سیدنا شیخ جمال الاولیاء
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0973 | ||
یوم وصال | 1040 | رمضان المبارک | 29 |
سیدنا شیخ جمال الاولیاء (تذکرہ / سوانح)
سیدنا شیخ جمال الاولیاء
نام ونسب: اسم گرامی:سیدنا شیخ جمال الاولیاء۔لقب: شیخ الاولیاء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت سید جمال الاولیاء بن حضرت مخدوم جہانیاں ثانی بن شاہ بہاءالدین بن حضرت قطب الاقطاب شاہ سالار بدھ بن مخدوم شاہ ہیبت اللہ بن شاہ سالار راجی بن مخدوم شہاب الدین عرف حبیب اللہ بن مخدوم خواجہ میاں بن مخدوم شہاب الدین ثالث بن شاہ عماد الدین بن مخدوم شاہ نجم الدین بن مخدوم شاہ شمس الدین بن شاہ شہاب الدین چہارم بن شاہ عماد بن شاہ رضی الدین بن شاہ عبدالکریم بن مخدوم شاہ جعفر بن شاہ حمزہ بن شاہ کاظم بن شاہ حسن مہدی بن شاہ عیسیٰ بن شاہ محدث بن سید حسن عریض بن علی عریض بن سید امام جعفر صادق بن سید نا امام باقر بن سیدنا امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ:307/شمامۃ العنبر:11)
خاندانی حالات: حضرت شاہ جمال اولیاء کے والدِ گرامی حضرت مخدوم جہانیاں ثانی بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جن کا وسال غالباً 960ھ میں ہوا۔ اور آپ ہی کی تصنیف سے ایک کتاب ‘‘اسرار جہانی’’ جو اذکار و اشغالِ صوفیہ پر مشتمل ہے۔یہ کتاب کلکۃ میں طبع ہو کر شائع ہوئی ہے۔آپ بہت بڑے علمائے محققین میں سے تھے۔ایک وقت کتب درسیہ کے لیے معین تھا۔تو دوسرا وقت ذکر و شغل و تلقین و توجہ کے لیے وقف تھا ۔بڑے بڑے علماء وقت مستفیض درس ہونے کی غرض سے حاضر خدمت ہوتے تھے،نیز بڑے بڑے صوفیائے وقت آپ کے خلفاء کی فہرست میں شمولیت کا شرف رکھتے تھے۔من جملہ آپ کے صاحبزادے شاہ جمال اولیاءایک خاص امتیازی شان کے مالک ہیں اور آپ کے صاحبزادہ کے خلیفہ حضرت سید محمد کالپوری اپنے شیخ کے عظیم خلفاء میں شامل ہیں اور علم شریعت میں آپ ہی کے ایک شاگرد ملا عبد الرسول صاحب تھے جو ملا لطف اللہ صاحب کے استاد تھے اور ملا لطف اللہ حضرت ملا جیوں کے استاد تھے اور حضرت ملاجیون شہنشاہ عالمگیر اورنگ زیب کے استاد اور نور الانوار تفسیر احمدی کےمصنف ہیں۔(شمامۃ العنبر:27)حضرت شاہ جمال الاولیاء کے ایک برادرحقیقی جن کا نام حضرت مولانا شاہ مبارک تھا ان کے نبیرہ کے اولاد میں ایک بزرگ (ملا ابو سعید دانش مند)ہوئے ہیں۔یہ بہادر شاہ بن عالمگیر کے استاد معظم تھے اور دانشمند آپ کا شاہی خطاب ہے۔(ایضا:27)
آپ کا آبائی وطن:آپ کاوطن کوڑہ جہاں آباد ہے جو آپ ہی کے خاندانی بزرگوں کا آباد کیا ہوا ہے۔آپ کے آباؤ اجداد سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں عرب اور روم ہندوستان بغرض جہاد تشریف لائے تھے مہم بنگال میں سلطان التمش کے ساتھ شریک ہوئے اور واپسی پر مقام سلطان پور میں اقامت اختیار فرمائی۔ایک مرتبہ حضرت شاہ ہیبت اللہ جونپور سےدہلی بغرض زیارات مقدسہ جارہےتھے۔راستے میں ایک ہندو کی عملداری تھی،اس نےآپ کےقافلےپر حملہ کیا۔اللہ تعالیٰ آپ کوفتح عطاء فرمائی وہ ہندو حاکم ماراگیا۔آپ نے اس مقام کانام‘‘فتح پور’’ رکھا۔ آپ نے فرمایا کہ دو تین دن قیام کر کے دہلی کا سفر کیا جائے گا اسی شب خواب میں حضور سرور کائنات ﷺ کی زیارت سے آپ مشرف ہوئے اور حضور ﷺنے آپ سے ارشاد فرمایا:’’تم کہیں نہ جاؤ ! بلکہ اسی جنگل کو صاف کرکے یہیں قیام کرو،صدیوں تک تمہاری اولاد احفاد سے لوگو ں کو دین اسلام کی روشنی ملے گی۔ اور بڑے بڑے اولیاء کاملین تمہاری اولاد احفاد عین گزریں گے‘‘۔(شمامۃ العنبر:29)
نبی کریم ﷺ کی مذکور بالابشارت ہی کی برکت ہےکہ وہ ویران جنگل اب کوڑہ جہان آباد شریف بن گیا شہنشاہ اورنگ زیب اپنے بھائی شجاعت کے مقابلہ کر لیے جاتے ہوئے جب کوڑہ کے قریب پہنچے تو ادباً سواری سےا تر پڑے اور پاپیادہ ہوگئے۔اس قصبہ کے چھ سو علماء ایک ولی صفت بادشاہ کے استقبال کےلئےگئے۔حضرت اورنگ زیب کو جب معلوم ہوا کہ یہ سبھی علماء ایک ہی خاندان کےا فرا د ہیں۔اور سبھی حضرت مخدوم سالار بدھ قدس سرہٗ کی اولاد میں سے ہیں، تو نہایت متعجب ہوا اور اپنے دادا استاد ملا لطف اللہ قدس سرہٗ (استاد حضرت ملا جیون)کے یہاں پانچ روز مہمان رہے ۔اور ان سے دعائیں لےکر مقابلے کےلئے گئے،اور فتح یاب ہوئے۔چنانچہ واپسی پر اورنگ زیب نے دو ہفتہ قیام فرمایا ۔ قصبہ کوڑہ اس زمانے میں ‘‘دار الفضلاء’’کے نام سےمشہو ر تھا حضرت اورنگ زیب نے اس کا نام ‘‘دار الاولیاء’’ رکھ دیا۔(ایضا:30)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 973ھ مطابق 1566ءمیں بمقام کو ڑہ جہان آباد ضلع فتح پور یوپی (انڈیا)میں ہوئی۔
پیدائش سےقبل بشارت: آپ کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت فقیر خدا بخش جن کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی ، انہوں نے بشارت دی۔ کہ حضرت مخدوم جہانیاں کے گھرمیں جمال آئے گا ،یہاں تک جب آپ کی ولادت مبارکہ ہوئی تو آپ کا مبارک نام شیخ جمال رکھا گیا۔
تحصیل علم: آپ اپنے والد ماجد حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرہ کی تربیت و آغوش میں پروان چڑھے اور سب سے پہلے والد ماجدہی سے مشرف بیعت حاصل کئے اور خلافت کے منصب جلیہ پر فائز ہوئے۔پھر آپ پدر بزرگوار نے آپ کی تعلیم وتربیت کی تکمیل کے لیے حضرت قاضی ضیاء الدین عرف قاضی جیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا جہاں پانچ سال تک تحصیل علوم ظاہری و باطنی فرمایا۔اسی طرح حضرت شیخ قیام الدین جونپوری سےبھی علمی استفادہ کیا۔
بیعت وخلافت: سب سےپہلے اپنے والدگرامی کےدستِ حق پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے،پھر آپ کےوالدگرامی نے قاضی ضیاء الدین کی خدمت میں کسب فیض کےلئے بھیجا،آپ نےاوراد واشغال کےبعد سلسلہ عالیہ قادریہ میں خلافت عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص: سندالعلماء،رئیس الاتقیاء،سید الاولیاء حضرت سید شیخ جمال الاولیاء۔آپ علیہ الرحمہ اپنےوقت کےجید عالم دین اور عارف بااللہ صوفی تھے۔آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے انتیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ کے فضائل و مناقب بےشمار ہیں۔ آپ مادر زاد دو لی ،اور نسبت عالی رکھتے تھے۔جب آپ سات سال کے ہوئے تو فقراء کی خدمت کرنے لگے،اور جب آپ 22سال کے ہوئے تو با شارۂ سراج الامہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ عنہ تحصیل علوم دینیہ میں مشغول ہوئے اور بیس 20سال تک علوم دینیہ کی تحصیل میں مشغول رہے۔آپ نے بلا واسطہ ارواح مبارکہ سیدنا محی الدین عبد القادر جیلانی ،خواجہ بہاءالدین نقشبند اور حضرت شاہ بدیع الدین قطب مدار سے فیض اویسیہ حاصل فرمایا ۔اور بزرگان عصر سے فیض و خرقہ خلافت چاروں سلاسل میں اخذ فرمایا۔
راہ سلوک کی منزلیں طے کرنے کے بعد آپ اپنےوطن تشریف لائے اور وہاں مستقل قیام فرما کر درس و تدریس و افادہ علوم ظاہر و باطنی میں مشغول ہوئے، اور آپ کی خدمت میں رہ کر حضرت سید محمد بن ابو سعید کالپوری قدس سرہٗ العزیز نے مطول سے بیضاوی تک پڑھا۔ اور بھی کثیر علماء و مشائخ نے آپ سے اکتساب فیض فرمایا۔فاضل اجل،عالم اکمل حضرت علامہ مولانا عبدالرشید جونپوری(مصنف مناظرہ رشیدیہ)آپ کےمرید وخلیفہ ہیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ:312)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال شب عید الفطر1040ھ،مطابق مئی/1631ء کوہوا۔ آپ کامزار مبارک قصبہ کوڑہ جہان آباد ضلع فتح پور(ہند)میں ہے۔ آپ کا عرس یکم شوال کو ہوتا ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ مشائخ ِ قادیہ رضویہ۔شمامۃ العنبر۔
اعلیٰ حضرت فرماتےہیں:التجا اےزندہ ٔ جاوید اے قاضی جیا ۔۔اے جمال اولیاؔءیوسف لقا امداد کن۔
شجرہ شریف میں اس طرح آپ کاذکر ہے: خانۂ دل کو ضیا دے روئے ایماں کو جمال۔۔۔ شہِ ضیاء مولیٰ جمال الاولیاؔء کے واسطے