حضرت عبداللہ شاہ غازی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے آبا و اجداد اور فتاوٰی رضویّہ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تحریر: ندیم احمد نؔدیم نورانی
( ضیائی دارالتحقیق، انجمن ضیائے طیبہ، کراچی)
اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد رضا خاں نے اپنے شہرۂ آفاق فتاوٰی یعنی فتاوٰی رضویّہ میں حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی کے آبا واجداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم کا ذکر بڑی محبت و عقیدت سے کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ فتاوٰی رضویّہ سے ان بزرگوں سے متعلق کچھ نقل کیا جائے، بہ طورِ تمہید حضرت سیّدنا سیّد عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک مختصر تعارف ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے۔

نام، لقب، کنیت اور نسب:
حضرت سیّد عبداللہ شاہ غازی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا اسمِ مبارک ‘‘عبداللہ’’، اور لقب ‘‘اَلْاَشْتَر’’ ہے۔ ‘‘اَشْتَر’’ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے پپوٹے اس کی آنکھوں پر جھکے ہوئے ہوں۔ آج تک آپ ‘‘غازی’’ کے لقب سے مشہور ہیں، اگر چہ شہادت کی سعادت بھی آپ نے پائی۔ آپ کے ایک صاحب زادے سیّد ابو الحسن محمد تھے، جن کے نام پر آپ کی کنیت ‘‘ابو محمد’’ ہوئی۔ آپ ساداتِ کرام میں سے تھے۔ اس طرح آپ کا پورا نام:
سیّد ابو محمد عبداللہ اشتر غازی
ہوا، لیکن آپ کو زیادہ تر ‘‘عبداللہ شاہ غازی’’ یا ‘‘غازی بابا’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ولادتِ با سعادت:
حضرت سیّد عبداللہ شاہ غازی نَوَّرَ اللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہٗ کی ولادتِ با سعادت ۹۸ھ میں مدینۂ منوّرہ میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب بنو امیّہ کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔
(تحفۃ الزّائرین، حصّۂ سوم، ص۱۶۶)

شجرۂ نسب:
سیّدنا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نسباً سیّد تھے۔ آپ کے پردادا حضرت حسنِ مثنّٰی بن امام حسن ِمجتبیٰ کی شادی حضرت فاطمہ صغریٰ بنتِ امام حسین شہیدِ کربلا سے ہوئی، جن سے آپ کے دادا حضرت عبداللہ محض پیدا ہوئے۔ اس طرح حضرت عبداللہ شاہ غازی ‘‘حسنی و حسینی’’ کہلاتے ہیں۔(رضی اللہ تعالیٰ عنھم)

آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے:
سیّد ابو محمد عبداللہ شاہ اشتر غازی بن سیّد محمد ذو النفس الزّکیّہ بن سیّد عبداللہ المحض بن سیّد حسنِ مثنّٰی بن سیّدنا امام حسنِ مجتبیٰ بن سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ تعالیٰ عنھم) بن ابی طالب۔
(تحفۃ الزّائرین، حصّۂ سوم، ص۱۶۶)
اس شجرۂ نسب کے مطابق حضرت عبداللہ شاہ غازی کے
والدِ ماجد: امام نفسِ زکیّہ محمد
دادا: امام عبداللہ محض
پردادا: امام حسنِ مثنّٰی
سکڑ/سگڑدادا: حضرت امام حسنِ مجتبیٰ ابنِ سیّدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ تعالیٰ عنھم)
ہیں۔
دادی محترمہ: علامہ مَناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ حضرت نفس زکیّہ کی والدہ کا نام غالباً آمنہ تھا۔
پر دادی: حضرت فاطمہ صغریٰ بنتِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما
(حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، نفیس اکیڈمی، کراچی، مئی ۱۹۶۰ء، ص۳۳۶)

 

پردادی کا دوسرا نکاح:
حضرت عبداللہ شاہ غازی کی پردادی حضرت فاطمہ صغریٰ کا پہلا نکاح آپ کے پر دادا حضرت امام حسن مثنّٰی سے ہوا، جب کہ دوسرانکاح حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفّان یعنی حضرت عثمانِ غنی کے پوتے سے ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنھم)
(خاندانِ رسولِ مقبول، از سیّدہ یاسمین زیدی، ص۹)

چچا:
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے والدِ ماجد حضرت نفسِ زکیّہ محمد کے بھائیوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
موسیٰ، سلیمان، یحییٰ، ادریس اور ابراہیم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم)۔ حضرت ابراہیم کا لقب: ‘‘نفسِ رضیہ’’ تھا۔
(خاندنِ رسولِ مقبول،ص۹؛ حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، نفیس اکیڈمی، کراچی، مئی ۱۹۶۰ء، ص۳۳۷)
نوٹ: سیّدنا حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہٗ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے چچا حضرت موسیٰ بن امام عبداللہ محض ہی کی اولاد سے ہیں۔

پھوپھی:
آپ کی پھوپھی صاحبہ کا اسمِ گرامی زینب بنتِ عبداللہ ہے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما۔ (تاریخِ طبری، اردو، جلد۷، ص۲۳۵)

برادران:
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بھائیوں کے نام یہ ہیں:
علی اور حسن۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما۔
(حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، نفیس اکیڈمی، کراچی، مئی ۱۹۶۰ء، ص۳۳۷)

حضرت علامہ قاضی محمد اقبال حسین نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:حضرت سید نور شاہ غازی علیہ الرحمہ سادات سے متعلق ہیں۔ بڑے پائے کے ولی گزرے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کا مزار ’’اچھی قبر‘‘ کے نا م سے مشہور معروف ہے۔ کراچی کے مرکز بمبئی بازار میں زیارتِ خاص و عام ہے۔

مزید حالات معلوم نہ ہو سکے(فقیر دربار حاضر ہوا تھا اور یہ مختصر حالات معلوم ہوئے)   (تذکرۂ اولیائے سندھ،ص۳۶۵)

آپ کے شہزادے:

حضرت عبداللہ شاہ غازی کے ایک صاحبزادے کا نام سیّد ابو الحسن محمد ہے۔ (تحفۃ الزائرین، حصّۂ سوم، ص ۱۷۳۔)
نوٹ: آپ کی پھوپھیوں، برادران اور صاحبزادگان کی مندرجۂ بالا فہرست غیر حتمی ہے، ممکن ہے، اس سے زیادہ ہوں۔

نفسِ زکیہ، نفسِ رضیّہ:
حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کے والدِ ماجد کا لقب: ‘‘ذوُالنَّفْسِ الزَّ کِیَّۃ’’، جسے مختصراً ‘‘نفسِ زکیہ’’ بھی کہتے ہیں، تھا۔

علامہ مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
‘‘بعض کتابوں میں تو لکھا ہے کہ جیسے محمد بن عبداللہ کو اُن کی عبادت، ریاضت، زہد و تقویٰ کی وجہ سے لوگ ‘‘نفسِ زکیہ’’ کہتے تھے، اسی طرح ابراہیم اُن کے بھائی‘‘نفسِ رضیہ’’ کے خطاب سے مشہور تھے۔’’
(حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، ص۳۴۲)

آپ کے والد اور چچا کا منصور کے خلاف خروج:
۱۴۵ھ میں حضرت امام نفس زکیہ محمد اور اُن کے بھائی حضرت نفس رضیہ ابراہیم نے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے خلاف خروج کر کے اپنی دعوتِ خلافت کی تحریک چلائی۔ منصور نے دونوں بھائیوں کو شکست دی اورشہید کرادیا اور اُن کے ساتھ ہی بہت سے ساداتِ کرام بھی قتل کردیے گئے۔ یہ پہلا تنازعہ تھا جو عباسیوں اور علویوں کے مابین ہوا۔ اس معرکے سے قبل ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔
(تاریخ الخلفاء ، اردو، مترجم علامہ شمس بریلوی، پروگریسو بکس، لاہور، ص۵۱۹)

امامِ اعظم ابو حنیفہ وغیرہ کی حمایت:
حضرت نفسِ زکیہ محمد اور نفسِ رضیہ ابراہیم کے خروج کے جواز میں جن علماء ائمہ نے فتوے دیے، اُن میں سیّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہما شامل ہیں۔
(تاریخ الخلفاء، اردو، ص۵۱۹)

امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیشین گوئی:
اُمِّ حسین بنتِ عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین کہتی ہیں کہ میں نے اپنے چچا جعفر (صادق)بن محمد سے پوچھا کہ آپ محمد بن عبداللہ کے معاملے میں کیا فرماتے ہیں؟

انھوں نے فرمایا:
یہ ایک فتنہ (آزمائش) ہے، جس میں محمد(نفس زکیّہ) ایک رومی کے گھر کے پاس قتل ہوجائیں گے اور اُن کے حقیقی بھائی(ابراہیم) عراق میں اس حالت میں قتل ہوں گے کہ ان کے گھوڑے کے سُم پانی میں ہوں گے۔
(تاریخ طبری، اردو، مترجم سید محمد ابراہیم ایم اے، نفیس اکیڈمی کراچی، مئی ۱۹۶۸ء جلد،ہفتم، ص۲۲۹ تا۲۳۱)
نوٹ: امام جعفر صادق کے داد ا، امام زین العابدین اور امام نفس زکیہ محمد کی دادی حضرت فاطمہ صغریٰ آپس میں بہن بھائی تھے یعنی دونوں سیّدنا امام حسین کی اولاد تھے۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنھم)

 

والدِ ماجد کی شہادت:
حضرت محمد ذوالنفس الزکیّہ ابن امام عبداللہ محض کو حمید بن قحطبہ نے ۱۴؍رمضان ۱۴۵ھ بروز پیر بعدِ عصر شہید کردیا۔
(تاریخِ طبری، اردو، ج۷، ص۲۳۶)

والدِ ماجد کی تدفین:
حضرت محمد ذوالنفس الزکیّہ کے قتل کے دوسرے دن اُن کی بہن زینب بنتِ عبداللہ اوران کی بیٹی فاطمہ نے عیسٰی سے ان کی لاش منگواکر جنّت البقیع میں دفن کرادی۔ ان کی قبر حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہٗ بن ابی طالب کی گلی کے سامنے جہاں وہ گلی بڑی سڑک سے آ کر مل جاتی ہے یا اسی کے کہیں قریب واقع ہے۔
(تاریخ طبری، اردو، جلد۷، ص۲۳۵)

عمِّ مکرّم (چچا) کی شہادت:
حضرت نفسِ رضیہ ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہادت ۲۵؍ذی القعدہ ۱۴۵؁ھ کو ہوئی۔
(تاریخ طبری، اردو ترجمہ، جلد۷، ص۲۹۱)

حضرت غازی بابا کی شہادت / مزارِ مبارک:
حضرت سیّد عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہادت سندھ میں ۱۵۱ھ میں ہوئی۔ آپ کا مزارِ مبارک کلفٹن(کراچی) میں واقع ہے، جہاں ہر سال ۲۰تا۲۲ذی الحجہ کو آپ کا سہہ روزہ عرسِ مبارک بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔
(تحفۃ الزّائرین، حصّۂ سوم، ص ۱۷۱تا۱۷۳)
نوٹ: تحفۃ الزّائرین میں عرسِ مبارک کی تاریخ ۲۰؍، ۲۱؍ذی الحجہ لکھی ہے، لیکن درست یہ ہے کہ یہ عرسِ مبارک تین روز منایا جاتا ہےیعنی بیس، اکیس اور بائیس ذی الحجہ کو۔

فتاوٰی رضویّہ میں امام نفسِ زکیہ سے ایک روایت:
مذکورۂ بالا تمہید کے بعد، اب ہم اپنے اصل موضوع پر آتے ہوئے حضرت امام نفس زکیہ محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک روایت، جو حضراتِ شیخین کی افضلیّت پر ہے، فتاوٰی رضویّہ سےنقل کر کے ہدیۂ قارئین کرتے ہیں:

‘‘امام دار قطنی جندب اسدی سے راوی:
ان محمد بن عبداللہ بن الحسن اتاہ قوم من اھل الکوفۃ والجزیرۃ فسألوہ عن ابی بکر وعمر فالتفت الیّ فقال انظر الی اھل بلادک یسأ لونی عن ابی بکر و عمر لھما افضل عندی من علی(الصواعق المحرقۃ بحوالۃ الدار قطنی عن جندب الاسدی، الباب الثانی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ص۸۳)
یعنی امام نفسِ زکیہ محمد بن عبداللہ محض ابنِ امام حسنِ مثنّٰی ابنِ امام حسن مجتبیٰ ابنِ مولیٰ علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وُجُوْھُھُمْ کے پاس اہلِ کوفہ و جزیرہ سے کچھ لوگوں نے حاضر ہوکر ابو بکر صدّیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں سوال کیا، امام نے میری طرف التفات کر کے فرمایا: اپنے وطن والوں کو دیکھو! مجھ سے ابو بکر و عمر کے باب میں سوال کرتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں میرے نزدیک علی سے افضل ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔’’
(جَزَآءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِابَآئِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃْ؛ فتاوٰی رضویّہ، جلد۱۵، ص۶۸۸)

امامِ اجل:
اِسی روایت کو اعلیٰ حضرت دوسرے مقام پر نقل کرکے حضرت عبداللہ شاہ غازی کے والدِ ماجد حضرت نفسِ زکیّہ اور اجدادِ کرام کا تعارف کراتے ہوئے حضرت نفس زکیّہ محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ‘‘امامِ اجل’’ کے لقب سے یاد فرماتے ہیں:
‘‘امام ابو الحسن دار قطنی جندب اسدی سے راوی کہ امام محمد بن عبداللہ محض بن حسن مثنی بن حسن مجتبیٰ بن علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وُجُوْھُھُمْ کے پاس کچھ اہلِ کوفہ وجزیرہ نے حاضر ہوکر ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں سوال کیا۔ امامِ ممدوح نے میری طرف ملتفت ہوکر فرمایا:
انظرا الٰی اھل بلادک یسألونی عن ابی بکر و عمر لھما عندی افضل من علی۔
اپنے شہر والوں کو دیکھو! مجھ سے ابو بکر و عمر کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ وہ دونوں میرے نزدیک بلا شبہہ مولا علی سے افضل ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
یہ امامِ اجل(یعنی امام محمد)، حضرت امام حسن مجتبیٰ کے پوتے اور حضرت امام حسین شہیدِ کربلا کے نواسے ہیں۔ ان کا لقبِ مبارک نفسِ زکیہ ہے، ان کے والد حضرت عبداللہ محض، کہ سب میں پہلے حسنی حسینی دونوں شرف کے جامع ہوئے لہٰذا ‘‘محض’’ کہلوائے، اپنے زمانے میں سردارِ بنی ہاشم تھے، اُن کے والدِ ماجد امام حسنِ مثنّٰی اور والدۂ ماجدہ حضرت فاطمہ صغریٰ بنتِ امام حسین صلی اللہ تعالٰی علٰی ابیہم وعلیہم وبارک وسلم۔’’
(فتاوٰی رضویّہ، جلد ۲۸، ص۴۸۳تا۴۸۴)

پر دادا کے نکاح کا ذکر:
ایک دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت عبداللہ شاہ غازی قُدِّ سَ سِرُّہ ٗ کے پر دادا حضرت امام حسن مثنّٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح کا یوں ذکر فرماتے ہیں:
‘‘اِس (یعنی چچا زاد بہن سے نکاح) کی سب سے اعلیٰ نظیر حضرت امام حسن مثنّٰی و حضرت فاطمہ صغریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نکاح ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حضرت امام حسن مثنّٰی حضرت امام حسن مجتبیٰ کے صاحبزادے ہیں اور حضرت فاطمہ صغریٰ حضرت امام حسین شہیدِ کربلا کی صاحبزادی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، پھر یہ اُن کے نکاح میں تھیں، حضرت امام عبداللہ محض رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھی دونوں پاک مبارک والدین سے پیدا ہوئے۔ اُنھیں ‘‘محض’’ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ دنیا میں پہلے شخص تھے جن کے ماں باپ دونوں حضرت بتولِ زہرا صلی اللہ تعالٰی علٰی ابیہا الکریم وعلیہا وسلم کی اولادِ امجاد ہیں۔ باپ حضرت خاتونِ جنّت کے پوتے اور ماں اُن کی پوتی۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:
لمامات الحسن بن الحسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنھم ضربت امرأتہ القبۃ علٰی قبرہ سنۃ۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب مایکرہ من اتحاذ المساجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ۱/۱۷۷)
جب حسن بن حسن بن علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہم) فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے ایک سال تک ان کی قبر پر خیمہ لگایا۔ (ت)

ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے:
(امرأتہ) فاطمۃ بنت الحسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنھم وھی ابنۃ عمھم۔( ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، کتاب الجنائز، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ۲/ ۴۲۹)
ترجمہ: بیوی سے مراد فاطمہ بنتِ حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنھم) ہیں، جو اُن کی چچا زاد ہیں۔(ت)’’
(فتاوٰی رضویّہ، جدید، جلد۱۱، ص۴۳۱تا۴۳۲)

خلیفہ و امیرالمومنین:
حضرت امام حافظ الحدیث ابو الفضل شہاب الدین ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف: ‘‘الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ’’ (باب الکنی حرف الطاء المھملۃ، القسم الرابع) کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت قُدِّسَ سِرُّہٗ رقم طراز ہیں:
‘‘وقد فخر المنصور علی محمد بن عبداللہ بن الحسن لما خرج بالمدینۃ وکاتبہ المکاتبات المشھورۃ ومنھا فی کتاب المنصور وقد بعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولہ اربعۃ اعمام فاٰمن بہ اثنان احدھما ابی وکفربہ اثنان احدھما ابوک۔( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف الطاء، القسم الرابع ابو طالب، دار صادر، بیروت، ۴/ ۱۱۸)
یعنی جب امام نفسِ زکیہ محمد بن عبداللہ بن حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے خلیفہ عباسی عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما مشہور بہ ‘‘منصور دو انیقی’’ پر خروج فرمایا اور مدینۂ طیبہ پر تسلّط کر کے خلیفہ و امیر المومنین لقب پایا، اُن میں اور خلیفۂ مذکور منصور میں مکاتباتِ مشہورہ ہوئے، ازاں جملہ منصور نے ایک نامے میں لکھا: جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوّت ظاہر ہوئی حضور کے چار۴ چچا زندہ تھے: حمزہ وعباس وابو طالب وابو لہب۔ دو(۲) حضور پر ایمان لائے ایک اُن میں میرے باپ ہیں یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور دو (۲) کافر رہے، ایک اُن میں آپ کے باپ ہیں یعنی ابو طالب۔
یہ منصور علاوہ خلیفہ واہلِ بیت ہونے کے خود بھی علمائے تبعِ تابعین و فقہاءِ محدّثین سے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں انھیں فقیہہ النفس و جید المشارکۃ فی العلم لکھا اور فرمایا:
ولد سنۃ خمس وتسعین وادرک جدّہ ولم یروعنہ وروی عن ابیہ و عن عطاء بن یسار وعنہ ولدہ المھدی۔(تاریخ الخلفاء، احوال المنصور ابو جعفر عبداللہ، مطبع مجتبائی، دہلی، ص ۱۸۰)
وہ ۹۵ ھ میں پیدا ہوا، اپنے دادا کو پایا مگر ان سے روایت نہیں کی، اپنے باپ اور عطا بن یسار سے روایت کی اور اُس سے اُس کے بیٹے مہدی نے روایت کی۔(ت)’’
(شرح المطالب فی مبحث ابی طالب؛ فتاوٰی رضویّہ، جلد۲۹، ص ۶۹۱تا۶۹۲)
مذکورۂ بالا اقتباس میں سیّدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی کے والدِ ماجد حضرت امامِ اجل نفسِ زکیہ محمد کے لیے ‘‘خلیفہ و امیرالمومنین’’ لقب کاذکر فرمایا ہے۔
یہ فقیر اپنے مضمون کا اسی پر اختتام کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اِسے شرفِ قبولیت سے نوازے!

آمین بِجَاہِ حَبِیْبِہِ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّم۔ والْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

دعا گو و دعا جو

ندیم احمد نؔدیم نورانی

ضیائی دارالتحقیق ، انجمن ضیاءِ طیبہ، کراچی۔

رابطہ:  2096956۔0347


متعلقہ

تجویزوآراء