قطبِ مدینہ کا عشقِ رسول ﷺ
حضرت مدنی کو حضور سرورِ کائناتﷺ کی ذاتِ والا صفات سے بے پناہ الفت و عقیدت تھی۔ ان کی محفل میں ہر وقت ذکرِ رسول اللہﷺ اور نعت خوانی ہوتی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے نعت گو، نعت خواں حضرات میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے مدینۂ منورہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر نعت نہ پڑھی ہو۔ مدینۂ منورہ میں محافلِ میلاد کھلے طور پر منعقد نہیں ہوتیں، لیکن ان پابندیوں کے باوجود اکثر گھرانوں سے نعتِ رسولﷺ کی روح پرور آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ ان تمام نجی محفلوں میں محبت وعقیدت کا جس شوق اور اہتمام سے حضرت ضیاء الدین احمد مدنی کے ہاں مظاہرہ ہوتا تھا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اس موقع پر مدینۂ طیبہ میں حاضر ہونے والے شمعِ رسالت کے پروانے گلہائے عقیدت پیش کرتے۔ اگر کوئی خطیب صاحب محفل میں موجود ہوتے تو وہ بھی اپنے فرمودات سے اہلِ محفل کو نوازتے۔ نعت کے دوران فرطِ عقیدت سے حضرت کے چہرے پرآنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔۲
نعت خوانی سے لگن کا یہ عالم تھا کہ عشاکی نماز کے بعد عربی وقت کے مطابق رات تین بجے کا انتظار فرماتے رہتے اور بار بار وقت پوچھتے۔ اکثر تین بجنے سے دو چار منٹ قبل ہی بلند آواز سے درود شریف پڑھنا شروع فرمادیتے۔ ادب کا یہ عالم تھا کہ محفل شروع ہونے کے بعد کسی کا آکر ہاتھوں کو بوسہ دینے کو اچھا محسوس نہیں فرماتے تھے۔ محفل کے علاوہ ہر آنے والے کے سلام کا جواب مرحمت فرماتے اور بہت سی دعائیں دیتےاور اس محبت و شفقت سے پیش آتے کہ آنے والا یہی محسوس کرتا کہ حضرت کا سب سے زیادہ پیار مجھ پر ہی ہے۔ محفل کے اختتام پر تازہ وضو فرماتے اور اپنے بستر پر بیٹھ کر ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ کھانا بہت کم تناول فرماتے۔ اگر کوئی کھانے کی چیز لے آتا تو محفل کے بعد سب حاضرین کے ساتھ کھاتے۔۱
مدینۂ طیبہ میں جہاں بھی میلاد شریف کی محفل منعقد ہوتی تو آپ کو ضرور مدعو کیا جاتا، آپ ہمیشہ عقیدت و محبت سے اپنے مریدین اور معتقدین کے ہمراہ تشریف لے جاتے۔
۲ ماہنامہ ’’ضیائے حرم‘‘، لاہور، ش اکتوبر ۱۹۸۲ء، ص ۸۲۔
۱ مکتوب محمد حنیف قادری بنام حکیم محمد موسیٰ امرتسری لاہور محررہ ۱۲ دسمبر ۱۹۸۲ء۔