روضۂ اقدس کی حاضری

روضۂ اقدس کی حاضری

حضرتِ سیِّدُنا ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم ، شاہ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں: «مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي» یعنی ”جس نے میری قبر کی زِیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت لازِم ہوگئی“۔[شعب الإیمان، باب في المناسك، فضل الحج والعمرة، الحدیث: 4159، ج3، ص490].

اللہ تعالیٰ قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

﴿وَلَوْ اَنَّهُمْاِذظَّلَمُوااَنفُسَهُمْجَآءُوکَفَاسْتَغْفَرُوااللهَوَاسْتَغْفَرَلَهُمُالرَّسُولُلَوَجَدُوااللهَتَوَّابًارَّحِیمًا [النساء: 64].

ترجمہ کنزالایمان :اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃاللہ الھادی (اَلْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:”اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری (یعنی کام بن جانے)کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی وفات شریف کے بعد ایک اَعرابی(یعنی دیہاتی شخص)روضہ اقدس پر حاضر ہوا اور روضہ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا :""یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَلَوْاَنَّهُمْاِذْظَّلَمُوْا میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بَخْشِش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے۔""اس پر قبر شریف سے نِدا آئی کہ تیری بخشش کی گئی“۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء