عشرۂ ذوالحجہ کی برکتیں اور فضیلتیں
اللہ تعالیٰ کےنزدیک عشرۂ ذوالحجہ سب سے افضل ہے۔
خطبۂ حجۃ الوداع ’’منشورِ انسانیت ‘‘یا ’’دستورِ اسلام‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔
قمری سال کا آخری مہینہ ذی الحج ہے عیدالاضحٰی یا بقرہ عید اس ماہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔عام مسلمان اس دن عیدالفطر کی طرح اپنی اپنی بساط کے مطابق عمدہ لباس پہن کر عیدگاہ میں جاکر دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں،یہ نماز بھی عیدالفطر کی طرح ہوتی ہےاور اسی انداز سے خوشی منائی جاتی ہے جیسے عید الفطرمیں؛لیکن سنّتِ ابراہیمی کی یاد میں مسلمان جانور قربان کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے رہا ہے کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیجیے آپ نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے تذکرہ کیا تو وہ قربانی کے لیے تیار ہوگئے۔ منیٰ میں انہوں نے اپنے بیٹے کو زمین پر لٹا کر جب چھری پھیرنے کا قصد کیا تو آواز آئی :
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾(سورۃ الصف
ترجمہ: ’’ اے ابراہیم(علیہ السلام)! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا،ہم نیکوں کاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔‘‘
ذی الحجہ کے مہینے میں اسلام کے اہم رکن حج کی ادائیگی ہوتی ہے ۔
سورۂآل عمران کی آیت نمبر ۹۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًاؕ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیۡنَ﴿۹۷﴾
ترجمہ: ’’لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جواس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو،حج کرے اور جوکوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بےنیاز ہے۔‘‘
حج کے ایام ۸/ ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۲/ذی الحجہ کو ختم ہوجاتے ہیں۔ عمرہ یا حج کی نیت کرنے کے بعد ایک خاص لباس پہنا جاتا ہے،جسے احرام کہتے ہیں۔ اسلام میں حج ۹ہجری میں فرض ہوا ۔اسی سال آپ نے حضرت ابو بکرصدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابۂکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ امیر الحج مقرر کر کے مکہ معظّمہ روانہ کیا تھا۔ اس دوران حج کے متعلق سورۂ توبہ کی ابتدائی چالیس آیات نازل ہوئیں ۔آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو فوراًمکہ معظّمہ روانہ کیا،جنہوں نے وہ چالیس آیات اور حج کے احکام حاجیوں کے مجمعِ عام میں پڑھ کر سنائے۔
سورۂ تو بہ کی۲۸ ویں آیت میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیۡلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیۡکُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ
﴿۲۸﴾
ترجمہ: ’’اے اہلِ ایمان ! مشرکین ناپاک ہیں،لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد الحرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمہیں تنگدستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے ؛اللہ علیم وحکیم ہے ۔ ‘‘
لہٰذ ا ۱۰ ہجری کے بعد ان کی زیارت ہی بند نہیں ہوئی،بلکہ مسجدالحرام کی حدود میں داخلہ بھی بند ہوگیا تاکہ شرک و جاہلیت کے اعتدا کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
۱۰ ہجری میں آپ ﷺ نے فریضۂ حج ادا فرمایا ۔یہ حج خالص اسلامی طریقے پر ہوا۔ یہی وہ مشہورحج ہےجسے ’’حجۃالوداع‘‘بھی کہتے ہیں،جس میں آپ نے عرفات کے میدان میں وہ خطبہ ارشاد فرمایا جسے ’’منشورِ انسانیت‘‘یا’’دستورِاسلام‘‘ کہا جاتا ہے،جس کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’ لوگو! میری بات غور سے سنو !!! کیوں کہ میں آئندہ سال یا اس کے بعد اس مقام پر ملنے کا یقین نہیں رکھتا ۔جیسا کہ یہ دن اور مہینہ حرمت والا ہے اسی طرح ایک دوسرے کے جان و مال تم پر حرام ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ شعار اور پرہیز گار ہو،اس لیے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،اسی طرح کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پرکوئی فضیلت نہیں بجز تقویٰ کے۔‘‘
’’اے لوگو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کرنی چاہییں،دوسروں پر ظلم نہ کرو تاکہ تم پر بھی ظلم نہ کیا جائے،سود حرام ہے ۔شیطان کے مکر سے بچتے رہو۔‘‘
’’اے لوگو!نہ میرے بعد کوئی پیغمبر ہےاور نہ کوئی امّت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پنجگانہ نماز ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو ، اپنے اموال کی زکوٰۃ خوش دلی سے ادا کرو،اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو گے تو جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ اپنے غلاموں کو بھی وہی کھلاؤ اور پلاؤ جو تم خود کھاتے اور پیتے ہو۔‘‘پھر آپﷺنے آسمان کی طرف تین مرتبہ دیکھ کر فرمایا کہ ’’اے پروردگار! گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام لوگوں تک پہنچادیا ہے‘‘۔ لوگوں نے اس پر بلند آواز سے کہا: ’’ہاں بیشک آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
آپﷺ نے لوگوں کو مناسکِ حج کی تعلیم بھی دی،میدانِ عرفات میں جو آخری خطبہ آپﷺ نے دیا وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار عقیدت مندوں اور فرماں برداروں کا مجمع سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھا۔جو لوگ خطبے کے جملوں کو سنتے وہ دوسروں تک پہنچانے اور بتانے کے لیے ان جملوں کو بلند آواز سے دہراتے ۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:’’جو لوگ یہاں نہیں انہیں سننے والے یہ پیغام پہنچادیں،ہوسکتا ہے غیر موجود تم سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہو۔‘‘
ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’عشرۂ ذی الحج(ذی الحجہ کے دس روز) سے زیادہ کوئی زمانہ نہیں ہے جس میں عبادت کرنا محبوب تر ہے۔ اس عشرے کے ہر دن اور شبِ کی عبادت شب قدر کے برابر ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے اپنے کان اور زبان اور نظر کو روزِعرفہ محفوظ رکھا،ایک عرفہ سے دوسرے عرفہ کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘(بیہقی)
حدیث شریف میں ہے کہ نبیِّ کریم ﷺنےارشاد فرمایا کہ ’’جس نے چار شب میں عبادت کی اس کے لیے جنّت یا مغفرت واجب ہوگی:
۱۔ ذی الحجہ کی آخری شب۔
۲۔ عرفہ کی شب۔
۳۔ عیدالا ضحیٰ کی شب۔
۴۔ عید الفطر کی شب۔‘‘
قرآن ِ مجیدفرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں دس راتوں کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور وہ دس راتیں جمہور کے قول میں یہی عشرۂ ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ احادیثِمبارکہ اور متعددروایات میں اس کے فضائل بیان کیے گئےہیں:
(۱) حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمام مہینوں کا سردار ماہِ رمضان ہے اور سب سے بڑی حرمت والا مہینہ ذی الحجہ کا ہے۔‘‘
(۲) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ دنیا کے سب دنوں سے افضل عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں ‘‘۔
(۳) امّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ’’ چار عمل رسول اللہ ﷺ ترک نہیں فرماتے تھے:
1۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزے۔
2۔ عاشورہ کا روزہ۔
3۔ ہر ماہ تین روزے یعنی ۱۵،۱۴،۱۳ تار یخ کے ۔
4۔ اور فجر سے پہلے دو رکعتیں۔‘‘
(۴) حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوساطتِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوع روایت بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کسی یوم کی عبادت اللہ تعالیٰ کو اتنی محبوب نہیں جتنی عشرہ ذی الحجہ کی، کہ اس میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس میں ایک رات کی نماز سال بھر کی نمازوں کے برابر ہے۔‘‘
(۵) شیخ ابوالبرکات نے بروایتِ حسن بن احمد مقری(باسنادِ مقری) از محمد بن منکدر بحوالۂ حضرت جابر بن عبداللہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’جوشخص عشرۂ ذی الحجہ کے روزے رکھتا ہے تو ہر دن کے روزے کے عوض ایک سال کےروزوں کا ثواب اللہ تعالیٰ اس کے لیے لکھ دیتا ہے۔‘‘
(۶) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عشرۂ ذی الحجہ کی راتوں میں چراغ نہ بجھایا کرو ۔آپ کو اس عشرہ میں عبادت بہت پسند تھی۔ آپ خادموں کو بھی بیدار رہنے کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘
صوفیائے کرام کے نزدیک جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ دس چیزیں عطافرما کر اس کی عزت افزائی فرماتا ہے اور وہ دس چیزیں یہ ہیں:
۱۔ مال میں برکت۔
۲۔ مال میں زیادتی۔
۳۔ اہل و عیال کی حفاظت۔
۴۔ گناہوں کی معافی۔
۵۔ نیکیوں میں دگنا اضافہ۔
۶۔ جاں کنی میں آسانی۔
۷۔ قبر کی تاریکی میں روشنی۔
۸۔ میزان یعنی قیامت کے دن نیکیوں کے پلڑے کو وزنی بنانا۔
۹۔ دوزخ کے طبقات سے نجات۔
۱۰۔ جنّت کے درجات پر عروج۔
’’جس نے اس عشرے میں کسی بیمار کی مزاج پرسی کی، گویا اس نے خدا کے اولیا اور بزرگانِ دین کی عیادت کی، جس نے ان دنوں میں کسی مومن کو لباس پہنایا ،اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا، جس نے کسی یتیم پر مہربانی کی، اس پر خدا مہربانی فرمائے گا، جو شخص اس عشرے میں کسی علمی وروحانی مجلس میں شریک ہوا، گویا وہ انبیائے کرام کی مجلس میں شریک ہوا۔‘‘حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ذی الحجہ کے اوّل عشرے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا،اس وقت وہ عرفہ میں تھے ۔’’عرفہ‘‘کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ عرفہ میں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی بھول خطا کا اعتراف کیا۔
٭ اسی عشرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بارگاہ ِخداوندی سے درجۂ خلت (دوستی ) عطا ہوا ۔ (یعنی خدا نے ان کو اپنا خلیل بنالیا)
٭اسی عشرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا مال مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے، اپنی جان آگ کے لیے اور اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے خدا کی راہ میں پیش کردیا۔
٭اسی عشرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے بیت اللہ کی تعمیر کی:
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیۡتِ وَ اِسْمٰعِیۡلُؕ(سورۃ البقرۃ، آیۃ ﴿۱۲۷﴾)
٭ اسی عشرے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف ہمکلامی سے نوازا گیا۔
٭ اور اسی عشرے میں حضرت داؤد علیہ السلام کی لغزش معاف کی گئی۔
ان تمام احادیث اور روایات اور بزرگانِ دین کے اقوال سے ثابت ہوا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی کتنی اہمیت اورفضیلت ہے۔پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عشرے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔
(ماہ نامہ الاشرف، کراچی، ص ۲۳ تا ۲۶)