انگشتان رسول ﷺ سے پانی کا جاری ہونا
امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
قِصَّۃُ نَبْعِ الْمَائِ مِنْ بَیْنَ اَصَا بِعِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ تَکَرَّرَتْ فِیْ عِدَّۃِ مَوَاطِنَ فِیْ مَشَاہِدٍ عَظِیْمَۃٍ وَ وَرَدَتْ مِنْ طُرُقٍ کَثِیْرَۃٍیُّفِیْدُ مَجْمُوْعُہَا الْعِلْمُ الْقَطْعِیُّ الْمُسْتَفَادُ مِنَ الْمُتَوَاتِرِ الْمَعْنَوِیِّ۔
نبی اکرمﷺ کی انگشتان مبارک سے پانی کے پھوٹ پڑنے کا معجزہ متعدد مقامات پر بڑے بڑے عظیم اجتماعات کے سامنے کئی بار رونما ہوا اور متعدد طریق سے منقول ہوا، یہ تمام روایات مل کر علم قطعی کا فائدہ دیتے ہیں جس طرح کہ متواترِ معنوی سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس قسم کا معجزہ نبی اکرمﷺ کے علاوہ کسی اور پیغمبر سے مسموع (ثابت ) نہیں کیونکہ یہ پانی آپﷺ کی ہڈیوں، پٹھوں، گوشت اور خون کے درمیان سے جاری ہوا۔
امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام مزنی سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی مبارک انگلیوں سے پانی کا جاری ہونا پتھر سے پانی پھوٹ پڑنے سے عجیب تر اور بڑا ہے جو حضرت موسیٰ کے عصائے مبارک کی ضرب سے جاری ہوا تھا کیونکہ چٹان سے پانی رواں ہونا امر عادی ہے،جبکہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی نکلنا خلاف عادت اور معجزانہ فعل ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی انگشت ہائے مبارکہ سے کثیر مقامات پر پانی جاری ہونے کے معجزہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں حضرت انس رضی اللہ عنہٗ حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ، ابو یعلی رضی اللہ عنہٗ، ابورافع رضی اللہ عنہٗ اور زیاد بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ شامل ہیں۔امام قسطلانی فرماتے ہیں:
’’ظاہر یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی مبارک انگلیوں سے پانی کا بہنا،دیکھنے والے کی نسبت سے تھا حالانکہ حقیقت میں یہ اس برکت کا مظہر تھا جو نبی اکرم ﷺ کے برتن میں دست مبارک ڈالنے سے ظاہر ہوئی تھی اور پانی میں اضافہ ہوگیا تھا اور دیکھنے والے نے یہ سمجھا کہ یہ پانی نبی اکرمﷺ کی انگشتان مبارک سے نکل رہا ہے۔
امام نووینے شرح مسلم میں جس نکتۂ نگاہ کی تصریح کی ہے، اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ارشاد سے ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں۔ ’’ میں نے نبی اکرم ﷺ کی انگشتان مبارک سے پانی پھوٹتے ہوئے دیکھا۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ غزوۃ تبوک کے لیے نکلے آپ نے پیشن گوئی فرمائی، ان شاء اللہ تم لوگ کل صبح تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گے۔ اس وقت سورج نکل آیا ہوگا۔ پس جو آدمی وہاں پہلے پہنچے تو وہ پانی میں ہاتھ نہ ڈالے۔ آپ جب تشریف لائے تو وہ چشمہ جوتے کے تسمے کی مانند تھوڑا تھوڑارس رہا تھا آپ ﷺ نے تھوڑا تھوڑا کرکے پانی اکٹھا کیا پھر اس سے منہ ہاتھ دھوکر اسے دوبارہ چشمے میں ڈال دیا جس کی وجہ سے چشمے کا پانی زور سے بہنے لگا اور صحابہ کرام نے جی بھر کر پیا، اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اے معاذ! اگر تم نے عمر دراز پائی تو دیکھوگے کہ یہ علاقہ باغات سے بھر پور ہوگا۔[1]
مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ہم جب تبوک کے چشمے پر پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی چشمے پر پہنچ چکے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کیا تم نے پانی کو مس کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا’’ہاں‘‘ تو آپ ﷺ نے ان کو سخت سست کہا، بعد ازاں صحابہ کرام نے چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی جمع کیا اور ایک مشکیزے میں ڈال کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے منہ ہاتھ دھویا اور اس پانی کو دوبارہ چشمے میں ڈال دیا جس کی وجہ سے چشمہ موجزن ہو گیا۔
ابن عبدالبراند لسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بعض محدثین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہم نے اس مقام کا مشاہدہ کیا ہے اور اس چشمے کے آس پاس سر سبزو شاداب باغات دیکھے ہیں۔قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابن اسحاق سے نقل کرتے ہیں کہ چشمے کا پانی پھوٹنے سے اس طرح شور ہوا جیسے بجلیاں کڑکتی ہیں۔
واقدی اور ابو نعیم حضرت قتادہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ تبوک کی فوجی مہم میں حضور ﷺ کے ہمراہ جارہے تھے کہ پیاس کا غلبہ ہوا قریب تھا کہ لوگ، گھوڑے اور اونٹ شدت پیاس سے دم توڑ دیتے۔ حضورﷺ نے ایک مشکیزہ جس میں کچھ پانی تھا طلب فرمایا، آپ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تو آپ کی انگشتان مبارک سے پانی کا فوارہ پھوٹ پڑا تو لوگوں نے اسے جی بھر کر پیا، یہاں تک کہ ان کے گھوڑے اور اونٹ بھی سیراب ہوگئے۔ اس وقت صحابہ کرام کی اس فوج کے پاس بارہ ہزار اونٹ بارہ ہزار گھوڑے اور تیس ہزار مجاہد تھے۔[2]
[1]۔ مسلم شریف ؛ حجۃ اللہ علی ا لعالمین، صفحہ ۱۰۰۹۔
[2]۔ حجۃ اللہ علی ا لعالمین، صفحہ ۱۰۰۹۔