رمضان کی برکتیں

رمضان کی برکتیں
اورعشرہ جہنم سے نجات و شبِ قدر

ماہِ رمضان میں خوش نصیبوں نے رحمت و مغفرت کے دوسرے عشرے سے اپنے حصے کی برکتیں سمیٹیں جس کے بعد خیر و برکت سے آراستہ تیسراعشرہ آیا ۔
اس کی ہر گھڑی میں روزہ  داروں پر انعام و اکرام کی بارش کا سلسلہ جاری ہے اور روزہ دار اس سے فیضاب ہورہے ہیں ۔ جہنم سے آزادی کی نوید سناتا تیسرا عشرہ روزہ داروں میں نئی روح پھونک رہا ہے۔ اُخروی زندگی بہتر بنانے کی لگن بڑھ گئی ہے۔ تسبیح و قیام ، رکوع و سجود سے چہرے پُر نور  اور پیشانیاں جگمگاری ہیں۔
    اسی عشرے میں روزہ دار چند روز کے لیے دنیا کے جھمیلوں سے دور ہوکر اپنے رب سے ربط بڑھاتے ہیں، اعتکاف کرتے ہیں اور اسی دوران خوش نصیبوں  کو ایک رات میسر اتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں جسے شبِ قدر کہتے ہیں۔ یوں تو رمضان کے  مہینے کی ہر ساعت بیش بہاخزانوں سے معمور ہے جس کا اندازہ کرنا بندۂ عاجز کے لیے ممکن نہیں ۔ تاہم اس ماہ کے آخری عشرے میں خاص طور  پر رب العزت کی نوازش و عطا  کا شمار محال ہے۔ زمین کے پھیلاؤ اور سمان کی وسعتوں میں موجود  ارواح اگر باہم ہوکر بھی اس ذات ، اقدس کے لطف و کرم کا شمار کرنا چاہیں تو عاجز رہیں۔
    مخلوقِ خدا جو پہلے ہی اپنے عجز اور ناتوانی کا اظہار کررہی ہے،اس پر اللہ تعالیٰ مزید احسان کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ روزہ داروں کو اعتکاف کے زریعے رب العزت اپنا مہمان بننے کی دعوت دیتا ہے ۔ اسی عظیم عبادت کے دوران ہمیشہ رہنے والا رب ہر خاص و عام کے لیے ایسے زبردست انعام کی نوید سناتا ہے جس کا دنیا میں ہندسہ کے بڑے ماہر اور عقل و دانائی کے دعوے  دار انسان کی سیکڑوں مرتبہ پیدائش بھی احاطہ نہیں کرسکتی ۔اس انعام کو شبِ قدر کہتے ہیں۔ شبِ‎ِقدر کو عبادت میں گزار دینے والا  انسان ہزار سال کی عبادت کے برابر ثواب پاتا ہے۔ گویا سحرو افطار کی برکتوں سے مالا مال مسلمان اس عشرے میں معبود برحق  سے وہ انعام پاتا  ہے جس کا تصور کرنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
    نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور حکم دیا کرتے تھے   کہ اسی میں شبِ قدر کو تلاش کرو۔(ترمذی)
    اس عشرے کی اہم ترین مسنون عبادت اعتکاف ہے۔ نبی کریم ﷺ اعتکاف کا خصوصی اہتایم فرماتے اور اس عبادت کے سلسلے میں نہایت ذوق و شوق کا اظہار کرتے ۔ اللہ کے حکم کی تعمیل میں دو عشرے گزار لینے کے بعدجب مسلمانوں کے لیے روزہ معمول سے ہٹ کر نعت و برکت ،سخاوت فیاضی سے پُر ایک نئے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ راستہ اعتکاف اور شبِ قدر کی صورت میں ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا مقصد  سال میں ایک مرتبہ کی جانے والی اس عبادت میں اپنے بندوں کی حقیقی دل چسپی قائم رکھنا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہنے والے کسی بھی عمل سے ہم اکتا جاتے ہیں اور اس کام میں ہماری دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ یکسانیت تبدیلی کا راستہ  ہموار کرتی ہے۔ ہماری عقل اتنا ہی جان سکی ہے کہ انسانی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آخری عشرے کو گذشتہ سے منفرد کرنے کے لیے ہمیں اعتکاف اور شب قدر میں قیام کا موقع دیا گیا ہے۔ اعتکاف کے لیے مدت تو ظاہر کردی گئی ، مگر شبِ قدر میں قیام کا موقع دیا گیا ہے۔ اعتکاف کے لیے مدت تو ظاہر کردی گئ، مگر شبِ قدر کے لیے ہمیں تلاش اور جستجو کے عمل سے گزرنا  پڑتا ہے اور یہ حکمت آخری عشرے میں مزید تنوع پیدا کرتی ہے۔
    اعتکاف ،اللہ سے وابستگی کا بڑا ذریعہ ہے۔دنیا اور تمام تفکرات سے لا تعلق ہو کر خدائے واحد کے قرب کا راستہ ہے جس میں بہت اجر و ثواب رکھا گیا ہے۔ اس عشرے میں مساجد میں متکفین  تلاوت قرآن ، نماز اور دیگر عبادات کا خوب اہتاسم کرتے ہیں۔ اس عبادت کے لیے اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے والوں کے لیے صبح و شام کے معمولات پر بھی ثواب لکھا جاتا ہے ۔ ان کا سونا، جاگنا، اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا، پینا غرض ہر معمول کا عمل عبادت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ زبردست طاقت اور حکمت والا رب اپنے مہمانوں کو خوب ہی نوازتا ہے اور ان نوازشوں کا احاطہ مخلوق کے لیے نا ممکن ہے۔
        رمضان کے آخری عشرے کی کوئی ایک رات اپنے متلاشی مسلمانوں کو میسر آتی ہے۔ یہ شب قدر ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے، نبی کریم ﷺٓنے فرمایا :
’’اسے (شبِ قدر)رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔
    شب قدر کے بارے میں مختلف احادیث اور روایت ملتی ہیں  جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں پر اس انعام کا سبب  کیا ہے اور اس کی فضیلت اور اہمیت کا ذکر تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں کیا ہے:
        :’’ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں اتارا ہے‘‘۔
ربِ کائنات نے اپنے بندوں کو بتایا کہ اسی رات میں تمہارے لیے حکمت بھری کتاب(قرآن) نازل کی گئی جس سے تم دنیا اور آخری کے لیے راہ نمائی حاصل کرتے رہو۔ یہ رات صرف اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کےامتیوں کا اعزاز ہے اور کسی پیغمبر نے اپنے ماننے والوں کو ایسی برکتوں بھری رات کو نوید نہیں دی۔ اس انفرادیت کا اظہار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں کیا ہے:
    اگر ہم اس رات کا بھید جانناچاہیں تو ہمارے لیے قرآن موجود ہے جس میں اللہ  تعالیٰ اپنی مخلوق کو ان کے عاجز ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ حکمت و اسرار کا بحربیکراں یعنی شبِ قدر کا ذکر قرآن یوں کرتا ہے:
    ‘‘اور تم کیا جانو لیلہ القدر کیا ہے؟’’
    ہم اعتراف کرتے ہیں کے بے شک ہم رب العزت کی حکمت اور کرم کی ابتدا و انتہا کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔اس اعتراف کے ساتھ ہی ہم قرآن مجید میں مزید پڑھتے ہیں:
‘‘شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے’’
    ہمارے علم میں ایک اور بات آئی ہے  کہ ہزار مہینوں تک عبادت کی جائے تو اس پر خدا جو ثواب ہمیں عطا کرے گا۔ اس سے کئی گنا بڑھ کر اس شب میں عبادت کرنے کا ثواب ہمیں دیا جاتا ہے۔ اس فیاض اور سخاوت کے بحربیکراں سے رحمت و برکت کے موتی چنتے چنتے ہم تھک جاتے ہیں اور روحانی فیض کا یہ سلسلہ اسی آخری عشرے کے ساتھ رخصت ہوجاتا ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء