اہلسنت کے عظیم رہنما
اہلسنت کے عظیم رہنما
حضرت علامہ ابرار احمد صدیقی رحمانی
سینئر نائب امیر جماعت اہلسنّت کراچی (پاکستان)
______________________________________________________
سوگوار صاحبزادہ شاہ عبدالحق قادری دامت برکاتہم العالیہ
سلام مسنون!
پنجاب کے مشہور شہر پاک پتن میں بندہ ناچیز زہد الانبیاءحضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے عرس مقدس کی تقریب سعید کے موقع پر دیوان بختیار سید محمد چشتی فریدی دامت برکاتہم العالیہ کی حویلی میں وابستگانِ سلسلہ عالیہ رحمانیہ کے عقیدت مندوں اور دوستوں سے محو گفتگو تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی میں نے کال وصول کی تو میری صاحبزادی ڈاکٹر عفت فاطمہ رحمانی سلمہا نے روتے ہوئے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ امیر جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اس دنیائے فانی سے رحلت فرماکر واصل باﷲ ہوگئے۔ماہِ تمام دامنِ رحمت میں چھپ گیا
دیکھو جسے ہے راہِ فنا کی طرف رواں
تیرے محل سرا کا یہی راستہ ہے کیا؟
حضرت سید شاہ تراب الحق قادری رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ کی نمازِ جنازہ کا منظر دیکھ کر حسرت موہانی کا شعر زباں پر آرہا تھا۔
ہے رشک ایک عالم کو حسرت کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
خانوادہِ سادات حیدرآباد دکن کے چشم و چراغ پیر طریقت رہبر شریعت ترجمان فکر رضا اتحاد ملت کے داعی اہلسنّت کے عظیم رہنماکی وفات حسرت آیات سے علماءاور صوفیاءکی صفوں میں جو خلاءپیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
”ایک چراغ بجھا اور بڑھی تاریکی“
شاہ صاحب تحریر و تقریر کے میدان میں صاحب کمال تھے۔ ان کی آواز کی گھن گرج آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ ان کی ذات بابرکات اخلاص کا پیکر تھی۔ ہر شخص سے انتہائی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے کبھی کبھی ازراہِ تفنن کسی کارکن کو میری گڑیا کے لقب سے بھی یاد کرتے تھے۔ بندہ حقیر کو شاہ صاحب کی پچاس سالہ رفاقت کا شرف حاصل رہا اس طویل عرصے میں کبھی کوئی اختلاف یا تنازعہ نہیں ہوا۔ وہ غم ہو یا خوشی ہر وقت میرے ساتھ رہے۔ میری والدہ ماجدہ اور اہلیہ مرحومہ کی نمازِ جنازہ شاہ صاحب ہی نے پڑھائی۔ میرے دوصاحبزادوں اور ایک صاحبزادی کا نکاح بھی پڑھایا۔ جو میرے لئے انتہائی عزت کا باعث ہے۔اور کبھی بھی شاہ کسی سے شاہ صاحب نے کسی چیز کی خواہش نہ رکھی۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
مذہبی اور سیاسی میدان میں ان کی رعب دار آواز سن کر اغیار پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا انہوں نے ہمیشہ مسلک کے پرچم کو بلند رکھا بڑے بڑے اجتماعات ہوں یا گورنر ہاؤس سے لے کر قومی اسمبلی کا فلور، شاہ صاحب نے بے خوف و خطر اپنے مسلک کے تحفظ کے لئے حکمرانوں کو بھی للکارا۔ مسلک حق اہلسنّت وجماعت کے استحکام و سالمیت کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔انہوں نے مسلک کے مسئلے پر کبھی دو عملی پولیسی اختیار نہیں کی ان کا موقف بقول علامہ اقبال یہی تھا کہ
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جبکہ دوسری جانب بعض اکابرین اہلسنّت نے اغیار کے ساتھ نرم گوشہ رکھتے ہوئے (ملی یکجہتی اور متحدہ مجلس عمل) کی داغ بیل ڈالی تو شاہ صاحب ان کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر پر قائم رہے۔ بعض قائدین کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن شاہ صاحب نے اپنے موقف سے انحراف نہ کیا۔ بہت سے صاحبانِ علم کے ساتھ علمی تنازعات بھی ہوئے لیکن شاہ صاحب ہمیشہ اپنے نقطہ نظر پر قائم اور ثابت قدم رہے، جہاں تک شاہ صاحب کے تبحر علمی اور زہدوتقویٰ کا تعلق ہے اس تک تو مجھ ناچیز کی رسائی نہیں۔’’چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک‘‘
اگر شاہ صاحب کی شخصیت کے لئے یہ اشعار کہے جائیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔
صدف کی روح کھنچ جائے تو ہوتا ہے گوہر پیدا
جگر جب چاک ہو شب کا تو ہوتی ہے سحر پیدا
کلیجہ پھونک کر کرتی ہے فطرت اک بشر پیدا
مجھے معلوم یہ بھی ہے کہ صدیوں کے تفکر سے
اور وہ بشر صورتِ شاہ تراب الحق میں تھا۔ جو ایک گوہر نایاب تھا۔ اسی بات کو آگے بڑھائیں تو میر تقی میر جیسا شاعر بھی ہدیہ عقیدت و خراج تحسین پیش کرتا نظر آئے گا۔
مت سہل ہمیں سمجھو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
وہ خاک کے پردے سے ظاہر ہوئے اور پردہ خاک میں محواستراحت ہوگئے۔ شاہ صاحب اپنے پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ گئے ہیں جن کو ملت اہلسنّت صدیوں یاد کرتی رہے گی۔ بقولِ جگرمرادآبادی
جگر راہِ وفا میں نقش ایسے چھوڑ آیا ہوں
کہ دنیا یاد کرتی ہے وہ یادیں چھوڑ آیا ہوں
جی تو چاہتا ہے کہ شاہ صاحب کی حیاتِ مبارکہ پر بہت کچھ لکھا جائے لیکن خوف بھی دامن گیر ہے کہ کہیں لوگ میری تحریر کو خوشامد پر محمول نہ کریں بقولِ شاعر
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہل ہوس
مدح زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
بندہ ناچیز بارگاہِ خداوند قدوس میں دست بدعا ہے کہ مولائے کریم بطفیل نبی کریم ﷺ شاہ صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے مرقد کو رحمت و رضوان کا گہوارہ بنائے۔ آمین
دامنِ قرطاس میں وسعت نہیں اور دل میں اب اتنی طاقت نہیں کہ دلی جذبات کا اظہار کرسکیں۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کے لئے
آسماں تیری لحد میں شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستا اس گھر کی نگہبانی کرے
شریک غم
ابرار احمد صدیقی رحمانی عفی عنہ
سینئر نائب امیر
جماعت اہلسنّت کراچی (پاکستان)