حضرت یوسف بن حسین رازی

حضرت یوسف بن حسین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ کی کنیت ابویعقوب تھی۔ متقدمین میں شمار ہوتا تھا۔ آپ ذوالنون مصری کے مرید اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما کے شاگرد تھے۔ حضرت ابوتراب سے مجالس ہوتیں ابوسعید خراز کے مصاحبیں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی عمر دی تھی۔ آپ آغاز جوانی میں بڑے حسین و جمیل نوجوان تھے۔ عرب کے علاقہ میں پہنچے وہاں کے بادشاہ کی اکلوتی بیٹی آپ کے عشق میں وارفتہ ہوگئی۔ آدھی رات کے وقت لڑکی نے بادشاہ کے محلات کو خیرباد کہا اور آپ کے پاس آگئی، آپ اسے دیکھ کر اللہ کے خوف سے کانپ اٹھے وہاں سے بھاگے شہر سے دور جاکر ایک ویرانے میں سو رہے، خواب میں دیکھا کہ ایک سرسبز  وادی میں ہیں، ایک شخص شاہانہ لباس میں تخت نشین ہے، اس کے اردگرد سبز پوش لوگ صف بستہ کھڑے ہیں، آپ نے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت یوسف ہیں، جو یوسف بن حسین کی زیارت کو آئے ہیں، آپ یہ بات سن کر رو پڑے فرمایا، میں کیا  چیز ہوں جسے حضرت یوسف جیسے پیغمبر خدا  ملنے آئیں، تخت کے پاس پہنچے، سلام  عرض کیا حضرت یوسف تخت سے نیچے آئے، اور شیخ کو بغل میں لے لیا، اور اپنے تخت پر بٹھایا، اور بڑی عزت بخشی، شیخ یوسف نے عرض کی حضرت آپ اللہ کے نبی ہیں، مجھ جیسے عاجز پر اتنی کرم نوازی کیسے ہے؟ آپ نے فرمایا: جب بادشاہِ عرب کی بیٹی اپنے پورے حسن و شباب سے تم پر مائل ہوئی اور اپنے آپ کو تمہارے سپرد کردیا، اور تم اللہ کے خوف سے وہاں سے بھاگے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اور فرشتوں کو حکم دیا کہ دیکھو تم نے زلیخا کے ورغلانے پر قصد کرنے کا خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہاری حفاظت فرمائی، مگر میرے محبوب کا امتی آج بغیر کسی خیال کے حسن و شباب کی ساری دولت کو ٹھکرا کر میری پناہ میں آرہا ہے آج میں اور یہ فرشتے تمہارے استقبال کو آئے ہیں تم اللہ کے برگزیدہ انسانوں میں سے ہو، حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاؤ، ان کے پاس اسم اعظم ہے، ان سے فیض پاؤ۔

حضرت یوسف  بیدار ہوئے، مصر کا رُخ کیا، حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضر ہوئے، تین سال تک ایک بھی سوال نہ کیا تین سال بعد حضرت ذوالنون مصری نے آپ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، آپ  نے اسم اعظم کا سوال کیا، حضرت ذوالنون مصری نے سر پر ایک بڑی ٹوپی پہنی ہوئی تھی، آپ نے شیخ یوسف کو عطا فرمادی، اور کہا اسے لے جاؤ، اور میرے ایک دوست کے پاس لے جاؤ اور یہ امانت اسے دے آؤ، حضرت شیخ یوسف لے کر چلے راہ میں اس ٹوپی میں کسی چیز سے حرکت کی، آپ نے سوچا دیکھوں اس میں کیا چیز ہے، سر سے اتار کر دیکھنے لگے، تو ایک چوہیا پھدک کر دور  بھاگ گئی، آپ نے خیال کیا کہ حضرت ذوالنون مصری نے آپ سے مذاق کیا ہے، واپس آگئے اور غصّہ میں بھرے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا  ابھی تک تم ایک چوہیا کی امانت کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے اسم اعظم کی برداشت کیسے کرو گے اب اسی وقت اپنے وطن چلے جاؤ، پھر کسی وقت آنا۔

حضرت شیخ یوسف  رحمۃ اللہ علیہ اپنے وطن آگئے اور ایک عرصہ دراز تک ریاضت اور مجاہدے کرتے رہے اور بلند مقامات پر پہنچے حضرت ذوالنون مصری نے آتے وقت آپ کو تین نصیحتیں کی تھیں، اور فرمایا یہ تین نصیحتیں ہیں، ان میں سے ایک تو بڑی ہے، ایک چھوٹی ہے اور ایک درمیانی ہے بڑی نصیحت یہ ہے کہ  آج تک جو کچھ تم نے پڑھا ہے یا لکھا ہے اسے فراموش کردو، تاکہ حجابات ختم ہوجائیں، دوسری چھوٹی نصیحت یہ ہے کہ میرا نام کسی کو نہ بتانا کہ  میں تمہارا پیرومرشد ہوں، اس میں خود ستائی پائی جاتی ہے تیسرے مخلوق کو ترغیب دینا اور اللہ کی طرف بلانا، مگر خود درمیان میں نہ آنا، یہ فرماتے ہوئے رخصت کردیا۔

حضرت شیخ یوسف  قدس سرہ مصر سے اپنے وطن آئے، شہر میں وعظ کہنا شروع کیا چونکہ آپ باریک اور دقیق مسائل بیان فرماتے لوگوں نے آہستہ آہستہ آپ کی مجلس  وعظ سے بھاگنا شروع کردیا۔ حتی کہ ایک شخص بھی آپ کا وعظ سننے نہ آتا۔ ایک دن وعظ فرمانے لگے تو دل میں خیال آیا کہ میں کس کو وعظ سناؤں کیوں نہ اسے چھوڑ کر چلاجاؤں، یہ خیال آیا ہی تھا کہ گلی سے ایک  بوڑھی عورت سے آواز دی، اپنے پیر و مرشد کی نصیحت کو بھول گئے ہو، تم نے عہد کیا تھا کہ مخلوق کو نصیحت محض اللہ کے لیے کرے گا تم وعظ کرتے  جاؤ، کوئی آئے، یا نہ آئے، کہتے ہیں آپ اسی طرح پچاس سال تک وعظ کرتے رہے  شہروں، گاؤں، جنگلوں، صحراؤں میں غرض یہ کہ یہ کام ہر مقام پر جاری رکھا ایک دن ایک بزرگ عبدالواحد بن زید آپ کی مجلس وعظ میں آئے، یہ وہ بزرگ تھے  جنہیں والدین نے عاق کردیا تھا اور بڑے سالک راہ خدا تھے، اس دن حضرت شیخ  یوسف وعظ میں فرما رہے تھے کہ ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی طرف بلالیتا ہے یہ بات عبدالواحد  کے دل کو لگی، اپنی ٹوپی اتار  کر پھینک دی، کپڑے پھاڑ دیے نعرے مارتے ہوئے گورستان کی طرف چل نکلے، تین دن رات قبرستان میں بے ہوش پڑے رہے حضرت یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اللہ کا خطاب سنا کہ صبح اٹھو، اور میرے بندے کو تلاش کرکے تسلی دو، حضرت یوسف اٹھے اور عبدالواحد کو ڈھونڈنے لگے، دیکھا قبرستان  میں بے سُدھ پڑے ہوئے ہیں، شیخ نے انہیں اٹھایا گلے لگایا، اس نے آنکھیں کھولیں اور کہنے لگا آپ کو تین دن سے حکم ہوا ہے کہ مجھے تلاش کرو، آپ بڑی دیر سے پہنچے۔

ایک سوداگر کے پاس ایک کنیز تھی جو اپنے حسن و جمال  میں بے مثال تھی وہ کہیں سفر پر جانے لگا تو اس نے شیخ حیری کو نیک بزرگ خیال کرکے کنیز کو آپ کے پاس بطور امانت چھوڑ گیا اور خود سفر پر روانہ ہوگیا، چند دنوں بعد شیخ حیری اس کنیز کے حسن و جمال  پر شیقتہ و مبتلا ہوگئے مگر اس وسوسہ شیطانی کو دور کرنے کے لیے ریاضت و  عبادت کرتے اور ساتھ ہی حضرت شیخ ابوحفص رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس فتنہ سے نجات  کے لیے دستگیری کی درخواست کی، آپ نے فرمایا تمہاری اس مشکل کا حل شیخ یوسف حسین کی دعا میں ہے، آپ ان کی خدمت میں جائیں، حضرت حیری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے قطع مسافت کرے ہوئے، آپ کے شہر میں پہنچے، آپ کے گھر کا پوچھا تو لوگوں نے بتایا، آپ نیک صورت اور بزرگ انسان دکھائی دیتے ہیں، ایسے بے دین اور زندیق کے گھر جاکر کیا کرو گے، شیخ عثمان  حیری بہت سے لوگوں کی بات سن کر واپس آگئے، اور اپنے پیرومرشد کی خدمت میں سارا واقعہ پیش کیا، آپ نے فرمایا: تم  حسین یوسف کو ملے ہو، کہنے لگے، حضرت سارا شہر گواہی دیتا تھا کہ وہ ملحد اور زندیق شخص ہے میں تو ان کے پاس نہیں گیا نہ انہیں دیکھا، آپ نے فرمایا تمہیں شہر کے لوگوں سے کیا واسطہ، جاؤ اور حضرت حسین یوسف کو ملو اور اپنا  کام کراؤ، حضرت عثمان واپس گئے، آپ نے دیکھا ایک بوڑھا دیکھا اپنے پاس ایک خوبرو لڑکا بٹھائے بیٹھا ہے، اور سامنے جام و مینا رکھے ہیں، لیکن چہرے سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں، سلام کے بعد عرض کی، حضرت  یہ کیا ماجرا ہے، حضرت یوسف حسین نے فرمایا: گھبراؤ نہیں یہ لڑخا میرا بیٹا ہے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں، میں اسے قرآن پڑھاتا ہوں، اس جام و مینا میں شربت رکھا ہے، میں اپنی صحت کے لیے پیتا ہوں، لوگ باہر سے دیکھ  کر چلے جاتے ہیں، حضرت شیخ حیری نے کہا، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں لوگوں میں غلط تاثر پھیلا ہوا ہے،  آپ نے فرمایا: میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ لوگوں کو میری نیکی اور تقوی پر بھروسہ نہ ہوجائے، اور کہیں کوئی سوداگر اپنی خوبصورت کنیز امانت چھوڑ کر چلا جائے اور پھر  میں اس پر عاشق ہوجاؤں، شیخ عثمان جبری نے آپ کی بات سنی تو قدموں میں گر گئے اور اپنے نفس کی سرکشی اور شیطانی وسوسہ سے نجات پائی۔

شیخ یوسف حسین رحمۃ اللہ علیہ ۳۰۴ھ میں فوت ہوئے۔

یوسفِ دین نبی یوسف حسین
سالِ ترحیلش بقول اہل دین
باز قطب الدین حسین اے نیک خو
۳۰۴ھ

 

شدہ چو از دنیائے دوں اندر جہاں
یوسف ہادی حسین آمد عیاں
سن وصل وسال ترحیلش بخواں

 [حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے اور کشف المحجوب میں آپ پر ایک مقالہ لکھا ہے صاحب نفحات الانس نے آپ کو صوفیاء کے طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے اور اپنے وقت کے امام بتایا ہے، فرقہ ملامتیہ سے رغبت رکھتے تھے، لوگوں کو اپنی شہرت سے دور رکھنے کے لیے بعض ایسی حرکات کرے جس سے عام لوگ ہٹ جاتے، آپ حضرت ذوالنون مصری کی زیارت کے لیے مصر گئے تو انہیں دیکھتے ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے حضرت ذوالنون نے فرمایا، لوگوں کی تعریف سے مطمئن نہ ہونا اور ان کی قبولیت پر ناز نہ کرنا، یہ لوگ سکون کے ڈاکو ہوتے ہیں۔]

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء