2016-03-10
علمائے اسلام
متفرق
3163
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1343 | جمادى الآخر | 25 |
یوم وصال | 1403 | ربيع الآخر | 03 |
پیر طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی رفاقت حسین کانپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: آپ کا اسمِ گرامی مولانا رفاقت حسین کانپوری تھا۔اور آپ کا نسبی تعلق مشہور بزرگ حضرت سید شاہ جلال الدین جڑھوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔آپ کا سلسلہ ٔ نسب یوں ہے: حضرت قبلہ رفاقت حسین بن مولوی شاہ عبد الرزاق بن شاہ حسین بخش بن خدا بخش بن میر شاہ تراب علی بن حضرت شاہ جلال الدین علیہم الرحمۃ ۔
تاریخِ ولادت:مفتی رفاقت حسین رحمۃ اللہ علیہ 1317 ھ میں بھوانی، ضلع مظفر پور، ہندستان میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم مرچا اسکول میں درجہ چار تک تعلیم پائی، بعدہ قریب کی بستی عارض پور کے مولوی طاہر حسین مرحوم سے فارسی گلستاں بوستاں تک پڑھی۔بعد مدرسہ عزیزییہ بہار شریف میں داخل ہوئے حضرت مولانا شاہ حبیب الرحمٰن بہاری مرحوم سے شرح وقایہ شروع کی۔ دار العلوم کے اساتذہ حضرت صدر الشریعہ حجۃ العصر مولانا حکیم امجد علی اعظمی، مولانا حکیم سید عبد الحئی افغانی مولانا مفتی متقدمین کی کتابوں کا درس لیا۔اس کے علاوہ دیگر مدارس میں مختلف علوم وفنون حاصل کئے۔
بیعت وخلاف: مفتی رفاقت حسین صاحب ،حضرت قدوۃ الواصلین مولانا الحاج سید شاہ علی حسین محبوب ربانی سرکار کچھوچھہ کے مرید ہوئے۔تمام سلاسل کی اجازت مرحمت ہوئی اور شجرۂ مبارکہ کی پشت پردست مبارک سے سلسلہ عالیہ قادریہ منوریہ تحریر فرماکر اجازت دی۔
سیرت وخصائص: برہان الاصفیاء سلطان المتکلمین،شرف الاسلام والمسلمین حضرت مولانا الحاج شاہ رفاقت حسین رحمۃ اللہ علیہ چلتی پھرتی دینی درس گاہ تھے۔ آپ زمانۂ طالب علمی میں جس طرح دوسرے طلباء سے ممتاز تھے اسی طرح خداداد تدریسی صلاحیت نے آپ کو ایک منفرد مقام عطا کیا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت صدر الشریعہ آپ کو اپنی معیت میں بریلی لائے،مدرسہ منظر اسلام میں درس و تدریس کا عہدہ سپرد کیا۔ایک سال بعد مدرسہ محمدیہ جائس ضلع رائے بریلی کے صدر مدرس ہوکر تشریف لے گئے،کچھ عرصہ بعد مدرسہ محمدیہ سے علیحدگی اختیار کرلی،بعدہٗ محلہ قضیانہ میں قیام کر کے مطب کے ساتھ درس دیتے رہے۔ لکھنؤ میں شیعت کا زورتیزی سے پھیل رہا تھا، سب وشتم کا بازار گرم تھا حضرت قبلہ نے رو افض کا ردبلیغ فرمایا،جس سے اُن کا زور ٹوٹ گیا۔چند سال جامع مسجد سلطانپور کے خطیب رہے، یہاں مولوی امین نصیر آبادی کی سُنیت دشمن سرگمیوں کے انسداد کےلیے گوشش فرمائی،یہاں سے عقیدت مندانِ جائسی کی درخواست پر چندے جائس قیام فرماکر وطن مراجعت فرمائی،قضاء الٰہی شدید بیمار ہوکر صاحب فراش ہوگئے،بارے خدا نے صحت عطا فرمائی۔وطن میں طبابت کا مشغلہ رہا۔ تین سال بعد پھر جائس تشریف لے گئے،تقریباً سترہ برس بعد مدرسہ احسن المدارس کانپور کے مفتئ اعظم کا منصب رفیع سپرد کیا۔آپ کانپور سے بار ادہ حج وزارت روانہ ہوئے، مکہ معظمہ میں الگ قیام جماعت کے سبب قاضی نجدی سے گفتگو ہوئی،آپ کامیاب اور وہ خائب و خاسر ہوا۔بعدہٗ دربار نبوی میں میں حاضری دی،حضرت قطب مدینہ منورہ مولانا شاہ محمد ضیاء الدین قادری مدظلہٗ نے سند حدیث اور سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔
تاریخِ وصال: آپ رحمۃ اللہ علیہ 3 ربیع الثانی 1403 ھ/بمطابق جنوری 1983 ء کو وصال ہوا۔
ماخذ ومراجع: تذکرۂ علماء اہلسنت
//php } ?>