جمال
الاولیاء، سیّدنا شیخ
اسم ِگرامی: سیّدنا شیخ جمال الاولیاء۔
لقب: شیخ الاولیاء۔
حضرت
سیّدنا شیخ جمال الاولیاءکا سلسلۂ نسب
اس طرح ہے:
حضرت سیّد جمال الاولیاء بن حضرت مخدوم جہانیاں ثانی
بن شاہ بہاءالدین بن حضرت قطب الاقطاب شاہ سالار بدھ بن مخدوم شاہ ہیبت اللہ
بن شاہ سالار راجی بن مخدوم شہاب الدین عرف حبیب اللہ بن مخدوم خواجہ میاں
بن مخدوم شہاب الدین ثالث بن شاہ عماد الدین بن مخدوم شاہ نجم الدین
بن مخدوم شاہ شمس الدین بن شاہ شہاب الدین چہارم بن شاہ عماد بن شاہ
رضی الدین بن شاہ عبدالکریم بن مخدوم شاہ جعفر بن شاہ حمزہ بن شاہ کاظم بن شاہ حسن
مہدی بن شاہ عیسیٰ بن شاہ محدث بن سیّد حسن عریض بن علی عریض بن سیّدنا امام جعفر صادق بن سید نا امام باقر بن
سیدنا امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین رضی
اللہ عنہم اجمعین۔(تذکرہ
مشائخ قادریہ رضویہ،ص 307؛ شمامۃ العنبر،ص 11)
خاندانی حالات:
حضرت
شاہ جمال الاولیاء کے والدِ گرامی حضرت مخدوم
جہانیاں ثانی بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جن کا وصال غالباً 960ھ میں ہوا۔ آپ ہی کی تصنیف
سے ایک کتاب ’’اَسرارِ جہانی‘‘ جو اَذکار
و اَشغالِ صوفیہ پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب کلکۃ میں طبع ہو کر شائع ہوئی ہے۔آپ بہت بڑے
علمائے محققین میں سے تھے۔ایک وقت کتب درسیہ کے لیے معین تھا۔تو دوسرا وقت ذکر و
شغل و تلقین و توجہ کے لیے وقف تھا۔ بڑے بڑے علمائے وقت مستفیض درس
ہونے کی غرض سے حاضر خدمت ہوتے تھے، نیز بڑے بڑے صوفیائے وقت آپ کے خلفا کی
فہرست میں شمولیت کا شرف رکھتے تھے۔مِن جملہ آپ کے صاحبزادے شاہ
جمال الاولیاءایک خاص امتیازی شان کے مالک
ہیں اور آپ کے صاحبزادے کے خلیفہ حضرت سیّد محمد کالپوی
اپنے شیخ کے عظیم خلفا میں شامل ہیں اور علم شریعت میں آپ ہی کے ایک شاگرد ملا
عبدالرسول صاحب تھے جو ملا لطف اللہ صاحب کے استاد تھے اور ملا لطف اللہ حضرت ملا جیون
کے استاد تھے اور حضرت ملاجیون شہنشاہ عالمگیر اورنگ زیب
کے استاد اور نور الانوار تفسیر احمدی کےمصنف ہیں۔(شمامۃ العنبر، ص27)
حضرت
شاہ جمال الاولیاء کے ایک برادرِ حقیقی جن کا
نام حضرت مولانا شاہ مبارک تھا، اُن کے نبیرہ کی اولاد میں ایک بزرگ (ملا ابو
سعید دانش مند)ہوئے ہیں۔یہ بہادر شاہ بن عالمگیر کے اُستادِ معظّم تھے اور دانش مند
آپ کا شاہی خطاب ہے۔(شمامۃ العنبر، ص27)
آپ کا آبائی وطن:
آپ
کاوطن کوڑہ جہاں آباد ہے جو آپ ہی کے خاندانی بزرگوں کا آباد کیا ہوا ہے۔آپ
کے آبا و اَجداد سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں عرب اور روم ہندوستان
بغرضِ جہاد تشریف لائے تھے مہم بنگال میں سلطان التمش کے ساتھ شریک ہوئے اور
واپسی پر مقامِ سلطان پور میں اقامت اختیار فرمائی۔ ایک مرتبہ حضرت شاہ ہیبت اللہ جونپور سےدہلی بغرضِ زیاراتِ مقدّسہ جارہےتھے۔
راستے میں ایک ہندو کی عمل داری تھی،اس نےآپ کےقافلےپر حملہ کیا۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ کوفتح عطا فرمائی وہ ہندو حاکم مارا گیا۔آپ نے اس مقام کانام’’فتح
پور‘‘ رکھا۔ آپ نے فرمایا کہ دو تین دن
قیام کر کے دہلی کا سفر کیا جائے گا۔
اُسی
شب خواب میں حضور سرورِ کائنات ﷺ کی زیارت سے آپ مشرف ہوئے اور حضورﷺنے آپ سے ارشاد فرمایا:
’’تم کہیں نہ جاؤ! بلکہ اِسی جنگل کو صاف کر کے یہیں قیام کرو، صدیوں
تک تمہاری اولاد و احفاد سے لوگو ں کو دینِ اسلام کی روشنی ملے گی اور بڑے بڑے اولیائے کاملین تمہاری اولاد و
احفاد میں گزریں گے۔‘‘(شمامۃ العنبر، ص29)
نبی
کریم ﷺ کی مذکورۂ بالا بشارت ہی کی برکت ہے کہ
وہ ویران جنگل اب کوڑہ جہان آباد شریف بن گیا۔ شہنشاہ اورنگ زیب اپنے بھائی شجاعت سے مقابلے کے لیے جاتے ہوئے جب کوڑہ
کے قریب پہنچے تو ادباً سواری سےا تر پڑے اور پاپیادہ ہوگئے۔ اس قصبے کے چھ سو علما
ایک ولی صفت بادشاہ کے استقبال کےلئےگئے۔ حضرت اورنگ زیب
کو جب معلوم ہوا کہ یہ سبھی علما ایک ہی خاندان کےا فرا د ہیں۔اور سبھی حضرت مخدوم
سالار بدھ قُدِّسَ سِرُّہٗ کی اولاد
میں سے ہیں، تو نہایت متعجب ہوا اور اپنے دادا استاد ملا لطف اللہ قُدِّسَ سِرُّہٗ (اُستاد حضرت ملا جیون)کے یہاں پانچ روز
مہمان رہے ۔اور ان سے دعائیں لےکر مقابلے کےلئے گئے،اور فتح یاب ہوئے۔چنانچہ واپسی
پر اورنگ زیب نے دو ہفتے قیام فرمایا ۔ قصبہ کوڑہ اس زمانے میں’’دار الفضلاء‘‘کے نام سےمشہور تھا حضرت اورنگ
زیب نے اس کا نام ’’دار الاولیاء‘‘ رکھ دیا۔(شمامۃ العنبر، ص30)
ولادت:
آپ
کی ولادت باسعادت 973ھ مطابق 1566ءمیں بمقام کو ڑہ جہان آباد ضلع فتح پور
یوپی (انڈیا)میں ہوئی۔
پیدائش سےقبل بشارت:
آپ
کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت فقیر خدا بخش
جن کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی، انہوں نے بشارت دی کہ حضرت مخدوم جہانیاں کے
گھرمیں جمال آئے گا ،یہاں تک جب آپ کی ولادتِ مبارکہ ہوئی تو آپ کا
مبارک نام شیخ جمال رکھا گیا۔
تحصیل علم اور بیعت و خلافت:
آپ اپنے والدِ ماجد حضرت مخدوم جہانیاں قُدِّسَ سِرُّہٗکی تربیت و آغوش میں پروان چڑھے پھر آپ کے
پدرِ بزرگوار نے آپ کی تعلیم وتربیت کی تکمیل کے لیے حضرت قاضی ضیاء الدین عرف
قاضی جیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں بھیجا جہاں پانچ سال
تک تحصیل علوم ظاہری و باطنی فرمایا۔اسی طرح حضرت شیخ قیام الدین جونپوری سےبھی
علمی اِستفادہ کیا۔
بیعت وخلافت:
سب سےپہلے اپنے والدِگرامی کےدستِ حق پر بیعت
ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے،پھر آپ کےوالدِگرامی نے قاضی ضیاء الدینکی خدمت میں کسبِ فیض کےلیے بھیجا،جنھوں نےاوراد و اشغال
کےبعد سلسلۂ عالیہ قادریہ میں خلافت عطا فرمائی۔
سیرت وخصائص:
سندالعلما، رئیس الاتقیا، سیّد الاولیاء حضرت سیّد
شیخ جمال الاولیاء اپنےوقت کےجیّد عالمِ دین اور
عارف باللہ صوفی تھے۔آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے
انتیسویں امام و شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کے
فضائل و مناقب بےشمار ہیں۔ آپ مادر زاد ولی، اور نسبتِ عالی رکھتے تھے۔جب آپ سات سال
کے ہوئے تو فقراء کی خدمت کرنے لگے،اور جب آپ 22سال کے ہوئے تو با شارۂ سراج الامّہ
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تحصیلِ علومِ
دینیہ میں مشغول ہوئے اور بیس 20سال تک علومِ دینیہ کی تحصیل میں مشغول رہے۔آپ نے بلا
واسطہ اَرواحِ مبارکہ سیّدنا محی الدین عبد القادر جیلانی،
خواجہ بہاءالدین نقشبند اور حضرت
شاہ بدیع الدین قطب مدارسے فیضِ اویسیہ
حاصل فرمایا اور بزرگانِ عصر سے فیض و خرقۂ خلافت چاروں سلاسل میں اخذ فرمایا۔
راہ
سلوک کی منزلیں طے کرنے کے بعد آپ اپنےوطن تشریف لائے اور وہاں مستقل قیام
فرما کر درس و تدریس و افادۂ علومِ ظاہر و باطنی میں مشغول ہوئے اور آپ کی خدمت
میں رہ کر حضرت سیّد محمد بن ابو سعید کالپوی قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْزنے مطول سے بیضاوی
تک پڑھا اور بھی کثیر علما و مشائخ نے آپ سے اکتساب ِفیض کیا۔فاضل اجل،عالم اکمل
حضرت علامہ مولانا عبدالرشید جونپوری(مصنّفِ
مناظرۂ رشیدیہ)آپ کےمرید وخلیفہ ہیں۔(تذکرہ
مشائخ قادریہ رضویہ، ص312)
اعلیٰ
حضرت اور حضور جمال الاولیاء:
اعلیٰ حضرتحدائقِ بخشش
میں فرماتےہیں:
نیز، حدائقِ بخشش ہی میں شامل شجرہ شریف سلسلۂ
عالیہ قادریہ رضویہ میں اس طرح آپ کاذکر ہے:
وصالِ
پُر ملال:
آپ
کاوصال شبِ عید الفطر1040ھ،مطابق مئی1631ء کوہوا۔
مزارِ پُر اَنوار:
آپ
کامزارِ مبارک قصبہ کوڑہ جہان آباد ضلع فتح پور(ہند)میں ہے۔
عرسِ مبارک:
آپ
کا عرسِ مبارک یکم شوّال المکرم کو ہوتا
ہے۔
مآخذ ومراجع:
تذکرہ مشائخِ قادیہ
رضویہ۔
شمامۃ العنبر۔