پیر طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی رفاقت حسین کانپوری

پیر طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی رفاقت حسین کانپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

برہان الاصفیاء سلطان (المتکلمین،شرف الاسلام والمسلمین حضرت مولانا الحاج شاہ رفاقت حسین قبلہ مدظلہٗ کا آبائی وطن جلال گڈھ جڑھوا حاجی پور نسبی تعلق مشہور بزرگ حضرت سید شاہ جلال الدین جڑھوی سے ہے جن کا مزار مبارک جڑھو اگڈھ پر زیارت گاہ حلائق اور دفع طیبات وآسیب میں مشہور ہے، حضرت قبلہ گاہی،مولوی شاہ عبد ال رزاق المتوفی ۲۵؍جمادی الاخریٰ ۱۳۴۳؁ھ بن شاہ حسین بخش بن خدا بخش بن میر شاہ تراب علی بن حضرت شاہ جلال الدین علیہم الرحمۃ کے درسرے فرزند بماہ کا تک ۱۳۱۷؁ھ فصلی میں بھوانی ضلع مظفر پور میں پیدا ہوئے، مرچا اسکول میں درجہ چار تک اسکول کی تعلیم پائی، بعدہٗ قریب کی بستی عارض پور کے مولوی طاہر حسین مرحوم سے فارسی گلستاں بوستاں تک پڑھی،اپنے چچا کے ہمراہ ان کی سسرال ملبتھی مسہری رہ کر مولوی محمد اسماعیل سے اتوار پور میں چھ ماہ تحصیل علم کی،والد ماجد نےاپنی رحلت سے ایک سال پہلے مدرسہ احمدیہ مظفر پور میں لےجاکر داخل کرادیا،مولوی عبد الرزاق صاحب مرحوم متصلب حنفی تھے،مشہور غر مقلد بہاری عالم مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی اپنی قرابت کے قریبی گاؤں نیر پور میں احناف پر سب وشتم سے بریر تقریر ختم کر اچکے تھے،اور یہ مدرسہ انہیں کے ماننے والوں کا تھا،اس لیے حضرت قبلہ گاہی کا اس مدرسہ میں داخلہ زیر بحث تھا،دادا مرحوم منتقل کرنے کی فکر میں تھے، کہ پیام اجل آپہونچا،حضرت نے بعمر ۱۳برس ۲۷؍صفر المظفر ۱۳۴۳؁ھ کو علم الصیغہ،۱۲؍جولائی ۱۹۲۷؁ھ کو فصول اکبری،بروز جمعہ ۳؍رجب ۱۳۴۳؁ھ کو تاریخ الخلفاء شروع کی،حضرت قبلہ گاہی فرماتے ہیں،مدرسہ احمدیہ میں کبھی میرا دل نہیں لگا،اسی سنہ میں تعطیل کلاں کے بعد مدرسہ عزیزییہ بہار شریف میں داخل ہوئے،۷؍ذی قعدہ سنہ مذکورہ میں حضرت مولانا شاہ حبیب الرحمٰن بہاری مرحوم سے شرح وقایہ شروع کی،اور حضرت مولانا مفتی عبد المتین سے آثار سنن پڑھ کر اگز امیشن بورڈ کا‘‘مُلا’’ پاس کیا،حضرت مولانا عبد الغنی مدرسہ عزیزیہ کے صدر مدرس تھے، ۱۳۴۵؁ھ میں جونپور کا تعلیمی سفر فرمایا، مدسہ حنفیہ میں داخلہ لے کر ۲۰؍ذی الحجہ کو مشکوٰۃ شریف شروع فرمائی، اور ۱۵؍شعبان سنہ مذکورہ میں ختم کی،سراجی بھی یہیں ختمکی،۴۵۔۱۳۴۶؁ھ دو سال یہاں رہ کر برادر بزرگ مولوی قطب الدین چشتی صابری اشرفی کے پیر و مرشد حضرت مولانا سید شاہ طاہر اشرف کچھوچھوی دھلوی کے مشورہ سے دار العلوم معینیہ عثمانیہ درگاہ شریف دارالخیر اجمیر میں داخل ہوئے،بعد امتحان وظیفہ مقرر ہوا، ۵۷تا۵۱؁ھ دار العلوم کے اساتذہ حضرت صدر الشریعہ حجۃ العصر مولانا حکیم امجد علی اعظمی، مولانا حکیم سید عبد الحئی افغانی مولانا مفتی متقدمین کی کتابوں کا درس لیا،۲۸؍ذی الحجہ بروز جمعرات ۱۳۷۰؁ھ کو حضرت قدوۃ الواصلین مولانا الحاج سید شاہ علی حسین محبوب ربانی سرکار کچھوچھہ کے مرید ہوئے،تمام سلاسل کی اجازت مرحمت ہوئی اور شجرۂ مبارکہ کی پشت پردست مبارک سے سلسلہ عالیہ قادریہ منوریہ تحریر فرماکر اجازت دی،اجمیر شریف کے بزرگ شاعر خواجہ سید اکبر حسین اکبر سے مشورۂ سخن کیا، سے مشورہ سخن کیا،۱۳۵۲؁ھ میں حضرت صدر الشریعہ کی معیت میں بریلی آئے،مدرسہمنظر اسلام میں درس و تدریس میں مشغول ہوئے،ایک سال بعد مدرسہ محمدیہ جائس ضلع رائے بریلی کے صدر مدرس ہوکر تشریف لے گئے،کچھ عرصہ بعد مدرسہ محمدیہ سے علیحدگی اختیار کرلی،بعدہٗ محلہ قضیانہ میں قیام کر کے مطب کے ساتھ درس دیتے رہے۔۔۔۔۔ لھنؤ سے قربت اور نوابین کی قرابت کی وجہسے جائس میں شیعت کا زور،تبر ۱۳ اور سب رشتم کا بازار گرم تھا حضرت قبلہ گاہی نے وف افض کا وسبلیغ فرمایا،جس سے اُن کا زور ٹوٹ گیا،چند سال جامع مسجد سلطانپور کے خطیب رہے، یہاں مولوی امین نصیر آبادی کی سُنیت دشمن سرگمیوںکے انسداد کےلیے گوشش فرمائی،یہاں سے عقیدت مندانِ جائسی کی درخواست پر چندے جائس قیام فرماکر وطن مراجعت فرمائی،قضاء الٰہی شدید بیمار ہوکر صاحب فراش ہوگئے،بارے خدا نے صحت عطا فرمائی ،وطن میں طبابت کا متغلہ رہا ، تین سال بعد پھر جائش تشریف لے گئے،تقریباً سترہ برس بعد بروز سلیچر ۱۶؍شوال المکرم ۶۹؁ھ مدرسہ احسن المدارس قسیم کانپور کے مفتئ اعظم کا منصب رفیع سپرد کیا،بروز شنبہ ۶؍شوال ۱۳۷۴؁ھ کانپور سے بار ادہ حج وزارت روانہ ہوئے، مکہ معظمہ میں الگ قیام جماعت کے سبب قاضی بقجاۃ نجدی سے گفتگو ہوئی،آپ کامیاب اور وہ خائب و خاسر ہوا،بعدہٗ دربار نبوی میں میں حاضری دی،حضرت قطب مدینہ منورہ مولانا شاہ محمد ضیاء الدین قادری مدظلہٗ نے سند حدیث اور سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت مرحمت فرمائی، ۱۳۷۸؁ھ میں بغداد مقدس اور کربلاء معلی وغیرہ کی حاضریاں دیتے ہوئے حج وزیارت کا شرف حاصل کیا۔ ذی قعدہ ۱۳۷۹؁ھ میں دار العلوم شاہ عالم احمد آباد کے تین ماہ کےلیے شیخ الحدیث وصدر مدرس ہوکر تشریف لے گئے اور تقریباً ڈیڑھ سال قیام فرمایا،پھر کانپور واپس آئے،مدرسہ مسکینہ دھوراجی ضلع راج کوٹ تشریف لے گئے۸۱تا۱۳۸۲؁ھ قیام رہا، اس کےبعد سے مستقلاً مدرسہ احسن المدارس قدیم کےسر پرست ہیں،اور ملک کے طول وعرض میں بلسلسۂ ہدایت وارشاد سیاحت فرماتےہیں،۔۔۔۔۔ یہ تو حضرت قبلہ گاہی کے عمومی حالات تھے،جن کا تعلق ظاہر سے ہے،باطنی احوال و کیفیات پر آپ نےپردہڈال رکھا ہے مگر پھر بھی کبھی کبھی ہم اہل ظاہر اس کی تجلیات کو پالیتے ہیں،آپ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد ‘‘درویش کا ظاہر سلطانی اور باطن فقیری ہونا چاہئے،کے مسداق و مظہر ہیں،اتباع سنت اسابت رائے،قلت کلام علم دور گذر آپ کے اوصاف خاص ہیں۔۔۔۔ راقم سطور نے حجرت قبلہ گاہی کو حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کے اکثر اوصاف میں مماثل پایا ہے،حضرت قبلہ گاہی کو حضرت صدر الشریعہ اور حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا قدس سرہما سےبھی اجازت و خلافت ہے،آپ کے تلامذہ میں حضرت مولانا سید نعیم اشرف سجادہ نشین جائسی ضلع رائے بریلی،مولانا حکیم بشارت حسین مہتمم مدرسہ سراج العلوم نہال گڈھ سلطانپور،پروفیسر حکیم خلیل احمد طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڈھ،حضرت مولانا سعید احمد جائسی مرحوم(حضرت قبلہ گاہی سےپہلے احسن المدارس قدیم کے صدر مدرس تھے) مولانا جلال الدین بھیکی پوری،حضرت مولانا سید محمد شاہ اکبر سجادہ نشین آستانہ عالیہ ؤمدیہ پھپھوند،صاحبزادہ حضرت مولانا سید شاہ ظل حسن اشرفی کچھوچھوی، مولانا محمد رفقت اللہ خاں گونڈوی،حضرت مولانا قاری عباط الرحمٰن آسنسولی (مُرید وخادم) مولانا سید محمد اصغر پھپھوند وی، مولانا قاری اسماعیل ٹنکاروی گجراتی، مولان قاری سید حسین الدین ٹنکاروی گجراتی،مولانا قاضی حبیب اللہ نبی پوری گجراتی خطیب جامع رضا لندن وغیرہ خدمت دین میں مصروف ہیں

آپ کے خلفاء میں قاضی سید عابد حسین ساکن کٹنی قوت ہوگئے،قاضی صاحب وسیع السلسلہ شیخ تھے مولانا ظہور احمد مظفر پوری شاگرد وخلیفہ اور سید احسان علی باندوی بقید حیات اور مصروف ارشاد ہیں۔

تصانیف:۔ تفسیر سورۂ بقرہ(مطبوعہ در رسالہ طیبہ احمد آباد)، قادیانی کذاب،طریقۂ حنفیہ،الیاسی جماعت،عورت کی نماز مطبوعہ ہیں۔مجموعہ فتاویٰ دوضخیم مجلدات قلمی ہیں،علاوہ ازیں چند کتابیں نا مکمل ہیں۔

تجویزوآراء