پیر عبد الرحمن بھرچونڈوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی: عبدالرحمن۔لقب:مجاہد اسلام ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:پیر عبدالرحمٰن بن پیر حافظ محمد عبداللہ بن قاضی خدابخش بن میاں ملوک۔(علیہم الرحمہ)
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت با سعادت 1310 ھ ،1892ءمیں "خانقاہِ قادریہ" بھر چونڈی شریف ،ضلع سکھر کی روح پر ورفضا میں ہوئی۔
تحصیل ِعلم:قرآنِ مجید پڑھنے کے بعد سراج العلماء مولانا سراج احمد خانپوری قدس سرہ سے نحو اور فقہ کی کتابیں پڑھیں اور بقیہ تعلیم مولانا عبد الکریم ساکن میانوالی سے مکمل کی ۔ چونکہ آپ کو بچپن ہی سے ایسا ماحول میسر تھا جو شریعت و معرفت اورذکروفکرکی برکات سےمعمورتھا اور پھر ولی کامل والدِ ماجدکی کیمیاءاثرصحبت سےآپ پوری طرح مستفیض ہوئےتھے۔ اس لئے آپ کے کمالات و درجات کا اندزہ لگانا نظر ظاہر ین کے بس کی بات نہیں ہے ۔
بیعت وخلافت: اپنے والد گرامی حافظ محمد عبد اللہ علیہ الرحمۃ سے بیعت وخلافت حاصل تھی، 1928 ء میں والد ِگرامی کی رحلت پر قل خوانی کے موقع پر سجادہ نشین ہوئے ۔
سیرت وخصائص: ولی ابنِ ولی،شیخِ کامل،پیرِ طریقت،رہبرِ شریعت،پیشوائے اہلسنت،عاشقِ رسولﷺ،حضرت علامہ مولانا پیرعبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ولیِ کامل تھے۔ حددرجہ پابندِ شریعت تھے۔نماز با جمات کے ایسے پابند تھے کہ عمر بھر میں شاید ہی کوئی نماز بغیر جماعت کے پڑھی ہو ، ظاہری کرو فر سے کوئی سرو کارنہ رکھتے تھے، ان کے ہر کام میں للٰہیت جلوہ گر ہوتی ، ان کی نظر میں دنیا اور اہل دنیا کی کچھ وقعت نہ تھی۔اہلسنت اور تحریک پاکستان میں آپ کی گر انقر ر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے مسلم لیگ کی بھر پور اعانت کی اور قائداعظم کا عملی طور پر ساتھ دیا ۔آل انڈیا سنی کانفرنس میں مشائخ سندھ کی نمائندگی فرمائی۔ کا نگریس سے سخت متنفر تھے ۔کانگریسیوں ،وہابیوں ، دیوبندیوں ،اوربد مذہبوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور اپنے مریدین کو بھی ان کی صحبت سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ مسلمانوں کی بے حسی اور اسلام سے بینگانگی ہمیشہ آپ کو بے چین رکھتی تھی۔ ربیع الاول شرف کا پورا مہینہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا کرتے تھے ، کھانے سے پہلے اور بعد خود تمام لوگوں کے ہاتھ دھلاتے اگر چہ حاضرین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ۔ علم کی بڑی قدر منزلت فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ،نےفتاویٰ رضویہ جلد اول اور بہار شریعت کی اشاعت آپ ہی کی تحریک پر کی تھی۔
کانگریسیوں سےنفرت: ایک مرتبہ سکھر میں کانگریس کا جلسہ ہوا۔سندھ میں ابھی تک مسلم لیگ کا تعارف نہیں ہوا تھا ۔آپ کو جلسے میں مدعو کیا گیا۔آپ تشریف لےگئے ۔دوپہر کو خصوصی میٹنگ میں پہنچے تو مجلس کا نقشہ یہ تھا کہ مولوی عطا اللہ شاہ احراری وسط مجلس میں بول رہے تھے اور مولوی حبیب الرحمٰن لد ھیانوی کعبے کی طرف پاؤں دراز کئے لیٹے ہوئے تھے ۔آپ مجلس میں بیٹھتےہی فرمایا :مولانا اس سمت مسلمانوں کا کعبہ ہے،اس طرف پاؤں دراز کرنا نہ صرف منع بلکہ شقاوت اورمحرومی کا باعث ہے ۔مولوی صاحب کھسیانے ہوکر اٹھے اور کہا آپ جیسےتنگ نظرصوفیوں اور پیروں نےدین کو تنگ کردیاہے۔آپ تھوڑی دیر بعد مجلس سے اٹھ کر چلے آئے اور فرمایا : یہ لوگ جب خدا کے گھر کی بے اد بی سے نہیں رکتےتو حضور سید عالم ﷺ کی بے اد بی سے کب چوکتے ہوں گے ۔اس کے بعد زندگی بھر کا نگر یس کے جلسے میں تشریف نہ لے گئے۔ایک دفعہ آپ کے خلیفہ خاص سید محمد مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ نے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔
؏:کانگریس کے مولوی کی کیا پوچھتے ہو کیا ہے۔۔۔۔گاندھی کی پالیسی کا عربی میں ترجمہ ہے
تحریکِ پاکستان میں کردار:سند ھ میں کانگریس کا زور توڑنے اور مسلمانوں کی تنظیم کیلئے آپ نے سندھ کے درمند اصحاب کی میٹنگ بلا کر" جماعت احیا ء الاسلا م "کی بنیاد رکھی۔دستور کو مستقل قومی حیثیت دیکر اسلامی ریاست کے حصول پر ساری مساعی کا دارومدار رکھا گیا ۔ جماعت کے پروگرام اور تعارف کیلئے دھڑادھڑ لٹر یچر چھاپ دیا گیا۔اسی سلسلے میں سندھی پریس خریدا گیا اور جماعت کا اخبار "الجماعت"کے نام سے مولوی صدرالدین شاہ کی زیر صدارت شکار پور سندھ سے جاری کیا گیا ۔جس میں نہایت حکیمانہ انداز میں مضامین لکھ کر رائے عامہ کو اندرونی طور پر مسلم لیگ کے حق میں ہموار شروع کردیا1938ء تک صوبہ سندھ میں کانگریس کا زور تھا ۔مسلم لیگ پوری طرح صوبہ کے عوام میں متعارف نہیں ہوتی تھی۔چنانچہ مسلم لیگ کو متعارف اور مستحکم بنانے کیلئے آپ نے خاصا کام کیا۔
1943ء میں "آل انڈیا مسلم لیگ" کا سالانہ اجلاس کراچی میں منقعد ہوا ۔جس میں قائدعظم ،نواب بہادر یار جنگ ،نوابزادہ لیاقت علی خان ،مولانا عبدالحامد بد ایونی ،محمد ایوب کھوڑو،حاجی عبداللہ ہارون اور نواب محمد اسمعیل خاں کے علاوہ بہت سے اکابرین ملت شریک ہوئے ۔جماعت احیاء الاسلا م کے صدر کی حیثیت سے آپ کو بھی مدعوکیا گیا۔اس موقع پر آپ نے اعلان فرمایا :کہ"مسلم لیگ بر صغیر میں مسلمانو ں کی واحد نمائندہ جماعت ہےلہذا ہم اپنی تمام قوت و طاقت اور جماعت احیاء الاسلام کو مسلم لیگ میں مدغم کرتے ہیں اور احیاءالاسلام کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے پانچ ممبران اسمبلی مسلم لیگ میں شامل ہوتے ہیں "۔یہ اعلان آپ نے قائد اعظم کی اس یقین دہانی او ر گفت وشنید کےبعد کیا تھا کہ یہ ہمارا پاکستان ایک صحیح اسلامی ریاست ہوگا جہاں صرف کتاب و سنت کی حکمرانی ہو گی۔
تحریک پاکستان کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ انگریز حکومت نے قائد اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم اکثریت والے صوبوں میں سے کسی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا ثبوت دیں ،اس نازک مرحلے پر آپ کے کے روحانی وایمانی جذبہ اور جاہ و جلال نے وہ کام کیا جو تاریخ کےصفحات پرہمیشہ روشن رہیگا۔آپ نے سندھ اسمبلی کے تمام مسلم ممبران سے ملاقات کی ،ان میں سے کئی آپ کے مرید تھے لیکن ان کی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی ۔آپ نے بڑی مجاہد انہ شان سے ایک ایک ممبر سے کہا کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں تحریک پاکستان کی تائید میں وٹ دے۔چنانچہ انہونے بسرو چشم آپ کا فرمان قبول کیا۔اسمبلی ہال میں تحریک پاکستان کو مطلوبہ تائید مل گئی ،انگریز اور ہندو ٔں کے ہوش اڑ گئے کیوں کہ انھیں ایسی توقع نہ تھی۔ اسی طرح "آل انڈیا سنی کانفرنس"میں شرکت فرمائی ،جس نے قیامِ پاکستان کے حوالے سے بڑااہم کرداراداکیا۔
تاریخِ وصال: 9/جمادی الاول 1380 ھ ،مطابق 30/ اکتوبر 1960 ء بروز اتوار اک بجے دن آپ نے انتقال فرمایا ،اور بھر چونڈی شریف میں مزارپرانوارمرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔تحریکِ پاکستان اورمشائخِ عظام۔