بانجھ پن ایک بیماری اور اس پر صبر باعث اجروثواب

بانجھ پن ایک بیماری اور اس پر صبر باعث اجروثواب

اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے ذریعے بانجھ پن سمیت ہر بیماری سے شفا یابی کی دعا مانگنا اللہ تعالی کے اس فرمان میں شامل ہے:﴿وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾ [الأعراف: 180]. ترجمہ: اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، اُسے انہی کے واسطے سے پکارو۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو دعا تعلیم فرماتے ہوئے اسمائے حسنی کا واسطہ دیا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: «أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ». [بخاري: 5743، مسلم:46، 47، 48].

ترجمہ: ”لوگوں کو پالنے والے! تکلیف دور کر دے، تو شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے“۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ : بچوں کی پیدائش کا تعلق اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ: 

﴿لِلهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ﴾ [الشورى: 49، 50].

ترجمہ:” آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے“۔

اس لیے اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔ لہذا میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ اللہ عزوجل کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ وزاری کیساتھ ذکر و دعا میں مشغول رہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: 

﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾ [الفرقان: 74].
ترجمہ: ”اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا“۔

اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے اس محرومی کا سامنا ہے تو جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جاسکتا ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں شامل ہوگا: «علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کا علاج نہیں ہے» اس حدیث کو ابو داود نے اسامہ بن شریک سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو» ابن ماجہ: (3482)۔

اولاد کی نعمت سے محرومی کا کوئی بھی سبب ہو ، ہر حالت میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ ہونا چاہیے، اللہ تعالی پر توکل ہو، اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل صبر کرے، اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب اجر عظیم رکھا ہوا ہے، اورلوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں غور و فکر کرنا چاہیے، کہ کچھ لوگوں کو نافرمان اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ انتہائی تنگی کی زندگی میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندۂ مؤمن کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، لہذا ایسے افراد کے لیے اس محرومی پر صبر کرنا باعث اجروثواب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ﴾ [البقرة: 155، 156].
ترجمہ: ”ضرور ہم تمہیں کچھ ڈر، بُھوک، مال کے نقصان اور جانوں کی کمی سے آزمائیں گے، خوشخبری سنا دو اُن صبر والوں کو، كہ جب اُن پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں كہ: ہم اللہ تعالى کا مال ہیں اور ہم کو اُسی کی طرف لَوٹنا ہے“۔ 
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: 

﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ [الزمر: 10].

ترجمہ: ”یقیناً صابروں ہی کو اُن کا ثواب بھرپور، بے گنتی دیا جائے گا“۔ 

متعدد احادیث مبارکہ میں مصیبت یا کسی بھی پریشانی کے وقت صبر کرنے اور اس پر اجر وثواب ملنے کی نوید سنائی گئی ہے یہاں تک کہ صبر کو آدھا ایمان شمار کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے کہ:

"شُکر نصف ایمان ہے اور صبر بهى نصف ایمان ہے"۔(شعب الایمان: 4449)۔

اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابراہیم بن رسول اللہ کے پاس تشریف لے گئے اور حضرت ابراہیم دم توڑرہے تھے، رسول اللہ کی چشمانِ مبارک بہنے لگیں، تو حضرت عبد اللہ بن عوف نے آپ سے کہا: یا رسول اللہ!۔۔۔، آپ نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہے پھر دوسری مرتبہ نبی کریم نے فرمایا: بے شک آنکھ بہَہ رہی ہے اور دل غم زدہ ہے اور ہم نہیں کہتے مگر جو ہمارے رب کو راضی کرے اور اے ابراہیم ہم تیری جدائی میں غمگین ہیں۔ (بخاری: 1303)۔

اسی طرح دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث ہے»۔ ( مسلم: 2999)۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء