت کی بشارت دی چنانچہ ایک مکتوب میں آپ کو اور خواجہ محمد سعید خازن قدس اسراہم کو یُوں تحریر فرماتے ہیں:
’’کل نمازِ فجر کے بعد میں خاموش بیٹھا تھا کہ ظاہر ہوا کہ جو خلعتِ مجھ پر تھی وہ مجھ سے جدا ہوگئی اور اس خلعت کے بجائے مجھے دوسری خلعت ملی۔ دل میں خیال آیا کہ خلعت زائلہ (اُترنے والی خلعت) کسی کو دی جائے گی یا نہیں اور یہ آرزو ہوئی کہ اگر وہ دی جائے تو میرے فرزندِ ارشد محمد معصوم کو دی جائے۔ ایک لمحہ کے بعد دیکھا کہ میرے بیتے کو عطا کی گئی اور اُسے پُوری پُوری پہنا دی گئی۔ اس خلعتِ زائلہ سے مراد معاملۂِ قیومیّت تھا جس کا تعلق تربیّت و ارشاد سے تھا۔ جو خلعت جدید مجھ کو عطا ہوا ہے جب اس کا معاملہ تکمیل کو پہنچ جائے گا تو اُمید ہے کہ کمال کرم سے وہ میرے فرزند محمد سعید کو عنایت کیا جائے گا یہی میری دعا ہے اور اُمیدِ قبولیّت ہے جس کا اثر بھی محسوس ہوتا ہے اور اس دولت کا مستحق فرزند محمد سعید کو پاتا ہوں۔
برکریماں کار ہا دشوار نیست
’’کریم لوگوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے‘‘۔
اگر استعداد ہے تو وہ اُسی (اللہ تعالیٰ) کی داد ہے۔
نیا وردم از خانہ چیزے نخست |
|
تو وادی ہمہ چیز و من چیز تُست |
’’میں اپنے گھر سے کوئی چیز نہیں لایا ہوں تُو نے ہی مجھے سب عطا فرمائی ہیں اور میں خود بھی تیری چیز ہوں‘‘۔ (مکتوبات امام ربّانی جلد ثالث مکتوب ۱۰۴)
جب یہ مکتوب حضرات صاحبزادگان کو ملا تو دونوں صاحبزادے بعجلتِ تمام اپنے والد بزرگوار (حضرت مجدّد قدس سرہ)کی خدمت میں اجمیر شریف پہنچے۔ حضرت والد مرتبت نے اُن پر بڑی مہربانی فرمائی اور خواجہ محمد معصوم کو خلوت میں بلا کر خلعتِ قیو میّت عنایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم اپنے خلیفہ مولانا محمد حنیف کابلی کو یُوں تحریر فرماتے ہیں۔
جس وقت حضرت مجدّد الف ثانی قدس اللہ سبحانہ سرہ الاقدس نے اپنے مخلصوں سے ایک درویش کو خلعتِ قیومیّت سے مشرف فرمایا اور اُس بڑے رتبہ سے اُس کو سرفراز فرمایا تو اُس درویش کو خلوت میں بلا کر فرمایا کہ اس مجمع گاہ سے تعلق کا سبب یہی معاملۂ قیومیّت تھا جو تجھے عطا گیا۔ اور مخلوقات و موجودات بڑے شوق سے تیری طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ اَب میں اس جہان فانی میں اپنے رہنے (زندہ رہنے) کا سبب نہیں پاتا۔ اس جہان سے میری رحلت کا وقت قریب قریب آگیا ہے‘‘۔ (مکتوبات معصومیہ جلد اوّل مکتوب ۸۶)
۲۔ آپ کو اصالت اور محبوبیّت ذاتی عطا ہوئی۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ جب تک کوئی شخص اصالت سے بہرہ ور نہ ہو اُسے قیومیّت کی نسبت حاصل نہیں ہوسکتی۔ عالی حضرت متعالی منقبت (حضرت مجدّد قدس سرہ) نے جس درویش کو نسبتِ قیومیّت کے حصول کی خوشخبری دی تھی اُسے حصول اصالت کی بشارت سے سرفراز فرما فرمایا تھا کہ جس قدر اصالت کا حصہ تجھے حاصل ہے اُس کے مطابق ہی خلقت میں تیری محبوبیّت و دیعت رکھی گئی ہے یعنی آپ نے اُس کے حق میں محبوبیّتِ ذاتی اور کمالِ انفغالی کا نشان دیا وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز‘‘۔[۱] (مکتوباتِ معصومیہ جلد اوّل مکتوب ۸۶)
[۱۔ اور یہ خدا کو کچھ مشکل نہیں۔ پارہ ۱۳ سورہ ابراہیم رکوع ۲) (قصُوری)]
۳۔ آپ کا وجود مبارک حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خمیر طینت کے بقیہ سے بنا۔ چنانچہ آپ خود یُوں تحریر فرماتے ہیں:
ہمارے حضرت (حضرت مجدّد) قدس سرہ فرماتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت سے جو بقیہ رہ گیا تھا اُسے بطور اُلش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کے دولت مندوں میں سے ایک کو عطا کیا ہے اور اُس فرد کی طینت کا خمیر اُس سے کیا ہے اور اُسی وجہ سے اُس فرد کو اصالت سے بہرہ ور کیا ہے۔ اس فرد کی طینت کی خمیر کے بعد بھی تھوڑا سا بقیہ رہ گیا تھا۔ وہ بقیہ اُس فرد کے مریدوں میں سے ایک کو نصیب ہوا ہے اور اس کی طینت کا خمیر اُس سے کیا گیا ہے اور اس کے اندازے کے موافق اُسے اصالت کا حصہ ملا ہے۔
اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِفَرَۃِط (پارہ ۲۷ سورہ النجم)
’’ بے شک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے‘‘۔ (مکتوبات معصومیہ، جلد اوّل مکتوب ۱۹۲)
۴۔ آپ زمرۂ سابقین میں داخل ہیں اور اسزارِ مقطعات سے بھی آپ کو حصہ نصیب ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
حضرت پیر دستگیر (حضرت مجدّد قدس سرہ) نے ایک دن فرمایا کہ میں ایک روز زمرۂ سابقین میں نظر ڈال رہا تھا کہ جن کی شان میں حق سبحانہ نے فرمایا ہے:
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ (پارہ ۲۷ سورہ واقعہ آیت ۱۳۔۱۴)
’’اگلوں میں سے ایک گروہ اور پچھلوں میں سے تھوڑے‘‘۔ (ترجمہ اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ)
میں نے اپنے آپ کو اس زمرہ میں داخل پایا اور اپنے مریدوں میں سے بھی ایک کو وہاں اپنے ساتھ پایا۔ اسی طرح متشابہات کے اسرار کی بابت بھی آپ نے لکھا ہے کہ متشابہات اشارۂ معاملات کی طرف ہے۔ جائز ہے کہ ایک شخص کو معاملہ حاصل ہو اور اُسے اُس معاملہ کا علم نہ ہو۔ اُس بات کو آپ نے اپنے مریدوں میں سے ایک فرد میں مشاہدہ فرمایا ہے، دیکھیے دوسروں کو کیا ملے۔
سعاد تہاست اندر پردۂ غیب |
|
سعادتیں پردۂ غیب کے اندر ہیں |
|
(مکتوباتِ معصومیہ جلد اوّل مکتوب ۲۳۷)
۵۔ حق تعالیٰ نے آپ کو عروۃ الوثقیٰ کا خطاب دیا۔ چنانچہ ۱۰۳۵ھ میں ایک روز آپ نے فرمایا کہ آج میں صبح کے حلقہ میں بیٹھا تھا کہ جناب سرورِ کائنات خلاصۂ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوکر مجھ سے بغلگیر ہوئے اور فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آپ کو عروۃ الوثقیٰ کا خطاب دیا ہے۔ اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام مقرب فرشتوں اور انبیاء و اولیاء نے آکر میرے گرد حلقہ بنایا اور کہتے ہیں۔’’السلام علیکم یا محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ‘‘۔پھر ہر ایک نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں نے سنہری خط سے عرشِ مجید کے گرد ’’محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ (روضہ قیومیہ)
حالاتِ حرمین شریفین
آپ اپنی قیومیّت کے چونتیسویں (۳۴)سال حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ وہاں کے بعض حالات آپ کے فرزندِ ثانی مروّج الشریعت خواجہ عبید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رسالہ یاقوتِ احمر میں لکھے ہیں جس سے چند واقعات درج ذیل ہیں:
حضرت قیوم ثانی فرماتے ہیں کہ جب ہم ایّام تشریق میں منیٰ سے شہر آئے تو طواف سے فارغ ہونے پر ظاہر ہوا کہ فرشتہ نے محض اوائے ارکان پر قبولیّتِ حج اور اجر کا مہر شدہ کاغذ ہمیں عطا کیا۔ ایامِ قیامِ مکہّ میں آپ اکثر طواف میں مشغول رہا کرتے۔ اُس وقت اس عبادت کو بہترین عبادت جانتے تھے اور فرماتے کہ عجیب و غریب باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھتا ہوں کہ کعبہ ہم سے گلے ملتا ہے اور بڑے اشتیاق سے چُومتا ہے انہیں دنوں انہیں دنوں میں ایک روز ظاہر ہوا کہ مجھ سے انوار و برکات اس کثرت سے نکلتے ہیں کہ انہوں نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے اور جنگل و بیابان اُن سے پُر ہوگیا ہے اور اُن کے مقابلہ میں تمام دیگر انوار چھُپ گئے ہیں جب میں اُس کی حقیقت کے دریافت کے واسطے متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے میری حقیقت دور کر کے کعبہ کی حقیقت سے مشرف فرما دیا گیا ہے۔
محرم کی تیسری تاریخ کو آپ اہل معلیٰ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبر پر توقف کے بعد فرمایا کہ جنابِ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے انوار موجزن ہیں۔ پھر ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روضۂ مبارک پر طویل مراقبہ کے بعد فرمایا کہ مائی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس قدر عنایت فرمائیں کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ بعد ازاں حضرات فضیل بن عیاض اور سفیان ثوری وغیرہ کے مزارات پر فاتحہ پڑھی اور اُن کے حق میں تعریفی کلمات فرمائے۔
ایک رات آپ وتر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ فرمایا، رکنِ یمانی کے نزدیک بہت سے فرشتے موجود ہیں چنانچہ حدیث میں بھی وارد ہے کہ ستّر ہزار فرشتے رکن یمانی کے نزدیک رہتے ہیں دیکھنے میں آیا کہ وہ اپنی جگہ سے سرک کر میرے گرد اگرد جمع ہوگئے اور اُن کے ہاتھوں میں قلم و دوات ہے میری حقیقت لکھ کر چلے گئے۔ ایک روز بعد نمازِ فجر حلقہ میں دیکھا کہ مجھ کو ایک خلعتِ طالی عطا ہوا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ خلعتِ عبودیّت ہے۔ ایک روز آپ حلقۂ ذکر میں بیٹھے تھے۔ مراقبہ کے بعد فرمایا کہ آج مجلسِ سکوت میں ارشاد کی نہایت عالی شان خلعت عنایت ہوئی ہے۔ اسی مجلس میں فرمایا کہ مجھے قلم و دوات عنایت ہوئی۔ گویا مجھے منصبِ وزارت عطا ہوا ہے اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت سے مجھے تمام مخلوقات پر وزیرِ اعظم بنایا گیا ہے۔
جب حرم شریف سے رخصت ہونے کے دن قریب آئے تو الطافِ عظیمہ اور انعاماتِ جلیلہ مرحمت ہوئے اور معلوم ہوا کہ ایک خلعت عالی سبز رنگ مکلّل بجواہر عنایت ہوا جو خلعتِ و داع تھا اور بعض صاحبزادگان جو رفیق سفر تھے اُن کو بھی عنایت ہوا۔
مکّہ مشرفہ سے روانہ ہوکر آپ مدینہ منوّرہ پہنچے اور روضتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر آدابِ زیارت بجالائے۔ روضۂ مطہرہ سے کمال عنایات ظاہر ہوئیں۔ تین چار روز کے بعد اہلِ مدینہ نے داخلِ طریق ہونے کی درخواست کی۔ آپ نے بپاسِ ادب اس معاملہ میں جناب رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور مواجہہ شریف میں کھڑے ہوکر مراقبہ کیا۔ چنانچہ اس معاملہ میں کمال رضا معلوم ہوئی اور خلعتِ عنایت ارشاد ہوا اور انوار و عنایت حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ظاہر ہوئے۔
فرمایا کہ اگرچہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مزارِ مقدس جنت البقیع میں ہے مگر حجرہ شریفہ اُن کا گھر ہے۔ اکثر اوقات ام المومنین کو حجرہ شریفہ میں پاتا ہوں اور مسجد شریف کو اُن کے انوار سے پُر دیکھتا ہوں۔
آپ کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دوروز کے اعتکاف کی اجازت ہوئی۔ رات کے وقت جب سب کو وہاں سے حسبِ محمول علیٰحدہ کردیا گیا تو آپ مواجہہ شریف میں جاکر مراقب ہوئے۔ فرمایا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حجرۂ خاص سے باہر جلوہ افروز ہوئے اور میرے پاس نزول فرمایا۔ اسی طرح تہجّد کے وقت محسوس ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقصورہ سے باہر تشریف لائے اور بکمالِ عنایت مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ اُس وقت مجھ کو الحاقِ خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت سے حاصل ہوا۔
فرمایا کہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مقدس مرکز جمیع عالمیان ہے۔ عرش سے فرش تک تمام مخلوقات آپ کی محتاج ہے اور آپ سے فیض یاب ہے۔ اگرچہ وہاب مطلق اللہ تعالیٰ ہے لیکن لغاضہ آپ کے توسل شریف سے ہوتا ہے اور مہمّات ملک و ملکوت آپ کے اہتمام سے سرانجام پاتی ہیں۔ شب و روز روضۂ مطہرہ سے مخلوقات پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپ وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ کے مصداق ہیں۔ باوجود اس عموم رحمت کے، استغناء جو مقامِ محبوبیّت کو لازم ہے، بدرجہ اُتم و اکمل پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے حضور میں عرضِ حاجت کے واسطے توسل کی ضرورت ہوتی ہے اور بلا توسل مشکل معلوم ہوتی ہے۔
ایک روز فرمایا کہ کل سے ظہورِ اسرار و تلاطمِ امواجِ انوار ہوتا تھا اور آج ایک ایسا معاملہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اشارہ سے بھی ظاہر نہیں کرسکتا۔ اور اگر ظاہر ہو تو قَطْعُ الْبَلعْوِمُ وَذَبْحُ الْحلقُوم[۱] کا سزاوار ہوں مگر بعض مقامات رمز سے کہتا ہوں اور وہ معاملہ کمون و بروز ہے۔ جب شیخِ کامل یہ چاہتا ہے کہ اپنے جمیع کمالات کسی مرید صادق میں اصافہ کرے تو اپنے سے غائب ہوکر نفسِ مرید میں ظاہر ہوتا ہے اور اُس وقت وہ مرید ہتمامہ مرشد کے رنگ میں ہوجاتا ہے اور اس کے جملہ حقائق لطائف سے متحقق ہو جاتا ہے۔
[۱۔ گلا کٹوانے اور گردن ذبح کروانے۔ (قصوری)]
حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کو اپنی نسبت حضرت خیرالبشر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ثابت کیا کرتے تھے اب اس قسم کا معاملہ فقیر کی نسبت جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پاتا ہے۔ اسی سبب سے بعض معاملات ایسے درمیان میں آتے ہیں کہ
لَا عَیْنَ رَأَتْ وَلَا اَذَنَ سَمِعَتْ
’’نہ آنکھوں نے دیکھے اور نہ کانوں نے سُنے‘‘۔
اور اسی وجہ سے رات جو اشعار نعت و قصائدِ مدحیہ حسب رسم قدیم پڑھے گئے، سب کو اپنی طرف منسوب پاتا تھا۔ اسی اثناء میں آپ کے صاحبزادۂ ثانی (خواجہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ) نے عرض کیا کہ کمون و بروز بھی فنا و بقا متعارفۂ قوم ہے یا کوئی علیحدہ معاملہ ہے۔ فرمایا کہ نہیں۔ یہ غیر فنا و بقا ہے اور اس سے بدر جہا ممتاز ہے۔
ایک روز آپ بقیع میں گئے، واپسی پر فرمایا کہ جس قبر پر میں جاتا تھا، صاحبِ قبر جس طرح بعنایت پیش آتا تھا اُسی طرح دوسرے اہلِ قبور کو جن کی قبروں پر جانے کا رادہ ہوتا تھا منتظر رہتے تھے اور میری ملاقات کے لیے اس طرح جمع ہوتے تھے جیسا کہ کسی نہایت عزیز مہمان کے واسطے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ سیّدنا حضرت ابراہیم علیٰ ابیہ و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ پر پہنچا تو وہ میری طرف آکر مجھ سے ملحق ہوگئے۔ کبھی میری گود میں لیٹتے تھے اور کبھی گلے سے لپٹتے تھے۔ بالکل نُور ہی نُور تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس جگر گوشہ کے حق میں فرمایا تھا۔
لَو عاش لکان نبیّاً
’’اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے‘‘۔
فرمایا کہ بقعات مبارکہ اور مزاراتِ متبرکہ میں میری نسبت نے ظہور عجیب و انجلائے غریب پیدا کیا اور میں نے اپنا قرب و منزلت بجناب اقدس اوتعالیٰ مشاہدہ کیا۔ محسوس ہوا کہ تمام عالم اس نسبت کے انوار سے بھر گیا ہے۔ اور موجوداتِ عالم صف باندھے ہوئے میرے گرد ہیں اور میں اُن میں امام معلوم ہوتا ہوں اور کافۂ مخلوقات کو جو گوناگوں فیوض و برکات پہنچتی ہیں،اس درویش کے توسط سے پہنچتی ہیں اور تمام مخلوق، کیا اولیاء کیا غیر اولیاء اس فقیر سے حصول برکات و ترقیات کے منتظر ہیں۔ اور اکثر اوقات قلم دوات اپنے پاس تصحیح مہماتِ ملک کے لیے حاضر پاتا ہوں۔ جیسا کہ وزیر اعظمِ کو بارگاہِ سلطان میں نسبت و قدرت ہوتی ہے وہی حالت مجھ کو اپنی نسبت سمجھ میں آتی ہے۔ فرمایا کہ بقیع میں یُوں تو سب بعنایت پیش آتے ہیں مگر امیرالمومنین سیّدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ، سیّدنا ابراہیم، عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن مسعود اور امام اسمٰعیل بن امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اوروں سے زیادہ مہربان ہیں۔
فرمایا کہ جس وقت میں مدینہ منوّرہ سے روانہ ہونے لگا، مسجد شریف میں رخصت کے واسطے حاضر ہوا۔ جدائی کے غم و الم کے سبب سے بے اختیار اور بار بار رونے لگا۔ اسی حالت میں حضرت رسالت خاتمیت صلی اللہ علیہ وسلم کمال عظمت سے روضہ مطہرہ سے ظاہر ہوئے اور نہایت کرم سے اخلعت تاجِ سلاطین بکمال علو و رفعت (کہ ایسا ہر گز نہیں دیکھا گیا) احقر کو پہنایا اور محسوس ہوا کہ اس تاج پر ایک شہپر لگا ہوا ہے اور اس پر ایک لعل جڑا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ یہ خلعت خاص جسمِ اطہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اُترا ہوا ہے اور دیگر خلعتوں کی طرح نہیں۔ اور فرمایا کہ خلعت عطا کرنے سے نظر کشفی میں نسبت خاصہ فرمانا مراد ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت مبارکہ سے وطن کو واپس ہوئے۔
تصّرفات و کرامات:
آپ کے تصرّف و کرامات بہت ہیں جن میں سے صرف چند بطور اختصار درج ذیل ہیں:
۱۔ ایک جوگی جادو سے آگ باندھ دیتا تھا اور لوگوں کو اس شعبدہ سے فریفتہ کرتا تھا۔ یہ سُن کر آپ کو غیرت آئی اور بہت سی آگ روشن کر کے یہ آیہ شریف پڑھ کر دم کیا:
یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓى اِبْرٰهِیْمَ
’’اے آگ سرد ہوجا اور ابراہیم علیہ السلام پر (موجب)سلامتی (بن جا)‘‘۔
اور ایک شخص کو فرمایا کہ اس میں بیٹھ کر ذکر کرو۔ چنانچہ وہ آگ میں بیٹھ کر ذکر میں مشغول ہوا اور آگ اُس پر گلزار ہوگئی۔
۲۔ ایک روز آپ وضو فرما رہے تھے کہ اچانک خادم سے لوٹا لےکر دیوار پر مارا اور وہ لوٹا ٹوٹ گیا۔ آپ نے دوسرے لوٹے سے وضو فرمایا۔ حاضرین نے اس امر کو ذہن میں رکھا۔ مدّت کے بعد ایک سوداگر آیا، اور اُس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں بنگال کے ایک جنگل میں تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شیر میری طرف غرّاتا چلا آتا ہے میں نہایت خوف زدہ ہوا۔ اچانک حضرت (خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ) کو دیکھا کہ لوٹا پکڑے تشریف لارہے ہیں۔ آپ نے وہ لوٹا اُس شیر کی طرف بڑے زور سے پھینکا۔ شیر ڈر کے مارے بھاگ گیا اور میں محفوظ رہا۔
۳۔ ایک شخص اپنے بیٹے کو آپ کے خدمت بابرکت میں لایا اور عرض کی کہ کسی عورت پر عاشق ہوگیا ہے۔ نہ دنیا کا کام کرتا ہے نہ عاقبت کا۔ آپ اس کو سمجھانے لگے تو اس نے کہا۔
در کوئے نیک نامی مارا گزرنہ دادند |
|
گر تو نمی پسندی متغیّر کُن قضارا |
(حافظ شیرازی)
’’لوگوں نے ہمیں نیک نامی کے کوچے میں جانے نہیں دیا اگر تو (ہماری موجودہ حالت) پسند نہیں کرتا تو تقدیر کو بدل دے‘‘۔ (دیوانِ حافظ)
یہ سُن کر آپ نے فرمایا کہ ہم نے تیری قضا تبدیل کردی۔ چنانچہ وہ فوراً تائب ہوا اور خیالِ عشق جاتا رہا۔
۴۔ آپ کے ایک عزیز مخلص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میری آنکھ میں درد ہوا، ہر قسم کا علاج کیا مگر بے سُود۔ ایک شخص نے اُس سے اپنی مجرّب دوا کی تعریف کی۔ بےچارے نے اُس کا بھی استعمال کیا مگر دوائی لگاتے ہی بصارت جاتی رہی۔ اسی اثناء میں آپ حج مبارک سے واپس تشریف لے آئے۔ یہ بھی کسی کا ہاتھ پکڑ کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اُس کو دیکھ کر بہت افسوس کیا اور اپنا لعبِ دہن اُس کی آنکھوں میں ڈال کر فرمایا کہ اسی طرح گھر چلا جا۔ وہاں جاکر آنکھیں کھولنا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، گھر جا کر آنکھیں جو کھولیں تو بینائی موجود پائی۔
۵۔ آپ کے ایک داماد نے پوشیدہ طور پر کسی اور عورت کی طرف رجوع کیا۔ صاحبزادیوں نے آپ سے اِس امر کی شکایت کی۔ آپ کی زبان سے نکلا کہ مر جائے گا۔ صاحبزادیوں نے عرض کیا کہ جیتا رہے۔ فرمایا کہ بس اب جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب ایمان کی دعا کرو۔ چنانچہ تین چار روز کے بعد اُس کا انتقال ہوگیا۔
۶۔ آپ کے ایک مرید کا بیان ہے کہ مجھے افلاس نے تنگ کیا تو میں نے گھبرا کر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ افلاس کے ہاتھوں سخت لاچار ہوں۔ حضرت نے مجھے روپوں کی تھیلی عنایت فرمائی اور فرمایا کہ اسے گننا مت جس قدر چاہو خرچ کیے جاؤ۔ میں حسب ضرورت اُس سے وقتاً فوقتاً خرچ کرتا رہا۔ حتّٰی کہ میں ایک لاکھ اُس میں سے خرچ کرچکا۔ لیکن وہ اُتنے کا اتنا ہی تھا۔ ایک روز میری بیوی نے وہ روپیہ گنا تو سات سو نکلا۔ اُس کے بعد جب ہم نے خرچ کیا تو ختم ہوگیا۔
۷۔ ایک روز آپ خانقاہ میں جلوہ افروز تھے کہ ناگاہ آپ کا دستِ مبارک اور آستین پانی سے تر ہوگئے۔ حاضرین تعجب کرنے لگے اور آپ سے سبب دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ایک سوداگر مرید کا جہاز غرق ہونے لگا تھا۔ اُس نے ہماری طرف توجہ کی اور اپنی نجات کے لیے مدد طلب کی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اُس کو غرقاب سے نکال کر ساحلِ نجات پر پہنچادیا۔ ایک مدّت کے بعد وہ سودا گر حاضر خدمت ہوا اور ایک رقم کثیر بطور نذرانہ لایا اور جہاز کے غرق ہونے اور نجات پانے کا قصّہ بیان کیا۔
۸۔ آپ کے خلیفہ حضرت خواجہ صدیق پشاوری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مَیں حضرت (خواجہ محمد معصوم) سے اجازت لے کر اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ راستے میں سلطان پوری کی ندّی کی پُل کے نیچے کپڑے پاک کر رہا تھا کہ میرا پاؤں پھسلا۔ اور پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ میں تیرنا نہ جانتا تھا۔ پانی مجھ کو کبھی اُوپر لاتا تھا کبھی نیچے۔ زندگی کی اُمید باقی نہ رہی تھی۔ یکا یک حضرت نمودار ہوئے اور ہاتھ سے پکڑ کر مجھے باہر لاکھڑا کیا اور خود نظر سے غائب ہوگئے۔
۹۔ خواجہ محمد صدیق پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میرا ایک مخلص نوروز بیگ نامی حضرت خواجہ محمد معصوم کے دیدارِ فیض آثار سے مشرف ہوا ہے، یُوں بیان کرتا ہے کہ میں ایندھن بیل پر لاد کر لارہا تھا کہ لکڑیوں کا گٹھابیل پر سے زمین پر گر پڑا۔ کوئی شخص وہاں نہ تھا جو لدوانے میں میری امداد کرے۔ میں حیران و پریشان کھڑا تھا۔ اتنے میں مَیں نے حضرت قدس سرہ کو تشریف لاتے دیکھا کہ آئے اور گٹھا لدوا کر نظروں سے غائب ہوگئے۔
۱۰۔ آپ کے ایک مخلص حاجی نور دین بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حرمین کی زیارت کو روانہ ہوا اور جہاز پر سوار ہوگیا۔ ہوا کہ شدّت اور طغیانی کے سبب سے جہاز ڈوبنے لگا۔ اکثر لوگوں نے اپنا سامان سمندر میں ڈال دیا تاکہ جہاز ہلکا ہوجائے اور ڈوبنے سے بچ رہے۔ میں اس حال میں حضرات مخدوم زادگان کی طرف متوجہ ہوا اور نہایت عاجزی سے التجا کی کہ یا حضرت وقتِ امداد ہے۔ متوجہ ہوتے ہی دونوں مخدوم زادے تشریف لائے اور فرمایا کہ مطمئن رہو، ہم تمہاری امداد کے لیے آپہنچے ہیں اب جہاز نہیں ڈوبے گا۔ (انشاء اللہ) میں نے یہ بشارت سُن کر لوگوں سے کہا کہ کوئی شخص اپنا سامان دریا میں نہ پھینکے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب جہاز نہیں ڈوبے گا، کیونکہ بزرگانِ دین نے مجھے بشارت دی ہے۔ چونکہ لوگوں کے خیال میں جہاز کا بچنا دشوار تھا، کسی نے بھی میری بات پر یقین نہ کیا مگر فورالہریں بند ہوگئیں اور جہاز ٹھہر گیا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ حضرت قدس سرہ کے معتقد اور اس فقیر کے مخلص ہوگئے۔ ہم بخیریت روانہ ہوئے اور سعادتِ حج بیت اللہ سے مشرّف ہوئے۔
۱۱۔ جب آپ نماز کے وقت قرآت پڑھتے تو آپ کے پیچھے بعض اوقات سَو سَو صف بھی ہوتی لیکن آواز اس قسم کی تھی کہ جتنی اونچی آواز پہلی صف والوں کو سنائی دیتی، اُتنی ہی آخری صف والوں کو سنائی دیتی تھی۔
۱۲۔ ایک شخص نے آپ کے حضور میں ایک رافضی کا ذکر کیا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ آپ سخت ناراض ہوئے، خربوزہ کھارہے تھے، آپ نے چھُری ہاتھ میں لےکر خربوزہ پر رکھ کر فرمایا کہ لو ہم رافضی کا سر کاٹتے ہیں۔ خربوزہ کو دو ٹکڑے کردیا۔ اُسی روز رافضی مرگ مفاجات سے مرگیا۔
۱۳۔ فارسی کے شہرۂ آفاق شاعر ناصر علی سرہندی آپ کے مرید صادق تھے۔ ادائل میں اُنہیں شعر کہنے کا ازحد شوق تو تھا لیکن کہنا نہیں آتا تھا۔ ایک روز آپ (خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُس وقت آپ وضو فرما رہے تھے۔ ازراہِ کرم فرمایا کہ علی! جو چاہو مانگو۔ انہوں نے عرض کیا کہ زبان چاہتا ہوں۔ فرمایا، ارے کم ہمّت۔ اچھا یہ لو میرے وضو کا پانی پی لو، کافی ہوگا۔ انہوں نے حسب الارشاد وضوکا پانی پیا۔ پیتے ہی اُن کا سینہ معرفتِ الٰہی سے منوّر اور دل مظہر فیض الٰہی ہوگیا۔ اور اُن کی زبان سے اس قدر شعر نکلنے لگے کہ جن سے بڑھ کر وہم و قیاس میں بھی نہ آسکتے تھے۔ چنانچہ اُن کا شعر ہے۔
بایں شوخی غزل گُفتن علی از کس نمے آید |
|
بایراں مے فریسم تاکہ مے گوید جو رابش را |
’’اے علی! تیرے سوا اس طرح شوخی کے ساتھ کوئی بھی غزل نہیں کہہ سکتا۔ میں اپنی غزل کو ایران میں بھیج رہا ہوں تاکہ کوئی اِس کا جواب کہے‘‘۔
۱۴۔ آپ کے ایک مرید کا بیٹا بیمار ہوگیا۔ کافی علاج کیا مگر آفاقہ نہ ہوا۔ مرض روز بروز بڑھتا گیا، ماں باپ اس کی زندگی سے مایوس ہوکر اُسے آپ کی خدمت میں لائے۔ لڑکا مرگیا اور باپ بھی بیقراری کی وجہ سے زمین پر گرپڑا۔ اور قریب الموت ہوگیا۔ جب آپ نے لڑکے کو مرا ہوا، اور اس کے باپ کو مُردوں کی طرح پڑا ہوا دیکھا تو اُس کے حال پر رحم آگیا۔ اُس لڑکے پر توجہ کی اور دیر تک کھڑے رہ کر اس پر مراقبہ کیا۔ دیر بعد تھوڑا سا پانی لے کر کچھ آئیتیں پڑھ کر دم کیا اور وہ پانی لڑکے پر چھڑکا۔ چھڑکتے ہی لڑکا اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ گویا مرض کا نام و نشان نہ تھا حاضرین یہ حال دیکھ کر حیران رہے اور پہلے کی نسبت اُن کا اعتقاد زیادہ ہوگیا۔
اشاعتِ طریقہ
آپ یعنی حضرت قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم قدس سرہ یکم ربیع الاوّل ۱۰۳۴ھ/۱۶۲۴ء کو مسندِ ارشاد و قیومیّت پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس روز پچاس ہزار آدمیوں نے آپ سے بیعت کی۔ جن میں سے دوہزار حضرت مجدّد قدس سرہ کے خلفاء تھے۔ باقی خلفاء جو مختلف ممالک میں تھے وہ بھی مختلف اوقات میں سرہند شریف میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرّف ہوئے۔ ماوراء النہر، خراسان اور بدخشاں وغیرہ ممالک کے بادشاہوں نے اپنے وکیل مع تحائف بھیج کر غائبانہ آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ قیومیّت کے تیسرے سال جب شاہجہان تخت پر بیٹھا تو سر ہند شریف میں حاضر خدمت ہوکر دوبارہ بیعت ہوکر بارہ بیعت سے مشرّف ہوا۔ اور تبلیغ و ترویجِ اسلام میں غایت درجہ کوشش کی گئی۔
چوتھے سال خواجہ محمد حنیف کابلی رحمۃ اللہ علیہ حاضر خدمت ہوکر آپ سے بیعت ہوئے۔ آپ نے انہیں خلافت دے کر کابل بھیج دیا۔ خواجہ صاحب کو وہاں بڑی قبولیّت نصیب ہوئی۔ اور ہزار ہا لوگ اُن کے مرید ہوکر صاحبِ حال ہوئے۔ پانچویں سال خواجہ محمد صدیق پشاوری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابوالمظفر بر ہانپوری حاضر خدمت ہوکر بیعت سے مشرّف ہوئے۔ آپ نے خواجہ صاحب کو خلافت دے کر پشاور بھیجا، جہاں اُن کو بڑی کامیابی ہوئی اور شیخ صاحب کو کچھ مدّت کے بعد خلیفہ بنا کر دکن روانہ کیا۔ جہاں بہت سے لوگ اُن کے مرید ہوئے۔ چھٹے سال اخون موسیٰ ننگرہاری اور خواجہ عبدالصمد کابلی شرفِ بیعت سے مشرف ہوئے اور خلافت پاکر اپنے اپنے وطن میں اشاعتِ طریقہ میں مشغول ہوئے۔ ساتویں سال شیخ بدرالدین سلطان پوری اور شیخ انور نورسرائی بیعت ہوئے اور خلافت دے کر بغرضِ اشاعت سلطان پور اور نُور سرا میں بھیج دیے گئے۔ آٹھوہں سال ملک شام کے سات سو علماء و مشائخ اور وہاں کے دیگر ہزار ہا آدمی سرہند شریف میں آکر بیعت سے مشرف ہوئے۔ نویں سال شاہِ روم نے اپنے قاصد کے ہاتھ تحائف و ہدایہ بھیجے اور غائبانہ بیعت کی۔ تیرھویں سال عبدالعزیز شاہِ توران غائبانہ بیعت سے مشرف ہوا۔ چودھویں سال شہزادہ محمد اورنگ زیب عالمگیر بیعت سے مشرّف ہوئے۔ پندرھویں سال اورنگ زیب کی بہن روشن آراء نے اور سولہویں سال روشن آراء کی بہن گوہر آرا نے آپ کی بیعت کی۔ انیسویں سال سلطان عبدالرحمن شاہ خراساں اور اُس کی بیگم بیعت سے مشرف ہوئے۔ اکیسویں سال ترکستان دوشتِ قبچان کے تمام خان اور سلطان اپنے لشکر سمیت غائبانہ مرید ہوئے۔ بائیسویں سال شاہِ سلیمان بادشاہِ ایران، رفض سے تائب ہوکر غائبانہ مرید ہوا۔ اور اُس کے ساتھ ہزار ہا شیعہ تائب ہوکر مرید ہوئے۔ تئیسویں سال بادشاہِ کاشغر غائبانہ مرید ہوا۔ چوبیسویں سال امامِ یمن غائبانہ مرید ہوا۔ پچیسویں سال شیخ حبیب اللہ بخاری کو جو دسویں سال مرید ہوا تھا۔ خلافت دے کر بخارا میں بھیجا اور وہاں انہیں قبولیّت عامہ نصیب ہوئی۔ چھوٹے بڑے وضیع و شریف، خوانین و سلاطین اور رعایا مرید ہوئی۔ اور چار سو نے درجۂ تکمیل پر پہنچ کر اُن سے خلافت پائی۔ اُن کے ذریعہ سلسلہ عالیہ خراسان و ماوراء النہر میں بہت پھیلا۔ ستائیسویں سال حضرت نے اپنے خلیفہ خواجہ ارغوان کو خطا وچین میں بھیجا۔ اور اُس کے ہاتھ پر وہاں کا بادشاہ ملقب بہ قاآن مسلمان ہوگیا۔ اٹھائیسویں سال آپ نے شیخ مرد کو خلافت دیکر بغرض اشاعت ملک شام میں بھیجا وہاں وہ دمشق میں مقیم ہوئے۔ اور والئی شام اور تمام امراء اور دیگر لوگ بکثرت اُن کے حلقۂ ارادت میں آئے اور سلسلۂ عالیہ اُس ولایت میں پورے طور پر رائج ہوا۔ چونتیسویں سال بہت سے ارادتمندوں کے ساتھ آپ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ چھتیسویں سال واپس آئے۔ جب بندرگاہ سورت میں پہنچے تو ہر روز ہزار ہا آدمی مرید ہونے لگے۔ صبح و شام تقریباً تیس ہزار آدمی حلقہ میں شامل ہوتے۔ ہجومِ خلق کی یہ کیفیت ہوئی کہ امراء و سلاطین کو آپ کی زیارت بدقت نصیب ہوتی۔
قصہ کوتاہ آپ کی شرکتِ ارشاد و مشیخیت بیان سے باہر ہے۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے کے بعد کسی ولی اللہ کو اس قدر ارشاد و مشیخیت نصیب نہیں ہوئی۔ چنانچہ تاریخ مرأت العالم و جہاں نماً جو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے لکھی گئی ہیں یوں لکھا ہے کہ مشیخیت کی مسند پر کوئی ایسا شخص نہیں بیٹھا جیسا کہ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ اِطراف و اکنافِ عالم کے بادشاہ، علماء مشائخ چھوٹے بڑے، وضیع و شریف، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آپ کے مرید تھے۔ لاتعداد خاص و عام بندگانِ خدا صبح و شام پروانوں کی طرح آپ پر جان فدا کرتے۔ ہندوستان توران، ترکستان، بدخشاں، دشتِ قبچاق، کا شغر، خطا، روم، شام اور یمن کے بادشاہ آپ کے مرید ہوئے۔ روئے زمین کے مختلف حصوں کے لوگ آپ کے خواب میں دیکھ کر اور انبیاء و اولیاء سے خوشخبری پاکر، حاضر خدمت ہوکر شرفِ بیعت سے مشرف ہوتے۔ مختلف ملکوں میں آپ کے خلفاء کی خدمت میں ہزار ہا آدمیوں کا مجمع رہتا ہر روز سینکڑوں نئے مرید حاضر خدمت ہوتے اور فنا و بقا اور پروردگار کا پُورا پُورا قُرب حاصل کرتے۔ آپ کی مجلس کا رَعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ مجلس مبارک میں بڑے بڑے بادشاہ آپس میں گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ بغیر اجازت بات نہ کرتے۔ اگر بڑا ضروری کام ہوتا تو کاغذ پر لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہِ ہند پر اگرچہ آپ بدرجۂ غایت مہربان تھے لیکن پھر بھی بسببِ غایت ادب اُس نے کبھی آپ کے حضور میں کسی سے گفتگو کی اور نہ بغیر اجازت بیٹھا۔
چالیسویں سال خصوصیّت سے تمام روئے زمین کے خلفاء مع اپنے مریدوں کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ اور امیر اپنی اپنی سلطنت اور امیری چھوڑ کر آپ کی زیارت کے آئے۔ چنانچہ خانانِ تُوران و ترکستان، والیان و شتِ قبچاق و بدخشان، فرمانروایان خطاوخراسان، تخت نشینانِ کا شغر و طبرستان، حاکمان قہستان و گرجستان سب کے سب آپ کے دیدارِ فائض الانوار کے لیے سرہند شریف میں حاضر ہوئے۔شہر کے گرد اگرد ایک ایک میل تک لشکر پڑا تھا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا مجمع نہیں ہوا تھا۔ اور بعد میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ نماز کے وقت اس قدر ہجوم ہوتا تاکہ ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدہ کرتے بلکہ کھڑا ہونے کو بھی پورے طور جگہ نہ ملتی۔
چوالیسویں سال حضرت اقدس قدس سرہ نے اپنے مریدوں اور خلفاء کو حسب ذیل طور پر اپنے فرزندانِ گرامی کے سپرد فرمایا۔ حضرت محمد صبغۃ اللہ کو کابل اور اُس کے گرد و نواح کے تمام پٹھان اور مغل مرید دے دئیے۔ بدخشاں، ترکستان، دشتِ قبچاق کا شغر، خطا، روم اور شام کے تمام مرید اور ہندوستان کے بعض آدمی حضرت خواجہ حجۃ اللہ محمد نقشبند ثانی کے سپرد کیے۔ حسبِ ذیل خلفاء بھی اُن کے سپرد ہوئے۔ خواجہ محمد حنیف کابلی رحمۃ اللہ علیہ خواجہ محمد صدیق پشاوری رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ عبدالصمد رحمۃ اللہ علیہ، اخون موسیٰ ننگرہاری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ مراد شامی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ ارغون خطائی وغیرہ۔ شہزادہ اورنگ بھی اُن کے سپرد ہوا۔ جب حضرت حجۃ اللہ، کابل تشریف لے گئے تو کابل کے تمام آدمیوں نے آپ سے رجوع کیا۔ حضرت خواجہ محمد عبیداللہ مروج الشریعت کو خراسان، ماوراءالنہر، توران، دارگنج، غورسد، اندراب، قہستان، طبرستان اور سجستان کے علاقے سپرد کیے اور حسب ذیل خلفاء آپ کے ماتحت کیے۔ شیخ ابوالمظفر باہانپوری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حبیب اللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، صوفی پایندہ طلا رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بلخی رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہ اور ہند کے اکثر امراء اور شہزادہ معظم شاہ بھی آپ کے سپرد ہوئے۔ آخر انہوں نے بھی حضرت حجۃ اللہ سے رجوع کیا۔ دکن اور پنجاب کے اکثر مرید اور خلفاء کو خواجہ محمد اشرف کے حوالہ کیا۔ سلطان اورنگ زیب، اعظم شاہ جعفر خاں، وزیر شائستہ خاں، مکرّم خاں، محتشم خان اور سلطان عبدالرحمن وغیرہ شیخ محمد سیف الدین کے سپرد کیے اور حسب ذیل خلفاء اُن کے حوالہ کیے۔ اخون میر محمد محسن سیالکوٹی، صوفی پایندہ ملاس رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بھکری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ، سلطانِ ہند نے آخر حضرت حجۃ اللہ سے رجوع کیا۔ حضرت خواجہ صدیق رحمۃ اللہ علیہ کو عرب بحرین اور مشرقی ہند کے اکثر شہر سپرد کیے۔
بعد ازاں آپ نے اپنے تمام خلفاء کو دنیا کے مختلف حصّوں میں بھیجا۔ ایک ہزار سات سو خلفاء ترکستان اور دشتِ قبچاق میں بھیجے اور اُن کا سردار خواجہ محمد امین اور خواجہ عبدالرحمٰن کو بنایا۔ پانچ سو خلیفے کا شغر اور خطا کی طرف بھیجے۔ ان کا سردار خواجہ ارغون کو مقرر فرمایا۔ چار سو خلفاء شام اور روم کی طرف بھیج کر اُن کا سردار شیخ مراد کو بنایا۔ سات سو خلفاء خراسان، بدخشاں اور توران میں شیخ حبیب اللہ کی ماتحتی میں بھیجے۔ ایک سو خلفاء کابل میں اور ایک سو خلفاء نواح پشاور میں بھیجے۔ بیس خلفاء ننگرہار میں بھیجے۔ ان سب کا سردار خواجہ محمد حنیف، خواجہ محمد صدیق اور اخون موسیٰ کو مقرر فرمایا۔ باقی خلفاء کو طول و عرضِ ہندوستان میں پھیلادیا۔
کہتے ہیں کہ خلفاء اور فرزندوں کی وساطت کے بغیر براہ راست نو لاکھ آدمی آپ کے مرید ہوئے آپ کے خلفاء کی تعداد سات ہزار تھی جو سب کے صاحبِ کمالات تھے۔
وفات
آپ کو وجع المفاصل (جوڑوں کا درد) کا مرض تھا۔ آخر عمر میں اس مرض نے بہت غلبہ پایا۔ وفات سے دوتین روز پیشتر آپ نے قرب و جوار کے بزرگوں کو ایک رقعہ اس مضمون کا لکھا کہ وقتِ رحلت آپہنچا ہے۔ دعا فرمائیں کہ خاتمہ بالخیر ہو۔ وفات سےا یک روز پیشتر جمعہ کے دن آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اُمید نہیں کہ کل اس وقت تک اِس دنیا میں رہوں۔ پھر سب کو پند و نصائح فرما کر خلوت میں تشریف لے گئے۔ صبح کو نماز فجر کمال تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کی۔ مراقبہ معمولہ کے بعد اشراق پڑھی۔ بعد ازاں سُکرات موت آپ پر شروع ہوگئے۔ اُس وقت آپ کی زبان مبارک جلد جلد چلتی تھی۔ صاحبزادگان و الاتبار نے کان لگا کر سُنا تو معلوم ہوا کہ آپ سورۂ یٰسٓ شریف پڑھ رہے تھے۔ غرض کہ ۹؍ ربیع الاوّل ۱۰۷۹ھ/۱۶۶۸ء بروز ہفتہ آپ نے وصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سرہند شریف میں ہی آخری آرامگاہ بنی۔
آپ کے اکثر عقیدت مندوں، عزیزوں، اور پیروکاروں نے قطعاتِ تاریخ وصال لکھے بخوفِ طوالت صرف دو قطعات درج ذیل ہیں۔
۱۔ حضرت خواجہ عبدالاحد وحدت سرہندی قدس سرہ نے یہ قطعہ لکھا:
قیومِ زماں خلیفۂ اللہ! |
|
دانندۂ سرہائے مکتوم |
|
||
|
۲۔ فارسی کے مشہور شاعر اور آپ کے مرید صادق ناصر علی سرہندی نے یہ قطعۂ تاریخِ وصال لکھا
چراغِ خاندانِ نقشبنداں |
|
فروغِ دین احمد خواجۂ معصوم |
|
||
|
جہاں پر اب آپ کا روضہ مبارک ہے، وہ جگہ آپ کے صاحبزادے حضرت مروّج الشریعت خواجہ محمد عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ملکیت تھی۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو حضرت مروّج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کو اپنی جگہ میں دفن کیا اور شاہجہان بادشاہ کی صاحبزادی روشن آراء نے اُس پر عالیشان روضہ تعمیر کرایا اس کی تعمیر کے لیے شہزادی نے ایران سے نہایت اعلیٰ درجہ کے اُستاد معمار طلب کیے تھے اور روضۂ شریف پر سنہرا کام کیا گیا تھا جو آئینہ کی طرح چمکتا تھا۔ اور سورج نکلنے پر جگمگا اٹھتا تھا دروازوں کے پردے، شامیانے اور مزار پوش زربفت تھے۔ انقلابِ زمانہ سے وہ نقش و نگار مٹ گئے ہیں۔
روضہ شریف کے شمال کی جانب مسجد عالی واقع ہے جو آپ کے صاحبزادے حضرت مروّج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۰۸۰ھ میں تعمیر کرائی تھی، کہتے ہیں کہ روضہ شریف کی عمارت اور سامانِ فرش فروش پر ایک لاکھ روپیہ سے زائد خرچ ہوا۔ پانچ ہزار اشرفی گنبدوں پر خرچ ہوئی۔ چالیس ہزار روپیہ مسجد پر خرچ ہوا۔ اب اس روضہ کے اندر آٹھ قبریں ہیں، جن کی تفصیل کچھ یُوں ہے۔
۱۔ مرکز میں آپ یعنی خواجہ محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ قدس سرہ
۲۔ مرکز سے ملحق جانب مشرق حضرت مروج الشریعت خواجہ محمد عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ (فرزندِ سوم)
۳۔ مرقد خواجہ محمد عبیداللہ سے ملحق جانبِ مشرق حضرت ابوالعلیٰ فرزند اکبر خواجہ حجۃ اللہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ
۴۔ مرکز سے ملحق جانبِ غرب خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ (فرزندِ چہارم)
۵۔ مرقد خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ سے جانب غرب خواجہ صبغۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہ (فرزندِ اکبر) ان پانچ قبروں کی پائنتی کی طرف
۶۔ شیخ محمد ہادی فرزندِ سوم حضرت مروّج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ حضرت محمد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرزند حضرت محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ فرزند چہارم حضرت مروج الشریعت خواجہ عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ
۸۔ خواجہ نُور معصوم فرزند اکبر میر محمد نعمان حق رسا فرزند چہارم حضرت خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ۔
حُلیہ مبارک
آپ کا قد خاصا تھا۔ بدن مبارک پُر گوشت، رنگ گندمی، اَبرو کشادہ، ناک اُونچی، آنکھیں بڑی بڑی، داڑھی سفید اور تمام اعضاء نہایت متناسب اور خوش شکل تھے۔ آپ کا لباس نہایت لطیف بلکہ الطف ہوتا تھا۔ عمامہ سر پر ہوتا۔ کبھی کبھی ہندی لباس بھی زیب تن فرما لیتے تھے۔
ارشادات قُدسیہ
مکتوبات امام ربانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کی طرح حضرت خواجہ معصوم قدس سرہ کی بھی تین جلدیں ہیں۔
جلد اوّل اس جلد کو آپ کے فرزند سوم خواجہ محمد عبیداللہ مروّج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیا۔
جلد دوم اس جلد کو شرف الدین حسینی ہروی رحمۃ اللہ علیہ نے حسب ارشاہ حضرت خواجہ سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ جمع کیا۔
جلد سوم اس جلد کو حاجی محمد عاشور بخاری حسینی رحمۃ نے حسبِ ارشارہ حضرت خواجہ محمد نقشبند قیوم ثالث جمع کیا۔
بطور تبرک چند مقامات ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں۔
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک میں ہے کہ قبر بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے قبر کے باغ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ پردہ و مسافت جو زمینِ قبر اور بہشت کے درمیان ہوتا ہے، اُٹھ جاتا ہے اور دونوں جگہوں کے درمیان کوئی پردہ مانع نہیں رہتا۔گویا زمین قبر کو جنّت کے ساتھ فنا اور بقا حاصل ہوجاتی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے یہی معنی ہیں کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس قسم کا روضہ اخص خواص کے لیے ہے ہر مومن کو حاصل نہیں جب مومنوں کی قبریں صفائی اور نورانیت پیدا کرتی ہیں تو اس امر کی استعداد حاصل ہوجاتی ہے کہ جنّت کا پر تو اُن قبروں پر منعکس ہوجاتا ہے اور صاف کردہ شیشہ کی مثل ہوجاتی ہیں۔ (مکتوبات معصومیہ جلد اول مکتوب ۷)
۲۔ آپ نے لکھا تھا کہ پیر کا مریدوں کے حالات کو نہ جاننا باعثِ نقص ہے یا نہیں۔ آپ کو معلوم رہے کہ سلوک و تسلیکِ اختیاری میں پیر کو مرید کے احوال کا علم اور اسی طرح مرید کو اپنے احوال کا علم ضروری ہے اور ہمارے طریقہ میں جو اصحاب کرام علیہم الرضوان کا طریقہ ہے، ایسا علم نہ پیر کے لیے درکار ہے اور نہ مرید کے لیے۔کیونکہ اس طریق میں افادہ و استفادہ انعکاسی اور انضباغی ہے۔ مرید اپنے شیخ کامل کی صحبت میں محبت و فنافی الشیخ کے مطابق ہر ساعت اُس کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس صورت میں افادہ میں اور استفادہ میں اُسے علم کی کیا حاجت ہے۔ خربوزہ جو حرارتِ آفتاب سے پکتا ہے، کیا ضرورت ہے کہ سُورج یا خربوزہ کو پکانے یا پکنے کا علم ہو۔ اس طریق میں مرید اپنے شیخ کے ساتھ وجوہِ مناسبت جس قدر زیادہ پیدا کرتا ہے اُسی قدر اُس کے حق میں انصباغ زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ (جلد اوّل مکتوب ۱۴۲)
۳۔ قیوم اس عالم میں خُدا جل وعلا کا خلیفہ اور اس کا قائمقام ہوتا ہے۔ اقطاب و ابدال اُس کے ظلال کے دائرہ میں مندرج ہیں اور افراد و اوتاد اُس کے کمال کے محیط میں داخل ہیں عالم کے سب افراد اُس طرف متوجہ ہیں۔ وہ جہان والوں کی توجہ کا قبلہ ہے، جانیں نہ جانیں بلکہ جہان والوں کا قیام اُس کی ذات سے ہے۔ اس لیے کہ عالم کے افراد چونکہ اسماء و صفات کے مظاہر ہیں کوئی ذات اُن کے درمیان نہیں پائی جاتی۔ وہ سب کے سب اعراض و اوصاف ہیں اور اعراض و اوصاف کے لیے ذات اور جوہر کا ہونا ضروری ہے تاکہ اُن کا قیام اس کے ساتھ ہو۔ عادتِ اللہ یُون جاری ہے کہ ازمنۂ دارز کے بعد ایک عارف کو ذات سے ایک نصیب عطا کیا جاتا ہے اور اس کو ایک ذات دی جاتی ہے تاکہ وہ نیابت و خلافت کے طور پر اشیاء کا قیّوم ہوجائے۔ اور اشیاء اُس کے ساتھ قائم ہوں۔ (جلد اوّل مکتوب ۸۶)
۴۔ موت پر تو انداز ہو رہی ہے، اور اُجل مسمّٰی قریب ہے اور مجھ سے کچھ کام نہ ہو سکا اتنے دور دراز سفر کے لیے سامان درست نہیں کیاگیا۔
جاء الموت بحذا قیرہٖ جاءت الرّاجفہ تتعبھا الرادفہ۔
’’موت آگئی، اس کے بعد راجفہ اور رادفہ بھی گویا آہی گئے‘‘۔
ہائے! عمر عزیز کا عمدہ حصہ (شباب) ہوا وہ ہوس میں بسر ہوگیا، اب ظاہر ہے کہ نکمی عمر (بڑھاپا) میں کیا بن سکے گا۔ اس وقت کے عمل کا کیا اعتبار ہوگا۔ خجالت کی وجہ سے پانی پانی ہوا جاتا ہوں۔ اور آخرت کے لیے کوئی عذر سمجھ میں نہیں آتا۔ کسی شاعر نے کیا اچھا کہا ہے:
کنوں چہ عذرِ گناہانِ خویشتن خواہم |
|
کہ شرم، خُوں چکدم ازبدن بجائے عرق |
’’اب میں اپنے گناہوں کا کیا عذر چاہوں، کہ شرم و ندامت کی وجہ سے پسینے کی بجائے بدن سے خون ٹپک رہا ہے‘‘۔ (جلد اوّل مکتوب ۱۵)
۵۔ ہمارے طریقہ میں درجۂ کمال تک پہنچنے کا مدار شیخِ کے ساتھ محبت پر موقف ہے۔ طالب صادق اس محبت کے ذریعے جو شیخ سے رکھتا ہے، اُس کے باطن سے فیوض و برکات حاصل کرتا ہے اور باطنی مناسبت سے ساعت بساعت اُس کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے مشائخ نے فرمایا ہے کہ فنافی الشیخ فنائے حقیقی کا پیش خیمہ ہے۔
۷۔ اس دارِ فانی میں سب سے بڑا مطلب و مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ہے اور معرفت دو قسم کی ہے۔ اوّل وہ معرفت ہے جس کے ساتھ صوفیائے کرام ممتاز ہیں۔ قسم اوّل نظر و استدلال سے وابستہ ہے اور قسم دوم کشف و شہود ہے۔ قسم اوّل دائرہ معمر میں داخل ہے۔ قسم دوم دائرہ حال میں داخل ہے۔ قسم اوّل عارف کے وجود کے فانی کرنے والی ہے اور قسم دوم سالک کے وجود کے فانی کرنے والی ہے کیونکہ اس طریق میں معرفت سے مراد معرفت میں فنا ہے۔
۸۔ اس طریقہ (نقشبندیہ مجدّدیہ) کے بزرگوں کا قول ہے کہ
’’سایۂ رہبر بہ از ذکرِ حق‘‘
’’رہبر کا سایہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بہتر ہے‘‘۔
سایۂ رہبر سے اشارہ طریقۂ رابط کی طرف ہے جس سے مراد شیخ کی صورت میں نگاہ میں رکھنا ہے۔
۹۔ فرمایا کہ کامل طور پر اعمال کی قبولیّت کمالِ ایمان کے اندازہ کے موافق ہے اور اعمال کی نورانیّت کمال اخلاص سے ہے۔ ایمان و اخلاص جس قدر زیادہ ہوں گے اعمال کو نورانیت، قبولیّت اور کمال اُسی قدر زیادہ ہوگا۔
۱۰۔ فرمایا کہ اے بھائی! ناجنس اور مخالف طریقہ کی صحبت سے پرہیز کر اور بدعتی کی مجلس سے بھاگ کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے دل میں اُس کی طرف میلان پیدا ہوجائے اور وہ تیرے کار خانہ میں خلل ڈال دے کیونکہ وہ مقتداء بننے کے لائق نہیں ہے۔
۱۱۔ اس وقت اکثر خام صوفی، ملحد، کافروں کے ساتھ دوستی رکھنے سے نہیں ڈرتے اور یہ کہتے ہیں کہ فقیری کا راستہ کسی کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنا نہیں۔ سُبحان اللہ! حضور سرورِ انبیاء رئیس الفقراء صلی اللہ علیہ وسلم جن کا قول ہے۔ ’’اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ اُن کو حکم ہوتا ہے کہ ’’اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور اُن پر سختی کر‘‘۔ یہ عجیب فقراء ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم نبی، سیّد الانبیاء اور پیشوائے اعظم کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
کسے کہ خلافِ پیمبر راہ گزید |
|
ہر گز نخواہد بمنزل رسید |
’’جس کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ کے خلاف راہ پکڑی وہ کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچ سکے گا‘‘۔
خواجہ محمد معصوم کی اولادِ امجاد
صاحبزادے
۱۔ خواجہ محمد صبغۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۲ھ تا ۱۱۲۱ھ/۱۷۰۹ء)
۲۔ خواجہ محمد نقشبند حجۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۴ھ/۱۶۲۵ء تا ۱۱۱۴ھ/۱۷۰۲ء)
۳۔ خواجہ محمد عبید اللہ، مروج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۸ھ/۱۶۲۹ تا ۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء)
۴۔ خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۴۷ھ تا ۱۱۱۷ھ/۱۷۰۵ء)
۵۔ خواجہ سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۵۵ھ تا ۱۰۹۶ھ/۱۶۸۵ء)
۶۔ خواجہ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۵۷ھ تا ۱۱۳۱ھ/۱۹۔۱۷۱۸ء)
صاحبزادیاں
۷۔ امتہ اللہ بیگم علیما الرحمۃ
۸۔ عائشہ بیگم علیہا الرحمۃ
۹۔ عارفہ بیگم علیہا الرحمۃ
۱۰۔ عاقلہ بیگم علیہا الرحمۃ
۱۱۔ صفیہ بیگم علیہا الرحمۃ
۱۔ خواجہ محمد صبغۃ اللہ
آپ حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت با سعاد ۱۰۳۲ھ مطابق ۱۶۲۳ء میں ہوئی۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ نے خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا تھا کہ ’’محمد معصوم! اس فرزند میں اصلی نُور دکھائی دیتا ہے، اس کا نام صبغۃ اللہ رکھو‘‘۔ آپ نے علوم معقول و منقول انتہائی درجہ تک حاصل کیے۔ بعد ازاں اپنے والد بزرگوار سے علمِ باطن حاصل کیا۔ آپ حضرت مجدّد قدس سرہ کے کمالات کے جامع اور صاحبِ کرامت تھے۔ والد بزرگوار نے آپ کی ولایت کابل و غور کی خلافت دے کر رخصت فرمایا جس کی تفصیل گزشتہ اوراق میں آچکی ہے۔ وہاں آپ سے بہت فیض جاری ہوا۔ ہر صبح و شام ہزار ہا آدمی حلقہ میں شامل ہوتے۔ ۹؍ربیع الثانی ۱۱۲۱ھ/۱۷۰۹ء کو آپ کا وصال ہوا۔ اور اپنے والد ماجد خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے قبّہ میں سرہند شریف میں دفن کیے گئے۔
۲۔ حضرت حجۃ اللہ محمد نقشبند
اِن کے حالات مبارکہ اگلے صفحات میں آرہے ہیں۔
۳۔ خواجہ محمد عبید اللہ مروج الشریعت
آپ عروہ الوثقی خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے تیسرے صاحبزادے ہیں رجب ۱۰۳۸ھ/۱۶۲۹ء میں پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار کو اُن سے بڑی محبت تھی۔ اور کثرتِ محبت کے سبب سے اُن کو ’’حضرت جیو صاحب‘‘ کہا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ تیرے فرزند میری طرح ہوں گے۔ ان فرزندوں سے مراد خواجہ محمد نقشبند اور خواجہ محمد عبید اللہ ہیں۔ حضرت قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم قدس سرہ نے آپ کو طینت و اصالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری دی تھی۔
آپ نے ۱۱؍ربیع الاوّل ۱۰۷۹ھ/۱۶۶۸ء کو مسندِ ارشاد پر جلوس فرمایا اور خلفائے معصومی کو ازسرِ نَو خلافت دی۔ اور باقی مریدوں کو اپنی طرف سے خلافت دے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں بھیج دیا۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ کی خانقاہ کی رونق آپ سے بدستور قائم رہی۔ اسی سال ایک روز نماز فجر کے بعد آپ مراقبہ میں تھے کہ الہام ہوا کہ تمہیں ’’مروج الشریعت‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔
آپ کو تپ دق کا مرض ہوگیا۔ ارشاد کے چوتھے سال شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ اس مرض کے لیے سیر بہت مفید ہے۔ آپ شاہجہان آباد (دلّی) تشریف لے گئے بادشاہ نے آپ سے بیعت کی اور مرض کے علاج کے لیے دوسری ولائتوں سے اطباء طلب کیے مگر کچھ آفاقہ نہ ہوا بلکہ مرض کا غلبہ ہوگیا۔ اس لیے آپ نے بادشاہ سے رخصت لی اور سرہند شریف کو روانہ ہوگئے۔ جب سنبھالکہ میں پہنچے تو جمعۃ المبارک کے دن اشراق کے وقت ۱۹؍ ربیع الاوّل ۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء کو انتقال فرمایا۔ وہاں سے آپ کی نعش کو سرہند شریف لایا گیا اور حضرت عروۃ الوثقی کے قُبّہ میں دفن کردیا گیا۔ آپ صاحبِ کشف و کرامت و تصانیف تھے۔
آپ کی اولاد میں پانچ لڑکے تین لڑکیاں تھیں۔ بیٹوں میں عبدالرحمٰن اور عبدالرحیم تو بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ آپ کے بڑے بیٹے محمد ہادی صاحبِ کشف و کرامات و تصانیف تھے۔ انہوں نے ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۱۲۱ھ/۱۷۰۹ء کو انتقال فرمایا اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے مزار شریف کے اندر جنوب کی طرف مدفون ہوئے۔ خواجہ محمد پارسا آپ کے دوسرے صاحبزادے تھے جن کو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدّد قدس سرہ کے کمالات کی بشارتیں دی۔ آپ بروز سوموار ۱۰؍ربیعُ الاول ۱۱۴۲ھ/۱۷۲۹ء کو فوت ہوئے۔ آپ کا جنازہ آپ کی وصیّت کے مطابق حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ کے گرد پھرایا گیا۔ اور چبوترے کے جنوب مغربی کو نہ میں جہاں آپ نے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی اور فرمایا تھا کہ یہاں میری قبر بنانا،دفن کیے گئے اور مرقد مبارک پر ایک گنبد بنایا گیا۔
۴۔ خواجہ محمد اشرف
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ قدس سرہ کے چوتھے فرزند ہیں۔ ۱۰۴۷ھ مطابق ۱۶۳۷ء میں متولد ہوئے۔ آپ نے مقاماتِ سلوک اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں طے کیے۔ علوم معقول و منقول میں دستگاہ کامل رکھتے تھے۔ ۲۷؍ صفر ۱۱۱۷ھ/۱۷۰۵ء کو فوت ہوئے اور حضرت قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد کے مغرب کی طرف مدفون ہوئے۔ آپ نزع کے وقت حسبی اللہ ونعم الوکیل بار بار پڑھتے تھے۔ آپ کی اولاد چار لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ جب کفار سرہند شریف پر چڑھ آئے تو آپ کے بڑے بیٹے شیخ محمد جعفر اُن سے فی سبیل اللہ جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور حضرت قیوم ثانی کے روضہ (بیرونی قبہ) میں مدفون ہوئے۔ آپ کے چوتھے بیٹے شیخ محمد شافی الحال جامع علوم ظاہر و باطن تھے۔ حضرت مجدّد قدس سرہ کے مکتوبات پر مخالفوں نے جو شبہات کیے ہیں آپ نے ان کا خوب ردّ لکھا ہے۔ آپ نے ۱۱۵۰ھ مطابق ۱۶۴۰ء میں رحلت فرمائی اور حضرت قیوم ثانی کے روضہ مبارک (بیرونی قبہ) میں مدفون ہوئے۔
۵۔ خواجہ سیف الدّین
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ قدس سرہ کے پانچویں فرزند ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت ۱۰۴۹ھ/۱۶۳۹ء میں ہوئی۔ خورد سال میں علم باطن کی طرف متوجہ ہوگئے۔ غفوانِ شباب علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کر کے مجمع البحرین ہوگئے۔ یا یُوں کہہ لیجیے کہ علوم ظاہری و باطنی کمالات صوری و معنوی اور زہدو تقویٰ و اتباع سُنّت میں جامع تھے۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ آپ کے علمی استعداد دیکھ کر ہردم آپ پر خاص نظر عنایت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے عَین ایامِ شباب میں اپنے والد بزرگوار سے کمالات مجدّدیہ کے حصول کی بشارت پائی۔ آپ کا طریقہ ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک، ترکی، برما، سمر قند، بخاراوغیرہ میں پھیلا۔
آپ کی وفات ۲۰؍جمادی اولیٰ ۱۰۹۶ھ/۲۴؍اپریل ۱۶۸۵ء بروز منگل ہوئی۔ سرہند شریف میں ہی آخری آرام گاہ بنی۔
۶۔ خواجہ محمد صدیق
آپ عروۃ الوثقیٰ حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے چھٹے صاحبزادے ہیں۔ ۱۰۵۷ھ مطابق ۱۶۴۷ء میں پیدا ہوئے۔ والد گرامی قدر کی رحلت کے چند سال بعد حج کو تشریف لے گئے اور واپس آکر شاہجہان آباد (ولّی) میں سکونت اختیار کی۔ اور آخری دم تک وہیں رہے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ حضرت مروّج الشریعت خواجہ محمد عبید اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ پر لوحِ محفوظ کا انکشاف ہوا۔ وہاں پر میں لکھا دیکھا، ’’محمد معصوم اور اس کے تلے صدیق ولی‘‘۔ فرمایا، صدیق ولی سے مراد میرے بھائی محمد صدیق ہیں۔ صاحبِ کشف و کرامات اور علم و فضل تھے۔ آپ نے ۱۱۳۱ھ بمطابق ۱۷۱۹ء میں انتقال فرمایا۔ آپ کی نعش مبارک سرہند شریف لائی گئی۔ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے روضۂ مبارک کے شمال کی طرف خانقاہ کے سامنے مدفون ہوئے۔ آپ کے مرقد پر ایک عالیشان گنبد بنایا گیا۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ محمد معصوم قدس سرہ
آپ مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و فرزند سوم تھے۔ آپ کی ولایت ۱۰ شوال ۱۰۰۷ہجری میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار فرماتے تھے کہ محمد معصوم کی آمد ہمارے واسطے بہت مبارک ہوئی۔ کیونکہ ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہم حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی ملازمت سے مشرف ہوئے اور ان کی خدمت میں دیکھا جو کچھ دیکھا۔
ایام طفولیت:
لڑکپن ہی میں آپ کے والد بزرگوار آپ کی بلند استعداد کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ لڑکا محمدی المشرب ہے۔ چنانچہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں از فرزندی محمد معصوم چہ نویسد کہ دے بالذات قابل ایں دولت است یعنی ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ واللسام۔ اور یہ بھی فرماتے تھے کہ محمد معصوم کی بلند استعاد کی وجہ تھی کہ تین سال کی عمر میں حرف توحید آپ کی زبان سے نکلا۔ اور یوں کہنے لگے کہ میں آسمان ہوں، میں زمین ہوں، میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، دیوار حق ہے۔ حضرت شیخ نے اُس وقت فرمایا کہ اس طریق میں پیر و جوان برابر ہیں۔ اور انوار فیوض کے وصول میں عورتیں اور بچے مساوی ہیں۔
ظاہری و باطنی علوم کا حصول:
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ آثار رشد کو دیکھ کر آپ پر نظر عنایت رکتے تھے اور فرماتے تھے کہ چونکہ علم مبدأ حال ہے۔ا س کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے حجرت نے آپ کو علوم معقول و منقول کی تحصیل کی ہدایت کی۔ اکثر علوم آپ نے اپنے والد بزرگوار سے اور کچھ اپنے بڑے بھائی خواجہ محمد صادق اور شیخ محمد طاہر لاہوری سے پڑھے۔
چودہ سال کی عمر میں آپ نے واقعہ میں دیکھا کہ میرے بدن سے ایک نور نکلتا ہے کہ اُس سے تمام عالم منور ہے۔ اور وہ نور عالم کے ہر ذرہ میں ساری ہے۔ مثل آفتاب کے کہ اگر وہ غروب ہوجائے تو عالم تاریک ہے۔ آپ نے یہ واقعہ اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں عرض کیا۔ تو حضرت نے آ پ کو بدیں الفاظ بشارت دی۔ تو قطب وقت خویش مے شوی و ایں سخن از من یاد دار (مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول۔ مکتوب ۸۶)
چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا کہ ایک جہان آپ کے انوار و برکات سے معمور ہوگیا۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ بابا! تحصیل علوم سے جلدی فارغ التحصیل ہوجاؤ۔ کیونکہ ہم کو تم سے بڑے بڑے کام لینے ہیں۔ غرض حضرت کی توجہ سے آپ سولہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔۔ بعد ازاں ہمہ تن متوجہ باطن ہوئے۔ اور عنایت الٰہی سے اپنے والد بزرگوار کے احوال و اسرار خاصہ سے حظ وافر حاصل کیا۔
صاحب زبدۃ المقامات نے لکھا ہے کہ ایک روز میں نے خود حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ فرماتے تھے کہ محمد معصوم کا حال روز بروز میری نسبتوں کے حاصل کرنے میں صاحب شرح وقایہ (صدرالشریعہ عبیداللہ) کا سا ہے۔ جو شرح وقایہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ میرے دادا (تاج الشریعہ محمود) بمقدار سبق تصنیف کرتے تھے۔ میں اُسی قدر حفظ کرلیتا تھا۔ یہاں تک کہ جس روز وقایہ کی تصنیف ختم ہوئی اسی روز میرا حفظ کرنا ختم ہوا۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالاحد وحدت نے اسی مضمون کو اپنی نظم میں بکمال لطافت و نزاکت ادا کیا ہے۔ ؎
مجدد بتوصیفِ او لب کشاد |
|
بفرمود کاے پورِ عرفاں نژاد |
فضائل و مناقب:
۱۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو خلعت قیومیت کی بشارت دی۔ چنانچہ ایک مکتوب میں آپ کو اور خواجہ محمد سعید رحمہا اللہ تعالیٰ کو یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’کل نماز فجر کے بعد میں خاموش بیٹھا تھا کہ ظاہر ہوا کہ جو خلعت مجھ پر تھی وہ مجھ سے جدا ہوگئی۔ اور یہ آرزو ہوئی کہ اگر وہ دی جائے تو میرے فرزند ارشد محمد معصوم کو دی جائے۔ ایک لمحہ کے بعد دیکھا کہ میرے بیٹے کو عطا کی گئی۔ اور اُسے پوری پوری پہنادی گئی۔ اس خلعت زائلہ سے مراد معاملہ قیومیت تھا۔ جس کا تعلق تربیت و ارشاد سے تھا۔ اور اس مجمع گاہ سے تعلق کا سبب یہی معاملہ قیومیت تھا۔ا ور اس نئی خلعت کا معاملہ جب انجام کو پہنچے گا اور اتارنے کے لائق ہوجائے گی تو امید ہے کہ کمال کرم سے وہ میرے فرزند عزیز محمد سعید کو عطا کی جائے گی۔ یہ فقیر ہمیشہ تضرع سے یہ دعا کرتا ہے اور قبولیت کا اثر دیکھتا ہے اور اپنے فرزند محمد سعید کو اس دولت کا مستحق پاتا ہے۔ مصرعہ۔ باکریماں کا رہا دشوار نیست۔ اگر استعداد ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی داد ہے ؎
نیا ور دم از خانہ چیزے نخست
تو دادی ہمہ چیز من چیز تست
(مکتوبات احمدیہ جلد ثالث مکتوب ۱۰۴)
جب یہ مکتوب صاحبزادگان کو ملا تو اسے پڑھ کر دونو صاحبزادے بہت جلدی اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں پہنچے۔ حضرت نے ان پر بڑی مہربانی کی اور خواجہ محمد معصوم کو خلوت میں بلاکر خلعت قیومیت عنایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت عروۃ الوثقیٰ اپنے خلیفہ محمد حنیف کابلی کو یوں تحریر فرماتے ہیں۔
’’جس وقت حضرت مجدد الف ثانی قدس اللہ سبحانہ سرہ الاقد س نے اپنے مخلصوں میں سے ایک درویش کو خلعت قیومیہ سے مشرف فرمایا اور اس بڑے رتبہ سے اُس کو سرفراز فرمایا تو اس درویش کو خلوت میں بلاکر فرمایا کہ اس مجمع گاہ سے تعلق کا سبب یہی معاملہ قیومیت تھا جو تجھے عطا کیا گیا اور مخلوقات و موجودات بڑے شوق سے تیری طرف متوجہ ہوئی اب میں اس جہانِ فانی میں اپنے رہنے کا سبب نہیں پاتا اس جہان سے میری رحلت کا وقت قریب آگیا۔‘‘ (مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول، مکتوب ۸۶)۔
اس عبارت کے بعد مذکور ہے کہ آپ باوجود اس بشارت کے جگر کباب ہوئے اور آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ حضرت مجدد نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ سنت الٰہی اس طرح جاری ہے کہ ایک کو بلالیتے ہیں دوسرے کو اس کی جگہ بٹھادیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ یوں لکھتے ہیں:
’’چونکہ اس درویش نے اپنے آپ میں کسی طرح قیومیت کی لیاقت نہ پائی۔ اور نیز رنج و الم اُس کے دل میں مرکوز تھا۔ ہاں یا نہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی نہ پوچھ سکا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت نے فرمایا کہ اشیاء میری قیومیت کی نسبت تیری قیومتی پر زیادہ راضی اور زیادہ خوش ہیں میں اس کا سبب دریافت نہ کرسکا۔ کسی نے اچھا کہا ہے ؎
وحشی گزشت باز نہ کردی حکایتے
اے خانماں خراب زبان تو بستہ بود
جب حضرت نے اس درویش کا غم پہلے سے زیادہ دیکھا تو فرمایا کہ میری رحلت میں کچھ مدت باقی ہے لیکن دیکھتا ہوں کہ کیا علاقہ درمیان ہے۔ متوجہ ہوکر ایک لمحہ بعد فرمایا کہ میرے ایام وصال تک تیرا قیام مجھ سے اور افراد عالم کا قیام تجھ سے ہوگا اس ارشاد سے اس مسکین کے غمگین دل کو ایک گونہ تسلی ہوگئی اس واقعہ کے ایک سال اور چند دن کم تین ماہ بعد حضرت کا وصال ہوگیا کیونکہ یہ واقعہ ذی الحجہ ۱۰۳۲ھ کے پہلے عشرہ کا ہے۔ اور اس ہادی کمال کا وصال ۲۸ صفر ۱۰۳۴ھ کو ہوا‘‘۔
اصالت و محبوبیت ذاتی:
آپ کو اصالت اور محبوبیت ذاتی عطا ہوئی۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ جب تک کوئی شخص صالت سے بہرہ ور نہ ہو۔ اُسے قیومیت کی نسبت حاصل نہیں ہوسکتی۔ عالی حضرت متعالی منقبت نے جس درویش کو نسبت قیومیت کے حصول کی خوشخبری دی تھی اُسے حصول اصالت کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا اور نیز فرمایا کہ اصالت کا جس قدر حصہ تجھے حاصل ہے اس کے موافق تیری خلقت میں محبوبیت ودیعت رکھی گئی ہے یعنی آپ نے اُس کے حق میں محبوبیت ذاتی اور کمال انفعالی کا نشان دیا۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز‘‘۔ (مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول مکتوب ۸۶)۔
۳۔ آپ کا وجود مبارک حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خمیر طینت کے بقیہ سے بنا۔ چنانچہ آپ خود یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بقیہ جو حضور سرورِ دین و دنیا علیہ وعلیٰ آلہ الصلوات والبرکات العلیٰ کی خلقت سے رہ گیا تھا۔ اُسے بطور اُلُش حضور کی امت کے دولتمندوں میں سے ایک کو عطا کیا ہے۔ اور اُس فرد کی طینت کا خمیر اُس سے کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے اُس فرد کو اصالت سے بہرہ ور کیا ہے۔ اس فرد کی طینت کی خمیر کے بعد بھی تھوڑا سا بقیہ رہ گیا تھا۔ وہ بقیہ اس فرد کے مریدوں میں سے ایک کے نصیب ہوا ہے۔ا ور اس کی طینت کا خمیر اُس سے کیا گیا ہے اور اس کے اندازے کے موافق اُسے اصالت کا حصہ ملا ہے۔ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعٌ الْمَغْفِرَۃِ۔‘‘ (مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول۔ مکتوب ۱۹۲)
سابقین میں داخل:
آپ زمرہ سابقین میں داخل ہیں اور اسرار مقطعات سے بھی آپ کو نصیب ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت پیر دستگیر نے ایک دن فرمایا کہ میں ایک روز زمرہ سابقین میں نظر ڈال رہا تھا کہ جن کی شان میں حق سبحانہ نے فرمایاہے ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاّوَّلِیْنَ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ میں نے اپنے آپ کو اس زمرہ میں داخل پایا۔ اور اپنے مریدوں میں سے بھی ایک کو وہاں اپنے ساتھ پایا۔ اسی طرح متشابہات کے اسرار کی بابت بھی آپ نے لکھا ہے کہ متشابہات اشارہ معاملات کی طرف ہے۔ جائز ہے کہ ایک شخص کو معاملہ حاصل ہو۔ اور اسے اس معاملہ کا علم نہ ہو۔ اس بات کو آپ نے اپنے مریدوں میں سے ایک فرد میں مشاہدہ فرمایا ہے۔ دیکھیے دوسروں کو کیا ملے ؎
سعادتہاست اندر پردۂ غیب
نگہ کن تا کرار یزند در جیب
(مکتوبات معصومیہ۔ جلد اول۔ مکتوب ۲۳۷)
عروۃ الوثقیٰ:
حق تعالیٰ نے آ کو عروۃالوثقیٰ کا خطاب دیا۔ چنانچہ ۱۰۳۵ھ میں ای کر وز آپ نے فرمایا کہ آج میں صبح کے حلقہ میں بیٹھا تھا کہ جناب سرور کائنات خلاصہ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوکر مجھ سے بغلگیر ہوئے۔ اور فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آپ کو عروۃ الوثقیٰ کا خطاب دیا ہے۔ اس نعمت عظمیٰ کا شکر بجالاؤ۔ اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام مقرب فرشتوں اور انبیاء و اولیا نے آکر میرے گرد حلقہ بنایا اور کہتے ہیں۔ اسلام علیکم یا محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ۔ پھر ہر ایک نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں نے سہری خط سے عرش مجید کے گرد محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ لکھا ہوا دیکھا (روضہ قیومیہ)۔
۶۔ حضرت مروج الشریعت رحمۃ اللہ علیہ یا قوت احمر میں لکھتے ہیں کہ ایک روز حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آج فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے میں مراقبہ میں بیٹھا تھا کہ مجھ پر ظاہر ہوا کہ تمام جہان اہل جہان آدم وغیرہ ساری مخلوقات مجھے سجدہ کر رہے ہیں میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آخر یہ بھید کھال کہ کعبہ میری ملاقات کو آیا جس نے مجھے گھیر لیا۔ اس واسطے جو شخص کعبہ کو سجدہ کرتا تھا مجھے ظاہر میں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے سجدہ کر رہا ہے ان کے علاوہ اور فضائل ہیں جن میں سے بعضے آئندہ مذکور ہوں گے۔
حرمین شریفین کی زیارت:
آپ اپنی قیومیت کے چونتیسویں سال حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے وہاں کے بعض معاملات آپ کے فرزند ثانی مروج الشریعت خواجہ عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رسالہ میں لکھے ہیں جس کا نام یاقوت احمر ہے۔ اس میں سے چند واقعات یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
حج کی قبولیت کا پروانہ:
حضرت قیوم ثانی فرماتے ہیں کہ جب ہم ایام تشریق میں منیٰ سے شہر میں آئے تو طواف سے فارغ ہونے پر ظاہر ہوا کہ فرشتہ نے محض ادائے ارکان پر حج کی قبولیت اور اجر کا مہر شدہ کاغذ ہمیں عطا کیا ۔ ایام قیام مکہ میں آپ اکثر طواف میں مشغول رہا کرتے۔ اس وقت اس عبادت کو بہترین عبادت جانتے تھے۔ اور فرماتے کہ عجیب و غریب باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھتا ہوں کہ کعبہ ہم سے گلے ملتا ہے اور بڑے اشتیاق سے چومتا ہے۔ انہیں دنوں میں ایک روز ظاہر ہوا کہ مجھ سے انور و برکات اس کثرت سے نکلتے ہیں کہ انہوں نے تمام چیزوں کو گھیرلیا ہے اور جنگل و بیابان ان سے پر ہوگیا ہے۔ اور ان کے مقابلہ میں تمام دیگر انوار چھپ گئے ہیں۔ جب میں اس کی حقیقت کے دریافت کے واسطے متوجہ ہوا تو معلوم ہو اکہ مجھ سے میری حقیقت دور کرکے کعبہ کی حقیقت سے مشرف فرمایا گیا ہے۔
محرم کی تیسری تاریخ کو آپ اہلِ معلیٰ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر پر توقف کے بعد فرمایا کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے انوار موجزن ہیں۔ پھر حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے روضۃ مبارک پر طویل مراقبہ کے بعد فرمایا کہ مائی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس قدر عنایات فرمائیں کہ جن کا بیان نہیں ہوسکتا۔ حتی کہ سر اوقات حجاب سے نکل کر فرمانے لگیں کہ فلاں شخص کو یہ انعام دو فرمایا کہ جب ہم فاتحہ سے فارغ ہوئے تو سر اوقات میں تشریف لے گئیں ۔ بعد ازاں حضرت فضیل بن عیاض، سفیان ثوری وغیرہ کے مزارات پر فاتحہ پڑھی اور ان کے حق میں تعریفی کلمات فرمائے۔
ایک رات آپ وتر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ فرمایا رکن یمانی کے نزدیک بہت سے فرشتے موجود ہیں۔ چنانچہ حدیث میں بھی وارد ہے کہ ستر ہزار فرشتے رکن یمانی کے نزدیک رہتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا کہ وہ اپنی جگہ سے سرک کر میرے گرد اگرد جمع ہوگئے۔ اور ان کے ہاتھوں میں قلم دوات ہے۔ میری حقیقت لکھ کر چلے گئے۔ فرمایا کہ ایک روز بعد نماز فجر حلقہ میں دیکھا کہ مجھے ایک خلعت عالی عطا ہوا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ خلعت عبودیت ہے۔ ایک روز آپ حلقہ ذکر میں بیٹھے تھے۔ مراقبہ کے بعد فرمایا قلم دوات عنایت ہوئی۔ گویا مجھے منصب وزارت عطا ہوا ہے۔ اور جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت سے مجھے تمام مخلوقات پر وزیرِ اعظم بنایا گیا ہے۔
جب حرم شریف سے رخصت ہونے کے دن قریب آئے تو الطاف عظیمہ اور انعامات جلیلہ مرحمت ہوئے اور معلوم ہوا کہ ایک خلعت عالی سبز رنگ مکلل بجواہر عنایت ہوا جو خلعت وداع تھا اور بعضے صاحبزادگان جو رفیق سفر تھے اُن کو بھی عنایت ہوا۔
مدینہ منورہ میں حاضری:
مکہ مشرفہ سے روانہ ہوکر آپ مدینہ منورہ میں پہنچے۔ اور روضہ منورہ پر حاضر ہوکر آداب زیارت بجالائے ۔ روضہ مطہرہ سے کمال عنایت ظاہر ہوئیں۔ تین چار روز کے بعد اہل مدینہ نے داخل طریق ہونے کی درخواست کی۔ آپ نے ب پاس ادب اس معاملہ میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور جواجہہ شریفہ میں کھڑے ہوکر مراقبہ کیا۔ چنانچہ کمال رضا اس معاملہ میں معلوم ہوئی۔ اور خلوت اورارشاد عنایت ہوا۔ اور انوار و عنایات حضرت شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ظاہر ہوئے۔
فرمایا کہ اگرچہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار بقیع میں ہے۔ مگر حجرہ شریفہ ان کا گھر ہے۔ اکثر اوقات ام المومنین کو حجرہ شریفہ میں حضرت نبوی کے پاس پاتا ہوں اور مسجد شریف کو ان کے انوار سے پُر دیکھتا ہوں۔
آپ کو مسجد نبوی میں دو روز کے اعتکاف کی اجازت ہوئی۔ رات کے وقت جب سب کو وہاں سے حسب معمول علیحدہ کردیا گیا۔ تو آپ مواجہہ شریف میں جاکر مراقب ہوئے، فرمایا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ خاص سے باہر تشریف لائے اور بکمال عنایت مجھ سے بغلگیر ہوئے۔ اُس وقت مجھ کو الحاق خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت سے حاصل ہوا۔
فرمایا کہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مقدس مرکز جمیع عالمیان ہے۔ عرش سے فرش تک تمام مخلوقات آپ کی محتاج ہے۔ اور آپ سے فیض یاب ہے۔ اگرچہ وہاب مطلق اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن لغاضہ آپ کے توسل شریف سے ہوتا ہے۔ اورمہمات ملک و ملکوت آپ کے اہتمام سے سرانجام پاتی ہیں۔ شب و روز کافہ مخلوقات پر روضہ مطہرہ سے انعام فائض ہوتا رہتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپ وما ارسلنک الا رحمۃ للعٰلمین ہیں۔ باوجود اس عموم رحمت کے استغناء جو مقام محبوبیت کو لازم ہے بوجہ اُتم و اکمل پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے حضور میں عرض حاجت کے واسطے توسل کی ضرورت ہوتی ہے اور بلا توسل مشکل معلوم ہوتی ہے۔
ایک روز فرمایا کہ کل سے ظہور اسرار و تلاطم امواج انوار معلوم ہوتا تھا اور آج ایک سا معاملہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اشارہ سے بھی ظاہر نہیں کرسکتا۔ اور اگر ظاہر ہو۔ قطع البلعوم و ذبح الحلقوم کا سزاوار ہوں۔ مگر بعض مقامات رمز سے کہتا ہوں اور وہ معاملہ کمون و بروز ہے۔ جب شیخ کامل یہ چاہتا ہے کہ اپنے جمیع کمالات کسی مرید صادق میں اضافہ کرے تو اپنے سے غائب ہوکر نفس مرید میں ظاہر ہوتا ہے اور اُس وقت وہ مرید بتمامہ مرشد کے رنگ میں ہوجاتا ہے اور اس کے جملہ حقائق و لطائف سے متحقق ہوجاتا ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی اس معاملہ کو اپنی نسبت حضرت خیرالبشر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ثابت کیا کرتے تھے۔ اب اس قسم کا معاملہ فقیر کی نسبت جناب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پاتا ہے۔ اس سبب سے بعض معاملات ایسے درمیان میں آتے ہیں کہ لاعین رأت والا اذن سمعت اور اسی وجہ سے رات جو اشعار نعت و قصائد مدحیہ حسب رسم قدیم پڑھے گئے سب کو اپنی طرف منسوب پاتا تھا اسی اثنا میں آپ کے صاحبزادہ ثانی نے عرض کیا کہ کمون و بروز بھی فناء بقا متعارفۂ قوم ہے یا کوئی علیحدہ معاملہ ہے۔ فرمایا کہ نہیں، یہ غیر فنا و بقا ہے اور اُس سے بدرجہ ممتاز ہے۔
ایک روز آپ بقیع میں گئے۔ واپسی پر فرمایا کہ جس قبر پر میں جاتا تھا صاحب قبر جس طرح بعنایت پیش آتا تھا اسی طرح دوسرے اہل قبور کہ جن کی قبروں پر جانے کا ارادہ ہوتا تھا منتظر رہتے تھے اور میری ملاقات کے لیے اس طرح جمع ہوتے تھے جیسا کہ کسی نہایت عزیز مہمان کے واسطے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضۃ پر پہنچا۔ میری طرف اکر مجھ سے ملحق ہوگئے۔ کبھی میری گود میں لیٹتے تھے اور کبھی گلے سے لپٹتے تھے۔ بالکل نور ہی نور تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس جگر گوشہ کے حق میں فرمایا تھا لو عاش لکان نبیا۔
فرمایا کہ بقعات مبارکہ اور مزارات متبرکہ میں میری نسبت نے ظہور عجیب و انجلاے غریب پیدا کیا اور میں نے اپنا قرب و منزلت بجناب اقدس و تعالیٰ مشاہدہ کیا۔ محسوس ہوا کہ تمام عالم اس نسبت کے انوار سے بھر گیا ہے اور موجودات عالم صف باندھے ہوئے میرے گرد ہیں اور میں اُن میں امام معلوم ہوتا ہوں اور کافہ مخلوقات کو جو فیوض و برکات گوناگوں پہنچتی ہیں۔ اس درویش کے توسط سے پہنچتی ہیں۔ اور تمام مخلوقات کیا اولیا کیا غیر اولیا اس فقیر سے حصول برکات و ترقیات کے منتظر ہیں اور اکثر اوقات قلم دوات اپنے پاس تصحیح مہمات ملک کے لیے حاضر ہوتا ہوں جیسا کہ وزیراعظم کو بارگاہِ سلطان میں نسبت و قدرت ہوتی ہے وہی حالت مجھے اپنی نسبت سمجھ میں آتی ہے۔ فرمایا کہ بقیع میں یوں تو سب بعنایت پیش آتے ہیں۔ مگر امیر المومنین سیّدنا عثمان اور حضرت عائشہ صدیقہ اور سیدنا ابراہیم و عبدالرحمٰن بن عوف و عبداللہ بن مسعود و امام اسماعیل بن امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اوروں سے زیادہ مہربان ہیں۔
فرمایا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ سے روانہ ہونے لگا۔مسجد شریف میں رخصت کے واسطے حاضر ہوا۔ جدائی کے غم و الم کے سبب سے بے اختیار بار بار رونے لگا۔ اسی حالت میں حضرت رسالت خاتمیت کمال عظمت سے روضۃ مطہرہ سے حاضر ہوئے۔ اور نہایت کرم سے خلعت تاج سلاطین بکمال علو و رفعت کہ ہرگز ایسا نہیں دیکھا گیا تھا احقر کو پہنایا اور محسوس ہوا کہ اس تاج پر ایک شہپر کا طرہ لگا ہوا ہے اور اُس پر ایک لعل جڑا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ یہ خلعت خاص جسمِ اطہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اترا ہوا ہے اور دیگر خلعتوں کی طرح نہیں۔ اور فرمایاکہ خلعت عطا کرنے سے نظر کشفی میں نسبت خاصہ مرحمت فرمانا مراد ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے وطن کو واپس ہوئے۔
کرامات کا بیان:
آپ کے تصرفات و کرامات بہت ہیں۔ جن میں سے صرف چند بطور اختصار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
آگ گلزار ہوگئی:
ایک جوگی جادو سے آگ باندھ دیتا تھا۔ اورلوگوں کو اس شعبدہ سے فریفتہ کرتا تھا۔ یہ سن کر آپ کو غیرت آئی۔ اور بہت سی آگ روشن کرکے یٰنارکونی بردا و سلاما علی ابراھیم پڑھ کر دم کیا اور ایک شخص کو فرمایا کہ اس میں بیٹھ کر ذکر کر۔ چنانچہ وہ آگ میں بیٹھ کر ذکر میں مشغول ہوا اور آگ اُس پر گلزار ہوگئی۔
شیر کو بھگادیا:
ایک روز آپ وضو فرما رہے تھے کہ ناگاہ خادم سے لوٹا لے کر دیوار پر مارا اور وہ لوٹا ٹوٹ گیا۔ آپ نے دوسرے لوٹے سے وضو فرمایا۔ حاضرین نے اس امر کو ذہن میں رکھا۔ مدت کے بعد ایک سودا گر آیا۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں بنگالہ کی طرف ایک صحرا میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شیر میری طرف غراتا چلا آتا ہے۔ میں نہایت خوف زدہ ہوا۔ اچانک حضرت کو دیکھا کہ لوٹا لیے آتے ہیں۔ آپ نے وہ لوٹا اُس شیر کی طرف بڑے زور سے پھینکا اس کے کوف سے شیر بھاگ گیا اور میں محفوظ رہا۔
قضا تبدیل کردی:
ایک شخص اپنے بیٹے کو آپ کی خدمت میں لایا اور عرض کیا کہ یہ کسی عورت پر عاشق ہوگیا ہے۔ نہ دنیا کا کام کرتا ہے نہ عاقبت کا۔ آپ اُس کو سمجھانے لگے۔ اُس نے کہا ؎
در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
گر تو نمے پسندی تبدیل کن قضا را
یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ ہم نے تیری قضا تبدیل کردی۔ چنانچہ وہ فوراً تائب ہوا اور خیالِ عشق جاتا رہا۔
بینائی لوٹ آئی:
آپ کے ایک عزیز مخلص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میری آنکھ میں درد ہوا۔ ہر قسم کا علاج کیا، لیکن فائدہ نہ ہوا۔ ایک شخص نے اس سے اپنی مجرب دوا کی تعریف کی۔ بیچارے نے اس کا بھی استعمال کیا۔ مگر لگاتے ہی اس کی بصارت بالکل جاتی رہی۔ اسی اثنا میں حجرت حج سے واپس تشریف لائے۔ یہ بھی کسی کا ہاتھ پکڑ کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کو دیکھ کر بہت افسوس کیا۔ اور اپنا لعابِ دہن اس کی آنکھوں میں ڈال کر فرمایا کہ اسی طرح گھر چلا جا۔ وہاں جاکر آنکھیں کھولنا۔ چنانچہ اُس شخص نے ایسا ہی کیا۔ گھر جاکر آنکھیں جو کھولیں تو بینائی موجود پائی۔
جلال کی کیفیت:
حضرت کے ایک داماد نے پوشید طور پر کسی اور عورت کی طرف رجوع کیا۔ صاحبزادوں نے آپ سے اس امر کی شکایت کی۔ آپ کی زبان سے نکلا کہ مرجائے گا۔ صاحبزادوں نے عرض کیا کہ جیتا رہے۔ فرمایا کہ بس اب جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب ایمان کی دعا کرو۔ چنانچہ تین چار روز کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔
روپیہ کم نہ ہوا:
حضرت کے ایک مرید نے بیان کی کہ مجھے افلاس نے تنگ کیا۔ تو میں نے گھبرا کر حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ افلاس کے ہاتھوں سخت لاچار ہوں۔ حضرت نے مجھے روپیوں کا بدرہ دیا اور فرمایا کہ اسے گننا مت جس قدر چاہو۔ خرچ کیے جاؤ۔ میں حسب ضرورت اس میں سے وقتاً فوقتاً خرچ کرتا رہا حتی کہ میں ایک لاکھ روپیہ اس میں سے خرچ کرچکا۔ لیکن وہ اتنے کا اتنا ہی تھا ایک روز میری بیوی نے وہ روپیہ گنا تو سات سو نکلا اس کے بعد جب ہم نے خرچ کیا تو ختم ہوگیا۔
مرید کی مدد:
ایک روز آپ خانقاہ میں تشریف رکھتے تھے کہ ناگاہ آپ کا دست مبارک اور آستین پانی سے تر ہوگئے۔ حاضرین تعجب کرنے لگے اور آپ سے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے ایک سوداگر مرید کا جہاز غرق ہونے لگا تھا اس نے ہماری طرف توجہ کی۔ اور اپنی نجات کے لیے دعا مانگی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو غرقاب سے نکال کر ساحلِ نجات پر پہنچا دیا۔ ایک مدت کے بعد وہ سوداگر حاضر خدمت ہوا اور ایک رقم کثیر بطور نذر لایا۔ اور جہاز کے غرق ہونے اور نجات پانے کا قصہ بیان کیا۔
ڈوبنے سے بچالیا:
آپ کے خلیفہ خواجہ محمد صدیق پشاوری بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت سے اجازت لے کر اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ راستے میں سلطانپور کی ندی کے پل کے نیچے کپڑے پاک کر رہا تھا کہ میرا پاؤں پھسلا اور پانی سر سو اونچا ہوگیا۔ میں تیرنا نہیں جانتا تھا۔ پانی مجھے کبھی اوپر لاتا کبھی نیچے۔ زندگی کی امید باقی نہ رہی تھی۔ یکایک حضرت نمودار ہوئے اور ہاتھ ڈال کر مجھے نکال لیا اور نظر سے غائب ہوگئے۔
لکڑیوں کا گٹھا:
خواجہ محمد صدیق پشاوری کا بیان ہے کہ میرا ایک مخلص نو روز بیگ نامی جو حضرت کے دیدار فیض آثار سے مشرف ہوا ہے بیان کرتا ہے کہ میں لکڑیاں بیل پر لاد کر لا رہا تھا کہ لکڑیوں کا گٹھا بیل پر سے زمین پر گر پڑا۔ کوئی شخص وہاں نہ تھا جو لدوانے میں میری امداد کرے۔ میں حیران و پریشان کھڑا تھا اتنے میں میں نے حضرت کو آتے دیکھا کہ آئے اور بیل پر گھا لدواکر میرے حوالہ کردیا اور پھر نظر سے غائب ہوگئے۔
جہاز کو بچالیا:
آپ کے ایک مخلص حاجی نورالدین بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حرمین کی زیارت کو روانہ ہوا اور جہاز پر سوار ہوگیا۔ ہوا کی شدت اور طغیانی کے سبب سے جہاز ڈوبنے لگا۔ اکثر لوگوں نے اپنا سامان دریا میں ڈال دیا۔ تاکہ جہاز ہلکا ہوجائے اور ڈوبنے سے بچ رہے۔ میں اس حال میں حضرات مخد ومزادگان کی طرف متوجہ ہوا اور نہایت عاجزی سے التجا کی کہ یا حضرت وقت امداد ہے۔ متوجہ ہوتے ہی دونوں مخد و مزادے تشریف لائے اور فرمایا کہ مطمئن رہو ہم تمہاری امداد کے لیے آپہنچے ہیں۔ اب جہاز نہیں ڈوبے گا۔ میں نے یہ بشارت سن کر لوگوں سے کہا کہ کوئی شخص اپنا سامان دریا میں نہ پھینکے۔ ان شاء اللہ اب جہاز نہیں ڈوبنے کا۔ کیونکہ بزرگان دین نے مجھے بشارت دی ہے۔ چونکہ لوگوں کے خیال میں جہاز کا بچنا دشوار تھا کسی نے میرا قول باور نہ کیا۔ مگر فوراً لہریں بند ہوگئیں اور جہاز ٹھہر گیا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ حضرت کے معتقد اور اس فقیر کے مخلص ہوگئے۔ اور ہم بخیریت روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوئے۔
آواز کی کرامت:
جب آپ نماز کے وقت قراءت پڑھتے تو آپ کے پیچھے بعض اوقات سو صوف بھی ہوتی مگر آواز اس قسم کی تھی کہ جتنی اونچی آواز پہلی صف والوں کو سنائی دیتی اتنی ہی آخری صف والوں کو سنائی دیتی تھی۔
گستاخ کا انجام:
ایک شخص نے آپ کے حضور میں ایک رافضی کا ذکر کیا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو برا بھلا کہتا ہے۔ آپ سخت ناراض ہوئے۔ خربوزہ کھا رہے تھے۔ آپ نے چھری ہاتھ میں لے کر خربوزہ پر رکھ کر فرمایا کہ لو ہم رافضی کا سر کاٹتے ہیں۔ خربوزہ کو دو ٹکڑے کردیا۔ اُسی روز رافضی مرگِ مفاجات سے مرگیا۔
سینہ روشن کردیا:
ناصر علی شاہ کا بیان ہے کہ مجھے شعر کہنے کا از حد شوق تھا۔ لیکن کہنا نہیں آتا تھا۔ ایک روز میں حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس وقت آنجناب وضو کر رہے تھے۔ ازراہِ عنایت فرمایا کہ علی! جو چاہو مانگو۔ میں نے عرض کیا۔ زبان چاہتا ہوں، فرمایا ارے کم ہمت، اچھا یہ لو میرے وضو کا پانی پی لو، کافی ہوگا۔ میں نے حسب الارشاد وضو کا پانی پیا۔ پیے ہی میرا سینہ معرفت الٰہی سے منور اور میرا دل مظہر فیض الٰہی ہوگیا۔ میری زبان سے اس قدر شعر نکلنے لگے کہ جن سے بڑھ کر وہم و قیاس میں بھی نہ آسکتے تھے۔ چنانچہ اسی کا یہ شعر ہے۔
بایں شوخی غزل گفتن علی از کس نمے آید
بایراں مے فریسم تاکہ مے گوید جوابش را
مرض دور کردیا:
حضرت کے ایک مرید کا بیٹا بیمار ہوگیا۔ بہتیرا علاج کیا۔ لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ مرض دن بدن ترقی پر تھا۔ ماں باپ نا امید ہوکر لڑکے کو حضرت کی خدمت میں لائے، لڑکا مرگیا۔ اور باپ بھی بے قراری کی وجہ سے زمین پر گر پڑ ااور قریب الموت ہوگیا۔ جب حضرت نے لڑکے کو مرا ہوا اور باپ کو بھی مردوں کی طرح پڑا ہوا دیکھا تو اُس کے حال پر رحم آیا۔ اس لڑکے پر توجہ فرمائی اور دیر تک کھڑے رہ کر اس پر مراقبہ کیا۔ دیر بعد تھوڑا سا پانی لے کر کچھ آیتیں پڑھ کر دم کیا اور وہ پانی لڑکے پر چھڑکا، چھڑکتے ہی لڑکا اُٹھ بیٹھا گویا مرض کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حاضرین یہ حال دیکھ حیران رہے اور پہلے کی نسبت ان کا اعتقاد زیادہ ہوگیا۔
بیعت و خلافت کی کیفیت:
حضرت قیام ثانی یکم ربیع الاوّل ۱۰۳۴ھ کو مسند ارشاد و قیومیت پر جلوہ افروز ہوئے اس روز پچاس ہزار آدمیوں نے آپ سے بیعت کی۔ جن میں سے دو ہزار حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء تھے۔ باقی خلفاء جو مختلف ممالک میں تھے وہ بھی مختلف اوقات میں سرہند میں حاضر خدمت ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے۔ ماوراء النہر۔ خرسان و بدخشان وغیرہ ممالک کے بادشاہوں نے اپنے وکیل مع تحائف بھیج کر غائبانہ آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ قیومیت کے تیسرے سال جب شاہجہان تخت پر بیٹھا تو سرہند میں حاضر خدمت ہوکر دوبارہ بیعت سے مشرف ہوا اور ترویج اسلام میں غایت درجہ کی کوشش کی گئی۔ چوتھے سال خواجہ محمد حنیف کا بلی حاضر خدمت ہوکر آپ سے بیعت ہوئے۔ آپ نے انہیں خلافت دے کر کابل بھیج دیا۔ خواجہ صاحب کو بڑی قبولیت نصیب ہوئی اور ہزار ہا لوگ ان کے مرید ہوکر صاحبِ حال ہوئے۔ پانچویں سال خواجہ محمد صدیق پشاوری اور شیخ ابوالمظفر برہانپوری حاضر خدمت ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ نے خواجہ صاحب کو خلافت دے کر پشاور بھیجا۔ جہاں ان کو بڑی کامیابی ہوئی اور شیخ صاحب کو کچھ مدت کے بعد خلیفہ بناکر دکن روانہ کیا۔ جہاں بہت سے لوگ ان کے مرید ہوئے۔ چھٹے سال اخون موسیٰ ننگر ہاری اور خواجہ عبدالصمد کابلی شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور خلافت پاکر اپنے اپنے وطن میں اشاعت طریقہ میں مشغول ہوئے۔ ساتویں سال شیخ بدرالدین سلطانپوری اور شیخ انور نور سرائی بیعت ہوئے اور خلافت دے کر بغرض اشاعت سلطانپور اور نور محل میں بھیج دیے گئے۔ آٹھویں سال ملک شام کے سات سو علماء و مشائخ اور وہاں کے دیگر ہزار آدمی سرہند میں آکر بیعت سے مشرف ہوئے۔ نویں سال خنگار روم نے اپنے وکیل کے ہاتھ تحائف و ہدایا بھیجے اور غائبانہ بیعت کی۔ تیرہویں سال عبدالعزیز شاہ توران غائبانہ بیعت سے مشرف ہوا۔ چودھویں سال شہزادہ محمد اورنگزیب عالمگیر بیعت سے مشرف ہوئے۔ پندرھویں سال اورنگزیب کی بہن روشن آرا نے اور سولہویں سال روشن آرا کی بہن گوہر آرا نے آپ سے بیعت کی۔ انیسویں سال سلطان عبدالرحمٰن شاہ خراسان اور اُس کی بیگم بیعت سے مشرف ہوئے۔ اکیسویں سال ترکستان و دشت قبچاق کے تمام خان اور سلطان اپنے اپنے لشکر سمیت غائبانہ مرید ہوئے۔ بائیسویں سال شاہ سلیمان بادشاہِ ایران رفض سے تائب ہوکر غائبانہ مرید ہوا۔ چوبیسویں سال امام یمن غائبانہ مرید ہوئے۔ تئیسویں سال بادشاہ کا شغر غائبانہ مرید ہوا۔ پچیسویں سال شیخ حبیب اللہ بخاری کو جو دسویں سال مرید ہوا تھا خلافت دے کر بخارا میں بھیجا وہاں ان کو قبولیت عامہ نصیب ہوئی۔ چھوٹے بڑے وضیع و شریف خواتین و سلاطین اور رعایا مرید ہوئی اور چار سونے درجہ تکمیل پر پہنچ کر ان سے خلافت پائی۔ ان کے ذریعہ سلسلہ عالیہ خراسان و ماوراء النہر میں بہت پھیلا۔ ستائیسویں سال حضرت نے اپنے خلیفہ خواجہ ارغون کو خطا و چین میں بھیجا۔ اور اُس کے ہاتھ پر وہاں کا بادشاہ ملقب بہ قا آن مسلمان ہوگیا۔ اٹھائیسویں سال آپ نے شیخ مراد کو خلافت دے کر بغرض اشاعت ملک شام میں بھیجا۔ وہاں آپ دمشق میں مقیم ہوئے اور والی شام اور تمام امراء اور دیگر لوگ بکثرت ان کے حلقہ ارادت میں آئے اور سلسلہ عالیہ اس ولایت میں پورے طور رائج ہوا۔ چونتیسویں سال بہت سے ارادتمندوں کے ساتھ آپ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ چھتیسویں سال واپس آئے۔ جب بندرگاہ سورت میں پہنچے تو ہر روز ہزارہا آدمی مرید ہونے لگے۔ صبح شام قریباً تیس ہزار آدمی حلقہ میں شامل ہوتے۔ ہجوم خلق کی یہ کیفیت ہوئی کہ امراء و سلاطین کو آپ کی زیارت بدقت نصیب ہوتی۔
قصہ کوتاہ حضرت قیوم ثانی کی کثرت ارشاد و مشیخت بیان سے باہر ہے۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد کسی ولی اللہ کو اس قدر ارشاد مشیخت نصیب نہیں ہوئی۔ چنانچہ تاریخ مرأت العالم و جہاں نماز میں جو عالمگیر کے حکم سے لکھی گئی ہیں یوں لکھا ہے کہ مشیخت کی مسند پر کوئی ایسا شیخ نہیں بیٹھا جیسا کہ شیخ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ ۔ جہان کے تمام اطراف و جوانب کے بادشاہ علماء مشائخ چھوٹے بڑے وضیع و شریف مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک کے آنحضرت کے مرید تھے۔ لا انتہا خاص و عام بندگان خدا صبح و شام پر وانوں کی طرح آنجناب پر جان فدا کرتے۔ ہندوستان، توران، ترکستان، بدخشان، دشت قبچاق، کا شغر، خطا، روم، شام اور یمن کے بادشاہ آنجناب کے مرید ہوئے۔ اُس وقت کے بڑے بڑے شیخ اور علماء اور گروہا گروہ اپنی اپنی مشیخت ترک کرے کے آنجناب کے مرید ہوئے۔ روئے زمین کے مختلف حصوں کے لوگ آنحضرت کو خواب میں دیکھ کر اور انبیاء اولیا سے خوشخبری پاکر حاضر خدمت ہوکر شرف بیعت سے مشرف ہوتے۔ مختلف ملکوں میں آنجناب کے خلفا کی خدمت میں ہزارہا آدمیوں کا مجمع رہتا۔ ہر روز سینکڑوں نئے مرید حاضر خدمت ہوتے اور فنا و بقا اور پروردگار کا پورا پورا قرب حاصل کرتے۔ حضرت کی مجلس کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ مجلس اقدس میں بڑے بڑے بادشاہ آپس میں گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ بغیر اجازت بات نہ کرتے۔ اگر بڑا ضروری کام ہوتا تو کاغذ پر لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ عالمگیر بادشاہ پر اگرچہ آپ بدرجہ غایت مہربان تھے لیکن پھر بھی بسبب غایت ادب اُس نے آنجناب کے حضور میں کسی سے کبھی گفتگو نہ کی اور بغیر اذن نہ بیٹھا۔
چالیسویں سال خصوصیت سے تمام روئے زمین کے خلفاء مع اپنے مریدوں کے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ اور امیر اپنی اپنی سلطنت اور امیری چھوڑ کر آپ کی زیارت کو آئے۔ چنانچہ خانان توران و ترکستان والیان دشت قبچاق و بدخشاں فرمانروایان خطا و خراسان۔ تخت نشینانِ کا شغر و طبرستان۔ حاکمان قہستان و گرجستان سب کے سب حضرت کے دیدار فائض الانرار کے واسطے شہر سرہند میں حاضر ہوئے۔ شہر کے گرد اگرد ایک ایک میل تک لشکر پڑا تھا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا مجمع نہیں ہو اور بعد میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ نماز کے وقت اس قدر ہجوم ہوتا کہ ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدہ کرتے، بلکہ کھڑا ہونے کو بھی کافی جگہ نہ ملتی۔
چالیسویں سال حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدوں اور خلفاء کو حسبِ ذیل طور پر اپنے فرزندوں کے سپرد کیا۔ حضرت محمد صبغۃ اللہ کو کابل اور اُس کے گرد و نواح کے تمام پٹھان اور مغل مرید ہوئے۔ بدخشان، ترکستان ، دشت قبچاق، کاشغر، خطا، روم، شام کے تمام مرید اور ہند کے بعض آدمی حضرت خواجہ محمد نقشبند حجۃ اللہ کے سپرد کیے۔ حسب ذیل خلفا بھی ان کے سپرد ہوئے۔ خواجہ محمد حنیف کابلی۔ خواجہ محمد صدیق پشاوری۔ خواجہ عبدالصمد، اخون، موسیٰ ننگر ہاروی، شیخ مراد شامی، خواجہ ارغون خطائی وغیرہ۔ شہزادہ اورنگ زیب بھی آنجناب کے سپرد ہوا۔ جب حضرت حجۃ اللہ کا بل گئے تو کابل کے تمام آدمیوں نے آپ سے رجوع کیا۔ حضرت خواجہ محمد عبیداللہ مروج الشریعت کو خراسان، ماوراء النہر، توران، دار گنج، غورسد، اندراب، قہستان، طبرستان اور سجستان کے علاقے سپرد کیے۔ اور حسب ذیل خلفاء آپ کے ماتحت کیے۔ شیخ ابوالمظفر برہانپوری، شخ حبیب اللہ بخاری، صوفی پابندہ طلا، شیخ ابوالقاسم بلخی وغیرہ۔ اور ہند کے اکثر امراء اور شہزادہ معظم شاہ بھی آپ کے سپرد ہوئے۔ آخر انہوں نے بھی حضرت حجۃ اللہ سے رجوع کیا دکن اور پنجاب کے اکثر مرید اور خلفاء کو خواجہ محمد اشرف کے حوالہ کیا۔ سلطان اورنگ زیب، اعظم شاہ، جعفر خاں، وزیر شایستہ خان، مکرم خان، محتشم خان اور سلطان عبدالرحمٰن حضرت شیخ محمد سیف الدین کے سپرد کیے۔ اور حسب ذیل خلفاء ان کے حوالہ کیے۔ اخون میر محمد محسن سیالکوٹی صوفی پائندہ ملاس شیخ ابوالقاسم بھکری وغیرہ سلطان ہند نے آخر حجۃ اللہ سے رجوع کیا۔ حضرت محمد صدیق کو عرب بحرین اور مشرقی ہند کے اکثر شہر سپرد کیے۔
بعد ازاں حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام خلفاء کو جہان کے مختلف حصوں میں بھیجا۔ ایک ہزار سات سو خلفاء ترکستان اور دشت قبچاق میں بھیجے۔ ان کا سردار خواجہ محمد امین اور خواجہ عبدالرحمٰن کو بنایا۔ پانچ سو خلیفے کا شغر اور خطا کی طرف بھیجے ان کا سردار خواجہ ارغوان کو مقرر فرمایا۔ چار سو خلفاء شام اور روم کی طرف بھیج کر ان کا سردار شیخ مراد کو بنایا۔ سات سو خلفاء خراسان بدخشان اور توران میں شیخ حبیب اللہ کے ماتحت کرکے بھیجے۔ ایک سو خلفاء کابل میں اور ایک سو خلفاء نواح پشاور میں بھیجے۔بیس خلفاء ننگر ہار میں بھیجے۔ ان سب کا سردار خواجہ محمد حنیف، خواجہ محمد صدیق اور اخون موسیٰ کو مقرر فرمایا باقی خلفاء کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھیجا۔
مریدوں کی تعداد:
کہتے ہیں کہ خلفاء اور فرزندوں کی وساطت کے بغیر براہِ راست نو لاکھ آدمی حضرت قیومِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوئے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد سات ہزار تھی جو سب کے سب صاحب کمالات تھے۔
وصال مُبارک:
آپ کو وجع مفاصل کا مرض تھا۔ آخر عمر میں اس مرض نے بہت غلبہ پایا۔ وفات سے دو تین روز پیشتر آپ نے قرب و جوار کے بزرگوں کو ایک رقعہ بدیں مضمون لکھا کہ وقت رحلت آپہنچا ہے۔ دعا فرمائیں کہ خاتمہ بالخیر ہو۔ وفات سے ایک روز پیشتر جمعہ کے دن آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ امید نہیں کہ کل اس وقت تک دنیا میں رہوں۔ اور سب کو پند و نصائح فرما کر خلوت میں تشریف لے گئے۔ صبح کو آپ نے نماز فجر کمال ارکان تعدیل کے ساتھ ادا کی۔ مراقبہ معمولہ کے بعد اشراق پڑھی۔ بعد ازاں سکرات موت آپ پر شروع ہوگئے۔ اس وقت آپ کی زبان مبارک جلد جلد چلتی تھی۔ صاحبزادوں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ آپ یٰسین شریف پڑھتے تھے۔ غرض کہ شنبہ کے دن دوپہر کے وقت ۹ ربیع الاول ۱۰۷۹ھ کو آپ نے وصال فرمایا۔
روضہ مُبارک:
جہاں پر اب حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا روضہ مبارک ہے وہ جگہ حضرت مروج الشریعت کی ملکیت تھی۔ جب حضرت قیوم ثانی کا وصال ہوا تو حضرت مروج الشریعت نے ان کو اپنی جگہ میں دفن کیا۔ اور شاہجہان کی صاحبزادی روشن آرانے اُس پر عالیشان روضہ تعمیر کرایا۔ اس کی تعمیر کے لیے شہزادی نے ایران سے نہایت اعلیٰ درجہ کے استاد معمار طلب کیے تھے۔ اور روضہ شریف پر سنہرا کام کیا گیا تھا۔ جو آئینہ کی طرح چمکتا تھا۔ اور آفتاب نکلنے پر جگمگا اُٹھا تھا۔ دروازوں کے پردے شامیانے اور مزار پوش زر بخت کے تھے۔ انقلاب زمانہ سے وہ نقش و نگار مٹ گئے۔ روضۃ منورہ کے شمال کی جانب مسجد عالی واقع ہے جو آپ کے صاحبزادے حضرت مروج الشریعت خواجہ عبید اللہ نے ۱۰۸۰ھ میں تعمیر کرائی تھی۔ کہتے ہیں کہ روضۃ شریف کی عمارت اور سامانِ فرش فروش پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ ہوا۔ پانچ ہزار اشرفی گنبدوں پر صرف ہوئی۔ چالیس ہزار روپیہ مسجد پر خرچ ہوا۔ اب اس روضہ کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ بدیں تفصیل:
۱۔ مرکز میں حضرت عروۃ الوثقیٰ رحمۃ اللہ علیہ۔
۲۔ مرکز سے ملحق جانب مشرق حضرت مروج الشریعت خواجہ عبید اللہ فرزند سوم حضرت عروۃ الوثقیٰ۔
۳۔ مرقد خواجہ عبید اللہ سے ملحق جانب مشرق حضرت ابوالعلی فرزند اکبر حضرت قیوم ثالث حجۃ اللہ محمد نقشبند۔
۴۔ مرکز سے ملحق جانب غرب خواجہ محمد اشرف فرزند چہارم حضرت عروۃ الوثقیٰ۔
۵۔ مرقد خواجہ محمد اشرف سے جانب غرب خواجہ صبغۃ اللہ فرزند اکبر حضرت عروۃ الوثقیٰ۔ ان پانچ قبروں کی پائتی کی طرف۔
۶۔ شیخ محمد ہادی فرزند سوم حضرت مروج الشریعت خواجہ عبید اللہ۔
۷۔ حضرت محمد شیخ الاسلام فرزند حضرت محمد پارسا فرزند چہارم حضرت مروج الشریعۃ خواجہ عبید اللہ۔
۸۔ حضرت نور معصوم فرزند اکبر میر محمد نعمان حق رسا فرزند چہارم حضرت خواجہ محمد پارسا۔
حُلیہ مُبارک:
آپ کا قد خاصا تھا۔ بدن مبارک پُر گوشت۔ رنگ گندمی۔ ابرو کشادہ۔ ناک اونچی۔ آنکھیں بڑی بڑی۔ داڑھی سفید اور تمام اعضاء نہایت متناسب اور خوش شکل تھے۔ آپ کا لباس نہایت لطیف بلکہ الطف ہوتا۔ عمامہ سر پر ہوتا۔ کبھی ہندی لباس زیب تن فرماتے۔
ارشاداتِ عالیہ
مکتوب احمدیہ کی طرح حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے مکتوبات کی بھی تین جلدیں ہیں۔ جلد اول کو آپ کے فرزند سوم خواجہ محمد عبید اللہ مروج الشریعہ نے جمع کیا۔ اور جلد دوم کو شرف الدین حسین حسینی ہروی نے حسب اشارہ حضرت خواجہ سیف الدین رحمہ اللہ تعالیٰ اور جلد سوم کو حاجی محمد عاشور بخاری حسینی نے حسب اشارہ حضرت خواجہ محمد نقشبند قیوم ثالث جمع کیا۔ بطور تبرک چند مقامات ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں۔
قبر جنت کا باغ ہونا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے کہ قبر بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ قبر کے باغ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ پردہ و مسافت جو زمین قبر اور بہشت کے درمیان ہوتا ہے اُٹھ جاتا ہے۔ اور دونوں جگہوں کے درمیان کوئی پردہ مانع نہیں رہتا۔ گویا زمین قبر کو جنت کے ساتھ فنا و بقا حاصل ہوجاتی ہے۔ فافہم۔ اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ جاننا چاہیےکہ اس قسم کا روضہ اخص خواص کے لیے ہے۔ ہر مومن کو حاصل نہیں۔ غایت مانی الباب جب مومنوں کی قبریں صفائی اور نورانیت پیدا کرتی ہیں تو اس امر کی استعداد حاصل ہوجاتی ہے کہ جنت کا پر تو ان قبروں پر منعکس ہوتا ہے۔ اور صاف کردہ شیشہ کی مثل ہوجاتی ہیں۔(مکتوبات جلد اول۔ مکتوب ۷۰)
درجہ کمال پر پہنچنے کا مدار:
ہمارے طریقہ میں درجہ کمال پر پہنچنے کا مدار شیخ شیخ مقتدا کے ساتھ رابط محبت پر موقوف ہے۔ طالب صادق اس محبت کے ذریعے جو شیخ سے رکھتا ہے اس کے باطن سے فیوض و برکات حاصل کرتا ہے۔ اور باطنی مناسبت سے ساعت بساعت اس کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے۔ مشائخ نے فرمایا ہے کہ فنافی الشیخ فنائے حقیقی کا پیش خیمہ ہے۔ اکیلا ذکر بغیر رابطہ مذکورہ اور بغیر فنافی الشیخ کے درجہ کمال پر پہنچانے والا نہیں۔ ذکر اگرچہ اسباب وصول سے ہے۔ لیکن اکثر رابطہ محبت و فنافی الشیخ کے ساتھ مشروط ہے۔ ہاں اکیلا رابطہ آداب صحبت کی رعایت اور شیخ کی توجہ اور التفات کے ساتھ بغیر التزام طریق ذکر کے درجہ کمال پر پہنچانے والا ہے۔ اور سلوک و تسلیک اختیاری میں جو دوسرے طریقوں سے وابستہ ہے کام کامدار وظائف اور اورادو اذکار پر ہے۔ اور معاملہ کی بنیاد ار بعینوں کی ریاضتوں پر ہے۔ اور پیر طریقت و استفادہ انعکاسی ہے۔ شیخ مقتدا کی صحبت رعایت آداب کے ساتھ کافی ہے۔ اور وظائف اذکار و طاعات بھی اشیا سے ممد و معاون میں سے ہیں۔ حضرت خیر البشر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوات الزاکیات والتسلیمات والتحیات النامیات کی صحبت کمالات کے حصول میں بشرط ایمان و تسلیم و فرمانبرداری کافی تھی۔ اس واسطے اس طریق میں وصول کی راہ اور طریقوں سے زیادہ قریب تر ہے۔ اور شیخ کامل مکمل سے فیوض و برکات حاصل کرنے میں جوان اور لڑکے اور بوڑھے اور زندے اور مردے برابر ہیں۔ اس طریقہ عالیہ میں جو اندراج نہایت اور بداہت پر متضمن ہے ریاضت سنت سفیہ کا اتباع اور بدعت نا پسندیدہ سے اجتناب ہے۔ اس طریقہ کے بزرگوں کا قول ہے۔ مصرعہ۔ سایہ رہبر بہ از ذکر حق۔ سایہ رہبر سے اشارہ طریقہ رابطہ کی طرف ہے جس سے مراد شیخ کی صورت کا نگاہ رکھنا ہے۔ جیسا کہ اس طریق میں مقرر ہے۔ یعنی مبتدی طالب کے لیے طریقہ رابطہ ذکر سے زیادہ مفید ہے۔ اگرچہ ذکر بذاتِ خود شرافت و فضیلت رکھتا ہے۔ اس کا بیان یوں ہے کہ بیچارہ مرید چونکہ عالم سفلی میں گرفتار ہے۔اس سبب سے عالم علوی سے مناسبت نہیں رکھتا تاکہ حضرت باری تعالیٰ سے بغیر واسطہ کے فیوض و برکات اخذ کرے۔ ایک واسطہ دو جہت والا درکات ہے۔ جو عالم علوی سے بہرہ ور ہو کر مخلوق کی دعوت و ارشاد کے لیے عالم سفلی کی طرف متوجہ ہوا ہو۔ اور بوجہ مناسبت اولیٰ کے عالم غیب سے فیوض اخذ کر کے بوجہ مناسبت ثانیہ کے جو عالم سفلی سے رکھتا ہے۔ ان فیوض کو لائق مریدوں تک پہنچائے۔ اس لیے طالب رشید شیخ کے ساتھ مناسبت کا وجود جس قدر زیادہ رکھتا ہو اس کے باطن سےا سی قدر راخذ فیوض زیادہ کرے گا۔
زاں روے کہ چشم تست احول
معبود تو پیر تست اول
اور جو چیزیں کہ شیخ کے ساتھ مناسبت پیدا کرنے والی ہیں وہ یہ ہیں۔ ظاہر و باطن میں شیخ کی محبت اور اس کی خدمت اور آداب کی رعایت۔ آپ نے سنا ہوگا کہ کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچتا۔ اور عبادات و عادات میں اس کی پیروی کرو۔ اور اپنی مرادوں کو اس کی مرادوں کے تابع کرنا اور تمام امور میں اپنے تئیں اس کے حوالہ کرنا جیسا کہ مردہ غسال کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ طریقہ رابطہ ان امور میں سب سے بڑا ہے اور شیخ کے ساتھ اشد مناسبت پیدا کرتا ہےا ور امور مذکورہ کو آسان کرنے والا ہے جو مناسبت کے بہت پیدا کرنے والے ہیں۔ جب نسبت رابطہ کا غلبہ ہوتا ہے تو طالب اپنے تئیں شیخ کا عین دیکھتا ہے۔ اور اپنے تئیں اس کے لباس و صفت سے متصف پاتا ہے۔
ازیں بتاں ہمہ درچشم من تومے آئی
بہر کہ مے نگرم صورت تومے بینم
(جلد اول۔ مکتوب ۷۸)
مرید کے احوال کا علم:
آپ نے لکھا تھا کہ پیر کا مریدوں کے حالات کو نہ جاننا باعث نقص ہے یا نہیں۔ آپ کو معلوم رہے کہ سلوک و تسلیک اختیاری میں پیر کو مرید کے احوال کا علم اور اسی طرح مرید کو اپنے احوال کا علم ضروری ہے اور ہمارے طریقہ میں جو اصحاب کرام علیہم الرضوان کا طریقہ ہے ایسا علم نہ پیر کے لیے درکار ہے اور نہ مرید کے لیے۔ کیونکہ اس طریق میں افادہ و استفادہ انعکاسی اور انصباغی ہے۔ مرید اپنے شیخ کامل کی صحبت میں محبت و فنافی الشیخ کےمطابق ہر ساعت اس کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس صورت میں افادہ میں اور استفادہ میں اسے علم کی کیا حاجت ہے۔ خرپزہ جو آفتاب کی حرارت سے پکتا ہے کیا ضرورت ہے کہ سورج کو یا خرپزہ کو پکنے یا پکانے کا علم ہو۔ اس طریق میں مرید اپنے شیخ کے ساتھ وجوہ مناسبت جس قدر زیادہ پیدا کرتا ہے اسی قدر اس کے حق میں انصباغ زیادہ ظاہر ہوتا ہے (جلد اول۔ مکتوب ۱۴۲)
قیوم کا مرتبہ:
قیوم اس عالم میں خدا جل وعلا کا خلیفہ اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اقطاب اور ابدال اس کے ظلال کے دائرہ میں مندرج ہیں۔ اور افراد و اوتاد اس کے کمال کے محیط میں داخل ہیں۔ عالم کے سب افراد اس طرف متوجہ ہیں۔ وہ جہان والوں کی توجہ کا قبلہ ہے۔ جانیں نہ جانیں۔بلکہ جہان والوں کا قیام اس کی ذات سے ہے۔ اس لیے کہ عالم کے افراد چونکہ اسما و صفات کے مظاہر ہیں کوئی ذات ان کے درمیان نہیں پائی جاتی۔ وہ سب کے سب اعراض و اوصاف ہیں۔ اور اعراض و اوصاف کے لیے ذات اور جوہر کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان کا قیام اس کے ساتھ ہو۔ عادت اللہ یوں جاری ہے کہ ازمنہ دراز کے بعد ایک عارف کو ذات سے ایک نصیب عطا کیا جاتا ہےا ور اس کو ایک ذات دی جاتی ہے تاکہ وہ نیابت و خلافت کے طور پر اشیاء کا قیوم ہوجائے اور اشیاء اس کے ساتھ قائم ہوں۔ (جلد اول۔ مکتوب ۸۶)۔
معرفتِ الٰہی کا حصول:
اس دار فانی میں بڑا مطلب حق جل وعلا کی معرفت کا حاصل کرنا ہے اور معرفت دو قسم کی ہے۔ قسم اول وہ معرفت ہے۔ جسے بڑے بڑے عالموں نے بیان کیا ہے۔ قسم دوم معرفت ہے کہ جس کے ساتھ صوفیہ کرام ممتاز ہیں۔ قسم اول نظر و استدلال سے وابستہ ہے اور قسم دوم کشف و شہود سے۔ قسم اول دائرہ علم میں داخل ہے جو تصور و تعقل کی جنس سے ہے۔ اور قسم دوم دائرہ حال میں داخل ہے اور جنس تحقق سے ہے۔ قسم اول عارف کے وجود کے فانی کرنے والی نہیں۔ اور قسم دوم سالک کے وجود کے فانی کرنے والی ہے کیونکہ اس طریق میں معرفت سے مراد معروف میں فنا ہے۔
قرب نے بالا و پستی رفتن است
قرب حق از قید ہستی رستن است
قسم اول علم حصول کی قسم سے ہے اور ادراک مرکب ہے اور قسم دوم علم حضوری کی جنس سے ہے۔ اور ادراک بسیط ہے۔ کیونکہ حاضر اس محل میں بجائے نفس سالک کے جوفانی ہوگیا ہے۔ حق سبحانہٗ ہے۔ قسم اول معرفت کا حاصل ہونا ہے۔ باجود نفس کی منازعت و انکار کے۔ کیونکہ نفس اس جگہ میں صفات رذیلہ پر ہے اور امارگی اور سرکشی سے جو اس کی طبیعت میں ہے نہیں نکلا ہے۔ اور نافرمانی اور سرکشی سے جو طبعی و پیدائشی ہے باز نہیں آیا ہے۔ اس محل میں اگر ایمان ہے تو صورت ایمان ہے۔ اور اگر اعمال صالح ہیں صورت اعمال ہیں۔ کیونکہ نفس اب تک اپنے کفر پر ہے۔ اور اپنے مولا سے عداوت کرنے پر قائم ہے۔ حدیث قدسی میں ہے۔ ’’تو اپنے نفس سے عداوت کر کیونکہ وہ مجھ سے عدوات کرنے پر قائم ہے۔ ‘‘ اس واسطے اس ایمان کو ایمان مجازی کہتے ہیں۔ یہ ایمان زوال و خلل سے محفوظ نہیں ہے۔ المجاز ینفی مشہور ہے۔ اور معرفت کی قسم دوم چونکہ سالک کے وجود کے فانی کرنے والی ہےا ور نفس کے مطیع ہونے کا نتیجہ دینے والی ہے اس لیے اس محل کا ایمان زوال و خلل سے محفوظ ہے۔ اس جگہ میں حقیقت ایمان ہے۔ اور اعمال صالح کی حققیت اس محل میں ثابت ہے۔ حقیقت نیست نہیں ہوا کرتی۔ بقا اس کو لازم ہے۔ گویا۔ اس حدیث نفیس اللھم انی اسئلکَ ایماناً لیس بعدہ کفر۔ اور آیہ کریمہ ’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ میں اسی ایمان کی طرف اشارہ ہے۔ امام احمد بن حنبل اسی معرفت کے طالب تھے کہ باجود علم و اجتہاد کے بشر حافی کی رکاب میں چلتے تھے۔ لوگوں نے ان سے سبب پوچھا فرمایا کہ اس کو خدا کی پہچان مجھ سے بہتر ہے۔ امام اعظم کوفی قدس سرہ اپنی عمر کے اخیر دو سال میں کہ اجتہاد و استنباط کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ چنانچہ خواب میں فرمایا۔ اگر دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔‘‘ اسی معرفت کی تحصیل و تتمیم میں تھے۔ اور اسی ایمان کی تکمیل میں تھے جو اس معرفت کا ثمرہ ہے۔ ورنہ وہ اعمال میں بڑا پایہ رکھتے تھے۔ کونسا عمل ہے جو اجتہاد و استنباط کے درجہ کو پہنچتا ہے اور کونسی طاعت ہے جو درس و تدریس کی ہم پایہ ہے۔
ایمان کی قبولیت:
جاننا چاہیے کہ کامل طور پر اعمال کی قبولیت کمال ایمان کے اندازہ کے موافق ہے۔ اور اعمال کی نورانیت کاکمال اخلاص سے ہے۔ ایمان و اخلاص جس قدر زیادہ ہوں گے۔ اعمال کی نورانیت و قبولیت و کمال اُسی قدر زیادہ ہوگا۔ اور ایمان و اخلاص کا کمال معرفت پر موقوف ہے۔ چونکہ یہ معرفت و ایمان حقیقی فنا اور موت قبل الموت سے وابستہ ہے۔ اس لیے جس کا قدم فنا میں زیادہ محکم ہوگا۔ وہ ایمان میں زیادہ کامل ہوگا۔ اسی وجہ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان اُمت کے ایمان پر راجح نکلا۔ حدیث میں ہے۔ ’’اگر ابوبکر کا ایمان میری اُمت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے۔ تو ابوبکر کے ایمان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ کیونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ فنا میں فرد کامل تھے۔ یہ حدیث ’’جو شخص مردہ کو روئے زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہے وہ ابو قحافہ کے بیٹے کو دیکھ لے۔‘‘ اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ فنا اگرچہ تمام صحابہ کرام کو حاصل تھی مگر باوجود اس کے حصول فنا کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تخصیص اس امر کی دلیل ہے۔ کہ یہ خوبی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بدرجہ کمال تھی۔
حاصل کلام:
اس طوالت کلام سے مقصود یہ ہے کہ ہوش مندوں اور داناؤں پر لازم ضروری ہٍے کہ اپنی حالت پر بخوبی غور کریں۔ جس شخص کو معرفت مذکورہ بالا حاصل ہے اُس کے لیے خوشی و بشارت ہے۔ کیونکہ اُس کی پیدائش سے جو مقصود تھا وہ بجالایا۔ اور اُس نے بمقتضا اِس آیت کے زندگانی کی۔ ’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ لیعبدون سے مراد لیعرفون ہے۔ کیونکہ کمال عبادت معرفت سے وابستہ ہے۔ اور جس شخص کو یہ معرفت حاصل نہیں اُسے چاہیے کہ اس کی طلب میں جان سے کوشش کرے اور جہاں مطلوب کی کچھ بوپائے اس کے پیچھے ہولے۔ افسوس ہے کہ اِس دار فانی میں جو کچھ انسان سے مطلوب ہے وہ بجا نہ لائے اور دوسرے کاموں میں مشغول ہوجائے۔ اور جس چیز کی تخریب کے لیے مامور ہے اُسے تعمیر کرے کل کو کس منہ سے اور کونسے عذر کے ساتھ لب کشائی کرے گا۔
ترسم کہ یار با ما نا آشنا بماند
تا دامن قیامت ایں غم بما بماند
(جلد ثانی۔ مکتوب ۶۱)
موجود حقیقی:
موجود حقیقی ایک سے زیادہ نہیں جو بزرگ و پاک ہے۔ اور ماسوا جسے عالم کہا جاتا ہے معدوم ہے۔ موجود نما۔ یعنی افرادِ عالم کے حقائق اعدام ہیں۔ وہ اعدام اپنے آئینوں میں کمالات وجودی کے انعکاس کے سبب سے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ موجود ہیں۔ ’’وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ‘‘ اور مقرر و ثابت ہے کہ وجود ہر خوبی و کمال کا مبدأ ہے۔ اور عدم ہر بُرائی اور نقص کا منشاء ہے۔ پس خوبی و کمال سب حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف عائد ہے۔ اور بُرائی اور نقص سب ممکن کی طرف راجع ہے۔ آیہ کریمہ ’’مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَآ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ‘‘ اسی مضمون کی تائید کرتی ہے۔ سنیے جب حقائق ممکنات کی حقیقت اعدام ہیں جو کمالات وجود کے انعکاس سے وجود نما ہوگئے ہیں تو عالم کا وجود ایسے مرتبہ میں ہے جو مرتبہ وہم کے مشابہ ہے۔ اور اُس کا وجود واجب تعالیٰ کے وجود کے سامنے موہومات و متخیلات میں داخل ہے۔ آیہ کریمہ ’’كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ‘‘ اس کی دلیل ہے۔ اور وہ جو میں نے مرتبہ وہم کے مشابہ کہا۔ اُس کی وجہ یہ کہ وہ وہم کی ارتفاع سے مرتفاع سے مرتفع نہیں ہوتا اور معاملہ ابدی اور عذاب اور ثواب دائمی اس سے وابستہ ہے۔ پس عالم کی نسبت واجب جل وعلا کے ساتھ ایسی ہے جیسا کہ موہوم کو موجود کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور معلوم ہے کہ وہوم کو موجود کے ساتھ کوئی تدافع نہیں اور موجود کے لیے موہوم سے کوئی حد و نہایت نہیں۔ کیونکہ موجود ایسے مرتبہ میں ہے کہ اُس مرتبہ میں موہوم کا کوئی نام و نشان نہیں۔
خوشتر آں باشد کہ سرّ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
(جلد ثانی۔ مکتوب ۱۰۸)
پرہیز کی بات:
اے بھائی! نا جنس اور مخالفِ طریقہ کی صحبت سے پرہیز کر۔ اور بدعتی کی مجلسوں سے بھاگ۔ حضرت یحی معاذ رازی فرماتے ہیں۔ ’’تو تین قسم کےلوگوں کی صحبت سے پرہیز کر۔ غافل علماء۔ مداہنت کرنے والے قاری۔ جاہل صوفی۔ ‘‘ جو شخص کہ شیخی کی مسند پر بیٹھا ہے اور اس کا عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنّت کے موافق نہیں اور وہ زیور شریعت سے آراستہ نہیں۔ پناہ ہزار پناہ اُس سے دور رہ۔ بلکہ اس شہر میں نہ رہ جہاں وہ رہتا ہے۔ مباداکہ زمانہ گزرنے پر تیرے دل میں اُس کی طرف میلان پیدا ہوجائے اور وہ تیرے کارخانہ میں خلل ڈال دے۔ کیونکہ وہ مقتدا بننے کے لائق نہیں۔ وہ پوشیدہ چور ہے اور شیطان کا جال ہے۔ اگرچہ تو اُس سے طرح طرح کے خوارق دیکھے اور بظاہر دنیا سے بے تعلق پائے۔ تو اُس کی صحبت سے اِس سے بھی زیادہ بھاگ کہ شیر سے بھاگتا ہے۔ (جلد ثانی۔ مکتوب ۱۰۰)۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ:
اس وقت کے اکثر خام صوفی اور ملحد کافروں کے ساتھ دوستی رکھنے سے نہیں ڈرتے۔ اور کہتے ہیں کہ فقیری کا راستہ کسی کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنا نہیں ہے۔ سبحان اللہ حضور سرور انبیاء اور رئیس فقراء و اولیاء علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلوٰۃ والسلام کہ جن کا قول ہے الفقر فخری حکم ہوتا ہے کہ ’’اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر‘‘ اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ پسندیدہ بھی کافروں سے درشتی و جنگ کرنا تھا۔ یہ عجب فقراء ہیں کہ جناب پیغمبر خُدا اور اپنے پیشوا کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں اور حضرت کے طریقہ پسندیدہ کے خلاف کرتے ہیں۔ جس ضلالت و گمراہی کی زیادتی ہی ہوگی۔ ’’فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ‘‘۔ کفار بے شک خدا کے دشمن ہیں جیسا کہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ یہ دوستی کا عجب دعویٰ ہے کہ اُس کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں اور بیزاری ظاہر نہیں کرتے۔ اگر کافر و فاسق لوگ خدا کے مبغوض و دشمن نہ ہوتے۔ بُغض فی اللہ دین کے واجبات سے نہ ہوتا اور افضل مقربات اور مکمل ایمان نہ ہوتا۔ اور حصول ولایت و رضا قرب حق سبحانہٗ کا سبب نہ ہوتا۔ (جلد ثالث۔ مکتوب ۵۵)۔
وحدت وجود:
صوفیہ کے مسلک پر وحدت وجود یہ ہے کہ سالک ممکن کے وجود کو واجب تعالیٰ کے وجود کے ساتھ متحد دیکھے اور اطلاق و تقید کا فرق سمجھے۔
چیز یکہ مقید بود از روئے جہاں
واللہ کے ہماں زوجہ اطلاق حق است
پس اس صورت میں ممکن و واجب تعالیٰ کے درمیان اتحاد ذاتی ہوگا۔ اگر مغابرت ہے تو اعتباری ہے اور ہمارے مسلک پر وحدت وجود اس معنی میں ہے کہ وجود اور کمالات تابع وجود حضرت رب معبود کا خاصہ ہےا ور ممکن کی ذات عدم ہے جو آئینۂ عدم میں کمالات وجودی کے منعکس ہونے کے سبب سے موجود نما ہوگئی ہے۔ پس ممکن اور واجب جل وعلا کے درمیان اتحاد ثابت نہ ہوا۔ اس مقام کی تفسیل مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات و رسائل سے واضح و ظاہر ہے۔ (جلد ثالث۔ مکتوب ۷۳)۔
حروف مقطعات اور آیات مشتابہات کا علم:
آپ نے قرآن کے حروف مقطعات اور آیات متشابہات کی نسبت سوال کیا تھا۔ اور اس کا حل طلب کیا تھا۔ مخدوما! متشابہات میں طریق اسلم یہ ہے کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا علم حق سبحانہٗ کے حوالہ کرتے ہیں۔ یہ حق سبحانہٗ کے اسرار ہیں۔ جو اُس نے اپنے اخص خواص بندوں کو بتائے ہیں۔ اور مزو اشارہ سے کلام کیا ہے اور نا محرموں سے پوشیدہ رکھا ہے۔ جس شخص پر اس معمہ کا راز کھل گیا ہے۔ اُس نے ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کی۔ اور ان اسرار کے کھلنے اور بتانے کی دلیری نہیں کی۔ اس کا حل تفسیر بیضاوی اور تفسیر مدارک سے کس طرح ہوسکتا ہے۔ اور یہ عقیدہ اِس نادان مسکین سے کیسے کھل سکتا ہے۔ معذور رکھیے۔ واسلام علیٰ من اتبع الہدٰے۔ (جلد ثالث۔ مکتوب ۱۸۳)۔
حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کی اولاد امجاد
حضرت عروۃ الوثقیٰ کی اولاد چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں بدیں تفصیل:
شیخ محمد صبغۃ اللہ رحمہ اللہ
ولادت با سعادت:
آپ حضرت قیوم ثانی کے سب سے بڑے فرزند ہیں۔ ۱۰۳۲ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت قیوم اول نے حضرت قیوم ثانی سے فرمایا کہ محمد معصوم! اس فرزند میں اصلی نور دکھائی دیتا ہے۔ اس کا نام صبغۃ اللہ رکھو۔
تحصیل علم:
آپ نے علم معقول و منقول انتہائی درجہ تک حاصل کیے۔ بعد ازاں اپنے والد امجد کی خدمت میں علم باطن حاصل کیا۔ آپ حضرت قیوم اول کے کمالات کے جامع اور صاحب کرامات تھے۔ والد بزرگوار نے آپ کو ولایت کا بل و غور کی خلافت دے کر رخصت فرمایا۔ وہاں آپ سے فیض جاری ہوا۔ ہر صبح و شام ہزار ہا آدمی حلقہ میں شامل ہوئے۔ ۹ ربیع الثانی ۱۱۲۱ھ میں آپ کا وصال ہوا اور اپنے والد امجد کے قبہ میں دفن کیے گئے۔
حضرت قیوم ثالث خواجہ محمد نقشبند رحمہ اللہ تعالیٰ
ولادت با سعادت:
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے دوسرے فرزند ہیں۔ بروز جمعہ ۷ رمضان المبارک ۱۰۳۴ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض موت میں حضرت عروۃ الوثقیٰ سے فرمایا تھا کہ اِس سال میرے وصال کے بعد تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جو قرب الٰہی کے کمالات میں میرے برابر ہوگا۔
ظاہری و باطنی علوم کا حصول:
آپ نے علم ظاہری و باطنی اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاصل کیا۔ بوجہ علم استعداد تھوڑے عرصہ میں آپ پر وہ اسرار منکشف ہوئے جن کی نسبت حضرت عروۃ الوثقیٰ فرماتے تھے کہ یہ حیطہ درک عقل و تصویر خیال سے باہر ہیں۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ نے اپنی قیومیت کے اکتالیسویں سال ۱۰۷۴ھ میں آپ کو قطب الاقطابی اور قیومیت کی بشارت دی۔ چنانچہ آپ خود بیان فرماتے ہیں۔ کہ میں نے جب بعض علوم و معارف اور اسرار حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بیان کیے تو فرمایا کہ یہ علوم و معارف جو تم بیان کرتے ہو مقطعات قرآنی کے اسرار ہیں جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے خلوت میں فرمائے تھے۔ بعد ازاں دوسرےروز مجھے خلوت میں بلا کر قیومیت کی بشارت دی اور فرمایا کہ جو تاج مدینہ منورہ سے رخصت ہوتے وقت جنابِ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت فرمایا تھا اب وہی تاج تمہیں عنایت ہوا ہے۔ میں عرض کیا کہ وہ تاج طینت اصالت قیومیت اور محبوبیت ذاتی پر مشتمل تھا۔ فرمایا بعینہ وہی تاج ہے جو مجھے عنایت ہوا تھا۔ اب وہی تمہیں دیا گیا ہے۔
مسندِ ارشاد:
آپ نے ۱۱ ربیع الاول ۱۰۷۹ھ کو مسند ارشاد پر جلوس فرمایا۔ آپ کی کثرت ارشاد کا یہ عالم تھا کہ آپ کی قیومیت کے پچیسویں سال ہر روز چار پانچ سو آدمی بلکہ اس سے زیادہ حاضر خدمت ہوکر مرید ہوتے۔ بڑے بڑے مشائخ اور علماء اپنی اپنی مشیخت اور درس و تدریس کو چھوڑ کر آپ کے مُرید ہوئ۔ روئے زمین کے مختلف حصوں سے لوگ ٹڈی دل کی طرح آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ توران، ترکستان اور بدخشاں کے بادشاہ اپنی اپنی حدود تک استقبال کے لیے آئے۔ اور اپنے اپنے ایلچی مع ہدایا آپ کی خدمت میں بھیجے۔ غرض اس قدر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ کابل میں گنجائش نہ رہی۔ مجلس اقدس میں آپ کا دبدبہ اس طرح کا تھا کہ بادشاہ اور امراء کو جرأت نہ تھی کہ بات کریں۔
وصال مُبارک:
آپ نے پینتیس سال مسند قیومیت و ارشاد پر رونق افروز رہ کر بروز شب جمعہ ۲۹ محرم الحرام ۱۱۱۴ھ میں سرہند میں وصال فرمایا۔ آپ کو اُس مکان میں جو قدیم سے آپ کی ملکیت تھا حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ مبارک کے شمال کی طرف تین تیر پرتاب کے فاصلہ پر فتح باغ کے قریب دفن کیا گیا۔ اور مرقد مبارک پر نہایت عالی شان خوبصورت قبہ بنوایا گیا۔ آپ کے مقبرہ میں چار قبریں ہیں۔ ایک آپ کی دوسری آپ کے فرزندمحمد عمر کی، تیسری آپ کی بیٹی کی، چوتھی آپ کی زوجہ کی۔
حضرت حجۃ اللہ قیوم ثالث نے اپنی قیومیت کے اخیر سال حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ مبارک سے شمال کی طرف تین تیر پر تاب کے فاصلہ پر ایک عالی شان خوبصورت مسجد بنوائی تھی۔ اس کے تین گنبد اور دو برج تھے۔ صحن میں وضو کے لیے ایک حوض بنوایا تھا۔ اور مسجد کے مقابل ایک محل اور چند حجرے سالکوں کو توجہ دینے اور مراقبہ کے لیے بنوائے تھے۔ آج ان سب کے کھنڈرات نظر آتے ہیں۔
اولاد پاک:
آپ کی اولاد چھ لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ آپ کے فرزندِ اکبر حضرت ابوالعلی ۱۰۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ صاحب کشف و کرامات تھے۔ ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے قبہ میں دفن ہوئے۔ حضرت ابوالعلی کے بڑے بیٹے قیوم رابع خواجہ محمد زبیر قدس سرہ بروز دوشنبہ ۵ ذیقعدہ ۱۰۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت حجۃ اللہ نے ان کو قیومیت کی بشارت دی تھی۔ چنانچہ حضرت حجۃ اللہ کے وصال کے بعد انہوں نے یوم شنبہ یکم صفر ۱۱۱۴ھ میں مسند قیومیت و ارشاد پر جلوس فرمایا اور اڑتیس سال اس مسند پر رونق افروز رہ کر ۴ ذیقعدہ ۱۱۵۳ھ میں دہلی میں وصال فرمایا۔ آپ کی نعش مبارک کو سرہند لے آئے۔ اور جمعرات کے دن ۱۱ ذیقعدہ کو شیخ سعد الدین کی حویلی میں جسے انہوں نے شیخ موصوف کے فرزند سے چار ہزار روپیہ دے کر خریدا تھا دفن کیے گئے۔ ۱۱۵۳ھ میں آپ کے مرقد مبارک پر ایک عالی شان روضہ بنایا گیا۔ جو رنگا رنگ کے نقش و نگار سے آراستہ تھا اور جس میں چین اور فرنگ کی گلکاری کی ہوئی تھی۔
خواجہ محمد عبید اللہ رحمہ
ولادت با سعادت:
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے تیسرے فرزند ہیں۔ ۲۱ شعبان ۱۰۳۷ھ میں پیدا ہوئے والد بزرگوار کو ان سے بڑی محبت تھی۔ اور کثرت محبت کے سبب سے ان کو حضرت جیو صاحب کہا کرتے تھے۔ حضرت قیوم ثانی فرماتے تھے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ تیرے فرزند میری طرح ہوں گے۔ ان فرزندوں سے مراد نقشبند اور محمد عبید اللہ ہیں۔ حضرت قیوم ثانی نے آپ کو طینت واصالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری دی تھی۔
آپ نے ۱۱ ربیع الاول ۱۰۷۹ھ کو مسند ارشاد پر جلوس فرمایا۔ اور خلفائے معصومی کو ازسرِ نو خلافت دی۔ اور باقی مریدوں کو اپنی طرف سے خلافت دے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں بھیج دیا۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ کی خانقاہ کی رونق آپ سے بدستور قائم رہی۔ اسی سال ایک روز نماز فجر کے بعد آپ مراقبہ میں تھے کہ الہام ہوا کہ تمہیں مروج الشریعت کا خطاب دیا گیا۔
وصال مُبارک:
آپ کو تپ دق کا مرض ہوگیا۔ ارشاد کے چوتھے سال عالمگیر بادشاہ نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ اس مرض کے لیے سیر بہت مفید ہے۔ آپ شاہجہاں آباد تشریف لے گئے۔ بادشاہ نے آپ سے بیعت کی اور مرض کے علاج کے لیے دوسری ولایتون سے اطباء طلب کیے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ بلکہ مرض کا غلبہ ہوگیا۔ اس لیے آپ نے بادشاہ سے رخصت لی اور سرہند روانہ ہوگئے۔ جب سنبھالکہ میں پہنچے تو جمعہ کے روز اشراق کے وقت ۹ ربیع الاول ۱۰۸۳ھ میں انتقال فرمایا۔وہاں سے آپ کی نعش کو سرہند میں لائے اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے قبہ میں دفن کردیا۔ آپ صاحب کشف و کرامت و تصانیف تھے۔
اولاد پاک:
آپ کی اولاد میں پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ بیٹوں میں عبدالرحمٰن اور عبدالرحیم تو پچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ آپ کے بڑے بیٹے محمد ہادی صاحب کشف و کرامات و تصانیف تھے۔ انہوں نے ۱۲ ربیع الاول ۱۱۲۱ھ میں انتقال فرمایا۔ اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ کے اندر جنوب کی طرف مدفون ہوئے۔ خواجہ محمد پارسا حضرت مروج الشریعت کے دوسرے فرزند تھے۔ جن کو حضرت قیوم ثالث نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات کی بشارتیں دیں۔ آپ بروز دو شنبہ ۱۰ ربیع الاول ۱۱۴۲ ھ میں فوت ہوئے۔آپ کا جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ کے گرد پھرایا گیا اور چبوترے کے جنوب مغربی کونہ میں جہاں آپ کے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا تھا اور فرمایا تھا کہ یہاں میری قبر بنانا دفن کیے گئے۔ اور مرقد مبارک پر ایک گنبد بنایا گیا۔
خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ
ولادت با سعادت:
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے چوتھے فرزند ہیں۔ ۱۰۴۷ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مقامات سلوک اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں طے کیے۔ علوم معقول و منقول میں دستگاہِ کامل رکھتے تھے۔
وصال مُبارک:
۲۷ صفر ۱۱۱۷ھ میں فوت ہوئے اور حضرت قیوم ثانی کے مرقد کے مغرب کی طرف مدفون ہوئے۔ آپ نزع کے وقت حسبی اللہ ونعم الوکیل بار بار پڑھتے تھے۔ آپ کی اولاد تین لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں۔ جب کفار سرہند پر چڑھ آئے تو آپ کے بڑے بیٹے شیخ محمد جعفر ان سے فی سبیل اللہ جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اور حضرت قیوم ثانی کے روضہ میں (بیرون قبہ) مدفون ہوئے۔ آپ کے چوتھے بیٹے شیخ محمد شافی الحال جامع علوم ظاہر و باطن تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات پر مخالفوں نے جو شبہات کیے ہیں آپ نے ان کا ردّ خوب لکھا ہے۔ آپ نے ۱۱۵۰ھ میں رحلت فرمائی اور حضرت قیوم ثانی کے روضہ مبارک میں (بیرون قبہ) مدفون ہوئے۔
شیخ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ
ولادت با سعادت:
آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے چھٹے فرزند ہیں۔ ۱۰۵۷ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت قیوم ثانی چند سال بعد حج کو تشریف لے گئے۔ اور واپس آکر شاہجہان آباد میں سکونت اختیار کی۔ اور آخری دم تک وہیں رہے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ حضرت مروج الشریعت فرماتے ہیں کہ مجھ پر لوح محفوظ کا انکشاف ہوا۔ وہاں پر میں نے لکھا دیکھا۔ محمد معصوم اور اُس کے تلے صدیق ولی۔ فرمایا۔ صدیق ولی سے مراد میرے بھائی محمد صدیق ہیں۔ صاحب کشف و کرامات اور علم و فضل تھے۔
وصال مُبارک:
آپ نے ۱۱۳۰ھ میں انتقال فرمایا۔ آپ کی نعش مبارک سرہند لائی گئی۔ حضرت قیوم ثانی کے روضہ مبارک کے شمال کی طرف خانقاہ کے محاذ میں مدفون ہوئے۔ آپ کے مرقد پر ایک عالی شان گنبد بنایا گیا۔ (زبدۃ المقامات۔ مکتوبات معصومیہ۔ روضہ قیومیہ وغیرہ)۔
(مشائخ نقشبند)