یوسف بن حسین رازی
یوسف بن حسین رازی (تذکرہ / سوانح)
حضرت یوسف بن حسین رازی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:شیخ یوسف بن حسین رحمۃ اللہ علیہ۔کنیت:ابو یعقوب۔لقب:شیخ الصوفیاء،امام العرفاء۔والد کااسم گرامی:شیخ حسین علیہ الرحمہ۔(نفحات الانس:110/سیر اعلام النبلاء،ج14،ص248)
مقامِ ولادت: آپ کاتعلق ایران کےشہر"ہمدان"سے ہے۔(نفحات الانس:110)
تحصیل ِعلم: ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی،جب سن تمیز کو پہنچے تو مزیدحصولِ علم کےلئے بلاد عرب کاسفر کیا۔آپ نے حضرت ذوالنون مصری،امام احمد بن حنبل،شیخ قاسم جوعی،شیخ احمد بن ابی حواری،یحیٰ بن معاذ رازی،شیخ دحیم،ابوتراب عسکرنخشبی،ابو احمد عسال،ابوبکر نقاش،محمد بن احمد شاذان ،علیہم الرحمۃ والرضوان سےتحصیل علوم ظاہریہ وباطنیہ کیا۔حصول علم کی لگن اورعظیم محنت کی بدولت آپ کاشمار عظیم محدثین،فقہاء اورصوفیاء میں ہوتا ہے۔امام ذہبی نےسیر اعلام النبلاء میں آپ کےبارےمیں لکھاہے: الامام العارف،شیخ الصوفیہ۔(ایضاً:248)
بیعت وخلافت: آپ امام العرفاء والصوفیاء حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔طویل مجاہدات وعبادات،اورسلوک کی منازل طے کرنے کےبعد خلافت واجازت سے مشرف ہوئے۔(ایضا)
سیرت وخصائص: شیخ الصوفیاء،امام العرفاء،سید الاتقیاء،سندالواصلین،عارف باللہ،صاحبِ اوصافِ کثیرہ،صاحبِ مقامات عظیمہ،امام الوقت،شیخ الطریقت،عارف اسرار ربانی حضرت شیخ یوسف بن حسین رازی رحمۃ اللہ علیہ الہادی۔آپ علیہ الرحمہ کا متقدمین صوفیاء میں بہت بڑا مقام ہے۔آپ کثرت سےخوف خداوندی سےآنسوں بہایا کرتے تھے۔شیخ سلمی علیہ الرحمہ فرماتےہیں: آپ امام الوقت تھے۔مشائخِ طریقت ،اوربالخصوص طبقۂ ملامتیہ میں آپ جیسا کامل نہیں دیکھا گیا۔(سیر اعلام النبلاء،ج14،ص:248)۔ امام الصوفیاء شیخ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:تصنع،ریاء،حب ِجاہ، اورقسر ِنفسی،میں اپنی مثال آپ تھے،اورتواضع وانکساری کاپیکرتھے۔نفس کوذلیل کرنا آپ کامحبوب مشغلہ تھا۔(ایضا:249)
حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کےساتھ اچھے تعلقات تھے۔ان کےساتھ خط وکتابت جاری رہتی تھی۔ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے آپ کونصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:کبھی اپنی خواہشاتِ نفس پر عمل کرتےہوئے کھانانہ کھانا،اگرتم نےنفس کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے چکھ بھی لیا توکامیابی کا دروازہ بند ہوجائےگا۔(ایضا:249)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی عمر دی تھی۔ آپ آغاز جوانی میں بڑے حسین و جمیل نوجوان تھے۔ عرب کے علاقہ میں پہنچے وہاں کے بادشاہ کی اکلوتی بیٹی آپ کے عشق میں وارفتہ ہوگئی۔ آدھی رات کے وقت لڑکی نے بادشاہ کے محلات کو خیرباد کہا اور آپ کے پاس آگئی، آپ اسے دیکھ کر اللہ کے خوف سے کانپ اٹھے وہاں سے بھاگے شہر سے دور جاکر ایک ویرانے میں سو گئے۔ خواب میں دیکھا کہ ایک سرسبزوادی میں ہیں، ایک شخص شاہانہ لباس میں تخت نشین ہے،اس کے اردگرد سبز پوش لوگ صف بستہ کھڑے ہیں، آپ نے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے بتایا یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں،جو یوسف بن حسین کی زیارت کےلئے تشریف لائے ہیں،آپ یہ بات سن کر رو پڑےاور فرمایا: میری کیا اوقات ہے جس کو حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم نبی ملنے آئیں ہیں۔تخت کے پاس پہنچےسلام عرض کیا حضرت یوسف علیہ السلام تخت سے نیچے تشریف لائے، اور شیخ کو بغل میں لے لیا،اور اپنے تخت پر ساتھ بٹھایا،اور بڑی عزت بخشی،شیخ یوسف نے عرض کی حضرت آپ اللہ کے نبی ہیں، مجھ جیسے عاجز پر اتنی کرم نوازی کیسے؟ آپ نے فرمایا: جب بادشاہِ عرب کی بیٹی اپنے پورے حسن و شباب سے تم پر مائل ہوئی اور اپنے آپ کو تمہارے سپرد کردیا، اور تم اللہ کے خوف سے وہاں سے بھاگے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اور فرشتوں کو حکم دیا کہ دیکھو میرے محبوبﷺ کا امتی آج حسن و شباب کی ساری دولت کو ٹھکرا کر میری پناہ میں آرہا ہے۔تمھاری پاک دامنی وعفت کا تذکرہ آسمانوں میں ہورہاہے۔اللہ جل شانہ نے مجھےاور ان فرشتوں کوتمھارے استقبال اور زیارت کےلئے بھیجا ہے۔ تم اللہ کے برگزیدہ انسانوں میں سے ہو۔تم حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاؤ،ان کے پاس اسم اعظم ہے،ان سے فیض پاؤ۔ حضرت یوسف بن حسین بیدار ہوئے، مصر کا رُخ کیا،حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضر ہوئے، تین سال تک ایک بھی سوال نہ کیا تین سال بعد حضرت ذوالنون مصری نے آپ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، آپ نے اسم اعظم کا سوال کیا،حضرت ذوالنون مصری نے سر پر ایک بڑی ٹوپی پہنی ہوئی تھی،آپ نے شیخ یوسف کو عطا فرمادی، اور کہا اسے میرےفلاں دوست کے پاس لے جاؤ اور یہ امانت اسے دے آؤ، حضرت شیخ یوسف لے کر چلے راہ میں اس ٹوپی میں کسی چیز نے حرکت کی، آپ نے سوچا دیکھوں اس میں کیا چیز ہے،سر سے اتار کر دیکھنے لگے، تو ایک چوہیا پھدک کر دوربھاگ گئی،آپ نے خیال کیا کہ حضرت ذوالنون مصری نے آپ سے مذاق کیا ہے،واپس آگئے اور غصّہ میں بھرے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا ابھی تک تم ایک چوہیا کی امانت کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے اسم اعظم کی برداشت کیسے کرو گے اب اسی وقت اپنے وطن چلے جاؤ، پھر کسی وقت آنا۔حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ نے آپ کو تین نصیحتیں ارشاد فرماکر روانہ فرمادیا۔(خزینۃ الاصفیاء:92)
ایک سوداگر کے پاس ایک کنیز تھی جو اپنے حسن و جمال میں بے مثال تھی وہ کہیں سفر پر جانے لگا تو اس نے شیخ حیری کو نیک بزرگ خیال کرکے کنیز کو آپ کے پاس بطور امانت چھوڑ گیا اور خود سفر پر روانہ ہوگیا،چند دنوں بعد شیخ حیری اس کنیز کے حسن و جمال پر فریفتہ و مبتلا ء ِ عشق ہوگئے مگر اس وسوسہ شیطانی کو دور کرنے کے لیے ریاضت و عبادت کرتے اور ساتھ ہی حضرت شیخ ابوحفص رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس فتنہ سے نجات کے لیے دستگیری کی درخواست کی۔انہوں نے فرمایا تمہاری اس مشکل کا حل شیخ یوسف بن حسین کی دعا میں ہے،آپ ان کی خدمت میں جائیں، حضرت حیری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے قطع مسافت طےکرتے ہوئےآپ کے شہر میں پہنچے،توآپ کے گھر کا پوچھا تو لوگوں نے بتایا، آپ نیک صورت اور بزرگ انسان دکھائی دیتے ہیں،ایسے بے دین اور زندیق کے گھر جاکر کیا کرو گے؟ شیخ عثمان حیری بہت سے لوگوں کی بات سن کر واپس آگئے،اور اپنے پیرومرشد کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔انہوں نے فرمایا:تم شیخ یوسف بن حسین کو ملے ہو،کہنے لگے،حضرت سارا شہر گواہی دیتا تھا کہ وہ ملحد اور زندیق شخص ہے میں تو ان کے پاس گیا اور نہ ہی انہیں دیکھا۔آپ نے فرمایا تمہیں شہر کے لوگوں سے کیا واسطہ،جاؤ اور حضرت یوسف بن حسین کو ملو اور اپنا کام کراؤ،حضرت عثمان واپس گئے،آپ نے دیکھا ایک بوڑھا شخص اپنے پاس ایک خوبرو لڑکا بٹھائے بیٹھا ہے، اور سامنے جام و مینا رکھے ہیں،لیکن چہرے سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں،سلام کے بعد عرض کی،حضرت یہ کیا ماجرا ہے،حضرت یوسف بن حسین نے فرمایا:پریشان نہ ہو یہ لڑکا میرا بیٹا ہے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں،میں اسے قرآن پڑھاتا ہوں،اس جام و مینا میں شربت رکھا ہے،میں اپنی صحت کے لیے پیتا ہوں،لوگ باہر سے دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔(شیخ کا تعلق ملامتیہ فرقے سےتھا،یعنی ایسا کام کرناجوحقیقۃً خلاف ِشریعت نہ ہو،اورلوگوں سے اپنا عمل چھپانا،جیسے حضرت بایزید بسطامی نےسفر میں تھے،آپ نےجب لوگوں کاہجوم دیکھا تو کھانا شروع کردیا،لوگ ملامت کرتےہوئے چلے گئے،آپ یکسوئی کےساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئے۔)حضرت شیخ حیری نے کہا، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں لوگوں میں غلط تاثر پھیلاہوا ہے۔آپ نے فرمایا:میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ لوگوں کو میری نیکی اورتقوٰی پر بھروسہ نہ ہوجائے،اورکہیں کوئی سوداگر اپنی خوبصورت کنیز امانت چھوڑ کر چلا جائے اور پھر میں اس پر عاشق ہوجاؤں۔شیخ عثمان حیری نے آپ کی بات سنی تو قدموں میں گر گئے اور اپنے نفس کی سرکشی اور شیطانی وسوسہ سے نجات پائی۔
آپ کےاقوال آب زرسے لکھنے کےقابل ہیں: آپ فرماتےہیں:حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھےنصیحت فرمائی تھی کہ کبھی لوگوں کی تعریف سےمطمئن نہ ہونا ، ان کی خوشامد،اور القابات سےخوش فہمی میں مبتلا نہ ہونا،اپنی عوام میں مقبولیت پر نازاں نہ ہونا،کیونکہ لوگ توسکون وروحانیت کے ڈاکو ہوتےہیں۔آپ فرماتےہیں: ادب سےعلم کافہم پیدا ہوتاہے،اورعلم سےعمل کی درستگی ہوتی ہے۔جب عمل صحیح ہوجاتاہے،توحکمت کےدروازے کھل جاتے ہیں۔جب حکمت حاصل ہوتی ہےتوزہد میں اضافہ ہوتاہے،اور زہدسےترک دنیا،اور آخرت کی رغبت پیداہوتی ہے۔(جس علم سےیہ چیزیں حاصل نہ ہوں وہی حجاب اکبرہے)۔(سیر اعلام النبلاء:ج14،ص،248)
آپ فرماتےہیں: اچھا صوفی اللہ کی مخلوق میں سب سےبہتر ہوتاہے،اورصوفیوں میں براتمام مخلوق میں بدتر ہوتاہے۔(کیونکہ لوگ اس کےظاہری لباس سےدھوکےمیں مبتلا ہوجاتےہیں۔)۔(طبقات الاولیاء:63)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 14/شعبان المعظم 304،مطابق ماہ فروری/917ءکو ہوا۔
ماخذومراجع: نفحات الانس۔سیر اعلام النبلاءج14۔خزینۃ الاصفیاء۔طبقات الاولیاء۔