آہ! سید شاہ تراب الحق
آہ! سید شاہ تراب الحق قدس سرہ
ہائے، اے شہر خوباں کے شہر یار ، اے جلوہ صد رنگ تو کہاں کھو گیا
اسیر غم:ڈاکٹر غلام جابر شمس،بمبئی
______________________________________________________
خاکِ ہند کی وہ صد رنگی کوند، جو حیدر آباد دکن کے افق سے چمکی تھی،کراچی سندھ کے سر فلک جا کر شہاب ِثاقب بن گئی اور پھر ایک عمودی و عموقی نور مستطیل بن کر ربع مسکوں کے تمام آفاق پر چھاگئی،جس کی برستی روشنی سے ایشیائی ممالک کے در و دیوار، صحرائے افریقہ کے ریگزار و لالہ زار، یورپی مملکتوں اور ریاستوں کے دشت و کوہساراور امریکی دیار و امصار کے بام و ایوان روشن و منور ہوئے۔۔۔
ہائے اے چکاچوند شہر کراچی کی صبح درخشاں کو ماند کرنے والی سرمئی شام!کتنی بے رحم ہے توکہ اکیلے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ بازو میں دبوچ لیا۔یہ تو نے کیسی نا انصافی کی۔کیا تجھے خبر ہے کہ اس کی محبت،اس کی عقیدت اوراس کی حسین ترین یادوں اور یادگاروں کا چراغ کتنے دل رنجور و مہجور نے اپنے صحن و آنگن میں جلا رکھا ہے۔آج توقوم کی قوم سوگوار ہے۔ ملک کا ملک ماتم کناں ہے۔
واحسرتاہ!حسرت بھی کیوں؟۔ وہ موت تو خود ہی ڈری سہمی دلہن بن کر آئی تھی اور اس محبوب جاں نواز کو تیری تہوں کے سپرد کیا۔خوب یاد رکھ لے کہ یہ قومی امانت ہے۔ ملی سرمایہ ہے اور جماعتی اثاثہ ہے۔ لیکن اے شام کراچی! تو یاد رکھ!! اس پر تنہا تیرا ہی تو حق نہیں تھا، وہ توفاطمی چمن کا پھول تھا، حسنی ڈال،حسینی شاخ کا گل تر تھا، وہ چادرپاک،جس میں پانچ انمول و البیلی جانیں سمٹ آئی تھیں، جس میں ایک خاتون اور چار رجال عظیم تھے،اس چادر مبارک کی دائمی رنگتوں،قائمی برکتوں اور دوامی امانتوں کا وہ امین و خازن تھا۔ جس کو وہ اپنی آبائی سخاوت اور توریثی فیاضی کے ساتھ مشرق و مغرب میں بانٹا کرتا تھا۔ داتا کا مسکن تو کراچی تھا، منگتوں کی قطار جہان بھر میں پھیلی ہو ئی تھی۔ جیسا کہ اس مرد کار کا میدان کار دنیا جہان تھا۔
فردسے فرید،قطرہ سے گوہر اورشخص سے شخصیت بننے کی تشکیلی اساس میں حیدر آبادی تہذیب کی جھلک تھی،بریلی کی وسیع و مؤثر وضع داری تھی اور پھر کراچی کا بانکپن تھا اور سب پر مستزاد حسینی خون کا تیور و طمطراق کہ بس اس جان جاناں کا نظارہ کر تے ہی بنے۔قد مبارک تو سرو قد،قامت زیبا کی اٹھان تو عرب ناقوں کی کوہان،دراز قدوں میں سر بلند،پست قدوں میں سر فراز۔جلوت و خلوت اور مجلس و مجمع عام میں دور سے دِکھائی دیں۔سرحدیں دم بخود،کبھی اس پار اور کبھی اس پار پہنچانے جائیں۔ ایسی قد آور شخصیت، ایسی مقتدر ہستی۔وہ کراچی ہی کیا؟۔ وہ تو تمام کرۂ ارض کی شان تھا۔ عقابی آنکھوں کی چمک،اس پر لگی عینک،عجب بہار کا سماں پیدا ہو تا تھا۔ اونچی و باریک ناک،تو خانوادۂ سیاد ت مآب کی خاص شناخت ہے۔جو امامت و قیادت اور سردار ی و سربراہی کی علامت ہے۔پارۂ سیم و طلا کی آمیزش لیے رنگت ایسی دل بہار کہ جاں نثار کیا کیجیے۔دل نچھاور کیاکیجیے۔ لبہائے نازنین تو ایسے کہ کتنے لالہ رخوں،زہرہ جبینوں اور سیم ساقوں کے لبہائے نازک کی سرخیاں قربان۔
سنت نبوی کی بہار لیے دستار زیب سر،کبھی شیروانی،کبھی جبہ زیب سیم تن،دست اقدس میں منقش عصا،ساتھ میں خدام و حفاظی دستہ،اب جب یہ شہزادۂ غوثیت مآب لب واکریں اور لہجہ دھیمہ ہو،تو شیرینی سے پر،مٹھاس سے بھر پور،علمی نکات سے لبریز اور سوقیت و ابتذال سے دور،لگے کہ ’نہج البلاغۃ‘ کے اوراق و صفحات سے علم ومعرفت، حکمت ودانائی، زبان و بیان کی رعنائی و برنائی اور درد وسوز رم جھم بارش ہو رہی ہے اور جب لہجہ ذرا تیز ہو، تو شیرنر کی وہ دھاڑ و للکار کہ کوہ و جبل کے سینے دہل اٹھیں اور ابل پڑیں،مگر دونوں صورت میں وقار، متانت، سنجید گی اور تاثیر و تاثربر قرار۔ پھر کس میں یارا کہ اس مواج و جوال رفتار پر بند باندھ سکیں۔ بس اب صرف سنا کیجیے اور دیکھا کیجیے اس مرد مجاہد،بطل جانباز، شہر یار علم، شہباز سلوک و معرفت،فکر و تدبر کا تاجور،خطابت و مناظرہ کا تاجدار، کردار و عمل کا کھنکتا سکہ،زبان و ادب کا بادشاہ،تاریخ و ثقافت کی چلتی پھرتی لائبریری،تکلم،تخاطب، تقریر،تحریر،تحقیق،تنقید،حسن مزاح اور لطیف طنز و ظرافت کے ادا شناس اورسب سے بڑھ کر یہ کہ متین و متواضع،حلیم و برد بار،شفیق و کریم،نیک خوئی و خیر خواہی کے خوگر،عشق و وفا اور صدق و صفا کی ڈگر،نبوی اخلاق اور ساداتی صفات کے اس پیکر کے جوبن کا تماشہ،جو اب اس وقت اوج و موج پر ہے۔
حضرت والا گوہر کا یہ مزاج کہ اگر کوئی مصلح و مقررہوائی جہاز سے آیا۔ ہوٹل میں قیام رہا۔ رات خطاب کیا اور صبح رخصت ہو گیا،تو نتیجہ خیز کام نہ ہوگا۔ نتائج و اثرات اس وقت ظاہر ہوں گے۔ جب کہ آپ عوام میں گھس کراور بیٹھ کر ان کے دکھ دردکو بانٹیں اوران کے مسائل کو سمجھیں اور حل پیش کریں۔صرف تھیوری بتانے اور فارمولہ سنا دینے سے کام بنتا نظر نہیں آتا۔جب تک نہایت ہمدردی کے ساتھ عملی تربیت و تعاون نہ ہوگا،اثربھی مرتب نہ ہوگا‘۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے ہمدردی و درد مندی سے لبریزاور حکمت و موعظت سے پر یہ جملے کسی رہنما اصول، حکیمانہ و صوفیانہ اور دانشورانہ نکات سے کم نہیں۔ عوامی و سماجی معاملات و مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر ان کے فاسد اسباب و عوامل کی تشخیص اور پھر انہیں راست رخ پر لا کرحل کر دینا حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی قائدانہ و مدبرانہ اور خداداد صلاحیتوں کا بین ثبوت تھا۔ خواہ وہ مسائل علمی و تعلیمی ہوں یادینی و عرفانی ہوں یا سماجی و سیاسی یاپھر معاشی و روزگاری۔
اگست ۲۰۰۱ء میں یہ خاکسار کراچی پہنچا۔مقالۂ ڈاکٹریٹ کے لیے یہ مطالعاتی سفر تھا۔ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کے صدر عالی وقار سید والا تبار سید وجاہت رسول قادری صاحب بنفس نفیس اسٹیشن پر موجود تھے۔دیکھتے ہی میرے اوسان خطا ہو گئے کہ میری حیثیت تو طالب علمانہ تھی۔ صدر موصوف مجھے اپنے گھر لے گئے اور فریش ہو کر پھر اپنی گاڑی سے جماعت اہل سنت پاکستان کے امیر و رئیس، لاکھوں لاکھ انسانوں کے ماوا و ملجا اور مرشد و مربی حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دفتر لے گئے۔ بعد رسم تعارف و تواضع برکت آثار ہونٹوں سے جو پہلا جملہ نکلا،یہ تھا:پولیس اسٹیشن میں کاغذات کی انٹری ہو گئی؟۔صدر موصوف نے کہا: ابھی تو پہلے پہل یہیں آئے ہیں۔ فرمایا: ویزا،پاسپورٹ لایئے۔ دیکھ کر فرمایا: ویزا صرف کراچی کا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔انٹری ہو جائے گی۔یہ فرماکر کاغذات ایک کارکن کے حوالے کر دیا۔ تب فرمایا:آپ لاہور ضرور جایئے گا۔ ملتان،فیصل آباد اور اسلام آباد، جہاں جہاں ضرورت ہو،بے خوف ہو کر جایئے۔یہ رکھیے ہمارا کارڈاور جب واپس بھارت جانا ہو،ایک دن پہلے اطلاع کر دیجیے گا۔ تاکہ قانونی دفتری کام نپٹاکر آپ کا ویزا،پاسپورٹ آپ کو بر وقت مل جائے‘۔
یہ سن کر صدر موصوف نے کہا: لیجیے۔آپ کا کام بن گیا‘۔کوئی ایک مہینہ یہ خاکسار علمی افراد و شخصیات، اداروں،اکیڈمیوں اور لائبریریوں کے دروازے کھٹکھٹا تا اور تلاش و مطالعہ میں مصروف رہا۔ جب واپسی کا وقت آیا،خدمت با برکت میں حاضر ہوا۔سفر و تلاش اور حصول مواد کی روداد سنائی۔سن کر فرحاں و شاداں ہو گئے۔فرمایا: کل واپسی ہے؟۔ عرض کیا:جی۔فرمایا: اعلیٰ حضرت،مفتی اعظم علیہما الرحمہ،میرے سرکاروں پر خوب دل لگا کر کام کیجیے گا۔ یہ کام بارگاہ غوث پاک میں قبول ہو گا اور آپ سرخرو ہوں گے‘۔عرض کیا:حضور! آپ اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں۔دونوں دستہائے اقدس اٹھا کر میرے سر پر رکھا۔دیر تک کچھ پڑھ کر سر اور سینے پر دم کیا اورپھر فرمایا: یہ ہدیہ ہے(قلم، کتابیں اورکپڑے) اور یہ زاد راہ(نقد رقم)جایئے۔آپ کو اللہ و رسول کی امان میں دیا‘۔ دست بوسی کی اور الٹے پاؤں واپس ہوا،تو میرا سر بار احسان سے خمیدہ تھا اور پلکیں اشک تشکر سے نمناک تھیں۔
ہندوستان پہنچ کر میں نے ٹیلی فونک رابطہ رکھا۔کاموں کی پیش رفت اور رپورٹ دیتا رہا اور دعائیں لیتا رہا۔ ۲۰۰۵ء میں ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی نے اپنا پچیس سالہ جشن منایا۔ ہندوستان سے کئی حضرات مدعو تھے۔ان میں خاکسار کا نام بھی تھا۔ لیکن نہ مجھے جانے کا موقع تھا اور نہ ویزا ہی ملا۔ اس وقت تک خاکسار کی کئی کتابیں ہند و پاک سے شائع ہو چکی تھیں۔ اس جشن میں میں تو نہیں پہنچ سکا،مگر میری کتابیں ضرور پہنچ گئیں۔ ایک سیٹ شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھی حاضر کیا تھا۔ ۲۰۰۷ء تک خاکسارکی اور کتابیں شائع ہو کر منظر عام آئیں۔ پروفیسر محمد مسعود احمد نقشبندی،علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری،علامہ اقبال احمد فاروقی علیہم الرحمہ اور خود حضرت صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری زید مجدہ کی خصوصی دعوت پر ۱۷/ مارچ۲۰۰۷ء کو دوش ہوا پرصبح سویرے کراچی حاضر ہوا۔ شام کو ’امام احمد رضا سیمینار و کانفرنس‘ میں مقالہ پڑھ کر سنایا۔ شاہ صاحب علیہ الرحمہ ہی صدارت فرما رہے تھے۔ سامعین اور خواندہ افراد سے ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ بر سر منبر شاہ صاحب علیہ الرحمہ،کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم رضا،صوبائی حکومت سندھ کے ایک معزز وزیر اور صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری نے مل کر خاکسار راقم کی گل پوشی کی،گولڈ میڈل گلے میں ڈالا اور شال پوشی کی۔ایک بار پھر یہاں میرا ماتھا جھکا ہوا تھا اور آنکھیں اشکبا ر تھیں۔اس وقت میری ماں اور ان کی دعائیں مجھے بہت یادآرہی تھیں۔جب کہ دل حمد الٰہی میں سجدہ ریز تھا۔
شہر کراچی اور دوسرے شہروں میں خاکسار کے اعزاز میں کئی استقبالیہ مجلسیں منعقد ہوئیں۔ ان میں ایک یاد گار اور شاندار جلسہ طالب ہاشمی کے بنگلہ کے پارک نما گارڈن میں آراستہ ہوا۔ جس میں شہر کے علما،دانشوران اور معززین نے شرکت کی۔ صدارت و سرپرستی پھر وہی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی تھی۔مبادیات کے بعد خاکسار کو موقع دیا گیا۔ ’امام احمد رضا اور علما و مشائخ کراچی:عقائد و فکری نظریات میں قدر اشتراک اور روابط و تعلقات‘ عنوان بنا کر بیان کیا۔ بحمد اللہ سامعین ایک خوشگوار تاثر سے سر شار تھے۔ بعدہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کے اراکین و مخلصین اور حکومت پاکستان کے سا بق کیبنٹ منسٹر اور ’المصطفیٰ فلاحی سنٹر‘ کے سربراہ حاجی حنیف طیب نے ایک خطیر رقم اعزازیہ میں پیش کیا۔ خاکسار نے شکریہ کے ساتھ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کوبخلوص و صدق دل نذر کر دی۔ اس عمل سے حاضرین پھر ایک بار محظوظ و مسرور ہوئے۔ تب صدر مثل بدر حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ مائک کے سامنے نمودار و جلوہ بار ہوئے اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا:
’بھارت سے آئے عزیزم ڈاکٹر غلام جابر شمس صاحب نے اپنے علمی ذوق،قابل قدر کام اور پر خلوص عمل سے ہم سب کو ایک خاص لذت و کیف سے ہمکنار کر دیا ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اعلیٰ حضرت اور مفتی اعظم علیہما الرحمہ کے اس فرزند معنوی کا اقبال اللہ تعالیٰ روز افزوں بلند کرے‘۔اور پھر فرمایا:عزیز موصوف نے اعزازیہ تو نذر گزار دی۔لیکن میں انہیں ایک ایسے اعزاز سے سرفراز کرتاہوں،جس کو یہ دنیا و عقبیٰ کی سعادت و سرفرازی تصور کریں گے‘۔یہ فرما کر اس گنہگار کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اعلان فرمایا:میں انہیں بزرگوں کی روحانی امانتوں،جو مجھے اپنے مرشدان کرام سے تفویض ہوئی ہیں،کی اجازت و خلافت سے معزز و متفخر کرتا ہوں۔ اس شرط کے ساتھ کہ حسن نیت اور حسن عمل سے اپنی حیات کے لمحوں کو معمور رکھیں اور خلق خدا کو فائدہ پہنچائیں۔
حاضرین نے مبارک باد دی۔اس لمحۂ مسعود اور برکت و مسرت خیز گھڑی میں لگا کہ یہ کس عالم بالا کی سیر ہے اور سارا وجود وجد و کیف کی رقت و مسرت سے شرابور تھااور ضمیر نے اندر سے آواز دی:یہ فضل الٰہی و رسالت پناہی کی موج کرم کی بھرن ہے اور فیضا ن رضا کی اترن ہے۔ اختتام سفر پر پھر حاضر خدمت عالیہ ہوا۔تب پھر وہی ماسبق جیسی داد و دہش اور دعائیں اور یہ فرما کر رخصت کیا: جا بیٹا! جا!!خدا و رسول کی رضا اسی میں ہے کہ میرے رضا کاکام کرو۔یہ کام آپ کو دنیا و آخرت میں شاد کام کرے۔جا،اللہ و رسول آپ کا حامی و ناصر ہو‘۔یہاں ایک بار پھر میری آنکھیں آب اشک سے وضو کرنے لگیں اور جب ان کے دفتر سے باہر آیا،تو میرے قدم سو سو من کے ہو چکے تھے۔ آہ! وہ ایک یادگار اور آخری ملاقات تھی۔ سترہ دن بعد جب سر زمین پاک سے واپسی ہو نے لگی،تو محبت، عنایت،نوازش،اللہ حافظ اور دعائیہ و الوداعیہ کلمات کی سوغاتیں دامن میں سما نہیں رہی تھیں۔پاک دل حضرات کی محبتوں اوریادوں کی لکیریں ذہن کے اسکرین پر ایک ایک کر کے ابھر اور ڈوب رہی تھیں۔
امیر جماعت اہل سنت پاکستان حضرت سید شاہ تراب الحق قادری، سعادت لوح و قلم پروفیسر محمد مسعوداحمد علیہما الرحمہ کراچی میں، محسن و کرم فرماحضرت علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری،حضرت مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی، سفیر رضویات علامہ اقبال احمد فاروقی اور الحاج مقبول احمد ضیائی علیہم الرحمہ لاہور میں،ان کے نور نور چہرے اور ان کی یادیں اور باتیں،جن سے خوشبو ہی خوشبو بکھرتی تھی، نوع بہ نوع ہو کرسماعت و بصارت کے پردوں پر ناچ رہی ہیں۔ گونج رہی ہیں۔ ان ڈوبے آفتابوں کی شعاؤں سے قلب و نظر روشن ہے۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے اوران کے خاکی شبستانوں کو روشن و منور رکھے۔
خانقاہ و درسگاہ،عوامی جلسہ گاہ اور ایوان سیاست و اقتدار تک جن کی ہر ایک اپیل پر لبیک کہتا تھا اور کبھی کبھی تو لرز ہی اٹھتا تھا۔ایسا فرد فرید، مرد خلیق،سوختہ دل،جانباز و جگرباز،جب خانقاہی محبت و مروت،نرمی و نیک خوئی اور انسانی تہذیب و شرافت سے کام نہیں چلتا تھا، تو پھر ’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘پر عمل پیر اہو جا تا تھا،بندگان خدا کا وہ ہجوم،جو ان کی حیات پاک میں ان کے جلو میں اکٹھا ہوتا تھا، آج ان کے جلوس جنازہ میں اس کا پچاسوں گنا ازدہام کراچی کے بولٹن مارکیٹ میں مجتمع ہو گیاتھا۔ یہ ان کی خدا داد مقبولیت و ہردل عزیزی کا بین ثبوت تھا۔ان کی جاں گداز خدمات جلیلہ کاعظیم صلہ تھااور یہ بارگاہ الٰہی کا وہ بھاری انعام تھا، جواس نے اپنے بندوں کو دِکھا دیا اور بتا دیا کہ جو خدا کی راہ تسلیم و رضامیں مر مٹ چکا ہوتا ہے، اللہ کریم اس کے نام و نشان کو یوں ہی نیک نام و تابناک کر دیتا ہے۔کراچی کی تاریخ گواہ ہے کہ امیر جماعت اہل سنت پاکستان،زعیم و ضیغم قوم و ملت زندہ تھے اور زندہ رہیں گے۔ بس بات صرف اتنی ہے کہ اب وہ ایک ریشمی چلمن کے اس طرف ہے۔ جہاں سے وہ تو دیکھ سکتے ہیں۔ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں! اہل نظر اور صاحب دل کی بات پھر کچھ اور ہے۔
مخدوم گرامی مرشد اجازت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ،جن سے کئی کئی بار اکتساب فیض کیا تھا،وہ پچھلے کئی برسوں سے علیل تھے۔ ابھی ۳/ اکتوبر کو صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری سے دیر تک برقی لہروں پر بات ہوئی۔ فرمانے لگے:شاہ صاحب قبلہ کی حالت بہت نازک ہے۔ دعا کریں اور کرائیں کہ اللہ جل مجدہ راحت و عافیت عطا فرمائے‘۔ پھر ۶/ اکتوبرکو وہ خبر سنائی، جس کو سننے والا اور سنانے والا، دونوں کا دل ڈوب جا تا ہے۔’شاہ صاحب وصال فرما گئے‘۔ یہ سن کر کس کی تاب ہے کہ اپنے پر قابوپائے اور پلکوں کا جھڑنا روک لے۔ استرجاع پڑھا اور بے جان ساہو کر رہ گیا۔ اپنی لائبریری میں بیٹھا تھا۔ فوراََ ان کی دی ہوئی کتابیں،جن پر شاہ صاحب کے دستخط اور دعائیہ جملے ہیں،ان کی تحریروں کو بوسہ دینے لگا۔تب پھر اپنے آپ کو سمیٹ اور سنبھال کر احباب کو یہ اندوہ ناک اطلاع دے کر عرض کیا کہ وہ مجلس تعزیت و ایصال ثواب قائم کر کے بلندی درجات کی دعا کریں۔چنانچہ کئی مدارس و مساجد میں یہ عمل خیر انجام دیا گیا۔ کل ۷/ اکتوبر یوم جمعہ تھا۔ یہاں کثیر مسجدوں میں بعد نماز جمعہ بلندی درجات کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں اور وہاں نماز جنازہ کے بعد مخدوم گرامی قدس سرہ الباری کو اللہ کریم کے جوار رحمت میں سلا کر ’نم کنومۃ العروس‘ کا مژدہ جانفزا سنایا جا رہا تھا۔
اس سوگوار تحریر کے وقت ان کا گلاب سا کھلا چہرہ،ان کے نصیحت آمیز اور دعائیہ جملے،جواپنی زندگی کا نصب العین بنا ہوا ہے، ان کی فکر و تدبر اور درد و تڑپ سے تر آواز کی کھنک اور گرج،جس میں شبنم کی سی نمی اور برف کی سی ٹھنڈک ہوتی تھی، سامنے مجسم ہو کر کھڑی ہو گئی ہے اور ’ائے شہر خوباں کے شہریار!‘اور ’ائے جلوۂ صد رنگ! تو کہاں کھو گیا‘ میری زبان کا ورد بنا ہوا ہے۔ ائے میرے پاک پروردگار خالق و مالک!تو اپنے محبوب کے صدقے میں ان کے مشن ’جماعت اہل سنت‘ کو زندہ و تابندہ اور فعال و متحرک رکھ اور ان کے صاحب زادے و جانشین حضرت علامہ سید شاہ محمد عبد الحق قادری دامت برکاتہم کو ان کے مشن کا مخلص و سرگرم سربراہ اور ’الولد سر لابیہ‘ کاسچا عکس و مظہر بنا!آمین ثم آمین یا رب ا لعالمین۔