دودھ کا ایک پیالہ اورستر صحابہ علیھم الرضوان

حضرت ابو ہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ بعض اوقات میں بھوک کی شدت سے زمین پر پیٹ لگا کر لیٹ جاتا تھا اور کبھی پیٹ کے ساتھ پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن بھوک سے بیتاب ہو کر میں رسول اللہﷺ اور اصحاب ﷜ کے راستہ میں بیٹھ گیا۔ حضرت ابو بکر ﷜ آئے تومیں نے ا ن سے قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی مقصدیہ تھا کہ اپنی حالت زار کی طرف توجہ دلاؤں وہ گزر گئے اور کچھ توجہ نہ کی۔ پھر حضرت عمر ﷜ گزرے ان سے بھی اسی غرض سے ایک آیت پوچھی کہ مجھے ساتھ لے جاکر کھانا کھلائیں مگر انہوں نے بھی بے التفاتی کی اور چلے گئے، بعد ازاں نبی اکرم ﷺ کا گزر وہاں سے ہوا، میری حالت دیکھ کر آپﷺ میرے ارادے سے آگاہ ہوگئے اور مسکرا کر فرمایا: ’’ابو ہریرہ!میں نے عرض کیا، ’’لَبَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘، فرمایا: ’’میرے ساتھ چلو ‘‘ تو میں ساتھ ہو لیا۔ آپ کاشانۂ اقدس میں داخل ہوئے تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اذنِ باریابی عطا فرمایا۔ پھر ایک دودھ کے پیالے پر نظر پڑی دریافت فرمایا یہ کہاں سے آیا ہے؟ تو اہل خانہ نے بتایا فلاں آدمی یا فلاں عورت نے بطور ہدیہ پیش کیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابا ہریرہ! میں نے عرض کیا ’’لَبَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘ حکم دیا۔ اہل صفہ کو بلا لاؤ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہتے ہیں اہل صفہ اسلام کے مہان تھے نہ ان کے رہنے کی جگہ تھی نہ کھانے کا ٹھکانہ، بس مسجد میں پڑے رہتے تھے جب رسول اللہﷺ کے پاس صدقہ کا مال آتا تو ان کے پاس بھجوادیتے خود نہ لیتے تھے مگر جب کوئی ہدیہ لاتا تو اس میں سے کچھ خود رکھ لیتے کچھ انہیں بھیج دیتے، ابو ہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ اہل صفہ کو بلانے سے دل پر گرانی سی محسوس ہوئی، دل میں کہا کہ اہل صفہ کو یہ تھوڑا سا دوھ کیا کفایت کرے گا۔ میں ہی پی لیتا تو گزارا ہوجاتا اور کچھ طاقت سی آجاتی مگر رسول اللہﷺ کا حکم تھا۔ اہل صفہ کو بلالیا۔ وہ آئے تو حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابا ہریرہ! ان لوگوں کو دودھ پلاؤ، پس میں نے سب کو باری باری پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے پیالہ ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے، فرمایا: ’’اب صرف ہم اور تم باقی بچے ہیں آؤ بیٹھو اور پینا شروع کرو‘‘ پس میں نے سیر ہوکر پیا، پھر آپ بار بار اصرار فرماتے رہے، پیو، پیو، میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اب قطعًا کوئی گنجائش نہیں، پھر پیالہ حضور اقدسﷺ کو پیش کردیا تو آپ نے اللہ کا شکر بجالاتے ہوئے اسے نوش فرمایا۔[1]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ زمانہ اسلام میں مجھ پر تین مصیبتیں ایسی پڑی ہیں کہ ان جیسی اور کوئی مصیبت نہیں آئی،(پہلی) نبی اکرم ﷺکی رحلت، (دوسری) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شہادت (اور تیسری) میرے توشہ دان کا جاتے رہنا، لوگوں نے پوچھا: کیسا توشہ دان؟ انہوں نے جواب دیا ہم ایک غزوہ میں حضورﷺ کے ہم رکاب تھے، لشکر کا سامان رسد ختم ہوگیا۔ حضور ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’ابوہریرہ! کچھ تمہارے پاس ہے؟ ‘‘میں نے عرض کیا’’کچھ کھجوریں ہیں‘‘ فرمایا: ’’وہ لے آؤ، میں لے آیا تو آپ ﷺ نے ان کو دستر خوان پر پھیلا دیا، ان کی تعداد اکیس تھی، آپ ایک ایک کھجور لے کر اس پر اللہ کا نام لیتے جاتے تھے اور انہیں رکھتے جاتے تھے، پھر ان سب کو ملادیا بعد ازاں حکم دیا کہ دس دس آدمی آکر شریک ہوں، چنانچہ اس طرح لوگ آتے گئے یوں پورا لشکر سیر ہوگیا اور کچھ کھجوریں بچ بھی گئیں، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ان پر برکت کی دعا فرمایئے، آپ نے دعا کی، پھر میں نے ان کو اپنے توشہ دان میں ڈال لیا ان کی برکت یہ تھی کہ جب میں ہاتھ ڈالتا تھا، کھجوریں نکل آتی تھیں، اس برکت کا اندازہ لگائیے کہ پچاس وسق تو میں نے اس میں سے راہ خدا میں خیرات کی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ تک میں اس میں سے کھاتا رہا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کے ہنگامۂ شہادت میں میری دیگراشیائے خانہ کے ساتھ یہ توشہ دان بھی جاتا رہا، سن لو! میں نے دو سو وسق سے زیادہ اس میں سے کھائیں۔[2]

نوٹ: یہ واضح رہے کہ ایک وسق کی مقدار، ایک اونٹ پر جتنا سامان لادا جائے، یا ایک کھجور کے درخت کی کل کھجوریں، یا ایک بڑا بورا یا بوری، جتنی ہوتی ہے۔

 

[1]۔ بخاری، جلد ۲، صفحہ ۹۵۶ ؛   حجۃ اللہ علی ا لعالمین، صفحہ ۹۹۶تا ۹۹۷۔

[2]۔ احمد، ترمذی، ابن سعد، بیہقی۔


متعلقہ

تجویزوآراء