خوشخبری سناؤ

خُوشخبری سُناؤ

حضرتِ سیِّدُنا انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں: «بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا» یعنی: ” خوشخبری سناؤ اور(لوگوں کو )نفرت نہ دلاؤ“۔ [صحیح البخاري، کتاب العلم، باب ما کان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم یتخولهم... إلخ، الحدیث: 69، ج 1، ص25].
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”یعنی لوگوں کو گذشتہ گناہوں سے توبہ کر نے اور نیک اعمال کر نے پر حق تعالیٰ کی بخشش ورحمت کی خوشخبریاں دو۔ اُن گناہوں کی پکڑ پر اس طرح نہ ڈراؤ کہ انہیں اللہ کی رحمت سے مایوسی ہو کر اسلام سے نفرت ہو جائے۔ بہر حال اِنْذَار اورڈرانا کچھ اور ہے اور مایوس کر کے مُتَنَفَّر(یعنی بددل)کر دینا کچھ اور لہذا یہ حدیث ان آیات و احادیث کے خلاف نہیں جن میں اللہ کی پکڑ سے ڈرانے کا حکم ہے“ ۔ (مرآۃ المناجیح،ج5،ص371)۔

100اَفراد کا قاتل

حضرت سیدناابو سَعِیْد خُدْرِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم،رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا : «تم سے پہلے ایک شخص نے 99 قتل کئے تھے۔ جب اس نے اہل زمین میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک راہب کے بارے میں بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس پہنچااوراس سے کہا:""میں نے ننانوے قتل کئے ہیں کیا میرے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟""راہب نے اسے مایوس کرتے ہوئے کہا:"" نہیں۔"" اس نے اسے بھی قتل کردیا اور 100 کاعدد پورا کرلیا۔پھر اس نے اہل زمین میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے اس عالم سے کہا:"" میں نے سو قتل کئے ہیں کیا میرے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟""اس نے کہا ""ہاں! تمہارے اور توبہ کے درمیان کیا چیز رکاوٹ بن سکتی ہے؟ فلاں فلاں علاقہ کی طرف جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ عزوجلَّ کی عبادت کرتے ہیں ان کے ساتھ مل کر اللہ عزوجل کی عبادت کرو اور اپنے علاقہ کی طرف واپس نہ آنا کیونکہ یہ برائی کی سرزمین ہے"۔ وہ قاتل اس علاقہ کی طر ف چل دیا جب وہ آدھے راستے میں پہنچا تو اسے موت آگئی ۔رحمت اور عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں بحث کرنے لگے ۔رحمت کے فرشتے کہنے لگے :""یہ توبہ کے دلی ارادے سے اللہ عزوجلَّ کی طرف آیا تھا""۔اور عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ تو ان کے پاس ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیااور انہوں نے اسے ثالث مقرر کرلیا۔ اس فرشتے نے ان سے کہا: ""دونوں طرف کی زمینوں کو ناپ لو یہ جس زمین کے قریب ہوگا اسی کا حق دار ہے۔""جب زمین ناپی گئی تو وہ اس زمین کے قریب تھا جس کے ارادے سے وہ اپنے شہر سے نکلا تھا تو رحمت کے فرشتے اسے لے گئے۔ [کتا ب التو ابین، توبة من قتل مئة نفس، ص85].

 


متعلقہ

تجویزوآراء