طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ
طلحہ بن عبید اللہ ابومحمد کنیت،فیاض اورخیرلقب،والد کا نام عبیداللہ اوروالدہ کا نام صعبہ تھا، اسلام قبول کرنے والے پہلے آٹھ افراد میں سے ایک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔ غزوہ احد اور جنگ جمل میں انکا خاص کردار رہا۔ حضرت طلحہکا نسب چھٹی ساتویں پشت میں حضرت سرورکائنات ﷺ سے مل جاتا ہے۔
قبول ِاسلام:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مشرف با اسلام ہوئے۔
فضائل ومناقب:غزوۂ احد میں فدویت جان نثاری اورشجاعت کے جو بے مثل جوہردکھائے یقناً تمام اقوامِ عالم کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے،تمام بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا،حضرت ابوبکر صدیقنے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کیے تھے۔ درباررسالتﷺ سے اسی جان بازی کے صلہ میں “خیر" کا لقب مرحمت ہوا، صحابہکو واقعہ احد میں ان کی اس غیر معمولی شجاعت اورجانبازی کا دل سے اعتراف تھا، حضرت ابوبکر صدیقغزوۂ احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ یہ طلحہکا مخصوص دن تھا، حضرت عمرؓ ان کو صاحبِِ احد فرمایا کرتےتھےخود حضرت طلحہکو بھی اس پر فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اورہمیشہ لطف وانبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔ حضرت طلحہاقلیم سخاوت کے بادشاہ تھے،فقراء ومساکین کے لیے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا، قیس ابن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے طلحہسے زیادہ کسی کو بے طلب کی بخشش میں پیش پیش نہ دیکھا۔حضرت طلحہبنو تمیم کے تمام محتاج و تنگدست خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، لڑکیوں اوربیوہ عورتوں کی شادی کردیتے تھے،جولوگ مقروض تھے ان کا قرض ادا کردیتے تھے؛ چنانچہ صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا، وہ سب انہوں نے اپنے پاس سے ادا کردیا ،ام المومنین حضرت عائشہسے بھی خاص عقیدت تھی اورہرسال دس ہزار درہم پیش خدمت کرتے تھے۔
وصال: حضرت طلحہ نے باسٹھ یا چونسٹھ برس کی عمر میں ذی قار شہادت حاصل کی۔ لیکن جہاں آپکو دفن کیا گیا وہ زمین نشیب میں تھی اس لیے اکثر غرقِ آب رہتی تھی، ایک شخص نے مسلسل تین دفعہ حضرت طلحہکو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی لاش کو اس قبر سے منتقل کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے خواب کا حال سنا تو حضرت ابوبکر صحابیکا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کواس میں منتقل کردیا، دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بھی یہ جسم خاکی اسی طرح مصئون ومحفوظ تھا،یہاں تک کہ آنکھوں میں جو کافور لگایا گیا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا،(اسد الغابہ ،ج،۳ )
//php } ?>